میرے والدین نے بچپن ہی سے مجھے ہم نصابی سرگرمیوں اور مطالعہ کی جانب راغب کئے رکھا. پہلے عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں ہوتی تھیں، پھر اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول آئے، پھر ابن صفی اور مظہر کلیم کی عمران سیریز نے جگہ لی، پھر ادبی شمارے شامل ہوئے اور ہوتے ہوتے آج الہامی صحائف تک بات آگئی. اس سب کے پیچھے حقیقی محرک بلاشبہ میرے والدین ہی رہے. اسی طرح اسکول میں کوئی ڈرامہ ہو یا ٹیبلو مجھے اس میں خوشی سے یا زبردستی حصہ لینا ہی ہوتا تھا. میں آٹھویں جماعت میں تھا جب اسکول میں رزلٹ کے موقع پر ایک بڑے فنکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں کچھ معروف نام بھی مدعو تھے اور سب بچوں کے خاندان والوں کی شرکت بھی لازم تھی. میری اردو کا تلفظ و ادائیگی چونکہ دیگر بچوں سے بہتر تھا لہٰذا مجھے سورہ الرحمٰن کی تلاوت کے بعد اس کا ترجمہ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی. فنکشن کا دن آیا تو پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. یہ پہلا موقع تھا جب مجھے اسٹیج پر لوگوں کے سامنے اتنا طویل بولنا تھا. میرا ایک کزن جو میرے ہی ساتھ اسکول میں تھا تقریر کیلئے منتخب کیا گیا تھا اور بولنے کیلئے خوب پراعتماد تھا. پروگرام شروع ہوا اور میری ترجمے کی باری آئی. اسٹیج پر میرا نام پکارا گیا اور میں لرزتا کانپتا مائیک کے سامنے آکھڑا ہوا. ترجمہ کرنے کے لئے منہ کھولا تو لگا کہ جیسے آواز چلی گئی ہو. لاچارگی سے سامنے دیکھا تو سامعین میں سے کچھ گھور رہے تھے تو کچھ مجھ پر ہنس رہے تھے. دماغ ماؤف ہوگیا اور الفاظ مفقود. بڑی مشکل سے سوری کہا اور اسٹیج سے اتر آیا. لوگ ہنس رہے تھے، دوست مذاق اڑا رہے تھے اور مجھ پر ذلت کا ایک شدید بوجھ تھا جس کے تلے میں دبا جاتا تھا. اسٹیج کے پیچھے والدہ اور ٹیچر دونوں میرے پاس آئے تو میں نے روتے ہوئے قسم کھانی چاہی کہ اب کبھی اسٹیج پر نہ آؤں گا. لیکن والدہ نے لپک کر تسلی دی کہ کیا ہوا جو تم بول نہ سکے؟ تم نے حصہ لیا اور کوشش کی یہی سب سے اہم ہے. اگلی دفعہ بول بھی لو گے. میں نے نفی میں سر ہلادیا. اس دن میرے کزن کو بہترین تقریر کرنے پر پہلا انعام دیا گیا اور میں ایک شکست خوردہ انسان کی طرح خود کو چھپاتا رہا. وہ ہیرو تھا اور میں زیرو. والد نے بھی خوب ہمت بندھائی اور ناراض ہونے کی بجائے مجھے میری پسند کی جگہ کھانا کھلانے لے گئے. اس بہترین برتاؤ کے باوجود میں اندر سے ٹوٹ چکا تھا.
.
اس واقعہ کے ایک سال بعد کراچی میں سیرت النبی ص پر ایک بہت بڑے تقریری مقابلے کا اعلان کیا گیا جس میں شہر کے نمائندہ اسکولز نے شرکت کرنی تھی اور جسے میڈیا کی کوریج حاصل تھی. اس کے انتخابی مرحلے کا اسکول میں مہینوں پہلے اعلان کردیا گیا اور اسکے لئے بچوں ہی کے ہاتھوں اسکول لیٹر گھر بھیجا گیا. مجھے معلوم تھا کہ اگر یہ لیٹر میری والدہ کے ہاتھ لگ گیا تو انہوں نے مجھے کوشش کرنے پر مجبور کردینا ہے. میں نے لیٹر چھپا لیا مگر ہائی ری قسمت کہ جہاں چھپایا ، وہاں والدہ نے صفائی کی نیت سے تلاشی لے لی اور یوں ان کے علم میں آگیا. حسب توقع مجھے والدہ نے اپنی محبت سے مجبور کردیا کہ میں کوشش تو کروں اور اگلے ہی روز میرے ساتھ اسکول جاپہنچی. انتخابی مراحل کے دو ابتدائی مرحلے ہوچکے تھے اور اس روز تیسرا اور حتمی مرحلہ تھا. والدہ نے استادوں کو راضی کیا کہ وہ مجھے بھی سن لیں. میں نے آدھے دل سے پڑھا مگر پھر بھی استادوں کو بھا گیا. انہوں نے مجھے ہی بھیجنے کا فیصلہ کردیا. یہ فیصلہ جہاں میرے والدین کیلئے خوشی کی نوید تھا وہاں میرے لئے گویا موت کے پروانے سے کم نہ تھا. دن رات تیاری کرکے تقریر تیار کی اور اٹھتے بیٹھے اسے یاد کرتا رہا. رات میں سوتے ہوئے بھی اپنی سابقہ ذلت کا منظر سامنے آجاتا اور میں گھبرا کے اٹھ بیٹھتا.
.
مقابلے کا دن آیا اور ہم میزبان اسکول میں جاپہنچے. ایک سے ایک تقریریں ہوئیں اور سب سے بہترین تقریر میزبان اسکول ہی کی ایک لڑکی نے کی. میرا نام پکارا گیا تو والد نے مسکرا کر ہمت بندھائی. اسٹیج پر گیا اور تقریر کا آغاز کردیا. کچھ ہی دیر میں مجھے احساس ہوا کہ سننے والے بھی انہماک سے سن رہے ہیں اور کچھ خواتین تو رونے لگی ہیں. ابھی میری تقریر آدھی ہی ہوئی تھی کہ اچانک مائیک بند ہوگیا اور کچھ کے بقول میزبان اسکول کی طرف سے بند کردیا گیا تاکہ میں گھبرا جاؤں اور پھر انعام ان ہی کی طالبہ کے پاس آئے. اللہ اعلم. مائیک بند ہوتے ہی میرے چہرے پر گھبراہٹ آئی تو والد اپنی نشست سے کھڑے ہوکر پکارے کہ عظیم دگنی آواز سے بولو. والد کی صدا نے مجھ میں نئی قوت پھونک دی اور میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ زور و شور سے بولا. تقریر ختم ہوئی تو نہ صرف تالیاں بجتی رہیں بلکہ بہت سے استاد مجھے چمٹا کر پیار کرنے لگے. آخر میں مجھے پہلا انعام دیا گیا. لوگ غول بنا کر مجھے گاڑی تک چھوڑنے آئے. اگلے روز اسکول میں والہانہ استقبال ہوا اور کچھ لوگوں نے تو آٹوگراف تک لیا. ایک ہی دن میں مجھے وہ عزت حاصل ہوئی جس کا تصور بھی میرے گمان میں نہ تھا. اس کے بعد میں نے یکے بعد دیگرے تقریری مقابلے جیتے، کالج آیا، یونیورسٹی آئی مگر میری جیت کا سلسلہ نہیں رکا. شہری اور ملکی سطح کا کوئی اعزاز شاید ہی ایسا ہو جسے حاصل نہ کیا ہو. میری مہنگی یونیورسٹی نے نہ صرف میری فیسیں معاف کردیں بلکہ طرح طرح کے مالی انعامات بھی مجھے ملتے رہے. اسی کی بنیاد پر مجھے مختلف آن اسکرین اور آف اسکرین آفرز آتی رہی، اخباروں میں انٹرویوز آتے رہے اور آج تک اسی فن خطابت کے ثمرات مجھے مختلف طریق سے حاصل ہوتے رہے ہیں. کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہوتا؟ اگر میں پہلی ذلت سے گھبرا کر کوشش ترک کردیتا؟ کیا ہوتا جو میرے والدین نے میری ہمت بندھا کر مجھے کوشش کرنے پر مجبور نہ کیا ہوتا؟ کیا ہوتا جو اس دن والدہ کو میرا چھپایا ہوا لیٹر نہ ملا ہوتا؟ الحمدللہ کہ ایسا کچھ نہ ہوا اور میں یہ بھی سمجھ پایا کہ پائیدار کامیابی کی کلید عارضی ناکامی کے بعد بھی مسلسل کوشش ہے.
.
====عظیم نامہ=====
https://www.facebook.com/groups/888075151250253/permalink/1154170201307412/
“