ایک دفعہ میں نے بڑی مصیبتوں سے خرچ بچا بچا کراپنے کانوں میں پہننے کے لیئے ننھی ننھی سونے کی جڑاوْ بالیاں خریدٰیں ۔
وہ اتنی چھوٹی چھوٹی تھیں کہ مجھے آئینے میں کان آگے کر کر کے ان کو ڈھونڈ نا اور پھر دیکھنا پڑتا تھا ۔ سہیلیوں اور گھر والوں کو بھی ایسے ہی دکھانی پڑیں ویسے یوں بھی یہ بالیاں گھر میں نرا فساد ہی ثابت ہوئیں ۔
میں مانتی ہوں کہ کبھی کبھی لڑائی کے معاملے میں موصوف فرخ صاحب بھی حق پر ہوتے ہیں اور یہ کہ اُس روز غلطی سرا سر میری تھی ۔۔۔ ہوا یوں کہ غسل خانے میں کپڑے دھوتے دھوتے میں نے اپنی ایک عدد وہی ننھی سی کیوٹ والی بالی گرا دی ۔ غسل خانے کے فرش پراپنی بالی دیکھ کر میں چیخ پڑی
"اُف اللہ اتنا چمکدار کیڑا ، میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا"
"افف"
اور جلدی سے ڈونگا پانی سے بھر کر میں نے وہ کیڑا ترنت نالی میں بہا دیا کہ مبادا مجھے ہی نہ نقصان پہنچا دے ۔ یکدم مجھے احساس ہوا کہ
"نہیں یار وہ کیڑا تو نہیں تھا ۔۔۔" کان کو ہاتھ لگایا تو ایک کان خالی اور بالی غائب ۔۔۔
میں روتی ہوئی کمرے میں آئی اور فرخ کو بتایا کہ میں نے اپنی بالی گٹر میں بہا دی ہے ۔۔
" کہاں گرائی ہے تونے بیوقوف ۔۔"
شاپر ہاتھ پر چڑھا کر فرخ نے ڈانٹنا شروع کر دیا ۔ فر خ کا ہاتھ گٹر میں دیکھ کر مجھے کافی ہنسی آ رہی تھی لیکن میں نے ظاہر نہیں ہونے دیا ایسے میں اگر اسے شبہ بھی ہو جاتا کہ میں ہنسی ہوں تو مجھے جان سے مار دیتا ۔ دیر تک وہ گٹر کی ماں بہن ایک کرتا رہا بھلا گٹر کی کیا مجال کہ بالی واپس نہ کرتا ۔ بالی نکال کر فرخ نے مجھے دی لیکن اب میں نے اُسے پکڑنے سے انکار کر دیا ۔۔۔
" ایخ اتنی گندی"
فرخ نے بالی دھو کر مجھے پکڑائی اور تب کہیں جا ک کر دم لیا لیکن اب میں وہ پہننا نہیں چاہتی تھی ،
کئی بار فرخ نے پوچھا "اب کانوں میں پہنتی کیوں نہیں ہو اُس عذاب کو"
" پہن لوں گی کسی دن "
ایک دن موقع غنیمت جان کر میں نے فرخ سے کہا " یہ بالیاں اولڈ فیشن ہو گئی ہیں ۔ سنار سے تبدیل کرا کے نئی لے لیتے ہیں ۔ اچھی سی"
فرخ نے مجھے معنی خیز انداز میں گھور کر دیکھا اور پھر ایک مشتبہ سی ہُمممم کی ۔۔۔۔ لیکن کہا
"اچھا چلو"