ساغرؔ کسی کے حسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
میانی صاحب کا نارنجی تھڑا ایک یارِ طرحدار، اور ساغرؔ صدیقی
ـــ
لاہور جو ایک شہرِ دلپذیر ہے، وہیں ہمارا ایک ہردلعزیز دوست رہتا ہے۔ ہم آتے جاتے لاہور میں میں ٹھہریں یا شہر کو بس چھُو کر گزریں اسے خبر ہوجاتی ہے
اور وہ ہمیں اغوا کرلیتا ہے۔ صاحبو عرفان جیسے بے لوث دوستوں کی صحبت میں راضی برضا مغوی بن جانے میں ہی عافیت ہے۔ اسے ملے عرصہ ہوا مگر اب بھی ہمارا ماننا ہے کہ ہم جب کبھی لاہور آئے یا یہاں سے گزرے، اللہ عرفان کو سلامت رکھے، اغوا کر لیے جائیں گے۔
فوج سے ہماری ریٹائرمنٹ سے لگ بھگ ایک سال پہلے کا ذکر ہے۔ ہم ٹریننگ کے دوران خود کو پیش آنے والی گھٹنے کی چوٹ کا کہیں اور ذکر کرچکے ہیں۔ ایک اہم سرجری کے سلسلے میں کافی بھاگ دوڑ کے بعد (محاورتاً لکھا ہے حقیقت میں تو گھٹنے کی چوٹ نے بھاگنے کے قابل نہیں رہنے دیا تھا)
اسوقت کے بریگیڈیئر سہیل حفیظ کے مریض بنے تو سی ایم ایچ لاہور نے ایک بستر ہمیں الاٹ کردیا۔ عرفان دو دن تو تیمارداری کو آیا مگر جب آپریشن کے بعد ہم چلنے پھرنے سے یکسر معذور ہو کر واقعتاً بستر سے لگ گئے تو اس شام عرفان گھر واپس نہ جانے کی نیت سے سی ایم ایچ پہنچا۔
دوبستروں والےکمرےمیں ہمارےساتھ والےمریض مجاہدبٹالین کے کیپٹن عبدالرؤف تھے۔ آپ کوراجاگدھ کےقیوم والامرض تھا۔ نہیں ’وہ‘ نہیں جس کی طرف فٹ سےآپکادھیان چلاگیاہے، دوسراجس کاتعلق معدےسےہے۔ علاج کی غرض سےبابابلھےشاہ کےقصورسےسیدھا سی ایم ایچ لاہورمیں اجلاس فرمایا
کچھ روزقیام کاارادہ تھا
عرفان کو دنیا کے ہر مرض کا ذاتی تجربہ ہے، سو ایک دن کی چرب زبانی اور السرکی مرض بیتی کی دکھ بھری روداد سن کر کپتان صاحب ہمارے دوست کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے۔ مرشد کے فرمان پر دوا کا ناغہ کیا اور عرفان کا دستی دم کیا ہوا پانی پیا۔ اس رات السر کے کیپسول عرفان نے کھائے۔
جس ثابت قدم شام کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہےعرفان ایک شاپر میں السرکا قدرتی شافی علاج کچھ تازہ گدرائے ہوئے امرود، دم کیا ہوا مزید پانی اور چکنی چپڑی باتوں کی پٹاری لے کر آیا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے مجاہد افسر کو مسز عبدالرؤف کی طرف واپس قصور روانہ کردیا
’سر، تُسیں ایتھے کیہڑی مکّی دی راکھی بیٹھے او۔ رنّاں والے گھر ای سوندے چنگے لگدے نیں‘
ساتھ والے بستر پر دراز ہو کر السر کا کورس کس نے پورا کیا ہمارے پڑھنے والے ماشاء اللہ خود عاقل ہیں۔ صاحبو یہ سب کچھ اس لیے کہ عرفان کو گوارا نہیں تھا کہ حرکت سے معذور اس کا دوست
لاہور کے کٹھور سی ایم ایچ کے بے پرواہ سٹاف کا محتاج ہو۔
دیکھیے ایک یارِ طرحدار کی سدابہار یاد دِل میں آئی تو قلم لہکتا بہکتا اور کچھ کچھ مہکتا لکھتا چلا گیا۔ سی ایم ایچ لاہور کی آرتھوپیڈک سرجری میں انجام پائے اے سی ایل ری کنسٹرکشن کی داستان تو ہم پھر کبھی کہیں گے۔
سرِدست کچھ سال پہلے کے لاہور کی ایک ڈھلتی دوپہر کو پلٹتے ہیں کہ اس کو عرفان کے ساتھ ساتھ ایک اور درویش سے بھی علاقہ ہے۔
غالباً 2008 کا ذکر ہےمیں ابھی لاہور پہنچا ہی تھا اور کچھ گھنٹوں کی دوری پر لاہور ریلوے سٹیشن سے کراچی ایکسپریس کا مسافر تھا۔ وقت کم تھا اور مقابلہ سخت۔
عرفان نے مسافر اور سامان دونوں کو سموچا کار میں ڈھو سیدھا میانی صاحب کے ایک گوشے میں آبسرام کیا اور گویا ہوا
مینوں لگیا کہ ایہہ جگہ ساڈے مطلب دی جے
قبروں کے درمیان ایک نسبتاً کشادہ جگہ پر جتنی کشادگی ایک قبرستان میں ہوسکتی ہے ایک تھڑا کہ جسکی چوگوشیہ حد ملگجے نارنجی رنگ میں رنگی
اینٹوں کی ایک قطارسےکی گئی تھی۔ سرہانےایک کتبہ ’نشست گاہ فقیردرویش باباساغرؔصدیقی‘۔ ساتھ ایک چبوترےپرقبرکےنشان کی لوح مزار ’آخری آرام گاہ فقیرشاعرساغرؔصدیقی‘۔ یہ ہمارےمحبوب شاعرکاابدی مسکن تھا۔
سو اس پل دو پل کے وقفۂ سکوت میں دو درویش (ایک مسافر اور ایک لاہوری درویش ہی تو ہوئے)
ایک تیسرے درویش سے اس کے مدفن کی نشست گاہ پر ملے اور ایک قبر کے کتبے سے ڈھو لگائے سر ینہوڑائے
جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومر ہوگا
ہم نے اس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا
ہم سرِ طور بھی مایوسِ تجلی ہی رہے
اُس درِ یار کی چلمن کو بہت یاد کیا
سلیم یزدانی کے ساتھ ایک انٹرویو نما گفتگو میں ساغرؔ نے بتایا تھا کہ انہیں اپنی پیدائش، ماں باپ کے بارے میں کچھ خبرنہیں اور نہ ہی اس ستم زدہ زندگی نے انہیں کسی خونی رشتے کا ساتھ بخشا جسے و ہ بھائی یا بہن کہ سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سنا۔
یہ انبالے کے اساتذ ہ کا اعجاز تھا کہ وہ اردو زبان اور شعروادب سے بہرہ ور ہوئے۔ ناصر حجازیؔ کے تخلّص سے شعر موزوں کرنے کی ابتدا کرنے والے نے جس گھڑی اپنے لیے ساغرؔ صدّیقی پسند کیا اسی لمحے اردو شاعری میں ایک نئے اسلوب نے درویشی کی کالی چادر اوڑھ بے نیازانہ انگڑائی لی۔
ہمارے فیس بک کے دوست حکیم خلیق الرحمٰن لکھتے ہیں اس کا پہلا مجموعۂ کلام ایک ناشر نے ساغر کے اشعار سن سن کر جمع کرنے کے بعد چھپوایا تھا جس کا پہلا ایڈیشن ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا۔ لیکن اس ناشر نے ساری آمدن اپنی جیب میں ڈال لی۔ ساغر آج بھی مشہور ہے
اسکا کلام بہت سے ” مشہور” افراد کی روزی روٹی کا ذریعہ آج بھی ہے۔
کتنی غزلیں تھیں جو اس تخلّص کے اعجاز سے معتبرٹھہریں اورنہ جانے کتنی اور ہوں گی جو ہوش وخرد کی سرحدوں سے پرے، جنوں اورپری کے عوض معاوضے اور ایک بے خود ی و بے گانگی کی قیمت ادا کرنے میں بے توقیر ہوئیں۔
انبالے کے مہاجر کو تقسیم اور لاہور کی آب وہوا راس نہ آئے۔ ایک شہرِ دلربا کے در وبام نے ایک جوانِ رعنا کو بے خودی کے نشے میں امان تلاش کرتے اور جوگ کی سیاہ چادر کے چیتھڑے اوڑھتے اسی بے نیازی اور کٹھور پن سے دیکھا جو دلرباؤں کا خاصہ ہے۔
اگر ڈھونڈنے والی نظرہو تو آج بھی ایک شکستہ ساغرؔ کی کرچیاں لاہورکے کونے کھدروں میں مل جائیں گی۔ موری دروازے کا گم گشتہ ریڈنگ روم، گئے وقتوں کے پاک لینڈ پریس کے سامنے کا فٹ پاتھ، داتا دربارکے باہر کہیں ملک تھیٹر کے پاس ایک بند دکان کا زیریں تھڑا، چوک رنگ محل کا آستانۂ قلندریہ۔
جابجاایک چھلکتے ساغرؔ کی باقیات بکھری پڑی ہیں۔
ہوش و خرد سے بے گانہ سیاہ پوش ساغرؔ باباکو جب دم رخصت کا الہام ہوا تو اس نےکالی چادرتیاگ سفیدکفنی اوڑھ لی۔ اس مقتلِ گُل میں کچھ دن اس کے چاہنے والوں نے ایک عمرکی بے کسی کے عالم میں اسے خون تھوکتے دیکھا یہاں تک کہ اس کا سفر تمام ہوا
اور ایک درویش کے ماننے والے اسے میانی صاحب کے مدفن میں گاڑ آئے۔
یونس ادیب نےجب شکست ساغرؔ لکھی تو ہمارےدرویش شاعرکو میانی صاحب میں دفن ہوئےنو سال گزرچکے تھے۔ اسوقت کے کتبے پر لکھا تھا، اور صاحبو نقلِ کتبہ، کتبہ باشد
عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ
اس کی پگڑی کہاں گری ہے اور اس کا سر محبوب کے قدموں پر کس انداز سے گرتا ہے۔
وہیں کتبے پر کہیں ایک اور عبارت یہ بتاتی تھی کہ ساغرؔکا قاتل سنگدل سرمایہ دارانہ نظام کا پروردہ بے رحم معاشرہ ہے۔ اور پھر ساغرؔ کا ہی ایک شعر
سنا ہے اب تلک واں سونے والے چونک اٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے
بہت بعد کےسالوں میں جب میں عرفان کی ہمراہی میں دعاکے لیے ہاتھ اٹھاتا تھا تووہاں کالے اور کچھ ملگجے نارنجی رنگوں میں رنگی قبر تھی اور بہت سارے ساغر کے شعر
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
اگر آپ آج کے میانی کی بھول بھلیوں میں ثابت قدم رہتے ہوئے ساغرؔ کا کھوج لاتے ہیں جیسا کہ ہمارے دوست طلحہ شفیق لائے تو معلوم پڑے گا کہ قبر پر
اب چھت ڈل چکی ہے اور اب وہاں میلہ لگتا اور لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ جسکی زندگی درویشی کے چیتھڑے اوڑھنے میں گزری وہ مرنے کے بے بعد بھی غنی رہا۔
اے حمید کو ساغر امرتسر کی نسبت سے یاد ہے کہ امرتسر اے حمید کے روم روم میں بستا تھا اور وہ ہر چاہنے والے کو امرتسر کے آئینے میں ہی دیکھتے تھے
ساغر صدیقی سے پہلی ملاقات میں اے حمید کو جو یاد رہے وہ ساغر کے بال تھے۔
نسواری بال جو بڑے چمک رہے تھے اور جن میں کنڈل پڑے تھے۔ ہم نے کیا باتیں کیں؟ مجھے یاد نہیں۔ مگر مجھے ساغر کے کنڈلوں والے چمکیلے بال آج بھی یاد ہیں۔
اور پھر اے حمید کا لہجہ کچھ کٹیلا کچھ بے سوادا ہوجاتا ہے
ساغر صدیقی پر کسی بھی نشے کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ اس کے اعصاب آخر تک بڑے تنومند رہے۔ جتنی چرس ساغر صدیقی نے پی، جتنا مارفیا ساغر صدیقی نے لگایا، اتنی چرس آج کے سب سے بڑے شاعر کو پلادیں، اتنامارفیا آج کےسب سےبڑے شاعرکولگا دیں
اور پھر اسے کہیں کہ یہ شعر لکھ کر دکھا دے
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
’اردو کے ممتاز شاعر مسٹرساغر صدیقی‘کے انتقال پر لاہور کے ایک اخبار میں ایک ڈیڑھ انچی کی خبر چھپی جس پر طنز کرتے ہوئے اپنے مخصوص پیرائے میں انشاء جی نے لکھا
ممتاز شاعر کا لفظ تو رپورٹر نے ترس کھا کر اپنی طرف سے لکھ دیا ہے، زندگی میں تو کسی نے اسے ایسا بھی نہ لکھا تھا۔ ’آج یہاں انتقال ہو گیا‘ میں آج کا لفظ بھی جائے تامل ہے۔ آج کی کیا قید ہے، اس کا تو پیدا ہوتے ہی انتقال ہوگیا تھا۔ ’انتقال ہوگیا‘ کہنا بھی بے صرفہ ہے۔
اس شخص کا اور کیا ہوسکتا تھا، سوائے انتقال کے۔ کیا اس کا کچھ اور بھی ہوسکتاتھا۔ شادی، ولیمہ، استقبال، تاج پوشی، دعوت، ضیافت، عہدہ، عہدے میں ترقی؟ سپردِخاک کرنےکی بھی ایک کہی۔ وہ تو مدت سےسپردِخاک تھا۔ خاک کےفرش پرپڑا رہتا تھا، خاک پھانکتا تھا۔ خاک میں مل چکا تھا، خاک ہو چکا تھا۔
لوگ اس پر خاک ڈال چکے تھے۔ ہاں اتنا نکتہ خبر میں شاید نیا ہوکہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اس سے پہلے قبرستان میں سپردِ خاک نہ تھا۔ اس سے باہر تھا۔
ہم نے اپنے محبوب شاعر کی برسی پر اسے یاد کیا۔ اللہ ساغرؔ صدیقی سے راضی ہو۔ آمین
یادوں کو اک لڑی میں پروتے اس دھاگے میں جو ساغرؔ کی تصویروں کے عکس ہیں وہ یونس ادیب کی مرتب کردہ کتاب ’ساغرؔ صدیقی شخصیت فن اور کلام‘ سے لی گئی ہیں۔