میاں نواز شریف کی برطرفی، حکومت کی اندرونی کمزوریاں اور "سازشوں" پر ایک نظر
مسلم لیگ ن کے راھنما دبے الفاظ میں اور بعض اوقات واضح طور پر میاں نواز شریف برطرفی کو "سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی" کا نتیجہ قرار دے رھے ہیں۔ کون ہے جس نے اس طرح کی سازش اور منصوبہ بندی کی؟ اس پر مسلم لیگی راھنما اکثر اوقات خاموش رھتے ہیں ، خواجہ سعد رفیق نے برطرفی کے بعد اپنی گفتگو نے کچھ اشارے دیئے، قطر اور سعودی عرب کا نام لیا۔
خواجہ سعد رفیق کا مطلب تھا کہ سعودی عرب کی یمن پر یلغار کے بعد پاکستان نے سعودی عرب کو اپنی فوج بھیجنے سے انکار کیا تھا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ایسا ہی ہوا تھا اور اس پر کافی تجزیہ کار اس وقت حیران بھی ہوئے تھے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کی جانب سے امریکی سامراج کے اشارے پر قطر کے بائیکاٹ پر بھی پاکستان نے سعودی گروہ کا ساتھ نہ دیا اور ایک "غیر جانب دار" پوزیشن اختیار کی۔
یہ بھی درست ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک چین مخالف پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ اسکے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بعد کافی نئی تبدیلیاں نظر آ رھی ہیں۔
میاں نواز شریف حکومت نے سی پیک کو جس طرح عوام کے سامنے پیش کیا وہ غیر معمولی تھا۔ اس طرح کا تاثر دیا کہ بس اب چین ہی ہے اور شائد پاکستان کو چین نے جو پراجیکٹس دئیے ہیں اسکی دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ ایسا نہیں تھا۔ چین نے ملیشیا، سری لنکا، نیپال اور دیگر ممالک میں بھی پاکستان کی طرح بڑے پراجیکٹس کا اھتمام کیا ہے۔ پاکستان سے اسے چونکہ زیادہ فائدہ پہنچنا تھا، سی پیک سے اسےدنیا کو ایکسپورٹ کرنے میں غیر معمولی پرافٹ نظر آ رھا تھا اس لئے اس نے کچھ زیادہ انوسٹمنٹ اور قرضہ جات دے دئے۔
مگر اسے سوبر انداز میں پیش کرنے کی بجائے مسلم لیگی قیادت کچھ زیادہ ھی "ھوچھی" ہو گئی۔ اور تو اور لاھور میں ایک ایسے منصوبے کا آغاز کر دیا جو 27 کیلو میٹراورنج ٹرین کے لئے260 ارب روپے خرچ کرنے سے بننا تھا اور اس کے سماجی اورمعاشی اثرات دیکھے بغیر دھڑا دھڑ اسکی تعمیر شروع کر دی تاریخی عمارتوں کا بھی خیال نہ کیا گیا اور ھزاروں کو بے گھر کر دیا گیا۔ آپ اندازہ کریں کہ بلوچستان کا کل سالانہ بجٹ کوئ تین سو ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
سی پیک کے منصوبہ میں چین سے کوئلے سے بجلی بنانے والے پراجیکٹس شروع کرا دیئے اور موسمی تغیرات کا اس میں کچھ زیادہ خیال نہ رکھا گیا۔ اور تیز تعمیر کو اپنا کارنامہ "پنجاب سپیڈ" کے نام سےمنسوب کر دیا گیا۔
یہ سب کچھ امریکی سامراج اور انُکے حواریوں کو کیسے اچھا لگ سکتاتھا۔
ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے۔ میاں نواز شریف نے ماضی کی طرح فوج کو خوش کرنے کے لئے دیگر اقدامات کے علاوہ انکو سویلین زندگی میں مزید مداخلت کے موقع فراھم کئے اور اسکی دو مثالیں قابل ذکر ہیں۔
ایک دھشت گردوں کو جلد اور موثر سزاؤں کے نام پر فوجی عدالتوں کا قیام اوردوسرا اوکاڑہ میں پولیس اور ملٹری فارمز کو اوکاڑہ مزارعین کوکچلنے کے لئے مکمل آزادی جس کے دوران درجنوں جھوٹے مقدمات مزارعین راھنمائوں کے خلاف قائم کئے گئے اور وہ ابھی جیلوں میں بند ہیں۔
مگر فوجی جرنیل اکثر اوقات کھل کر اپنی پریس ریلیزوں اور ٹویٹر کے زریعے سویلین حکومت سے اختلافات کا اظہار کرتے رھے۔ چوھدری نثار جب واہ اسلحہ فیکٹری کی یونین کی دعوت پر یوم مئی کی تقریب میں جانا چاھتے تھے تو ان کو روکنے کی پوری کوشش کی گئی۔ مگر وہ پھر بھی گئے۔
اس سے بھی بڑھ کر فوجی جرنیلوں کو میاں نواز شریف کی بھارت سے دوستی کی خواھش اور چند چھوٹے اقدامات بلکل ناپسند تھے۔ مودی کا بغیر دعوت کے لاھور آ جانا تو انکے لئے اچنبھے کا باعث تھا۔ فوجی جرنیلوں کو عام طور پر اسٹیبلیشمنٹ کہا جاتا ہے۔
عالمی بدلتی صورتحال میں سعودی امریکی الائنس کی نواز حکومت سے ناراضگی کے علاوہ اندرونی طور فوجی جرنیلوں کا رویہ اور ان سے انتہائی نفرت کرنے والی ایک اپوزیشن کی موجودگی اس حکومت کی آضافی مشکلات تھیں۔
اگر سی پیک اور لاھور کی اورنج ٹرین سمیت تمام "ترقیاتی" منصوبے اپنے طے شدہ وقت پر نواز دور میں تعمیر ہو جاتے تو تو یہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو عوام میں جگہ بنانے میں شدید رکاوٹ بننتے۔
نواز حکومت کے پاس مسلسل قرضہ جات کے حصول، چینی انوسٹمنٹ، تیل کی گرتی قیمتوں کی وجہ سے معاشی طور پر قدرے بہتر تھی وہ سمجھتی تھی کہ اگر وہ اس رقم سے سماجی اور معاشی انفراسٹکریکچر کی تعمیر کر لے گی تو اس کو 2018 کے عام انتخابات میں جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے انسانی ترقی کے لئے کوئی قابل قدر اقدامات نہ اٹھائے۔ حتی کہ پبلک سیکٹر کے محنت کشوں کے لئے چار سالوں میں کبھی بھی پیپلز پارٹی کی طرح معقول اضافہ نہ کیا۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی کچھ سماجی بنیادیں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور مزھبی جماعتوں کو مسلسل کھوتی رھی۔
دو سالوں کے بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور ان انتخابات کے تقریباء نو ماہ بعد حلف برداری ہوئی اور انکو اختیارات دینے میں بھی وقت لگایا گیا حالانکہ زیادہ تر انتخابات انہوں نے ہی جیتے تھے۔ عوام میں اپنی بنی جگہ کو قائم رکھنے میں بلدیاتی کونسلرز کا جو مثبت کردارہو سکتا تھا اس سے بھی مسلم لیگ فائدہ نہ کر سکی۔
مندرجہ بالا کی روشنی میں ہم کہ سکتے ہیں کہ جو کچھ مسلم لیگی قیادت دبے لفظوں میں کہ رہی ہے اس میں کچھ تو سچائی ہے۔ یہ کوئی حادثاتی بات نہیں کہ ایک روز پہلے عمران خان ججوں سے اپیل کرے کہ فیصلہ جلد سنایا جائے اور وہ اگلے روز سنا دیں۔ اور کل 28 جولائی کو عمران خان نے تسلیم کیا کہ میں نے تو ججوں کے کہنے پر دھرنا ختم کیا تھا جنکوں نے اسے کہا کہ ہمارے پاس ائیں۔ انہوں نے جسٹس آصف کھوسہ کا نام لیا۔
نواز شریف جو فارغ ہوئے اس کی سہ اطراف وجوھات ھیں، ایک انتہائ کمزور بنیاد پر انہیں برطرف کرنا کچھ دبی باتوں اور منصوبوں کا ساخسانہ ہو سکتا ہے۔ عدلیہ کچھ ڈھونڈ رھی تھی انہیں فارغ کرنے کے لئے جو انہیں مل گیا۔ مگر کہانی ختم نہیں ھوئی۔
ایک انتہائی کمزور بنیاد پر نواز شریف کی برطرفی کے فیصلے کو ابھی ریڈیکل وکلا چیلنج کر رھے ہیں کل یہ باتیں عام لوگوں میں بھی پھیلیں گی۔
یہ موقع ہے کہ ہم سرمایہ داروں کے مختلف گروھوں کے درمیان اس لڑائی کے دوران اپنے محنت کشوں اور کسانوں کی تحریکوں کو مضبوط کریں ان کو عوام کی ہر سطح پر لے کر جائیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“