میری بیٹی کہتی ہے کہ میں ان دنوں کچھ زیادہ سوچنے لگا ہوں، مجھے باہر ٹہلنا گھومنا چاہیے ۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ پہلے کی طرح سڑکیں ناپوں، نیون لائٹس میں غسل کروں، لوکل اسٹیشن کے ویران پلیٹ فارم میں بیٹھ کر آخری لوکل کا انتظار کروں۔ لیکن پھر اس ماسک کا خیال آتا ہے جسے پہننے کے بعد میرا دم گھٹتا ہے، میری پہچان بدل جاتی ہے ۔ نہیں ، میں باہر نہیں جاؤں گا اس وقت تک جب تک میرے ساتھ میری یادیں ہیں۔ میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے اپنی یادیں بہت خرچ کرنے لگا ہوں تاکہ زندہ رہ سکوں حتیٰ کہ شام تک میرا چہرہ سرخ ہوجاتا ہے ۔ مجھے کفایت شعار ہونا ہوگا بلکہ کسی کنجوس کی طرح اپنی یادوں کی ایک ایک ریزگاری کو سنبھالنا ہوگا ورنہ میں جلدی مرجاؤں گا۔
جب عروج کی تمنا نہیں ہوتی تو زوال بھی آپ کے پاس نہیں پھٹکتا۔ جب خدا سے ملاقات کی خواہش نہیں ہوتی تو شیطان بھی نہیں ڈراتا۔ جب پیمائش کام نہیں کرتی ، تب صرف تخمینہ کام کرتا ہے ، اور تخمینے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ آزمائش سے آزاد ہوتی ہے۔ ترازو کا پلڑا سب کو آزمائش کی دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ترازو پر چڑھ کر اپنی قیمت لگاؤ۔ آغاز میں ، دوسرا پلٖڑا تیزی سے اوپر جاتا ہے اور آدمی پھول کر کپا ہوجاتا ہے۔ ارے واہ! کیا کشش ثقل ہے! میں کتنا زمینی ہوں! پھر کھیل اپنا پینترا بدلتا ہے۔ بغل کے خالی پلڑے پر بھی وزن ڈال دیا جاتا ہے۔ ایک ایک کرکے وزن سجائے جاتے ہیں۔ اب آدمی اٹھنے لگتا ہے، زمین چھوٹنے لگتی ہے۔ وہ اپنے پاؤں پٹختا ہے ، پلڑے پر اچھلنے کودنے لگتا ہے۔ لیکن ترازو کیا معمولی بلا ہے جو کسی کی دھونس کا اس پر اثر ہوگا؟ ترازو میں اُتار چڑھاؤ دونوں کا تعلق شرم سے ہے۔ چڑھنا اترنے کے بغیر اور اُترنا چڑھنے کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ، اور یہی عمودی سفر اپنے آپ کو ماپنے کے لیے آپ کے اندر ایک جیومیٹری باکس کو جنم دیتا ہےکہ خود کو ماپو اور دوسروں سے موازنہ کرو۔
مجھے اب ٹھیک ٹھیک یاد نہیں کہ اس وقت میری عمر کیا تھی جب وہ لڑکا مجھ پر عاشق ہوا تھا۔ شاید یہی کوئی تیرہ چودہ سال کا رہا ہوں گا۔ ساتویں کا بورڈ امتحان دینے کے بعد میں مڈل اسکول کو الوداع کہہ کر آر۔ ڈی۔ ٹاٹا ہائی اسکول میں قدم رکھ چکا تھا۔ یہ اسکول ٹاٹا اسٹیل کمپنی کا قائم کردہ ہے، اور آج بھی یہ میرے شہر کے بہترین ہائی اسکولوں میں شمار ہوتا ہے۔ جن اسٹوڈنٹس کے گارجین ٹاٹا کمپنی میں ملازم ہوتے ہیں، ان کا یہاں داخلہ فوراً ہوجاتا ہے اور فیس بھی برائے نام دینی ہوتی ہے۔ اسکول کی انتظامیہ، ٹیچرز، ڈسپلن اور دوسری سہولتیں کمال کی ہوتی تھیں اور شاید اب بھی برقرار ہیں۔ خیر، اس اسکول میں پہلا قدم رکھتے ہی خواہ مخواہ اپنے بڑے ہونے کا احساس ہوا، جیسے ترازو کے پلڑے پر پہلا قدم رکھا ہو اور خود کو وزنی سمجھنے کا یہ پہلا ذائقہ تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ بغل والے پلڑے پر ابھی وزن رکھنا باقی تھا۔
پھر یوں ہوا کہ ایک دن دوسرے پلڑے پر وزن رکھ دیا گیا اور میرے پاؤں نے زمین چھوڑ دیا۔ اس کا نام لطیف تھا، عمر میں مجھ سے دو تین سال بڑا تھا۔ ایک ہی کلاس میں مسلسل کئی سالوں کی ثابت قدمی نے اس کی عمر میں اضافہ کردیا تھا۔ دبلا پتلا سا، سیاہی سے جھلسا ہوا چہرہ، آنکھوں میں شرارت اور گالیوں میں غضب کی روانی اور فراوانی۔ وہ پورے اسکول میں اپنے چھچھورے پن کے سبب جانا جاتا تھا۔ صرف میری کلاس کے ہی نہیں، دوسری کلاسوں کے شریف، قبول صورت اور بطور خاص ‘چکنے’ اسٹوڈنٹس اس سے ڈرتے بھی تھے اور دوری بنائے رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ اگرچہ میرا شمار اسکول کے ‘چکنوں’ میں تو نہیں ہوتا تھا، البتہ میں ‘کیوٹ’ ضرور تھا اور تھوڑا سا ‘شرمیلا’ بھی تھا۔ پتہ نہیں اس موئے لطیف کی نظر انتخاب کب اور کس وقت مجھ پر پڑی اوراس نے میرا جینا حرام کردیا۔
پہلے اس نے مجھ سے دوستی گانٹھنے کی کوشش کی، جب وہ اس میں ناکام ہوگیا تو بدتمیزی پر اُتر آیا۔ میرے دوست تاجی نے کلاس ٹیچر سے اس کی شکایت کرنے کا مشورہ دیا، لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہوں؟ اس وقت تک میں شکوہ اور جواب شکوہ نہیں پڑھا تھا، اس لیے آداب شکوہ سے ناواقف تھا۔ میں پوری کلاس کے سامنے مذاق کا نشانہ نہیں بنناچاہتا تھا۔ تمام انسانی جذبات میں ، شرم کا اپنا علیحدہ مقام ہے۔ ایسی انوکھی پیچیدگی جو الفاظ کی کمی کی وجہ سے زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ انسان کے اس بنیادی احساس کے وسیع نفسیاتی پھیلاؤ کے بعد بھی ہم اس کے لیے مختلف اور واضح الفاظ نہیں بنا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بہت ساری جگہوں پر مختلف شکلوں میں شرم محسوس کرتے ہیں ، یا اس کے بجائے ہم بہت ساری مختلف ذہنی حالتوں کو شرم کہتے ہیں۔ میری اس ذہنی حالت نے لطیف کو شہہ دے دی۔
تاجی میرا بیسٹ فرینڈ تھا، میرے ہی محلے میں رہتا تھا، ہم ساتھ ساتھ اسکول آتے جاتے تھے۔ میں کوشش کرتا تھا کہ اسکول میں جب تک رہوں، تاجی کے ساتھ رہوں، چونکہ مجھے اکیلا دیکھ کر لطیف دھمک پڑتا اور اپنے ‘مطالبات’ کو کبھی لگاوٹ کے انداز میں اور کبھی دھمکی بھرے لہجے میں دہرانے لگتا اور کبھی کبھی پیچھے سے آکر مجھے دبوچ لیتا اور میرے گالوں پر اپنے دانت گاڑ دیتا ، یا پھرمیرے کولہے پر ہاتھ مارتا ہوا بڑی ڈھٹائی سے ہنستا ہوا نکل جاتا۔ یہ نفسیاتی دباؤ مجھ پر اتنا بڑھنے لگا کہ میں بلا ضرورت اسکول سے ناغہ تک کرنے لگا۔ حالاں کہ تاجی ہمیشہ میرے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا اور اس کے سامنے لطیف میرے آس پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا، لیکن میں خوف کے سائے میں سانسیں لے رہا تھا۔ یہاں ایک چیز واضح کردو ں کہ لطیف غنڈہ نہیں تھا بلکہ چھچھورا تھا، اس لیے وہ کمزوروں کو اپنا تختہ مشق بناتا تھا۔ اس نے بھانپ لیا تھا کہ لڑکا ڈر گیا ہے، لہٰذا اس نے مجھ پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا۔ لیکن اس سے وہی غلطی ہوگئی کہ وہ ترازو کے دوسرے پلڑے کو خالی دیکھ کر خود کو وزنی سمجھنے لگا تھا۔
“بس بہت ہوگیا، چل یہ سب ختم کرتے ہیں۔” دوسرے دن میرے ساتھ اسکول آتا ہوا تاجی پھسپھسایا۔ میں جو ڈرا، سہما اس کے ساتھ سر جھکائے چل رہا تھا، اس کے اس جملے پر میں نے اس کی طرف دیکھا۔ تاجی نے چلتے چلتے ہی اپنے اسکول بیگ کی زِپ کھولتے ہوئے مجھے دکھایا۔ کتابوں کے ساتھ وہاں ایک سائیکل چین آرام کر رہی تھی۔ میں سمجھا نہیں، اس نے سمجھانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ پھر اس نے بیگ کے دوسرے خانے کی زِپ کھولی، وہاں ایک چمڑے کا بیلٹ نظر آیا جو شاید اس کے بڑے بھائی کا تھا ، اس کا بھائی ہمیشہ عجیب و غریب قسم کے بیلٹ بدلتا رہتا تھا۔ تاجی جو بیلٹ چرا کرلایا تھا، اس پر اسٹیل کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ میں چلتے چلتے رک گیا اور اس کی طرف گومگو کی کیفیت میں دیکھنے لگا۔ تاجی نے میری طرف دیکھتے ہوئے صرف سر ہلایا اور میں سب کچھ یکلخت سمجھ گیا، بغل والے پلڑے پر وزن رکھنے کا وقت آگیا تھا۔
اس کے بعد کا قصہ حسب توقع ہے۔ لطیف سے اسکول کے گیٹ پر ہی ملاقات ہوگئی تھی، وہ وہاں کسی چکنے اور معصوم لڑکے پر طبع آزمائی کررہا تھا۔ مجھے آتا ہوا دیکھ کر وہ میری جانب لپکا۔ ایک روز پہلے کی کامیابی نے اس کے حوصلے بلند کررکھے تھے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ میری طرف لپکتا، تاجی کے ہاتھوں میں لپٹا ہوا بیلٹ اس کی پیٹھ پر پڑا۔ وہ تلملا کر اس کی طرف پلٹا تو میرے ہاتھ میں لپٹی ہوئی سائیکل کی چین اس کی کمر کو بوسہ دیتے ہوئے نکل گئی۔ اب وہ بوکھلا گیا۔ اس کے قدم کو پیچھے ہوتا دیکھ کر میرے پورے جسم میں ایک ناقابل بیان سنسنی دوڑ گئی۔ میں اور تاجی دونوں اس کی طرف بڑھنے لگے۔ اب وہ بھاگ رہا تھا اور ہم اس کے پیچھے پیچھے سائیکل چین اور بیلٹ لہراتے ہوئے دوڑ رہے تھے۔ پورا اسکول اپنی اپنی کلاس کے باہر کھڑا یہ ‘ایکشن فلم’ بنا ٹکٹ کے دیکھ رہا تھا، کچھ اسٹوڈنٹس سیٹیاں بجا رہے تھے اور کچھ شور مچا رہے تھے، فقرے کس رہے تھے۔ ہمارا اسکول بڑا وسیع و عریض تھا، لطیف ہم سے بچنے کے لیے پورے اسکول میں بھاگتا پھر رہا تھا، میدان، راہداری، لیبارٹری، کلاس روم، کانفرنس ہال، کوئی جگہ نہیں بچی تھی جہاں ہم نے اس سے ‘جاگنگ’ نہ کروائی ہو۔ بالآخر وہ بھاگتے ہوئے وائس پرنسپل کے کمرے میں گھس گیا۔ ہم وہاں سے چپکے سے کھسک لیے۔ اس بیچارے کے پاس بھی ہماری شکایت کرنے کے لیے الفاظ نہ تھے اور وہی شرم آڑے آگئی جو کبھی میرا راستہ روکے کھڑی ہوتی تھی، شرم بھی کیا بیسوا چیز ہے، کسی کے پاس نہیں ٹکتی، ہمیشہ اپنی جگہ بدلتی رہتی ہے۔ لطیف اور اس کی یہ بیسوا کئی دنوں تک اسکول سے غائب رہے۔ قصہ مختصر، اس طرح میری شرم نے جیومیٹری باکس کا روپ دھار لیا۔
معروف فرانسیسی مصور ہنری ماتیس (Henry Matisse) کہتا تھاکہ ایک فن کار کو ہر چیز ایسے دیکھنی چاہیے جیسے وہ اسے پہلی بار دیکھ رہا ہو، جیسے وہ انھیں تب دیکھتا ہے جب وہ بچہ تھا۔ میں ان سطور کو لکھتے ہوئے ہر چیز کھلی آنکھوں کے بجائے بند آنکھوں سے بہتر دیکھ پا رہا ہوں۔
مجھے بہت ساری چیزیں یاد آتی ہیں ؛ اپنا گھر، آنگن، اسکول، کالج، دوست، دشمن، لڑائیاں ، جھگڑے، عشق، نفرت، سازش، عید، محرم وغیرہ سب کچھ لیکن اس طرح نہیں جس طرح دوسرے یاد کرتے ہیں۔ مجھے اپنی یادوں کے نیم روشن کمرے میں موجود لوگوں کی نہیں بلکہ اس کمرے میں پرورش پا رہی ان چیزوں کی یاد آتی ہے جن کو ایک نظر میں سمجھا اور پیار کیا جا سکتا ہے۔ وہ چیزیں جو اپنی اصلیت پردوں کے پیچھے چھپائے نہیں رکھتیں۔ وہ جیسی ہوتی ہیں، ویسی ہی نظر آتی ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے نیچے گرے ہوئے جامنوں کی میٹھی خوشبو مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہو اور کلاس شروع ہونے کا انتظار کررہی اسکول کی کھڑکیاں جو میرے ہاتھوں سے کھلنے کے لیے میرا منھ تک رہی ہوں۔ میں آنکھوں میں انوکھی چمک کے ساتھ جنما تھا۔ گھر کے ہر کونے میں کچھ جادوئی چیزیں تلاش کرنے کے تجسس میں کبھی ہنسا تو کبھی رویا۔
سید احمد حسین ایک متجسس شخص کا نام تھا۔اونچا قد، کسرتی جسم، سرخی مائل سفید رنگت ، پاٹ دار آواز، آنکھوں میں ایک طرح کی خشونت، سر پر گہرے سیاہ بال جو ہمیشہ الٹی سمت میں لیٹے رہتے تھے، کلین شیو، سفید ہاف شرٹ اور سفید پینٹ، پاؤں میں ایمبیسڈر کے سیاہ جوتے اور ایک عدد سائیکل ؛ ابا کی دو تصویروں میں ایک تصویر ایسی تھی۔ دوسری تصویر بہت بعد میں بنی ۔ پہلی تصویر اوریجنل تھی ، خالص نہیں تھی۔ مجھے برسوں بعد سمجھ میں آیا کہ خالصیت اور اوریجنلٹی دو علیحدہ چیزیں ہیں اور یہ کہ خالص ہونے سے زیادہ اہم اوریجنل ہونا ہے۔ میں ان دنوں کی بات کررہا ہوں جب خالص مسلمان ہونا یا کم از کم نظر آنا روزمرہ کی ترجیحات میں شامل نہ تھا، جب ’خدا‘ پر ’اللہ‘ مسلط نہیں کیا گیا تھا، جب دوران گفتگو بات بات پر سبحان اللہ، الحمد اللہ، ماشااللہ وغیرہ کا ورد جاری نہ ہوا تھا، جب جوان لڑکو ں کے درمیان ’سنت نبویؐ‘ کو اُگانا فیشن کے زمرے میں داخل نہ ہوا تھا، جب بوڑھوں کی گفتگو کا محور فلسطین، امریکہ اور یہودی نہ تھے اور جب اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ اگرچہ فرقہ وارانہ فسادات اس وقت بھی جاری تھے لیکن ان کے اثرات وقتی ہوا کرتے تھے اور صرف اسی علاقے تک محدود ہوتے تھے۔ عید، دیوالی، ہولی ، محرم سب ہمارے مشترکہ تہوار تھے۔ میں نے ایک اوریجنل ملک میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں جو اس وقت تک خالص نہ ہوا تھا۔ سید احمد حسین بھی خالص نہ تھے۔ ان میں اکڑ فوں بہت تھی۔ گھرسے محلے تک میں ان کی دھاک تھی۔ مختلف سماجی اور فلاحی اداروں کے صدر اور جنرل سکریٹری کے منصب پر قبضہ جمائے ہوئے تھے۔ جس اجتماعی فیصلے میں وہ شریک نہ ہوتے، اسے ادھورا سمجھا جاتا۔
میں نے جب آنکھیں کھولیں ، اس وقت ہمارے گھر میں ایک دبلی پتلی سانولی سلونی ماں، ایک تلوار، ایک بھالا، تیل پلائی ہوئے بھوری بھوری چھ لاٹھیاں، سات کھاٹیں اور چار رنگ برنگی بہنیں تھیں، تین میرا انتظار کرتے کرتے پہلے ہی گزر چکی تھیں۔ ابا مذہبی ہر گز نہ تھے بلکہ اس وقت تک وہ مذہب سے تقریباً لاتعلق تھے، جمعہ کی نماز بھی وہ شاذ و نادر ہی پڑھنے جایا کرتے تھے، البتہ عیدین کی نماز وہ بڑے اہتمام سے ادا کرتے۔ میری ماں عام ماؤں جیسی تھی لیکن ابا سے تھوڑی زیادہ پڑھی لکھی، اس نے مجھے ابتدائی ٹیوشن بھی دیا تھا۔ اس کی ہینڈ رائٹنگ بہت خوب صورت تھی، بالکل بادامی بگلوں (Cattle egret)کی چونچوں کی طرح ۔ ابا کی ہینڈ رائٹنگ بھی اچھی تھی لیکن ان کی تحریر وں کے دہانے مشک کے منھ سے مشابہ تھے۔
ابا کی یہ دوسری شادی تھی۔ پہلی شادی کا مجھے پتہ نہیں، کب ہوئی، کس سے ہوئی اور کب چھوٹی۔بڑی بہنوں کو تھوڑا بہت پتہ تھا لیکن وہ بھی صرف سنی سنائی باتیں تھیں چونکہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی اس عورت سے ابا نے قطع تعلق کرلیا تھا۔ میری بہنیں دبی زبان میں بتاتی تھیں کہ وہ بہت اچھی عورت تھی اور نہایت ہی خوب صورت اور ’خاندانی‘ تھی۔ اس نے ابا کی دوسری شادی کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیا، نہ کوئی ہنگامہ نہ کوئی مطالبہ۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہو کہ اس زمانے میں ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ اور ’گھر گھر کی کہانی‘ جیسے سیریل ہمارے گھروں میں میلوڈراما پیدا کرنے کے لیے منصہ شہود پر نہ آئے تھے۔ خیر، سبب جو بھی ہو لیکن میں نے ہمیشہ اس عورت کو ایک بار دیکھنے کی خواہش کی گرد ن مروڑتا رہا۔میں کبھی ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں لگاپایا کہ میں اس سے کیوں ملنا چاہتا تھا، شاید اس لیے کہ میں خود کو اس کا قصور وار سمجھتا تھا ، مجھے برسوں پہلے اس کی کوکھ سے پیدا ہوجانا چاہیے تھا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہی اچھا ہوتا جو میں اپنے باپ کے مادۂ منویہ کی پیداوار نہ ہوتا بلکہ صرف ماں کے رحم کی جیل میں کھیلتا ہوا، لات مارتا ہوا وہیں اپنی دنیا بسا لیتا۔ مجھے کسی کی ترک کردہ روشنی کی ناجائز اولاد ہونا قبول تھا لیکن اس کی مونچھ کا اکلوتا سفید بال بننے کا اعزاز مجھے منظور نہ تھا۔
ابا نے مجھے ’مرد‘ بنانے کی کافی کوشش کی۔ وہ محرم کے ابتدائی دس دنوں میں لاٹھی چلانا سکھاتے تھے۔ ابا خود ایک اچھے لٹھیت اور تلوار باز تھے۔ وہ جب مجمع میں لاٹھی لے کر اترتے تو چاروں طرف سے ’اللہ اکبر‘ کی آواز گونج اٹھتی اور مقابل کے قدم لڑکھڑانا شروع ہوجاتے تھے۔ ابا مرد تھے اور وہ مجھے بھی اپنی طرح بنانا چاہتے تھے۔ ہر باپ اپنے بیٹے کو اپنی تصویر بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ اسے ٹیبل فوٹو فریم میں جڑ کر خود کو نہار سکے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہ کرسکا۔ مجھے فریم میں جکڑے جانا شروع ہی سے ناپسند تھا۔ میں ہمیشہ فریم توڑ کر باہر نکل جاتا، یہ عادت اب بھی قائم ہے۔ اپنی کامیابی، ناکامی،مزاج، اسلوب اور موضوع کے فریم توڑکر رہائی حاصل کرنا دراصل میرے خمیر میں شامل ہے۔ بے شک اس عادت نے مجھے کئی چیزوں میں ناکام کیا ہے لیکن میں کبھی ڈرا نہیں، کبھی اپنے قدم پیچھے نہیں کیے۔ کئی خیر خواہوں نے مجھے بار بار مشورے دیے کہ مجھے اپنے برتاؤ میں نرمی لانے کی ضرورت ہے، لیکن مجھے پتہ ہے کہ میں نرم ہوں البتہ کسی کیچوے کی طرح لجلجا کبھی بن نہ پاؤں گا۔ اکثر لوگ دونوں کو ایک دوسرے کا متبادل سمجھتے ہیں۔ ہم کیچوؤں کے درمیان رہتے ہیں جو اپنی برادری میں آپ کو شامل کرنے کے لیے رات دن مصروف ہیں۔ میں آج بھی اس 60سال کی عمر میں آشوب چشم، شوگر ،بلڈپریشر اور کیچوؤں سے خود کو محفوظ رکھنے کی فکر میں لگا رہتا ہوں۔
ہم کسی مضحکہ خیز کہانی کو جتنی دیر تک دھیان سے دیکھتے ہیں ، وہ اتنی ہی اداسی سے پُر ہوجاتی ہے۔ پتہ نہیں کس نے کہا تھا کہ جب ہم اونچائی سے کسی کھائی کو دیکھتے ہیں تو پہلے پہل ہم ہی اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد احساس ہونے لگتا ہے کہ کھائی بھی آپ کو گھور رہی ہے۔آج جب میں اس کھائی کو دیکھ رہا ہوں تو مجھے یہی محسوس ہورہا ہے کہ واقعات ہمیشہ حقائق سے کمتر ہوتے ہیں۔ اپنے بارے میں لکھتے ہوئے پہلی بار یہ احساس ہورہا ہے کہ میری زندگی کے حقیقی کردار شاید میرے ناول کے تصوراتی کردار جتنے سچے نہ ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زندہ کردار کبھی غیر جانب دار نہیں ہوسکتے۔ میرا بچپن بہت ادھورا سا تھا۔مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے بہت سارے cctv میرے چاروں طرف نصب ہوں۔ مجال ہے کہ مجھے کبھی ان سے رہائی نصیب ہو۔ ہر جگہ نظریں میرا تعاقب کرتی رہتی تھیں۔ بھوک لگنے سے پہلے میرے منھ میں کھانا ٹھونس دیا جاتا تھا، ضد کرنے سے پہلے ہی مطلوبہ چیزیں حاضر کردی جاتی تھیں، چھینکنے اور کھانسنے سے پہلے دوا پلادی جاتی تھی، حتیٰ کہ گرنے سےپہلے مجھے سنبھال لیا جاتا تھا۔ لڑکھڑانے، گرنے، ضد کرنے ، بیمار پڑنے ، بھوک لگنے وغیرہ جیسی لذتوں سے میں کبھی بہرہ یاب نہیں ہو پایا ۔اکلوتے ہونے کا کرب صرف خدا ہی سمجھ سکتا ہے۔
کبھی کبھی جب میں تنہا ہوتا ہوں، اتنا تنہا کہ ایک سرگوشی جو ہوا کو گدگدا دیتی ہو، وہ میرے اور خاموشی کے درمیان آکر کھڑی ہوجائے تو پھر ہم بات کرتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہوا بات کرتی ہے اور میں صرف سنتا ہوں۔ممکن ہے کہ آپ مجھے پاگل سمجھ رہے ہوں ، لیکن اگر آپ بھی کبھی آنکھیں بند کرلیں اور ہوا کو اپنے چہرے کو چوم کر نکل جانے کی اجازت دیں ، اگر آپ ایک بار سوچ کر رائے قائم کرنے کی بجائے چیزوں کو صرف سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ہوا ہمارے ارد گرد موجود سب سے زیادہ سمجھدار موجودگیوں میں سے ایک ہے۔ ۔ہوا مجھے بتاتی ہے کہ ہم شاذ و نادر ہی چیزوں کو ٹھیک طور پر سمجھ پاتے ہیں اور اکثر چیزوں کو غلط نظریے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میرا یقین کیجیے، دنیا میں آنے کا میرا اپنا کوئی ارادہ نہیں تھا، میں اپنے والدین کی درخواستوں کو ردّ کرتا رہا اور ہر بار کسی نہ کسی بہن کی آڑ میں خود کو چھپاتا رہا، دیکھتے دیکھتے میرے گھر میں بہنوں کی ایک چھوٹی سی رجمنٹ تیار ہوگئی۔ لیکن والدین کے ہاتھوں میں اب بھی کمان تھی، وہ اس جنگ کو جاری رکھنا چاہتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ اجمیر کے فقیر کی سفارش آگئی، میں بھی انکار کرتے کرتے اُکتا چکا تھا، سوچا چلو دیکھتے ہیں اپنی مرضی کے خلاف جانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ انسان کو کبھی کبھی اپنی مرضی کے خلاف بھی کچھ فیصلے لینے کا تجربہ کرنا چاہیے کیوں کہ خود کو ردّ کرنے میں جو ابلیسی لذت حاصل ہوتی ہے، وہ دنیا بھر کی تخلیقات مل کر بھی آپ کو نہیں پہنچا سکتیں۔
14ستمبر 1961، برو ز جمعرات، صبح چار بج کر پینتالیس منٹ ۔
میرے جنم کا یہی بیورا لکھا ہے ابا کی چھوٹی سی سرخ ڈائری میں (تصویر اسی ڈائری کی ہے)۔ ابا کی عادت تھی کہ وہ اپنی ہر اولاد کی پیدائش کی پوری تفصیل اپنی اس ڈائری میں درج کرلیا کرتے تھے۔ صرف پیدائش کی ہی نہیں بلکہ عقیقہ ، ختنہ اور شادی کی تفصیلات بھی اس میں شامل ہوتیں اور ساتھ ہی ان تقریبات (یا حادثات) میں جتنے پیسے خرچ ہوتے، ان کے آنہ آنہ پائی پائی کا حساب بھی داخل دفتر ہوجاتا۔ دراصل ابا سر تا پا ایک جیومیٹری باکس تھے۔ اس جیومیٹری باکس میں ہر چیز اپنی جگہ قرینے سے رکھی مل جاتی تھی۔ کمپاس، راؤنڈر، اسکیل، پروٹیکٹر،شارپنر، ربر، پنسل وغیرہ سب کچھ وہ بقدر ضرورت استعمال میں لاتے تھے ۔ ابا کو رخصت ہوئے برسوں گزر گئے، ان کی بہت سی نشانیاں گم ہوگئیں ، کچھ ٹوٹ بکھر گئیں لیکن ان کا وہ ’جیومیٹری باکس‘،یعنی وہ خستہ سی سرخ ڈائری میرے پاس اب بھی موجود ہے جس کے ایک کونے میں میرے نام کے ساتھ لکھا ہے کہ انھوں نے مڈل اسکول میں میرے داخلے کے وقت میری عمر میں کچھ مہینوں کا اضافہ اس لیے کردیا تھا چونکہ ان کے کلکولیشن کے مطابق جب وہ ٹاٹا اسٹیل کی ملازمت سے ریٹائر ہوں گے تو میں میٹرک بھی کرچکا ہوں گا اور 18سال کا بھی ہوجاؤں گا، اس طرح ان کی جگہ اس ملازمت کا حق دار ہوجاؤں گا ورنہ اپنی اصل تاریخ پیدائش کے سبب یہ خوف دامن گیر تھا کہ میں ا ن کے ریٹائر ہونے سے ایک سال پہلے میٹرک سے فارغ نہ ہوجاؤں اورایک سال خواہ مخواہ بے روزگار بنا گھومتا پھروں۔ لہٰذا میری تاریخ پیدائش میرے والد نے 6جنوری 1960مقرر کردی ۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ مجھے کسی بھی فریم میں جڑا اور جکڑا نہیں جا سکتا، میں نویں کلاس میں فیل ہوگیا اور ابا کی جیومیٹری باکس اوندھے منھ گر پڑی۔یہ اور بات ہے کہ انھوں نے اس کی جلد ہی مرمت کرکے اس کے ساز و سامان دوبارہ اپنی جگہ پر سجا دیے۔
میرے دنیا میں آنے سے پتہ نہیں کون زیادہ خوش تھا؛ میری ماں، میری بہنیں ، میرے ابا یا محلے والے؟ اس زمانے میں موبائل نہ تھا کہ لوگ وہاٹس ایپ پر یا فون پر مبارکباد دیتے، اس وقت ایک ہی طریقہ تھا کہ صاحب جشن کے گھر جا دھمکو، چائے پیو، مٹھائیاں کھاؤ اور لوگوں کا وقت حسب استعداد ضائع کرو۔ لیکن میری پیدائش کے وقت اس کے برعکس ہوا، یعنی محلے والوں نے خود ہی مٹھائیاں تقسیم کیں اور میرے گھر کے سامنے شادیانے بھی بجائے، البتہ انھیں چائے میری بہنوں نے پلائی۔ اس ہنگام ہاؤ ہو میں لوگ آپس میں لڑپڑے کہ بچے کا نام کیا ہونا چاہیے، کوئی کچھ تجویز دے رہا تھا تو کوئی کچھ اور ہر تجویز کے ساتھ اس نام کو رکھنے کی تاویلات کا پلندہ بھی عرض گزار کردیا جاتا۔ ابا کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے، سو انھوں نے سب کے تجویز کردہ ناموں کو ایک ایک پرچی میں لکھنے کا حکم سنایا۔ سب نے جلدی جلدی اپنی پسند کے نام لکھ ڈالے ، ممکن ہے کچھ لوگوں نے اپنے مرحوم عزیزوں کے نام بھی لکھ دیے ہوں۔ خیر تمام پرچیوں کو موڑ کر ایک پیتل کی ہانڈی میں ڈال دیا گیا جس کا دہانہ چھوٹا تھا۔ پھر اس ہانڈی کو خوب اچھال اچھال کر تشفی کی گئی کہ تمام پرچیاں اچھی طرح آپس میں گھل مل گئی ہیں۔ پھر ایک بچے نے ایک پرچی اٹھائی۔ سب نے سانس روک لی۔ پرچے کو کانپتے ہاتھوں سے کھولا گیا تو اس پر نام لکھا تھا: اصغر حسین۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ پرچی ابا نے ہی ڈالی تھی اور اپنے باپ ہونے کا حق ثابت کردیا تھا۔ لیکن محلے والوں نے شور مچانا شروع کردیا ’’چیٹنگ ، چیٹنگ۔ ضرور احمد صاحب نے چیٹنگ کی ہوگی، ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘ دوبارہ پرچی اٹھائی گئی، پرچی اٹھانے والا بچہ بھی بدل دیا گیا۔ اس بار نام نکلا: سید امجد حسین۔ یہ نام ابا کے ایک آفس کولیگ پنکج ستیارتھ نے اپنی پرچی میں لکھا تھا۔ اس طرح ایک سیکولر اور جمہوری طریقے سے میں ’نام زد‘ ہوگیا۔برسوں گزرنے کے بعد میں نے اپنے نام کا فریم بھی توڑا اور سید امجد حسین سے اشعرنجمی بن گیا اور اسی نام سے اب گھر باہر سب جگہ پکارا جاتا ہوں، پہچانا جاتا ہوں ، یہ الگ بات ہے کہ میرے تمام سرکاری و غیر سرکاری دستاویزات میں اب بھی اسی پیتل کی چھوٹے منھ والی ہانڈی سے نکالا گیا پنکج ستیارتھ کا دیا ہوا نام درج ہے۔
میں آپ کو صرف وہی سنانا چاہتا ہوں جو میں خالی نہیں کرپایا، جو میرے اندر بچ گیا ہے۔ پھر یہ کہ خالی وہی کرتا ہے جو بھرا ہوا ہو۔ آپ اسی وقت خود کو خالی کرنے کے لیے بے چین ہوں گے جب آپ اندر تک بھر ے ہوئے ہوں۔ آپ کو کسی ایسے آدمی کی تلاش ہوتی ہے جو بغیر سوال جواب کیے آپ کو سن سکے۔ آپ اپنا سب کچھ اس میں انڈیل کر خود کو خالی کردیتے ہیں اور اسے بھول جاتے ہیں۔ کچھ دنوں، مہینوں یا کچھ برسوں بعد پھر آپ بھر جاتے ہیں اور پھرآپ کو وہی شخص یاد آتا جو آپ کے لیے ڈسٹ بین کا کام کرتا ہے۔ دوبارہ وہی سلسلہ ، خود کو بھرنے تک آپ اسے پھر بھول جاتے ہیں۔ میں کبھی کبھی خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا یہی کام کچھ فن کار تخلیق فن کرکے انجام دیتے ہیں، یعنی کیا ان کا فن ایک ’ڈسٹ بین‘ ہے جس میں وہ خود کو خالی کرتے رہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔
نہیں نہیں، آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میرے لیے وہ شخص آپ نہیں ہیں۔ میرا ڈسٹ بین میرا دوست ہے جو میرے ہی جیسا ، بالکل میرے جیسا ہے۔ میرا شریک جرم، میری طرح رات دیر تک جاگتا ہے اور صبح دیر سے اٹھتا ہے۔ میری طرح ایک زمانے میں وہ بھی بے روزگار تھا، بھوکا تھا۔جو جوانی میں میری ہی طرح گلیوں میں سیٹیاں بجاتا گزرتا تھا لیکن خوب صورت دوشیزاؤں کے ہونٹوں کے روبہ رو کانپ جاتا ہے۔ میرا دوست میرے ساتھ سنیما ہال میں قطار لگا کر کھڑا ہوا، میرے ساتھ اس نے سگریٹ پھونکا، تمباکو چبایا، کرائے کے مکانوں میں رہا، میرے ساتھ اس نے بھی دو بار خودکشی کرنے کی کوشش کی اور میری ہی طرح وہ بھی ناکام رہا۔ جب میں سیاست کے تاریک گلیاروں میں جست بھر رہا تھا تو وہ میرے ساتھ تھا،پولیس کے ڈنڈے اس نے بھی برداشت کیے، جیل کے ٹوائلٹ کے سامنے قیدیوں کے ساتھ لائن لگائے وہ بھی میرے ساتھ کھڑا تھا، جب میرے برادر نسبتی نے مجھ پر چاقو سے وار کیا تو اس کی گردن بھی کٹتے کٹتے بچی تھی، اسپتال کے بغل والے بیڈ میں وہ بھی تو تھا، عدالت کے کٹہرے میں وہ بھی جج کے سامنے کھڑا ملزموں کو پہچاننے سے انکار کررہا تھا۔ اس نے میرے ساتھ ہی اپنی گلیاں، اپنا آنگن اور بچپن چھوڑا تھا۔ نئے شہر میں وہ میرے ساتھ آیا تھا لیکن اس نے ٹرین کے ٹکٹ نہیں خریدے تھے چونکہ اس کے پاس خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔وہ ٹرین میں میرے ہی سلیپر پر سویا تھا۔ جب میں پہلا ٹی وی سیریل لکھ رہا تھا تو وہ میرے بغل میں بیٹھا ہوا کمپیوٹر اسکرین دیکھ رہا تھا اور ہنس رہا تھا۔ جب میں نے اپنے رسالے کا پہلا شمارہ نکالا تو اس کے اجرا کے وقت وہ میری کرسی کے پیچھے کھڑا رہا۔ جب میری بچی گھر سے وداع ہورہی تھی تو وہ میرے کندھے پر اپنا سر رکھ کر خوب رویا، لیکن جب ابا اور اماں رخصت ہوئے تو اس کی آنکھیں خشک تھیں اور میں رورہا تھا۔ میں اب بھی جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو وہ میرے پاس ہی بیٹھا ہوا ہے، مجھے بار بار گالیاں دیتے ہوئے جملے ایڈیٹ کرنے کے لیے کہہ رہا ہے، کئی بار میں اس کی بات نہیں مانتا، کئی بار وہ میری بات نہیں مانتا لیکن ہم گھنٹوں ایک دوسرے سے بحث کرتے ہیں؛ سب کے سامنے نہیں، تنہائی میں۔ باآواز بلند جھگڑے کرتے ہیں،پھر ایک دوسرے کے گلے لگ کر خوب روتے ہیں ، پھر روتے روتے ایک دوسرے سے لپٹ کر سو جاتے ہیں۔
اپنے اس دوست کا میں نے ایک نام رکھا ہے:
’خدا۔‘
نہیں نہیں، اس سے پہلے کہ آپ لاحول پڑھیں، بتادوں کہ میں آپ کے مقدس خدا کے بارے میں بات نہیں کررہا بلکہ میں خالص اپنے والے خدا کی بات کررہا ہوں جو بالکل میرے ہی جیسا ہے۔ ہر شخص کو اپنی پسند کا خدا رکھنے کا حق حاصل ہونا چاہیے، میرا خدا میری پسند کا ہے اور مجھے اس کا اخلاقی، سماجی ، جمہوری اور قانونی حق حاصل ہے ؛ بالکل اسی طرح جس طرح میرے باپ کو میرا نام رکھنے کے لیے جمہوری طریقہ کار اختیار کرنے کا حق حاصل تھا ۔میں نے صرف یہ کیا کہ اپنے دوست کا نام رکھنے کے لیے کسی سے پرچی نہیں اٹھوائی، خود رکھ دیا۔ میں یہ باتیں اپنی کہانی کو زیادہ سنسنی خیز یا زیادہ تخلیقی بنانے کے لیے نہیں کر رہا ہوں، اس میں علامت و استعاروں کی بھی کوئی دخل اندازی نہیں ہے، بلکہ آپ کے سامنے صرف اپنے کپڑے اتار رہا ہوں چونکہ میرا دوست میری کہانی میں ہر جگہ آپ کو موجود نظر آئے گا، میرے ہر فیصلے، میرے ہر اقدام، میری ہر مہم میں آپ کو اس کے درشن ہوں گے چونکہ ہم دونوں ایک ساتھ پیدا ہوئے تھے اور ایک ہی ساتھ مریں گے۔
کبھی کبھی جب میں تنہا ہوتا ہوں، اتنا تنہا کہ ایک سرگوشی جو ہوا کو گدگدا دیتی ہو، وہ میرے اور خاموشی کے درمیان آکر کھڑی ہوجائے تو پھر ہم بات کرتے ہیں۔۔۔
(جاری ہے)
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...