میر گل خان نصیر سے یہ انٹرویو میں نے ١٩٧٨کے دوران کراچی میں یوسف مستی خان کی رھائش گاہ پر لیا تھا- حیدر آباد سازش کیس کے تمام اسیر رہا ہو چکے تھے- میر گل خان نصیر کا یہ انٹرویو سیاسی سے زیادہ ادبی مسائل تک محدود رہا –
میر گل خان نصیر کے انتقال کو اب ایک سال گزر چکا ہے- انکی زندگی کے آخری چند برسوں کو چھوڑکر بلوچستان کے لئے انکی طویل جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- ان کی جدوجہد تاریخ بلوچستان کا ایک مکمّل باب ہے- ایسا باب جسے پڑھے بغیر بلوچستان کو اگر سمجھنا نہ ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے- سیاسی جدوجہد سے قطع نظر میر گل خان نصیر نے جو ادبی سرمایہ چھوڑا ہے وہ خود ایک ایسا گراں نمایا ورثہ ہے جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا-
میں گل خان نصیر سے پوچھتا ہوں کہ آپ خود کو بنیادی طور پر ایک شاعرسمجھتے ہیں یا میرے سیاستداں کہنے سے پہلے ہی وہ کہتے ہیں-
میں بلوچستان کی تحریک میں ایک کارکن کی حیثیت سے شامل رہا ہوں شاعری تو اسکول کے زمانے سے ہی شروع کر دی تھی اور شاید آپ کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو کہ میں نے اپنی شاعری کی ابتداء اردو سے کی تھی- تعلیم مکمّل کرنے کے بعد ریاست قلات میں ملازمت اختیار کر لی- انگریزوں کے خلاف لڑائی جب ہمارے صوبے میں تیز ہوئی تو ملازمت چھوڑ کر دوستوں کے ساتھ قلات نیشنل پارٹی بنائی یوں شاعری اور سیاست ساتھ ساتھ چلتی رہی بلکہ یوں سمجھئے کہ سیاسی سرگرمیوں میں بھر پور شرکت سے میری شاعری کو جلا ملی- ابتداء میں تو اردو میں کام چلتا تھا مگر جب جذبات کے بھرپور اظہار کی ضرورت پڑی تو مادری زبان میں شعرکہنا شروع کر دیے- آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جذبے کی شدت مادری زبان میں ہی پورے طور پر ظاہر کی جا سکتی ہے اور یوں حقیقت کے اظہار کے جرم میں پہلی بار ١٩٤١ میں جیل گیا اور جب سے یہ سلسلہ جاری ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہم تو ایک کارکن ہیں بلوچستان کی تحریک کے یہ اور بات ہے کہ ہمارا محازشاعری کے میدان میں ہے-
آپ کی شاعری کن عوامل سے زیادہ متاثر ہوئی میرے پوچھنے پر گل خان نصیر کہتے ہیں کہ برطانوی دور استبداد میں تو “آزادی” کی لگن تھی جو شعرکہنے اور جیل جانے پر اکساتی تھی- انگریزوں کے جانے کے بعد ہمارا دوسرا دور شروع ہوا جب ہمیں اپنے ہی رنگ، نسل اور قوم کے استحصالی طبقات سے اپنے حقوق لینے تھے اور اس دور میں بھی وہی بھوک ، جہالت، سرداری نظام سے آزادی حاصل کرنے کے جذبات کار فرما رہے ہیں- کچھ عرصے علامہ اقبال سے متاثر رہا مگر ادب کے حوالے سے میں نے سب سے زیادہ اثر ١٩٣٤ کی ترقی پسند ادب کی تحریک سے قبول کیا- لیکن میرے خیال میں ایک شاعر جسے اپنے وطن اور قوم کہ درد ہو سب سے زیادہ اثر اپنے اطراف پھیلے ہوئے لوگوں کی بدحالی، پسماندگی اور قومی جبر سے قبول کرتا ہے میرے شاعری بھی بنیادی طور پر اپنے عوام کی مادی اور ذہنی پسماندگی اور اس سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کا عکس ہے-
س: کیا بلوچی ادب زبان اور ثقافت بھی بلوچستان کے عوام کی طرح پسماندہ ہے؟
گل خان نصیر کے چہرے کی شکنیں کھل جاتی ہیں اور وہ بڑے دھیمے لہجے میں کہتے ہیں- قدیم اردو زبان کی طرح ابتدائی بلوچی ادب بھی شاعری میں تھا اور ١٤ ویں صدی سے ایک زندہ اور متنوع زبان ہے- بلوچی شاعری کے لئے بلوچی زبان بڑی وسیح ہے اور اس میں ہر ایک مضمون آسانی سے ادا کیا جا سکتا ہے- ہمارا صوبہ صدیوں سے پسماندہ ہے مگر ہمارا ادب پسماندہ نہیں- ابتدا میں بلوچی شاعری میں قبائلیت کا مکمّل اثر ہوتا تھا- ہر قبیلے کا ایک شاعر ہوتا تھا جو اپنے قبیلے کی بہادری، اپنے سردار کی عظمت اور شجاعت کے قصیدے لکھا کرتا تھا یہ بڑی جاندار شاعری ہوا کرتی تھی جو لوگوں کا حوصلہ اور جذبہ بڑھاتی تھی یہ ہماری شاعری کا دور عروج تھا مگر انگریزوں نے آتے ہی اسے سختی سے دبایا اس سے یہ ہوا کہ جوں جوں انگریزوں کا دباؤ بڑھتا گیا شاعری نے مذہبی رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا- ملّاؤں نے گل و بلبل اور حسن و عشق کے مضمون باندھ کر بلوچی شاعری کے قومی اور روایتی رنگ کو مسخ کر دیا مگر یہ دور جسے ہم بلوچی ادب کے جمود کا دور کہتے ہیں صرف ١٩١٤ سے ١٩٢٨ تک رہا-
جب انگریزوں کے خلاف ہماری جدوجہد تیز ہوئی اور پڑھے لکھے لوگوں نے عملی جدو جہد میں حصہ لینا شروع کیا تو بلوچی شاعری بھی اپنے اس تاریک دور سے نکل کر قومی امنگوں اور خواہشوں کی ترجمانی کرنے لگی اور بہت کم عرصے میں بلوچی زبان اور شاعری نے ہمہ گیر شکل اختیار کر لی مثلا بیسوی صدی کی پہلی دہائی میں ہرضلع اور قبیلے کی الگ بولی ہوتی تھی- چاغی، مکران، مری بگٹی کی الگ الگ بولی ہوتی تھی جس میں شعر کہے جاتے تھے ١٩٣٠ کے بعد سے شعوری طور پر یہ کوشش کی گئی کہ بلوچستان میں ایک زبان میں شاعری ہونی چاہیے تا کہ یہ بلا تفریق ہر شخص تک پہنچ سکے اس میں ہمیں بہت جلد کامیابی ہوئی گو عام صورتوں میں یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے مگر شاعری پر اپنے ماحول کا اثر پڑتا ہے بلوچستان میں سیاسی شعور، قومی جذبہ اپنے صوبے کی پسماندگی اور آگے بڑھنے کی خواہش نے ہماری شاعری کو بھی آگے بڑھایا یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے جیسے ہماری جدوجہد نے مختلف ادوار میں مرحلے طے کئے اسی طرح شاعری نے بھی ساتھ ساتھ ترقی کی منزلیں طے کیں-
مخصوص مفادات کے حامل گروہ نے ایک طویل عرصے سے علاقائی زبان و ادب کے فطری فروغ کو علیحدگی اور ملک دشمنی کی تحریک کا نام دے کر رکاوٹیں کڑی کر رکھی ہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک علاقائی زبانوں کو ہم ترقی نہیں دیں گے ایک مشترکہ قومیت کا احساس پیدا نہیں ہو سکتا آج سندھ اور پنجاب کے لوگ نہیں جانتے کہ بلوچی اور پشتو میں کیا لکھا جا رہا ہے اسی طرح ہم بھی پنجابی کی شاعری اور ادب سے نا آشنا ہیں- بلوچستان میں خاص طور پر زبان و ادب میں رکاوٹ کا سبب یہ رہا ہے کہ ہمارا صوبہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تعلیم سے محروم رکھا گیا- تمام ریاستی اداروں اور انتظامی شعبوں میں کلیدی عہدوں اور ملازمتوں پر باہر کے لوگوں کہ قبضہ رہا جنہوں نے بلوچی کو جاہل اور ذہنی طور پر غریب رکھا- ١٩٥٩ میں کہیں جا کرریڈیو میں بلوچی زبان میں باقائدگی سے پروگرام آنا شروع ہوئے مگر وہ بھی کراچی ریڈیو سٹیشن سے- آج تو ہمارے صوبے میں ٹیلی ویژن بھی آگیا ہے مگر ٹیلی ویژن میں ہمارے لوگوں کے لئے پروگرام نا ہونے کے برابر ہوتے ہیں- ابلاغ عامہ پر قابض افراد کے ذہن میں چونکہ مقاصد واضح نہیں ہیں اس لئے ان سے ہماری زبان اور ادب کی ترقی نہیں ہو سکتی- بلوچی زبان اور ادب کی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے اسکولوں میں رائج کیا جائے اور ساتھ ہی بلوچی کو وہ مقام ملے جو اردو کو حاصل ہے اور اردو کو وہ مقام حاصل ہو جو انگریزی کو حاصل ہے-
“جیل کے حوالے سے آپ کا ادبی تجربہ کیسا رہا”؟
گل خان نصیر اپنے سفیدی مائل بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں، ٣٦ سال سے جیل جا رہے ہیں اور ہمارے لئے تو یہ اچھا ہی رہا- ایک ادبی شخص کے لئے جیل تخلیقی کام کا موقع فراہم کرتی ہے اور میں نے تو اردو اور بلوچی میں جتنی بھی کتابیں لکھی ہیں وہ جیل کے دنوں کی ہی دین ہیں-
“ان کی کچھ تفصیلات—-
جہاں تک مجھے یاد ہیں وہ کچھ یوں ہیں اردو میں “بلوچستان کی تاریخ” دو جلدوں میں- “کوچ و بلوچ” “بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی” اردو ہی میں بلوچستان کی رزمیہ شاعری کی تاریخ جس میں ١٤ ویں صدی کی شاعری سے منتخب تخلیقات لی گئی ہیں- میں نے حیدرآباد جیل کے دوران ترتیب دی ہے- تاریخ پر بھی فارسی سے دو کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے- ایک اور کتاب حیدرآباد جیل کے دنوں میں “بلوچستان کا تعارف” لکھی ہے جس میں صوبے کے قبائل ان کا رہن سہن، ادب، ثقافت اور قدرتی وسائل کے بارے میں ہے-
بلوچی میں “گل بانگ”، “شپ گروک”، “دوستیں و شیریں”، “حمل جیہند”، “گرند” کے علاوہ دو تین اور مجموعہ کلام زیر ترتیب ہیں پھر اپنے فیض صاحب کی سرواری سینا کا میں نے بلوچی زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے-
یہ انٹرویو مجاہد بریلوی کی کتاب، “بلوچستان مسئلہ کیا ہے؟” تاریخ اشاعت نومبر ١٩٨٤ سے لیا گیا ہے.