علامہ اقبال کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جن کی نہ صرف فلسفہ، مذہب اور شعر و ادب کی دنیا پر گہری نظر تھی بلکہ وہ عملی سیاست، قانونی موشگافیوں، آئینی مسائل اور محلاتی جوڑتوڑ کے حوالے سے بھی نپی تلی بات کرتے تھے۔ ان کے حمایتیوں اور مخالفین کا ایک وسیع حلقہ ہے۔ کسی شخص کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس کے بارے میںیا اس کے خیالات کے بارے میں، حق یا مخالفت میںکس قدر لوگ بات کرنے پر مجبور ہیں۔ یوں اقبال نے تادم تحریر بے شمار لوگوں کو اپنے سحر میں مقید کیا ہوا ہے کہ انہیں اقبال کے حوالہ سے ہر صورت کوئی نہ کوئی بات کرنا ہی پڑتی ہے۔ اس وقت ہم علامہ کا وہ شعر پیش کر رہے ہیں جو انہوں نے دسمبر 1911 کو عطیہ فیضی کے نام خط میں لکھا تھا۔ اس دسمبر کے مہینہ کے آخر میں سلطنت برطانیہ والے ہمارے خطہ کے حوالے سے دو اہم ترین فیصلے کر رہے تھے۔ ان دونوں فیصلوں کا بعدازاں 20ویں صدی کی سیاست پر بہت اثر رہا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پہلا فیصلہ ایک کھیل کا حصہ تھا جس کا مقصد دوسرے فیصلے کے ممکنہ ردعمل کو بھانپ کر بنگالیوں کو چکر دینا تھا۔ پہلا فیصلہ تھا 1905 میں بنگال کی تقسیم جبکہ دوسرے فیصلہ کا تعلق برٹش انڈیا کے دارالحکومت کی بنگال سے پنجاب منتقلی سے تھا۔ ویسے تو 1848 میں پنجاب پر قبضہ کرنے سے پہلے برطانوی پارلیمان میں جو بحث و مباحثہ ہوا تھا اس میں یہی طے ہوا تھا کہ اب سلطنت برطانیہ اور زارِروس کے درمیان اتنی بڑی ’’بفرسٹیٹ‘‘ یعنی پنجاب کی آزاد خودمختار ریاست کو ختم کر کے کمزور افغانستان کو بفر ریاست بنادیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے لے کر پنجاب کے متصل علاقوں یعنی اٹک، چکوال، ایبٹ آباد، مانسہرہ وغیرہ تک فوجی بھرتی کے نئے مراکز قائم کیے جائیں۔ انہی فیصلوں میں ایک فیصلہ دارالحکومت کی کلکتہ سے منتقلی تھی۔ نئے دارالحکومت کے لیے نظر انتخاب دلی پر ٹک گئی کہ یہ شہر 1849 سے 1911 تک پنجاب کا حصہ رہا تھا۔ 1904 میں تاج برطانیہ نے اس شہر میں بہت بڑا دربار منعقد کروایا جس میں جاہ و جلال کے ساتھ ساتھ عسکری طاقت کا غیرمعمولی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ اسی دربار میں دارالحکومت کی منتقلی کی تجویز کو باقاعدہ سراہا بھی گیا۔ اب خدشہ یہ تھا کہ گذشتہ 150 سال سے انگریزوں نے بنگالی بابوئوں کی جو فوج ظفر موج بنا رکھی تھی اس کی طرف سے ردعمل آ سکتا ہے۔ یہ بابو انگریزی بندوبست کا جزولاینفک بھی تھے اور اپنے آقائوں سے ہر طرح کا حربہ بھی سیکھ چکے تھے۔ ایک ماہر استاد کی طرح انگریزوں نے انہیں درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا تھا۔ اب یہ تو ہمارے دیہات میں ہوتا ہے کہ جب علاقہ کے طاقتور شخص کو کوئی بات نسبتاً مضبوط حریف سے منوانی ہوتی ہے تو وہ پہلے حریف کو کسی دوسری لڑائی میں الجھاتا ہے۔ پھر آخر میں خود صلح صفائی کے لیے آ جاتا ہے اور جعلی لڑائی کو ختم کرتے ہوئے اپنا اُلّو بھی سیدھا کر لیتا ہے۔ تقسیم بنگال اور اس کی تنسیخ کا یہ کھیل اسی لیے رچایا گیا تھا کہ دارالحکومت کی منتقلی میں بابوئوں کی مخالفت آڑے نہ آ سکے۔ راج نیتی میں ایسے کھیل رچانے والوں ہی کو سورما سمجھا جاتا ہے۔ یہ تھا کھیل جو 1905 سے 1911 تک ہمارے ہاں رچایا گیا کہ بہت سے لوگ تاحال اس سیاسی کھیل کو جدوجہد اور مزاحمت سے الگ کر کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مگر اپنے علامہ کی تو اس سب کھیل پر گہری نظر تھی کہ جس کا ثبوت ان کا یہ شعر ہے جو دسمبر 1911 ہی میں کہا گیا تھا: تاج شاہی یعنی کلکتے سے دلی آ گیا مل گئی بابو کو جوتی اور پگڑی چھن گئی یہ شعر عطیہ فیضی کی تاریخی کتاب میں ہے جس میں 10 خطوط شامل کیے گئے ہیں۔ کتاب عطیہ فیضی نے 1948 ہی میں چھاپ دی تھی مگر حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اسے دوبارہ چھاپا ہے کہ اس دوبارہ سے چھپنے والی کتاب میں کراچی کے روف پاریکھ نے نوٹس بھی لکھے ہیں۔ اس شعر کے حوالے سے ان کا نوٹ اسی سیاسی و تاریخی غلطی کی چغلی کھا رہا ہے جو ہمارے یہاں اکثر تقسیم و تنسیخ بنگال کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ بہت سے دیگر دانشوروں و تاریخ دانوں کی طرح پاریکھ صاحب بھی اسے مزاحمت اور تفاخر سے الگ کر کے دیکھنے سے قاصر رہے۔ جو بات پاریکھ صاحب 2012 میں بھی نہ سمجھ سکے اسے اپنے علامہ صاحب نے 101 برس قبل 1911 ہی میں اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ سیاسی دانشور کہتے ہی اسے ہیں جو سیاسی حالات کی نبض پڑھ سکے۔ تنسیخ تقسیم بنگال کے فیصلہ کو اقبال نے دارالحکومت کی منتقلی جیسے اہم ترین فیصلہ کے مقابلہ میں صحیح معنوں میں ’’جوتی‘‘ سے تشبیہہ دی ہے۔ دارالحکومت بدلنے کے بعد کلکتہ کی وہ حیثیت ہی نہ رہی جو اسے کبھی حاصل رہی تھی۔ رہتی بھی کیسے بھلا، اگر پگڑی یعنی عزت ہی چھن گئی ہو تو پھر رہ ہی کیا جاتا ہے۔ ویسے ہماری او لیول کی نصابی کتب میں بھی کانگرسی خیالات کی ترویج میں تقسیم و تنسیخ بنگال کے حوالے سے یہی کچھ پڑھایا جا رہا ہے جو افسوسناک ہے۔
http://2.bp.blogspot.com/-tRDX9IKlg1Y/UXiyI60ILCI/AAAAAAAAA-w/MoBvx-oohjY/s1600/babu33.png