اس کالم نگار کی جاوید ہاشمی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی‘ ظاہر ہے کہ ایک سست الوجود اور عافیت پسند شخص کسی بھی سیاست دان سے ملنے کا شرف نہیں حاصل کر سکتا۔ سیاست دانوں کو ملنے کیلئے تو بہت دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے‘ یا پھر کالم نگاری اس ”پائے“ کی ہو کہ سیاست دان خود آکر ملیں‘ وقتاً فوقتاً فون کریں اور بعض مواقع پر ڈھونڈتے بھی رہیں لیکن اس ”پائے“ کی کالم نگاری ہر کہہ و مہ نہیں کر سکتا۔ یہاں بنیادی شرط ”پائے“ کی ہے‘ مشتاق احمد یوسفی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ جو پائے کھائے جاتے ہیں‘ بکری کے یا گائے کے‘ تو ان سب میں صرف چارپائی کے پائے صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ پائے کے حوالے سے اپنا ہی ایک شعر بھی یاد آرہا ہے….
کسی سے شام ڈھلے چھن گیا تھا پایہء تخت
کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا
جاوید ہاشمی نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چند سالوں بعد لاہور کا حال بھی کراچی جیسا نہ ہو جائے۔ جاوید ہاشمی کو اس وقت بھی پارٹی ترجمان قسم کی مخلوقات نے غیردانشمند قرار دیا تھا‘ جب اٹھارہویں ترمیم منظور ہوتے وقت اس نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر سیاسی جماعتوں میں موروثی بادشاہت کی مذمت کی تھی۔ ہو سکتا ہے لاہور کے بارے میں اسکے خدشے کو بھی تنقید یا مذاق میں اڑا دیا جائے لیکن اگر حکومت کے گردن بلندوں میں ذرا بھی وژن ہو تو ہاشمی کی یہ تنبیہہ ایک سنجیدہ مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے….ع
بارہا گفتہ ام و بارِد گرمی گویم
کہ کراچی اس وقت جس سرطان کا شکار ہے‘ اسکی ایک وجہ وہاں مختلف لسانی گروہوں کی الگ الگ آبادیاں بھی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے کچھ حصوں سے لوگ مسلسل نقل مکانی کرتے رہتے ہیں اور وسطی پنجاب یا کراچی کی طرف یہ ہجرت جاری رہتی ہے۔ یہ رجحان کئی سو سال سے چلا آرہا ہے‘ شمالی ہندوستان میں روہیل کھنڈ اور رامپور کی ریاستیں نقل مکانی کے اسی رجحان کی وجہ سے وجود میں آئی تھیں اور ان علاقوں کے لوگ جنہیں آج اردو سپیکنگ کہا جاتا ہے‘ شروع میں ایک اور زبان بولتے تھے۔ شیرشاہ سوری جدی پشتی سہسرام کا نہیں تھا‘ اس کا خاندان نقل مکانی کرکے وہاں آباد ہوا تھا‘ نقل مکانی کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ اسکے عوامل تاریخی بھی ہیں اور اقتصادی بھی‘ اسے روکا جا سکتا ہے نہ روکنا درست ہے۔ لیکن یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ لاہور جیسے عظیم الجثہ شہر میں نقل مکانی کرکے آنیوالوں کو لسانی بنیاد پر کسی ایک جگہ یا چند مخصوص جگہوں پر آباد ہونے سے روکا جائے۔ نئے آنیوالوں کو بسانے کیلئے سائنسی بنیادوں پر حکمت عملی اور اس کا نفاذ ہونا چاہیے۔ اگر کراچی کے رہنماﺅں اور حکام میں کل وژن ہوتا تو آج وہاں لیاری یا سہراب گوٹھ جیسے علاقے ایک زبان بولنے والوں کا گڑھ نہ ہوتے۔ اس تناظر میں جاوید ہاشمی کی تنبیہہ سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے‘ ہم اس موضوع پر تفصیل سے اظہار رائے کرتے لیکن سرطان کی جڑ اور ہے‘ ہم اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
کل صبح اخبار پڑھ کر ہم قہقہے لگا رہے تھے کہ سب گھر والے پریشان ہو کر پوچھنے لگے کہ اخبارات پڑھ کر رویا جاتا ہے‘ تم ہنس کیوں رہے ہو اور وہ بھی اس فیاضی سے؟ چین میں ایشیائی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس ہو رہی ہے‘ اس کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ قاف کی نمائندگی مشاہد حسین کر رہے ہیں‘ چین روانہ ہونے سے پہلے مشاہد حسین صدر پاکستان سے ملے‘ (ملاقات میں انکے ساتھ حسب معمول چودھری شجاعت بھی تھے) اخبار کی خبر کے مطابق ملاقات کے دوران جناب صدر نے مشاہد حسین کو حکم دیا (یافرمائش کی) کہ کانفرنس کے دوران وہ بلاول کی سیاسی تربیت کرنا نہ بھولیں۔ کالم نگار یہ سوچ رہا تھا کہ اگر مونس الٰہی قید میں نہ ہوتے تو کیا عجب قاف لیگ کی قیادت وہ کرتے۔ اسکے ساتھ ہی اخبار نے یہ دلچسپ خبر بھی دی کہ مشاہد حسین کے فرزند ارجمند بھی کانفرنس میں ان کا ساتھ دینگے۔ یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں اور کئی زاویے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ پیپلز پارٹی کے وفد میں جہانگیر بدر جیسے رہنماءبھی شامل ہیں‘ جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ کوڑے کھائے لیکن پارٹی سے اپنی وفاداری پر کوئی داغ نہ لگنے دیا۔ صدر پاکستان‘ جہانگیر بدر کو بھی تو یہ حکم دے سکتے تھے کہ نوجوان رہنماءکی تربیت کا خیال رکھیں لیکن پھر یاد آیا کہ جہانگیر بدر میں جتنی خصوصیات بھی ہوں‘ ایک چیز کا تجربہ انہیں بالکل نہیں ہے اور وہ ہے وفاداریاں بدلنا۔ ظاہر ہے تربیت وہی کر سکتا ہے جس کا تجربہ زیادہ ہو گا اور تجربہ اس کا زیادہ ہو گا جس نے ”مختلف“ حالات میں کام کیا ہو گا۔ پہلے نوازشریف کے ساتھ‘ پھر پرویز مشرف کے ساتھ اور پھر آصف علی زرداری کے ساتھ۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا قاف لیگ کے نوخیز سیاسی رہنماﺅں کی تربیت کا کام بھی بزرگوں نے شاہ صاحب ہی کے سپرد کیا تھا؟ اس موضوع پر بھی ہم خواہش کے باوصف زیادہ نہیں لکھ رہے کیونکہ سرطان کی جڑ اور ہے اور ہم اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
یہ 29 اگست کا واقعہ ہے‘ یعنی آج سے آٹھ دن پہلے کا۔ دارالحکومت کے ہوائی اڈے سے قومی ایئرلائن کی پرواز دن کے تین بجے کراچی کیلئے روانہ ہونا تھی‘ ساری تیاری مکمل تھی‘ بریفنگ ہو چکی تھی کہ جہاز کے عملے کو ایک وفاقی وزیر کے عملے کا حکم پہنچا کہ جب تک وزیر موصوف نہیں پہنچتے‘ پرواز کو روانہ نہ کیا جائے۔ اسکے ساتھ دوسرا حکم یہ تھا کہ تاخیر کا سبب سیکورٹی کا مسئلہ قرار دیا جائے‘ طیارہ رکا رہا‘ مسافر انتظار کرتے رہے‘ یہاں تک کہ وزیر صاحب پہنچے اور جہاز تین بجے کے بجائے ساڑھے تین بجے روانہ ہوا۔
یہ ہے وہ اصل سرطان جو اس ملک کو چاٹ رہا ہے اور سرطان پھیلانے والے وہ لوگ ہیں‘ جو کندھے اچکا کر کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ اس لئے بڑا ہے کہ اس سے ذہنی سطح کا‘ سوچ کا اور مائنڈ سیٹ کا پتہ چلتا ہے۔ اہل پاکستان کو جو چند بڑی بیماریاں لاحق ہیں‘ ان میں سے ایک بڑی بیماری یہی ہے۔ آپ نے بہت دفعہ دیکھا ہو گا کہ جہاں بھی ٹریفک کا حادثہ ہو‘ آناً فاناً لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور جس کی غلطی ہو‘ فوراً اس کا دفاع شروع کر دیتے ہیں۔ سب سے بڑی دلیل یہی ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں‘ ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ کسی ترقی یافتہ ملک میں جا کر دیکھیں‘ چھوٹی سے چھوٹی قانون شکنی کا دفاع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف یہاں ہوتا ہے‘ ہمارے ایک دوست کے بھائی کو ڈاکٹر نے پرانی دوائیں دیں‘ اس کا انتقال ہو گیا‘ ڈاکٹر کی ایک ہی دلیل تھی کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ پورا محلہ غم زدہ خاندان کو سمجھانے آگیا کہ مقدمہ نہ کریں۔ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو ہر جانے میں ایک کروڑ روپیہ دینا پڑتا تو پاکستان میں کوئی ڈاکٹر اگلے دس سال تک اتنی ظالمانہ لاپروائی نہ کرتا۔ یہ رویہ جب منتخب اداروں اور سرکاری محلات میں پہنچتا ہے تو اس کا نقصان بھی اسی حساب سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ سفارش سے حقداروں کی حق تلفی ہوتی ہے لیکن وزیر یا ایم این اے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں۔ آخر ہم نے ووٹروں کو جواب دینا ہوتا ہے اور یہ کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
دنیا کے کسی مہذب ملک میں وزیر تو کیا‘ وزیراعظم یا صدر کیلئے بھی پرواز کو لیٹ نہیں کیا جاتا۔ ایک منٹ کی تاخیر بھی ناممکن ہوتی ہے‘ اگر ایسا کیا جائے تو ایئرلائن ہر مسافر کو لاکھوں روپے کا ہرجانہ دیتی ہے‘ عدالتیں ایسے معاملات میں ملزم کمپنیوں کا جینا محال کردیتی ہیں‘ پی آئی اے یوں بھی ایک بیمار کمپنی ہے‘ جو ملک کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ کھانے سے لے کر مسافروں کےساتھ برتاﺅ تک‘ ہر معاملے میں اسکی کارکردگی صفر ہے۔ یہ ان چند بدقسمت اداروں میں سے ہے‘ جس میں بھرتیاں ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہیں‘ اسکی فضائی میزبانوں کو دیکھ کر خالائیں اور دادیاں یاد آتی ہیں اور دوسرے عملے کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔ کتنی بڑی بدبختی ہے کہ خود پاکستانی پی آئی اے سے گریز کرتے ہیں‘ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر جہاز تاخیر سے روانہ ہوتا ہے اور اگلی منزل پر مربوط (Connected) پرواز چھوٹ جاتی ہے۔
پی آئی اے نے اگر اپنے آپ کو اس شرمناک اور عبرتناک صورتحال سے نکالنا ہے تو آغاز اسی واقعہ سے کرے اور وزیر صاحب کے عملے کا فون سن کر جن لوگوں نے پرواز کو موخر کیا‘ انہیں نشانِ عبرت بنائے ورنہ یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ یہ نام نہاد قومی ایئرلائن ہماری پست سوچ کا نشان ہے۔