بیس سال پہلے کی بات ہے ‘ یہی دن تھے…سخت ترین گرمی اور حبس …ایک کچی آبادی کے چوبارے پر مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ حسب معمول شعراء پہنچ گئے۔ حلق سوکھے ہوئے تھے اور سب کی ترسی ہوئی نگاہیں ٹھنڈے پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھیں۔ پانی تو موجود تھا لیکن ٹھنڈا نہیں تھا۔ خیال آیا کہ یقینا مشاعرے کے بعد یہ نعمت ضرور میسر ہوگی۔ کئی ایک نے خوش کن سرگوشی بھی کی کہ مشاعرے کے بعد میٹھے اور ٹھنڈے شربت کا انتظام لگتاہے۔ اللہ اللہ کرکے مشاعرہ ختم ہوا‘ سب کی جان نکلی جارہی تھی۔ اتنے میں نظامت کرنے والے صاحب نے کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ'حضرات! اپنی اپنی سیٹوں پر تشریف رکھیں، آپ سب کے لیے گرما گرم چائے کا انتظام کیا گیا ہے‘۔مجھے یاد ہے یہ سنتے ہی تین چارشاعر باقاعدہ دھاڑیں مار مار کر ہنسنے لگے تھے۔
اب ایسا نہیں ہوتا‘ مشاعرے خوبصورت سے خوبصورت ترین ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال میاں چنوں میںبرادرم عامر بن علی اور رانا ابرار حسین کی جانب سے منعقدہ عید ملن مشاعرہ ہے۔عامر بن علی خود کتنے خوبصورت شاعر ہیں اس کا اندازہ ان کی دیگ کے اِس ایک دانے کو چکھ کر لگایا جاسکتا ہے…!!!
حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے؟
یہ بتائو دونوں کی عمر کتنی ہوتی ہے
آج سے شائد چھ سات سال پہلے بھی وہ میاں چنوں میں ایسا ہی عظیم الشان مشاعرہ کروا چکے ہیں۔ اب کی بار تو انہوں نے حد ہی مکا دی‘ جزئیات میں آگے چل کر بتاتا ہوں۔ میرا ارادہ تھا کہ اپنی گاڑی میںہی میاں چنوں چلا جائوں لیکن پنجابی کمپلیکس میں جہاں سارے شعراء اکھٹے ہوئے وہاں ابرار ندیم‘ راجہ نیر اور دیگر پرانے دوستوں کو دیکھ کر رگ پھڑک اٹھی کہ اِن کے بغیر سفر کا مزا نہیں آئے گا۔ سو گاڑی پنجابی کمپلیکس کی پارکنگ میں چھوڑی اور کوسٹر میں اپنے محبت بھرے دوستوں کو جوائن کرلیا۔ لاہور سے میاں چنوں 4 گھنٹے کا راستہ ہے لیکن الحمدللہ بابانجمی صاحب کی بدولت ہم ساڑھے پانچ گھنٹے میں منزل تک پہنچے۔ بابا جی کو بس رکوانے میں ملکہ حاصل ہے ‘ ڈرائیور کے کان میں کچھ کہتے اور وہ بے بسی سے کسی قریبی پٹرول پمپ پر بریک لگانے پر مجبور ہوجاتا۔
میاں چنوں پہنچے تو 'جاپان ہائوس‘ کا لان شاعروں سے بھر ا ہوا تھا‘ ذرا نام ملاحظہ فرمائیے…ظفراقبال ‘ انور مسعود‘ امجد اسلام امجد‘ عطاء الحق قاسمی‘خالد شریف، وصی شاہ‘ ڈاکٹر صغرا صدف‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘ خالد مسعود‘ اختر شمار‘ عباس تابش‘ اقبال راہی ‘ رضی الدین رضی‘ قمر رضا شہزاد‘ زاہد شمس‘ رخشندہ نوید‘علی رضا‘ عامر سہیل‘ تیمور حسن تیمور‘ غافر شہزاد‘ فاخرہ انجم‘بابا نجمی‘ سعود عثمانی‘ طاہرہ سرا،سعدیہ صفدر سعدی‘ شوکت فہمی‘ابرار ندیم‘ راجہ نیر‘نیلما ناہید‘صوفیہ بیدار‘ شاہدہ دلاور شاہ‘ عزیر احمد‘ ممتاز راشد لاہوری‘محسن مگھیانہ‘ ندیم بھابھہ‘نبیل انجم اور سب سے بڑھ کر خود عامر بن علی۔ کئی نام مجھے یاد نہیںرہے براہ کرم انہیں بھی شامل سمجھئے ۔ایک پرتکلف عشائیے کے بعد جب شاعروں کو پنڈال کی طرف لے جایا جارہا تھا تو یہ منظر دید کے قابل تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے شاعروں کی اجتماعی شادی ہورہی ہے۔ مکمل بینڈ باجے اور پھلجھڑیوں کی روشنی میں ڈھول کی تھاپ پر شاعروں کا جلوس شہر کی مختلف گلیوں سے گزرتا ہوا پنڈال تک پہنچا تو سڑکوں پر لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہوچکی تھی۔ سب ڈھونڈ رہے تھے کہ دولہا کون ہے؟ اسی خطرے کے پیش نظر کوئی بھی شاعر فرنٹ پر نہیں رہا اور سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہے ۔ اتنی سخت گرمی اور حبس کے باوجود پنڈال یوں بھرا ہوا تھا کہ میں نے ایک جگہ تل دھرنے کی کوشش کی لیکن اس کی بھی جگہ نہ ملی۔میاں چنوں والوں کی یہ محبت ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے ‘ خصوصاً رانا عبداللہ صاحب جس طرح مہمانوں کا خیال رکھ رہے تھے اس نے خود مہمانوں کو شرمندہ کردیا۔72 شاعروں نے کلام پیش کرنا تھا جس میں مقامی شعراء شامل نہیں تھے۔ اور اس تعداد کو دیکھ کر یقین ہورہا تھا کہ مشاعرہ یقینا تین چار سال ضرور چلے گا۔ لیکن میاں چنوں کے شعراء کی اعلیٰ ظرفی کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی جنہوں نے اپنے خوبصورت کلام کو سمیٹا اور اعلان کیا کہ وہ صرف مہمان شعراء کو سنیں گے۔ بعد میں ابرار ندیم نے گنتی کرکے بتایا کہ کچھ شعراء کے نہ آنے کے باعث تعداد 72 کی بجائے 56 رہ گئی ہے۔ لیکن یہ تعداد بھی کم نہیں تھی کیونکہ ہر شاعر نے دو غزلیں سنانی تھیں اور ابھی تو لسٹ بھی طے نہیں ہوئی تھی‘ عامر بن علی خوفزدہ تھے کہ شاعروں کے حفظ مراتب میں کوئی کمی بیشی ہوگئی تو انہیں 'جے آئی ٹی‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ایک حیرت انگیز اور خوشگوار ترین بات یہ ہوئی کہ بغیر کسی ترتیب کے سینئر‘ جونیئر شاعروں کو بلایا جاتا رہا ور کسی نے مائنڈ بھی نہیں کیا۔
10 بجے شروع ہونے والا یہ مشاعرہ صبح تین بجے تک جاری رہا…اور مجال ہے پنڈال میں سے کوئی ایک شخص بھی اٹھ کر گیا ہو۔ بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی تھی کہ کئی لوگوں نے تو ساری رات کھڑے ہوکر یہ مشاعرہ سنا۔ڈاکٹرصغریٰ صدف نے جب مجھے کلام پیش کرنے کے لیے بلایا تو شرارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب تشریف 'لاتی ‘ ہیں گل نوخیزاختر۔ میں سمجھ گیا کہ صغریٰ صدف نے میرا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صغریٰ صدف نے مزید شرارت یہ کی کہ مائیک پر ہی کہہ دیا کہ میں جب تک نوخیز سے نہیں ملی تھی میں اسے عورت سمجھتی رہی ہوں۔ میں نے بھی مائیک پر ہی کہہ دیا کہ 'میں بھی جب تک صغریٰ صدف سے نہیں ملا تھا میں بھی اِنہیں عورت ہی سمجھتا رہا ہوں‘۔ اس کے بعد پنڈال میں اتنی زور کا قہقہہ بلند ہوا کہ صغریٰ نے باقاعدہ میرے کان میں دھمکی دے دی' میں تینوں نئیں چھڈناں‘…!!!
یہ مشاعرہ بہت سے لوگوں سے طویل عرصے بعد ملاقات کا ایک بہانہ بھی بن گیا۔ عامر بن علی کی محبت اور پیار کے سبھی قائل ہیں‘ عامر دوستوں کا دوست تو ہے ہی‘ یہ دشمنوں سے بھی دوستی کا خواہاں ہے۔ میں نے آج تک اسے کسی سے نفرت کرتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ مشاعرے میں وہ لوگ بھی اکٹھے بیٹھے نظر آئے جو عام طور پر ایک دوسرے کو شاعر ہی تسلیم نہیں کرتے اور اس پرعامر کی درویشی یہ کہ خود کلام ہی نہیں سنایا- ظفر اقبال صاحب جو عموماً مشاعروں میں جاتے نہیں اور جائیں تو آخر تک نہیں بیٹھ سکتے وہ بھی اس مشاعرے میںاختتام تک موجود رہے۔سچی بات ہے شاعروں کا اتنا بڑا اجتماع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا‘لیکن عامر بن علی کو مشکل کام کرنے کا شوق ہے لہٰذا انہوں نے یہ دریا بھی پار کرکے دکھا ہی دیا اور اس کے بعد ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب یہ مشاعرہ ہر سال ہوا کرے گا۔ یقینا ایسی محفلیں ہر سال ہوں گی تو کئی نفرتیں بھی محبتوں میں بدل جائیں گی۔میاں چنوں کا یہ مشاعرہ برسوں یادر ہے گا اور یہ بھی یاد رہے گا کہ جب ہم صبح سات بجے کی بجائے ساڑھے نو بجے لاہور پہنچے تو بابا نجمی ایک بار پھر ڈرائیور کے کان میں کوئی سرگوشی کر رہے تھے…!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“