مڈل مین
انسان جب اس قابل ہوا کہ وقتی ضرورت سے زیادہ سامان بناسکے تو کچھ لوگ ایک دوسرے کا سامان یا محنت چوری کرلیتے تھے اپنی من پسندچیزوں کی چوری کرنے پر لڑائیاں ہونے سے کاروبار کی تاریخ شروع ہوتی ہے پھر لوگ بارٹر سسٹم سے لین دین کرنے لگے۔ تبادلہ اشیاء کے معیار کی جگہ قیمتی سکوں نے لے لی۔ بیسویں صدی میں سکوں کی جگہ نقدی نے لے لی اسکے بعد آئی ٹی میں یہ ہندسوں کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ لیکن نقدی کی تقسیم کا مقصد لوگوں کی باہم خدمت ہے۔ معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے سامنے اپنی محنت کا تبادلہ کرسکیں
انسان کی ترقی کا راز مڈل مین میں ہی پوشیدہ ہے ایک ایک انسان مل کر دو نہیں ہوئے بلکہ گیارہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کیلیے مڈل مین ہوتے ہیں اسی طرح مڈل مین انسانوں کے معاشروں، اداروں، نظموں، مذہبوں، منڈیوں، جُواخانوں، ٹیکنالوجی، رواج، تعلیمی نظام، تہذیبوں الغرض کسی بھی چیز میں ہوں اُس عمل کو تیز کردیتے ہیں جیسے قحبہ گری میں بھی دلال (مڈل مین) کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔ مڈل مین کی وجہ سے لوگوں کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مقابلہ اور حسن ہے۔ مڈل مین خود میں بہت کچھ ہوتا ہے اور کسی بھی حد تک جاسکتا ہے متعلقہ چیزیں لوگوں کی ضرورت بنا دیتے ہیں۔ دو لوگوں کے درمیان پل اورچیزوں کی منڈیوں تک رسائی کا ذریعہ بنتا ہے، مارکیٹ یا بازار بناتا ہے افادیت بناتا ہے۔ مڈل مین اپنی کمائی کو دِن دُگنی اور رات چگنی کرتا جاتا ہے۔دو جزیروں میں پیدا ہونے والی چیزیں اپنے اپنے علاقے میں سستی اور دوسرے کے علاقے میں مہنگی ہونگی اِن کے درمیان پل سے وہی اشیاء سستی ملیں گی اگر اس پل کا کام انسان سر انجام دے تو وہ مہنگائی کو ایک سطح پر لے جائیگاکیونکہ صبح مارکیٹ اور شام ٹارگٹ کے پیچھے ہوتے ہیں۔اس لیے مڈل مین نام نہاد اشرافیہ میں صنعتکار، سرمایہ دار،وڈیرہ سائیں، جاگیردار، بیوروکریٹ، بیوپاری،مارکیٹر تاجرپائے جاتے ہیں مزدوروں (کمی) میں ڈاکٹر، انجنئیر، کاروباری، بینکر، سائنسدان، پروفیسر، وکیل،آئی ٹی، صحافی، سیاستدان، پولیس،عسکری اور دوسرے نوکری پیشہ ور آتے ہیں جن کو مڈل مین اپنے مقاصد کیلیے استعمال کرکے اِن کی محنت اپنے نام کرلیتے ہیں۔ مفاد پرست مڈل مین کیلیے قانون سازی کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ قدیم نظام ان کیلیے کسی قسم کی گنجائش پیدا کردیتے ہیں۔اس کے علاوہ مفاد پرست مڈل مین سیاست میں اپنا اثرورسوخ بنائے رکھتے ہیں تاکہ اپنا مفاد مقدم رکھا جائے اور اپنے لحاظ سے قانون سازی بھی چاہتے ہیں جس پر کلیساء نے کہا تھا کہ اتنی بڑی جمع پونجی کے پیچھے لازمی کوئی گناہوتا ہے۔ مال و دولت کی اہمیت انسانیت سے بڑھ جاتی ہے۔ قانون کی بالادستی انسانیت کا تحفظ کرتی ہے
قدیم مذاہب میں سودکو سب سے بڑی لعنت سمجھا گیا ہے جبکہ جدید صنعتی دور میں اسکی پھر بھی افادیت ظاہر ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس کے اندر انسانیت کا استحصال کرنے کیلیے کافی مواد موجود ہے کیونکہ سودی انسان اپنی محنت سے زیادہ مالیاتی کامیابی حاصل کرلیتا ہے جبکہ جدید دور میں کارل مارکس نے اپنے نظریات میں کچھ بنیادی نعرے لگائے جس میں "جو محنت کرے گا وہ کھائے، وسائل کی منصفانہ تقسیم" وغیرہ سے مڈل مین کی تضحیک اور حوصلہ شکنی کی ہے مڈل مین کاروباری کو جہنمی مانتے ہیں
پہلی دنیا میں مڈل مین کا انحصار اپنے سے چھوٹے اورتیسری دنیا کے مڈل مین پر ہوتا ہے یہ کسی نا کسی صورت میں اپنی عوام کا خون چوس رہے ہوتے ہیں چوری تو یہ کرتے نہیں لیکن قانونی ڈاکے مارتے ہیں۔ پہلی اور تیسری دنیا کے لوگ میں کامیابی انہی مڈل شخصیات کے حصے میں ہوتی ہے جبکہ دوسری دنیا کے لوگوں کی تخلیق وترقی پہلی یا تیسری دنیا کے لوگوں پر انحصار کرتی ہے کیونکہ وہاں مڈل مین نہیں ہوتے جبکہ وہاں پیداوار پر لاگت انتہائی کم ہوتی ہے مڈل مین کے بغیر دوسری دنیا کی منڈیاں بھی ویران ہوجاتی۔ جبکہ پہلی اور تیسری دنیا کے لوگوں کو مڈل مین کی وجہ سے وہی اشیاء پیداواری لاگت سے کئی گنا مہنگی لینی پڑتی ہیں۔ پہلی دنیا میں ترقی تحقیق اور ٹیکنالوجی سے ہوتی ہے، دوسری دنیا میں صنعت اور محنت سے ترقی ہوتی ہے جبکہ تیسری دنیا میں تنزلی کی وجہ کاروبار سے لے کر مذہب تک سب میں مڈل مین پائے جاتے ہیں۔ روزی روٹی کیلیے سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بنا کر معاشرے کی عمارت بے وقوفی پر تعمیر کردیتے ہیں یہاں حکومت کو قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر مڈل مین ترقی(بذریعہ مالیاتی مقابلہ) تیز کرتے ہیں جبکہ کئی متعلقہ چیزیں ویسے ترقی نہیں کر پاتی جن کیلیے معاشرے کے توازن کوبرقرار کرنے کیلیے نئی نئی تحریکیں شامل ہوتی ہیں جن میں جدلی مادی اشتراکیت، جنگلی حیاتیات کی بقاء، آلودگی،موسمیاتی تبدیلیاں (Climate Change)، انسانی حقوق اور دوسری این جی اوز، مذہبی مڈل مین کے مقابلے میں سیکولر تحریکیں، اس کے علاوہ زمین پر کی گئی تبدیلیاں قدرتی آفات سے توازن برقرار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مذہب اور سماجی اشتراکیت انسان کی متعلقہ چیزوں کی تکمیل سے معاشی استحکام بخشتے ہیں۔ مڈل مین نے انسان کی رعنائیوں کو مٹی میں ملا کر دولت کی جستجو میں زخمی کردیا ہے
مفاد پرست مڈل مین چھوٹی چھوٹی خرابیوں کو بیچ کر پیسے بٹورتے ہیں حتیٰ کہ اپنے جیسے انسانوں کے اعضاء، انسانی جسموں کی ایذا رسانی دفاتر اور انسانی جسم تک فروخت کرنے کے باقاعدہ کاروبار پائے جاتے ہیں۔ کچھ مڈل مین خاندانوں کے پاس پوری دنیا کے لوگوں کی کمائی اکٹھی ہے جبکہ ان لوگوں کی وجہ سے کئی لوگ بھوک کی وجہ سے مر جاتے ہیں کیونکہ دولت کی عدم دستیابی سے وہ وسائل میسر نہیں آتے جو امیروں کو میسر آتے ہیں۔مڈل مین کے ہاتھوں سارا نظام کھیلنے لگے اس سے پہلے بہتر قانون سازی اور انسانیت کے حق میں کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر قانون کی بالادستی قائم کی جائے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“