پیپلز پارٹی کے وزیر جناب اعجاز جکھرانی کے اثاثے ڈیڑھ کروڑ روپے سے چھ کروڑ ہو گئے ہیں۔ سید خورشید شاہ کی دولت چوبیس ملین روپے سے بڑھ کر اکاون ملین ہو گئی ہے۔ جناب منظور وٹو کے اثاثے سوا سات کروڑ روپے تھے اور اب ساڑھے پندرہ کروڑ کا روپ دھار گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر اے کیو خانزادہ کے اثاثے ایک سال میں ساٹھ لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ پچھتر لاکھ ہو گئے ہیں۔ محترمہ خوش بخت شجاعت کے احوال گزشتہ برس ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھے اس سال پہاڑ کی چوٹی ایک کروڑ اسّی لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ جناب بابر غوری کے اثاثے بیس کروڑ (دو سو ملین) کو چُھو رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ۔۔ اور بہت کچھ اور بھی ۔۔ منظر عام پر آ چکا ہے۔ اخبارات کے پہلے صفحوں پر تذکرے ہوئے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا نے اس پر مختلف النوع پروگرام کئے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے دو سیاست دانوں کے علاوہ کسی ایم این اے یا سینیٹرز نے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس سے بالائی طبقات کی رعونت مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہے یعنی ’’جو کرنا ہے کر لیں‘‘ ۔۔ یا ’’ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے!‘‘ بابر غوری اور محترمہ خوش بخت شجاعت نے اثاثوں میں غیر معمولی اضافے کے جواز پر بات کی ہے۔ یہاں ہم اس بحث میں پڑ ہی نہیں رہے کہ اُنکی بیان کردہ وجہ جواز منطقی ہے یا نہیں یا اُسے تسلیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ہم یہاں اس زاویے سے بات کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم اپنے آپکو مڈل کلاس کا حصہ قرار دیتی ہے چنانچہ اس کے کم از کم دو رہنماؤں نے میڈیا میں اٹھائے گئے سوالوں کے جوابات دیے۔ باقی سیاست دانوں نے ۔۔ خواہ وہ پیپلز پارٹی سے تھے یا نون سے یا قاف سے‘ اس موضوع کو درخورِ اعتنا ہی نہیں گردانا اور اُس ’’بے نیازی‘‘ یا تمکنت کا مظاہرہ کیا جس کیلئے امرا کا طبقہ مشہور ہے۔ لیکن کیا ایم کیو ایم بھی فی الواقعہ مڈل کلاس ہی سے تعلق رکھتی ہے؟ کیا وہ لوگ جن کے اثاثے (بیان کردہ اثاثے) دو دو سو ملین روپوں کے برابر ہیں‘ مڈل کلاس کی تعریف پر پورے اترتے ہیں؟ یا مڈل کلاس کی ازسرِ نو تعریف (DEFINE)
کرنا پڑے گی؟
لغت میں ہجر کا معنی! بدل ڈالا کسی نے
کہ اب کے وصل میں اظہار تنہائی بہت تھی
ہمارے دانشور ایک عرصہ سے دُہائی دے رہے ہیں کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ایک خاص طبقے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور مڈل کلاس کی نمائندگی کرنیوالا کوئی نہیں۔ موجودہ جمہوریت سے غیر مطمئن حضرات کا بھی یہی نکتہ نظر ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اصل جمہوریت اُس وقت جلوہ نما ہو گی جب سیاسی پارٹیوں کو کھرب پتی خاندانوں سے نجات ملے گی۔ پارٹیوں کے اندر انتخابات ہونگے اور مڈل کلاس کے نمائندے‘ جو پجارو‘ گارڈ اور محلات کی زنجیروں سے آزاد ہونگے‘ اسمبلیوں میں بیٹھے ہونگے ‘ وہ دن کب آئیگا؟ کم از کم مستقبل قریب میں اسکے کوئی آثار نہیں۔ فی الحال اقبال بانو کا گایا ہُوا نغمہ ۔ ہم دیکھیں گے… لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ قوم کو امید دلائے ہوئے ہے!
اگر ہم سیاسی حرکیات(Political Dynamics) کے نکتہ نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں یا تو اعلیٰ طبقات کردار ادا کر رہے ہیں یا بالکل نچلی سطح کے طبقات‘ جنہیں آپ طبقہ زیریں بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلی صف کے تقریباً سارے سیاستدان سردار ہیں یا جاگیردار ‘ چوٹی کے صنعتکار ہیں یا بڑے بڑے تاجر … ان لوگوں کی ملک کے اندر اور باہر طویل و عریض جائیدادیں اور لمبے چوڑے بینک اکاؤنٹ ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی تقریباً ایک سلطنت ہی کا فرماں روا ہے۔ ان کے ہَوائی جہاز تک اپنے ہیں‘ گاڑیوں کے بیڑوں کی تو بات ہی الگ ہے۔ انکے طرزِ زندگی کے بارے میں ایک عام پاکستانی تصور میں بھی کوئی صورت نہیں بنا پاتا۔ اس طبقے کا ایک بس چلے تو یہ تین وقت کے کھانے میں بھی ہیرے جواہرات‘ سونا‘ پلاٹینم‘ ریشم اور بیش بہا گھڑیاں کھائیں ۔ رہا زیریں طبقہ تو وہ جس طرح معیشت میں اعلیٰ طبقات کی کمی ہے‘ سیاست میں بھی وہی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ کسانوں‘ ہاریوں‘ مزارعوں اور نوکروں کی عورتیں حویلی میں آکر زمیندارنی سے پوچھتی ہیں کہ ہم نے ووٹ کی مہر کس تصویر کے سامنے لگانی ہے؟ زمیندارنی انہیں بتاتی ہے کہ انہوں نے شیر کو یا تیر کو یا تلوار کو یا ہاتھی کو ووٹ دینا ہے۔ وہ اسے یاد کر لیتی ہیں اور جاتے جاتے بھی نیم بلند آواز سے ’’سبق‘‘ دہراتی جاتی ہیں! کوئی مانے یا نہ مانے‘ متوسط طبقہ ‘ جو زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں ہے‘ سیاست کی موجودہ روش سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ متوسط طبقہ پڑھا لکھا بھی ہے چنانچہ اس راز سے واقف ہے کہ سیاست کا موجودہ انداز پاکستان کیلئے امید کا کوئی دروازہ نہیں کھول سکتا۔ یہ محض امرا کا کھیل ہے۔ سیاسی پارٹیاں کنیزیں ہیں جو مخصوص خاندانوں کے قدموں میں پڑی ہیں چنانچہ یہ متوسط طبقہ انتخابات کے دن گھر ہی سے نہیں نکلتا!
یہ وہ موڑ ہے جہاں پہنچ کر ہم دوبارہ ایم کیو ایم کی طرف پلٹتے ہیں۔ چند ماہ پیشتر جب اس کالم نگار نے ایم کیو ایم کی پنجاب میں آمد کے حوالے سے کالم لکھا تو جو ردِ عمل سامنے آیا وہ ایک چشم کُشا ردِ عمل تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں ایم کیو ایم کا مستقبل اتنا روشن نہیں جتنا کچھ حضرات کو یا خود ایم کیو ایم کو نظر آ رہا ہے۔ پنجاب کے بالائی طبقات پہلے سے موجود سیاسی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں‘ زیریں طبقات برادری کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں وہ زمیندار کا حکم ٹال سکتے ہیں نہ برادری کا بندھن توڑ سکتے ہیں۔ رہی مڈل کلاس جو ایم کیو ایم کا ہدف ہے تو وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور آزاد ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم سے کچھ سوالوں کے واضح جوابات مانگتی ہے۔ کراچی کے لوگ ان سوالوں کے جواب نہیں پوچھنا چاہتے یا نہیں پوچھ سکتے تو یہ الگ بات ہے اور معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کیا اہلِ کراچی میر کے اس مصرع کی واقعی تصویر ہیں یا یہ محض ایک بات ہے جس کی بنیاد کوئی نہیں …ع
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے خودمختاری کی
پنجاب کی مڈل کلاس بالخصوص اور سارے ملک کی مڈل کلاس بالعموم یہ جاننا چاہتی ہے کہ ایم کیو ایم سالہا سال سے سندھ میں ‘ اور مرکز میں بھی ۔۔ برسرِ اقتدار ہے یا کم از کم شریکِ اقتدار ہے اور فیوڈلزم کیخلاف ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس سارے عرصے میں اس نے زرعی اصلاحات کے بارے میں کوئی بِل پیش نہیں کیا نہ ہی عوام کو اس ضمن میں اپنا کوئی پروگرام بتایا‘ نہ ہی اس نے ملکیتِ زمین کے موجودہ ڈھانچے (Land Ownership Pattern) کا کوئی متبادل نقشہ پیش کیا‘ تو کیا جاگیرداری اور سرداری نظام کیخلاف اُس کا میدانِ عمل محض نعرے پر محیط ہے؟ کیا وہ اس ضمن میں سنجیدہ نہیں‘ یا اُس میں اتنا ذہنی دم خم نہیں کہ اس بھاری پتھر کو اٹھا سکے؟
لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ قائد تحریک جناب الطاف حسین کن وجوہ کی بنا پر ملک سے باہرمقیم ہیں اور آخر اس بات کا جو اکثر میڈیا پر بتائی جاتی ہے کیا مطلب ہے کہ وہ حالات سازگار ہونے پر آئیں گے۔سب جانتے ہیں کہ بے نظیر اور نواز شریف وطن واپس آنے کے لئے بے تاب تھے۔کراچی ائر پورٹ پر اترنے کے بعدبے نظیر کی جذباتی کیفیت سب نے دیکھی۔نواز شریف وطن لوٹے تو پرویز مشرف نے انہیں بزور واپس بھیج دیا۔اس سیاق و سباق میں یہ سوال منطقی ہے کہ کیا الطاف حسین وطن واپس آنے کے لئے بے قرار نہیں ؟
سچی بات یہ ہے کہ مڈل کلاس اپنا اعتبار کھو چکی ہے۔شیخ رشید ،مشاہد حسین،محمد علی درانی اور بہت سے دوسرے موسمی پرندے مڈل کلاس ہی کے شہکار ہیں ۔نون لیگ کے ایک رہنما نے لاہور کے جس ماہر قانون سیاست دان کو ،،جنم جنم کا لوٹا،، کہا تھا وہ مڈل کلاس ہی سے تو تھا ۔
مڈل کلاس امید ہے یا فریب ؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔