ہمارے ہاں ایک حلقہ ایسا ہے ، جن کی کئی حوالوں سے ایک خاص سوچ اور رائے ہے۔اس سوچ کے لوگ آپ کو کہیں بھی مل سکتے ہیں، کسی بھی شہر، ذات ، قوم ، کلاس میں ہوسکتے ہیں، صرف چند ایک چیزیں سب میں مشترک ہوں گی۔ یہی مشترک باتیں ہی ان کے مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتی ہیں ، جب آپ پران کی سوچ واضح ہوجائے تو پھر اگلا سوال ان کی سیاسی وابستگی کا پوچھ لیں ۔ نوے پچانوے فیصد امکان ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت سے ان کا تعلق نکل آئے گا۔نام بتانے کی ضرورت ہی نہیں، آپ خود تجربہ کر کے دیکھیں ، ان شااللہ” بامراد“ ہوں گے۔
یہ سب لوگ چیزوں کے ”جو ں کے توں“ چلتے رہنے کے حامی ہوں گے۔ ان کا اصرار ہوگا کہ معاملات ایسے ہی چلتے رہیں، ایک نہ ایک دن خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔ پولیٹیکل سائنس میں اسے ”سٹیٹس کو“ کی حمایت کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ان کا یہ نظریہ صرف قومی معاملات کے بارے میں ہے، اپنی ذاتی دکان ، کاروبار کے حوالے سے یہ انتہائی چوکس اور مستعد ملیں گے۔ کبھی کسی کی غلطی معاف کریں گے اور نہ ہی کاروبار کی بگڑتی حالت کو ٹھیک کرنے میں معمولی سی کوتاہی سے کام لیا جائے گا۔ اگر آپ ان کے دوست ہیں اور غلطی سے یہ مشورہ دے بیٹھے کہ یار کوئی بات نہیں، کاروبار میں ایسا ہی ہوتا ہے، چلنے دو، کچھ عرصے میں سب کچھ ہموار ہوجائے گا، بس کاروباری سسٹم چلتا رہنا چاہیے۔ اس پر یوں دیکھا جائے گاجیسے آپ کا دماغ چل گیاہو اور پھاڑ کھانے والے لہجے میں طنزیہ کہا جائے گا، میاں کبھی خود بخود بھی کوئی غلطی ٹھیک ہوئی، اگر گڑبڑ درست نہ کی گئی تو کاروبار تباہ ہوگا، ٹھیک کیسے ہوسکتا ہے؟ انہیں بھول جائے گا کہ اربوں روپے سے چلنے والے قومی پراجیکٹس کے بارے میں ان کی رائے انتہائی مختلف ہے۔
ان کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ اگرچہ کرپشن کے حق میں باقاعدہ مہم نہیں چلائیں گے، اسے جائز بھی نہیں قرار دیں گے، مگر ہر اس قدم اور پالیسی کی حمایت کریں گے جس سے کرپٹ عناصر کو چھوٹ ملے ۔ طرح طرح کے دلائل نکال آئیں گے جن کی رو سے کرپشن کو ختم کرنے کے بجائے کاروبار مملکت کو پرامن اور ہموار طریقے سے چلتے دینا چاہیے۔ ہمیشہ یہ کہیں گے کہ کرپشن اور دو نمبر کاروبار چلتے رہتے ہیں، اس بارے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان کے خلاف قدم اٹھائیں گے تو ملک کے کاروباری عناصر پریشان ہوجائیں گے، سرمایہ ملک سے باہر چلا جائے گا، سٹاک مارکیٹ کریش ہوجائے گی، وغیرہ وغیرہ۔ یہ اور بات کہ ایسے لوگ اپنے ذاتی کاروبار میں کبھی کسی کرپٹ، غبن اور دھوکہ دینے والے کو معاف کرنے پر تیار نہیں۔ ہزار دوہزار کی کرپشن ثابت ہونے پر بھی ملازم کو جیل بھجوا کر دم لیں گے اور ملک سے کئی سو ارب روپے لوٹنے والوں کے گناہ معاف کرنے کی ترغیب دیں گے۔ اب تو ان کاریگروں نے ”کارپوریٹ کرپشن“ کی ایک نئی اصطلاح نکال لی۔ تاثر یہ دیتے ہیں جیسے کارپوریٹ سیکٹر میں کرپشن کے بغیر کام نہیں چلتا اور دنیا بھر میں اس قسم کی کرپشن کو برداشت کیا جاتا ہے۔ یہ بات اگرچہ بالکل غلط ہے اور مغربی دنیا میں ہر جگہ زیرو ٹالرنس کا اصول چلتا ہے۔ کہیں پر کسی ٹیکس چور کو رعایت نہیں ملتی، قومی خزانہ لوٹنے اور خوردبرد کرنے والے کے لئے تو بچنا ممکن ہی نہیں۔ اس حلقے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کا کام سچ بتانا نہیں بلکہ گمراہی پھیلانا اور غلط مفروضوں کو مستحکم کرنا ہے۔
اس حلقے کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ اور مردود لفظ احتساب ہے۔ اس کا نام سنتے ہی بھڑ ک اٹھیں گے۔ جہاں کہیں کسی نے چوروں سے لوٹا مال واپس لینے کی بات کی، کرپٹ لوگوں کے بے رحم احتساب کا نعرہ لگایا، ان صاحبان کا پارہ فوری آسمان پر چڑھ جاتا ہے۔طیش میں آ کر یہ واہی تباہی بکنے لگتے اور احتساب کی ہر کوشش کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے لئے جب براہ راست احتساب کے عمل کو
نشانہ بنانا ممکن نہیں رہتا، تب پاکستان بننے سے لے کر اب تک کے احتساب کا مطالبہ داغ ڈالتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پچیس تیس سال کا احتساب تو ہو نہیں پا رہا ، ستر برسوں کا کہاں سے ہوگا، اتنے پرانے کاغذات، ثبوت وغیرہ کون نکالے گا ۔
اس مخصوص مائنڈ سیٹ والے لوگوں کو تبدیلی کے نام ہی سے نفرت ہوگی۔ تبدیلی لانے، اصلاحات اور نظام بدلنے کی بات سن کر یہ غش کھا جائیں گے۔ یہ ان کی طبیعت کا لازمی جز ہوگا۔ بڑے پیمانے پر تبدیلی تو دور کی بات ہے ، کوئی اپنے گھر کی سیٹنگ تبدیل کرنے کی بات کر دے ، تب بھی یہ الجھ پڑتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے، صوفے اسی جگہ پر ٹھیک پڑے ہیں، ایسے خواہ مخواہ جگہ کیوں تبدیل کی جائے، پردہ کس لئے ہٹایا ہے، تازہ ہوا اور روشنی نہ آجائے ، پھر کوفت ہونے لگے گی، وغیرہ وغیرہ۔
ایک مشہور محاورے” تمہارا کتا کتا، میرا کتا ٹامی“ کے یہ قائل ہیں۔ان کے حامی جو کچھ کر گزریں، ان پر آنکھیں بند رکھیں گے ، بلکہ ان کی ستائش کریں گے۔ ان سے مختلف سوچ رکھنے والوں پر ہمیشہ تنقید کے تیز دھار تیر آزمائیں گے۔ اپنی آنکھوں کا شہتیر نظر نہیں آئے گا، دوسری کی آنکھوں میں تنکے ڈھونڈتے پائے جائیں گے۔ ان سے ذہنی مطابقت رکھنے والی سیاسی جماعت کی ہر پالیسی درست اور اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والی پارٹی کی شدید مخالفت کریں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو صاف ستھرے کیرئر کے حامل ہیں، ایمانداری سے اپناکام کریں گے اور ناجائز دھندوں سے دور رہیں گے، مگر نجانے کیوں کرپٹ عناصر کی وکالت اور حمایت پر ہمیشہ کمر بستہ ملیں گے۔ شائد ان کی” سٹیٹس کو“ پر مبنی سوچ اور تبدیلی سے خوف انہیں تبدیلی مخالف ، کرپشن کی حامی جماعتوں کا ساتھ دینے پر اکساتی ہے۔ وجہ جو بھی ہو، آخری تجزیے میں یہ ہمیشہ احتساب کی مخالفت، کرپٹ لوگوں کی تاویل اور اسی گلے سڑے نظام کی حمایت پرآمادہ ملیں گے۔ یہ مخصوص مائنڈ سیٹ عام لوگوں میں بھی ملے گا، لوئر مڈل ، اپر مڈل کلاس اور اہل دانش میں بھی ان کی فالوئنگ پائی جاتی ہے۔
اگلے روز دانشوروں، اہل قلم کی ایک محفل میں شریک تھا۔ اسی مخصوص مائنڈ سیٹ کے علمبردار احباب سے گفتگو ہوتی رہی۔ بار بار حیرت ہوتی رہی کہ کوئی جینوئن دانشور آخر کس طرح کرپشن اور کرپٹ عناصر کی حمایت کر سکتا ہے؟ یار لوگ مگر کسی نہ کسی تاویل کا سہارا لے کر یہ فرض نبھاتے رہے۔ کسی کا فرمانا تھا کہ احتساب صرف سیاسی ہوتا ہے، اگر عوام نے کسی جماعت کو ووٹ دے دئیے تو اس کا مطلب یہ کہ ان کی گورننس بہترین تھی اور اب وہ ہر قسم کے الزامات سے بری الذمہ ہوگئے، اسی طرح کسی جماعت نے چاہے جتنی کرپشن کی ہو، الیکشن وہ ہار گئی تو ان کا عوام نے احتساب کر لیا۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ بعض مغربی ممالک میں عام افراد کے لئے الگ قوانین ہوتے ہیں، خاص افراد کے لئے الگ۔ اس کی کوئی دلیل یا ثبوت اگرچہ وہ فراہم نہ کر پائے، مگر ان کا مقصد شائد یہ وکالت کرنا تھا کہ چونکہ آج کل بعض اہم سیاسی لیڈروں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے،اس کے بجائے انہیں مقدس گائے سمجھ کر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سے ملتی جلتی اور بھی کئی باتیں ہوتی رہیں۔ اپنی باری پر عرض کیا کہ اہل قلم اور انٹیلی جنشیا کے لوگوں کو ہر حال میں تبدیلی لانے اور انصاف کی فراہمی کا حامی ہونا چاہیے۔ ہم کیسے احتساب کے عمل کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ ہمیں صرف یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ یہ احتساب اور انصاف بلاامتیاز ہو، ہر پارٹی کے کرپٹ لوگوں کو پکڑا جائے اور کسی سے رعایت نہ ہو۔ میرا کہنا تھا کہ ممکن ہے تبدیلی کا نعرہ لگانے والی کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آ کر ناکام ہوجائے،اس کا امکان ہے کہ وہ اپنے بلند وبالا وعدوں پر پورا نہ اتر پائے، اس طرح ڈیلیور نہ کر پائے جس کا اس نے اعلان کیا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنے اعلیٰ وارفع اخلاقی اصولوں سے دستبردار ہوجائیں۔ ایک سیاسی جماعت اگر ناکام ہوجائے تو دوسری کو منتخب کیا جائے، وہ نہیں تو پھر تیسری ، اصل بات یہ ہے کہ ایک سچا قلم کار ہمیشہ جینوئن تبدیلی کا نقیب اور علمبردار ہوتا ہے۔ وہ ظلم پر مبنی نظام کی کس طرح حمایت کر سکتا ، معاملات جوں کے توں چلنے کا مشورہ مان سکتا ہے؟ہمیں یہی مطالبہ کرنا چاہیے کہ جن لوگوں نے قومی دولت لوٹی ہے، ان سے وہ پیسہ واپس لایا
جائے۔ اگر اس کی راہ میں مشکلات ہیں تب بھی کوشش کرنے سے کچھ نہ کچھ تو ہوگا، اورنہ بھی ہوا تو آئندہ کے لئے اس سب کچھ کا ہونا مشکل تو بنایا جا سکتا ہے۔جن ممالک سے غلط معاہدے کئے گئے، ان پرجس حد تک ممکن ہو نظرثانی ہو۔ اگرماضی کے حکمران کی بے شرمی اور سفاکی کی وجہ سے ایسے معاہدے ہوئے کہ ان پر نظرثانی بھی نہیں ہوسکتی نہ انہیں عام کیا جاسکتا ہے تو اس میں مورد الزام وہ کرپٹ ٹولہ ٹھیرایا جائے گا نہ کہ انہیںبے نقاب کرنے کی کوشش کرنے والے۔
اصل بات یہی مخصوص مائنڈ سیٹ ہے، اس سے بچنے اور اس کے اثرات سے مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...