ملتے جلتے اشعار : سرقہ یا توارد ؟
کسی شعر کی بنیادی خوبی اس کا وزن اور بحر ہیں۔ اس کے بعد تخیل اور مضمون سے شعر کی عمدگی کی پہچان ہوتی ہے۔ اور پھر تشبیہہ اور استعارہ کا درست استعمال شعر میں وہ خوبی پیدا کرتے ہیں جس سے سامع بے ساختگی میں واہ، کیا بات یے یا مکرر کہہ اُٹھتا ہے۔ جب دو مختلف شاعروں کے اشعار میں تخیل اور مضمون ایک ہو تو ناقدین اسے سرقہ قرار دیتے ہیں۔ مزید اگر تشبیہہ اور استعارہ بھی ایک جیسا ھو تو وہ ثابت شدہ سرقہ ہو گا۔
سرقہ کی حمایت میں ناروا قسم کی تو جیہیں پیش کی جاتی رہی ہیں جیسے یہ کہنا کہ چونکہ ہر شاعر سرقہ سے متہم ہے تو اسے سرقہ نہیں بلکہ توارد، اخذ، تقلید، مطابقت یا متحدالخیا لی سمجھنا چاہیے۔ بہرحال سرقہ کی جیسے بھی خوبصورت لفظوں سے توجیہہ کی جاۓ سرقہ، سرقہ ہی ہے۔
چند دن پہلے ایک دوست نے یہ شعر ایس ایم ایس کیا۔
عشق فیضی ہمیں مقتل میں پکارے تو سہی
پا بہ زنجیر سہی آئیں گے چھم چھم کر تے
چھم چھم کی ترکیب نے شعر میں موسیقی تو پیدا کردی ہے مگر احمد فراز کا درج ذیل شعر پڑھنے سے معاملہ کچھہ اور ہو جاتا ہے۔
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پا بجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
ذرا ٹھہریں اور مزید پیچھے جائیں اور میر تقی میر کا یہ شعر پڑھیں
معرکہ گرم تو ٹک ہو لینے دو خون ریزی کا
پہلے تلوار کے نیچے ھمیں آ بیٹھیں گے
اسے توارد، اخذ، اور تقلید یا سرقہ جو بھی کہیں آپ کے ذوقِ شعر پرمنحصر ہے۔
اردو شاعری میں چراغِ سحر اور چراغِ سحری کی اصطلاح ہہت سے شعراء نے شعر میں برتی ہے۔ جس سے مراد صبح کے وقت چراغ بجھانا ہے۔ کیونکہ جب دن کی روشنی نکلنے لگتی ہے تو چراغ بجھا دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور اقبال کا شعر ہے ۔۔۔
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
اس کے مقابل ظہیر کاشمیری کا شعر پڑھئے
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے
اقبال اور ظہیرکاشمیری دونوں نے صبح کے چراغ کو شعر میں باندھا ہے۔ مگر فرق دیکھیں جہاں اقبال کا شعر انتہائی مایوسی کا غماز ہے وہاں ظہیر کاشمیری نے اس ترکیب کو امید میں بدل کر شعر کو لازوال بنا دیا ہے۔
فیض صاحب کا مشہور شعر ہے۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوۓ یار سے نکلے تو سوۓ دار چلے
جبکہ بہادر شاہ ظفر کا اسی مضمون کا شعر ہے۔
ایک ہی منزل تھی ہم عشق کے دیوانوں کی
قدو گیسو سے چلے دارورسن تک پہنچے
بہادر شاہ ظفر کا شعر معنی آفرینی میں فیض صاحب کے شعر سے بلند تر ہے۔ اور یہ تخیل کی بلندی “راہ میں کسی مقام کا نا جچنا” اور “صرف ایک ہی منزل تھی” کے فرق میں واضح ہے اور نکتہ شناس باآسانی سمجھہ سکتے ہیں۔
اب ذرا غالب کا ایک خوبصورت شعر پڑھئے
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہمسفر غالب
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جاۓ ہے مجھہ سے
اسی مضمون کا میر تقی میر کا ایک غیر معروف شعر ہے
عاشق وہ ھیں جو اپنے دمِ رفتن
کرتے نہیں یار کو بھی اللہ کے حوالے
اب دونوں اشعار میں تخیل کا فرق صاحبانِ ذوق ہی سمجھہ سکتے ہیں۔ اگرچہ غالب کے الفاظ کی بُنت انتہائی عمدہ ہے وھاں وقتِ رخصت یار کو اللہ حافظ بی نہیں کہنا ایک دوسری کیفیت کا اظہار ہے۔
ایک زبان زدِ عام شعر ہے جو ستر اسی سال سے میر تقی میر کے نام سے منسوب چلا آرہا ہے، اور بڑے صاحبانِ علم بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ حقیقت میں یہ شعر میر کا نہیں بلکہ مہاراج بہادر برق کا ہے۔ شعریوں ہے
وہ آۓ بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
یہ شعر اسی طرح درست ہے۔ اورشعر میں میر نہیں بلکہ برق ہی ہے۔ اس شعر کا دوسرا مصرعہ تو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
اس شعر کا مشہور معنٰی تو یہی ہے کہ محبوب کےمحفل میں آنے کے بعد چراغوں کی روشنی ماند پڑ گئی۔ جیسا کہ میر تقی میر مشہور شعر ہے
رات محفل میں ترے حُسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
مگر برق کے شعر میں بہت بڑی خامی ہے جسے عام تو عام بڑے بڑے صاحبِ ہنر لوگوں نے بھی نظر انداز کیا ہے۔ شاعری میں ایک چیز ہوتی ہے “ذم ” یعنی ایک شعر کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک مشہوراور دوسرا مخفی۔ مخفی پہلو ایسا ہو جو تعریف کی بجاۓ تنقیص کے معنی دے اسے “ذم” کہتے ہیں۔ یہ کسی بھی شعر کی بہت بڑی خامی ہوتی ہے۔ برق کے شعر میں یہی خامی پوشیدہ ہے۔ اب مذکورہ بالا شعر پہ اس پہلو سے غور کریں۔ کسی شخص کے محفل میں آنے سے چراغوں میں روشنی کا نہ رہنا، چراغوں کا بجھہ جانا بھی تو کہا جا سکتا ہے۔ اور کسی کے آنے سے چراغ کا بجھنا یا روشنی کا چلے جانا نحوست کی علامت بھی تو ہے۔ اور یہی برق کے شعر کی خامی ہے۔
اسی طرح کا ایک اور شعر ہے جو بہت پڑھا جانے والا اور بہت پسند کیا جانے والا ہے
شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھا دیتا ہوں
دل ہی کافی ہے تیری یاد میں جلنے کے لیے
شاعر کے سامنے یقیناََ میر تقی میر کا درج ذیل مشہور شعر ہوگا
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
اب مذکورہ شعر کے پہلے مصرے پہ غور کریں “شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھا دیتا ہوں” کوئی پوچھے بھائی! کیا شام ہونے سے پہلے کہیں چراغ جل رہے ہوتے ہیں جنہیں بجھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ شام ہوتے ہی چراغ جلاۓ جاتے ہیں۔ جب شام سے پہلے چراغ جل ہی نہیں رہے ہوتے تو بجھانا چہ معنی؟ یہی اس شعر کی بہت بڑی خامی ہے۔ مگر کیا کریں جب ذوقِ شعر ہی مفقود ہو تو ایسی خامیاں لوگوں کو کیسے نظر آئیں گی۔
(daanish.pk عارف گل کی تحریر)
اب برادرم ناصر زیدی کا ایک کالم ۔۔۔
ہر عہد پر غالب، میرزا اسد اللہ خاں غالب، ایک مکتوبِ لطیف بنام نواب علاؤ الدین خاں علائی میں لکھتے ہیں:”پچاس برس کی بات ہے کہ الٰہی بخش خاں مرحوم نے ایک نئی زمین نکالی، مَیں نے حسب الحکم غزل لکھی، بیت الغزل ہے:
پِلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
مقطع ہے:
اسد خوشی سے مرے ہاتھہ پاؤں پُھول گئے
کہا جو اُس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
اب مَیں دیکھتا ہوں کہ مطلع اور چار شعر کسی نے لکھہ کر اس مقطع اور اس بیت الغزل کو ان اشعار میں شامل کر کے غزل بنا لی ہے اور اس کو گاتے پھرتے ہیں۔ مقطع اور ایک شعر میرا اور پانچ شعر کسی اُلو کے“….
اسی طرح آج کے دور میں اکثر گلوکاروں اور گلو کاراؤں نے بعض مشہور شاعروں کی غزلوں میں الحاقی اشعار شامل کر رکھے ہیں، سب سے بڑی مثال مہدی حسن کی گائی ہوئی احمد فراز کی غزل ہے:
رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آ
احمد فراز کی اس غزل میں ایک شعر اس طرح شامل ہے:
جیسے تجھے آتے ہیں ، نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لئے آ
جبکہ یہ شعر ہرگز احمد فراز کا نہیں، مہدی حسن نے جانے کس کا شعر احمد فراز کی غزل میں شامل کر کے گا دیا اور ریکارڈڈ کیسٹوں میں بھی یہ شعر رواج پا گیا۔ اب لاکھ کہو کہ یہ الحاقی شعر احمد فراز کا نہیں ، مگر کوئی مانتا ہی نہیں کہ مہدی حسن نے احمد فراز کی غزل میں شامل کر کے گایا ہُوا ہے۔
اپنے روزنامہ ”پاکستان“ کی اشاعت اتوار 15 ستمبر2013ءکو کالم نویس زیڈ بی پسروری نے اپنے کالم ”صدائے دل“ کے ذیلی عنوان ”خلوص نیت“ میں ایک مشہور شعر بغیر شاعر کے نام کے اس طرح درج کیا ہے:
افلاس نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
جبکہ پہلا مصرع قمر صدیقی مرحوم نے ہرگز متذکرہ شکل میں نہیں لکھا۔ وہ میرے دوست تھے۔ برسوں ساتھ گھومے پھرے یہ شعر جس طرح انہوں نے کہا جس طرح مجھے سنایا تھا وہ صحیح صورت میں یوں ہے:
افلاس نے بچوں کو بھی سنجیدگی بخشی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
معاصر روزنامہ ”جنگ“ لاہور کی اشاعت بدھ28 اگست2013ءمیں ممتاز طنّاز کالم نگار حسن نثار نے اپنے مشہور زمانہ کالم ”چوراہا“ کے ذیلی عنوان ”ایم کیو ایم، ایک حقیقت سو افسانے“ کے تحت قتیل شفائی کا ایک مشہور بلکہ ضرب المثل بن جانے والا مقطع اس طرح رقم کیا ہے:
مَیں نے تو قتیل اس سا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
جبکہ متذکرہ شکل میں پہلے مصرعے کا دھڑن تختہ کر دیا گیا ہے۔ قتیل شفائی نے ہرگز اس طرح نہیں کہا تھا، اُن کا صحیح مقطع ہے:
دُنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
روزنامہ ”پاکستان“ کے ایک کالم نویس زیڈ بی پسروری نے اپنے موقر کالم ”صدائے دل“ میں ذیلی عنوان ”شہر چراغاں کا نوحہ“ کے تحت 2 ستمبر2013ءکو ایک شعر عطاءالحق قاسمی کے نام سے یُوں درج کیا ہے:
اپنے گھر کے تاریک گھروندے سے نکل کر کوئی
کاش ! اس شہرِ چراغاں کی کہانی لکھے
مجھے نہیں معلوم یہ شعر عطاءالحق قاسمی کا ہے بھی یا نہیں؟ مگر مصرع اولیٰ جس طرح بے چہرہ کیا گیا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی شاعر اس شکل میں یہ مصرع کہہ سکتا ہے، یعنی ”اپنے گھر کے تاریک گھروندے؟…. چہ معنی وارد؟…. دراصل عیب بھی کرنے کو ہُنر چاہئے۔ مصرع بگاڑتے وقت اگر کامن سنس سے کام لیا جاتا تو گھر اور گھروندے یکجا نہ کیا جاتا اور مصرعے کا یہ حشر نہ ہوتا۔ میرے خیال میں پہلا مصرع یوں ہونا چاہئے یا اس طرح ہوگا:
اپنے تاریک گھروندے سے نکل کر کوئی
اور صحیح شعر یُوں ہوگا:
اپنے تاریک گھروندے سے نکل کر کوئی
کاش ! اس شہرِ چراغاں کی کہانی لکھے
”نیا دور“ کراچی کے شمارہ35 ، 36 میں فراق گورکھپوری کا ایک مضمون شمیم حنفی نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا، بعنوان ”اُردو شاعری میں تصورِ گناہ“…. اس میں غالب کا ایک مشہور شعر اس طرح درج ہے:
دریائے مُعاصی تُنک آبی سے ہُوا خشک
میرا سرِ داماں بھی ابھی تر نہ ہُوا تھا
جبکہ اس شکل میں بھی وزن اوزان کے لحاظ سے شعر بالکل صحیح ہے کہ شمیم حنفی بے وزن تو نہ کر سکتے تھے، مگر اُنہوں نے اصل ترکیب ”سرِ دامن“ کو ”سرداماں“ کر دیا جبکہ ہر عہد پر غالب میرزا اسد اللہ خان غالب کا دعویٰ تھا کہ:
گنجینہءمعنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
اس لئے کوئی لفظی ترمیم بھی غالب کی روح کو اذیت پہنچانے کے مترادف ہوگی۔ غالب کا صحیح شعر یوں ہے:
دریائے معاصی تنک آبی سے ہُوا خُشک
میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہُوا تھا
روزنامہ ”جرأت“ لاہور کی اشاعت ہفتہ 31 اگست2013ءمیں محترمہ مریم گیلانی کے کالم ”روزنِ خیال“ میں ذیلی عنوان ”تبدیلی کا سراب“ کے تحت ایک شعر یوں نظر سے گزرا:
کیفیت کچھہ ایسی ہے بقول منیر نیازی:
سامنے ڈھیر پڑے ہیں
ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
اول تو یہ شعر نہیں، ایک مصرعے کے دو ٹکڑے کر کے شعر بنا دیا گیا ہے۔ دوسرے ہرگز یہ منیر نیازی کا رنگِ تغزل بھی نہیں…. یہ کلاسیکل شعر دراصل ریاض خیر آبادی کا ہے اور صحیح اس طرح ہے:
جامِ مَے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
ممتاز سیاستدان، یک نفری پارٹی کے کامیاب سربراہ شیخ رشید نے ٹی وی پروگرام میں ایک مشہور زمانہ شعر بغیر شاعر کے نام سے یوں توڑ مروڑ کے سُنایا:
کبھی تو یُوں رو رو کے اشکوں کی آبرو نہ گنوا
یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے
جبکہ یہ شعر میرے استادِ گرامی حضرت احسان دانش مرحوم و مغفور کا ہے اور صحیح شکل و صورت میں یوں ہے:
کسی کے سامنے اشکوں کی آبرو نہ گنوا
یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے
روزنامہ ”دُنیا“ لاہور میں فاضل کالم نویس ہارون الرشید ”ناتمام“ کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ ایک کالم کی ابتداءاور انتہا اُنہوں نے یُوں کی ہے۔ میر صاحب نے کہا تھا:
خشک سیروں تنِ شاعر میں لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعہ ترکی صورت
عموماً مولانا حالی سے منسوب ہو جانے والا متذکرہ شعر نہ تو خدائے سخن میر تقی میر کا ہے، نہ کسی اور کا، دراصل یہ شعر حضرتِ امیر مینائی کا ہے…. البتہ مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی کی اسی زمین میں ایک پوری غزل ضرور موجود ہے، جس کا ایک شعر بہت مشہور ہے کہ:
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہُشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
اس میں بھی یار لوگوں نے ”جیبوں“ کی جگہ تحریف کر کے آج کے زمانے کے مطابق ”جُوتوں“ کر رکھا ہے جبکہ حالی کے دور میں جیب ہی کاٹی جاتی ہوگی، جُوتے نہیں چُرائے جاتے ہوں گے۔ ”جُوتی چور“ اپنے وطن کی خاص شناخت ہے !
اور کالم کے آخر میں ایک مقطع اس خاکسار کا ملاحظہ ہو:
عشق میں خوار و زبوں تم ہی نہیں ہو ناصر
میر صاحب کا تعلق بھی تو سادات سے تھا
اسی موضوع پر برادرم منصور آفاق کی تحریر :
اکثر شعراء کے ہاں یہ بات پائی جاتی ہے کہ کسی شاعر کا کوئی خیال پسند آیا ہے تو اسے اپنا لیتے ہیں۔ اس میں کوئی ایسی زیادہ قباحت نہیں سمجھی جاتی مگر کوشش یہ کی جاتی ہے کہ یا تو اس خیال کو بلند تر کیا جائے ۔ یا اسے اسطرح ادا کیا جائے کہ شعر ایک طرح سے طبعز اد معلوم ہو مطلب یہ کہ الفاظ کے در و بست میں بہت زیادہ حسن وجمال آجائے۔ مثال کے طور پر شاعر وں نے اپنی نازک خیالی سے سوچاکہ عام سے بیج سے خوبصورت اور متنوع پھول کس طرح پیدا ہوجاتے ہیں نظیر اکبر آبادی نے کہا
یہ غنچہ جو بے درد گل چیں نے توڑا
خدا جانے کس کا یہ نقش دہن تھا
غالب نے بھی یہی خیال لیا ہے مگر حسن و شوکتِ الفاظ کے ساتھہ خیال کو تر فع اور وسعت عطا کی اور اسے اپنا نادر خیال بنا دیا ۔ غالب کہتا ہے ۔
سب کہاں کچھہ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
بہرحال خیال کا توارد کہیں یا حسن تقلید و تر فعِ فکر یہ چیز شعراءکے ہا ں پائی جاتی ہے ۔ بڑے شعراءکے یہاں کم اور عام شعراءکے ہاں زیادہ مگر ان شرائط کے ساتھ جو بیان کی گئی ہیں اگر وہ شرائط نہ ہوں اور دوسرے کا خیال اپنا نے والاشاعر اسے اس طرح بیان کرے کہ نیا شعر پہلے شعر سے کمتر ہوجائے تو اسے صاف صاف سر قہ کہا جاتا ہے فیض اس طرح تو سرقے کی سولی نہیں لٹک رہے جس طرح کاآج کے نوجوان شاعروں سے وطیرہ اپنا رکھا ہے مگر فیض کے ہاں غزلیات میں بالخصوص یہ چیزآگئی ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ وہ خیال کو بلند نہیں کر سکے ہیں ایک مثال دیکھئیے میر تقی میرکہتے ہیں۔
ایسے ہم اسکی بزم سے اٹھے ۔
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
فیض کہتے ہیں ۔
اٹھہ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر ۔۔۔۔
کچھہ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
حکیم مومن خان کا شعر ہے ۔
تم ہمارے کسی طرح نہ ہو ئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
فیض کہتے ہیں ۔
اک تری دید چھن گئی مجھہ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
دوسرا مصرع پورے کا پورا لے لیا گیا ہے صرف ایک لفظ ہوتا ہٹا کر ”باقی “ لگا دیا گیا ہے پہلے مصرع میں ایک تو مو من کے وسیع خیال کو محدود کر دیا گیا دوسرے ” دید چھن گئی “ روز مرہ کے خلاف اور انتہائی کمزور مصرع ہے ۔یہ کہا جا چکا ہے کہ دوسرے کا خیال اپنا لینا شاعری کا معمول ضرور ہے لیکن بعد میں آنے والا شاعر کو شش کر تا ہے کہ خیال کو رفیع تر کرے یا الفاظ اور انداز بیان میں ندرت اور نیا پن لائے اسکی ایک آدھ مثال فیض کے ہاں بھی مل جاتی ہے غالب کا شعر ہے ۔
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک میں اور گر یبان کے چاک میں
شاید عہد غالب میں دلی کے معاشرتی لباس وہ قمیض پہنی جا تی ہے جو عربی پہنتے ہیں اور ٹخنوں تک لمبی ہوتی ہے ۔ اس وقت کی حالت میں آدمی دوڑ تا ہوگا ﺅ
اور پائوں سے ملے ہوئے دامن پھٹ جاتے ہونگے دامن سے گر یبان تک بڑا فاصلہ ہو تا ہوگا اس لئے غالب نے اسے انتہائے جنوںکہ دامن کے چاک اور گر بیان کے چاک کا درمیانی فاصلہ مٹا دیا جائے لیکن فیض کے دور میں لمبائی میں بہت چھوٹی (آج کے مقابلہ میں بھی بہت چھوٹی ) قمیضیں پہنی جاتی تھیں۔ ان میں تو دامن اور گر بیان کے درمیان بمشکل ایک بالشت کا فاصلہ ہوتا تھا اور دامن ذرا چاک کیا جاتا تو گر بیان سے مل جاتا تھا یہ چیز فیض نے سوچی ہوگی وہ اپنی بات اگر اسی طرح کر دیتے جیسے غالب نے کی تھی تو شعر مضحکہ بن جاتا اس لئے انہوں نے سو چا اور پھر یہ شعر کہا۔
جوش و حشت ہے تشنہ کا م ابھی
چاکِ دامن کو تا جگر کر دے
یقینا چاک دام کو تا جگر کرنے کے الفاظ سے خیال میں رفعت آگئی ہے اور فیض کا شعر غالب کے شعر سے بلند ہوگیا ہے ہم ایسی صورت میں دوسرے شاعر کا خیال اپنا لینے کو جائز اور کسی حد تک مستحسن سمجھتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ایسی مثالیں فیض کے ہاں بہت کم ملتی ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔