(نوٹ:پنجند ڈاٹ کام پرقدرت اللہ شہاب کا فن پارہ’’بملا کماری کا آسیب‘‘پڑھا توچودھری ظفراللہ خان صاحب کی کتاب’’میری والدہ‘‘کا ایک روشن باب یاد آگیا۔
میں نے اس باب کو جدیدادب جرمنی کے شمارہ نمبر ۹ میں ایک نوٹ کے ساتھ شائع کیا تھا۔اسی نوٹ سمیت یہ تحریر بھی پنجند ڈاٹ کام کے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: اردو ادب میں والدہ کے بارے میں خاکہ یا مضمون لکھنے کے حوالے سے عام طور پر قدرت اللہ شہاب کے خاکہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر محمد ظفراللہ خان نے ۱۹۳۸ء میں اپنی والدہ محترمہ کے بارے میں ایک کتابچہ’’میری والدہ‘‘کے نام سے شائع کیاتھا۔اسے طویل خاکہ بھی کہا جا سکتا ہے۔اس کا ایک حصہ یہاں پیش کررہا ہے۔اردو ادب کا غیر متعصبانہ مطالعہ کرنے والے قارئین کے لئے ماں کے بارے میں لکھی گئی گنی چنی نثری تحریروں میں سے یہ ایک نایاب تحریر ہے۔حیدر قریشی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری پیدائش سے قبل میرے والدین کے پانچ بچے فوت ہو چکے تھے۔ان میں سے پہلے تین کی پیدائش اور وفات اس زمانہ میں ہوئی جب میرے والد صاحب ابھی طالب علم ہی تھے اورآخری دو کی ان کی مختاری اور وکالت کے زمانہ میں۔ ان میں سے ہر ایک بچہ کی وفات میری والدہ صاحبہ کے لئے ایک امتحان بن گئی۔جن میں ان کے ایمان کی پوری پوری آزمائش کی گئی۔لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ہر موقعہ پر ثابت قدم رہیں اور کسی وقت بھی ان کے قدم جادۂ صدق سے ادھر ادھر نہیں بھٹکے۔تفصیل تو ان واقعات کی بہت لمبی ہے ۔اختصار کے ساتھ دو تین واقعات مثال کے طور پر بیان کر دیتا ہوں۔جن سے اس امتحان کی نوعیت اور والدہ صاحبہ کے صدق اور ایمان کی وضاحت ہو جائے گی۔
ہمارے سب سے بڑے بھائی کا نام بھی ظفر ہی تھا۔والدہ صاحبہ ان سب بچوں میں سے ظفر اور رفیق کا نہایت محبت سے ذکر فرمایا کرتی تھیں اور اُ ن کی خوش شکلی کی بہت تعریف کیا کرتی تھیں۔ظفر ابھی چند ماہ کا ہی تھا کہ والدہ صاحب کا داتا زیدکا جانے کا اتفاق ہوا ۔اُن کے گاؤں میں ایک بیوہ عورت جے دیوی نام کی تھی ۔جسے لوگوں نے چڑیل یا ڈائن مشہور کر رکھا تھا اور وہ بھی اس شہرت یا بدنامی کا فائدہ اُٹھا لیا کرتی تھی۔اس موقعہ پر وہ والدہ صاحبہ کے پاس آئی اور اُن سے کچھ پارچات اور کچھ رسد اس رنگ میں طلب کی،جس سے مترشح ہوتا تھا کہ گویا یہ چیزیں ظفر سے بلا ٹالنے کے لئے ہیں۔
والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ تم ایک مسکین عورت ہو، اگر تم صدقہ یا خیرات کے طور پر کچھ طلب کرو ۔تو میں خوشی سے اپنی توفیق کے مطابق تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں۔لیکن میں چڑیلوں اور ڈائنوں کو ماننے والی نہیں۔ میں صرف اللہ تعالیٰ کو موت اور حیات کا مالک مانتی ہوں اور کسی اور کا ان معاملات میں اختیار تسلیم نہیں کرتی۔ایسی باتوں کو میں شرک سمجھتی ہوں اور ان سے نفرت کرتی ہوں۔اس لئے اس بنا پر میں تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔
جے دیوی نے کہا’’ اچھا تم سوچ لو ۔اگر بچے کی زندگی چاہتی ہو۔تو میرا سوال تمہیں پورا کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
چند دن بعد والدہ صاحبہ ظفر کو غسل دے رہی تھیں کہ جے دیوی پھر آ گئی اور بچے کی طرف اشارہ کرکے دریافت کیا:’’ اچھا یہی ساہی راجہ ہے؟‘‘
والدہ نے جواب دیا ’’ ہاں یہی ہے‘‘
جے دیوی نے پھر وہی اشیاء طلب کیں۔ والدہ نے پھر وہی جواب دیا جو پہلے موقعہ پر دیا تھا۔اس پر جے دیوی نے کچھ برہم ہو کر کہا : ـ’’ اچھا اگر بچے کو زندہ لے کر گھر لوٹیں تو سمجھ لینا کہ میں جھوٹ کہتی تھی‘‘
والدہ صاحبہ نے کہا’’ جیسے خدا تعالیٰ کی مرضی ہوگی وہی ہو گا۔‘‘
والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ ابھی جے دیوی مکان کی ڈیوڑھی تک بھی نہ پہنچی ہوگی ،غسل کے درمیان ہی ظفر کوخون کی قے ہوئی اور خون کی ہی اجابت ہو گئی۔چند منٹوں میں بچے کی حالت دگرگوں ہو گئی اور چند گھنٹوں کے بعد وہ فوت ہو گیا۔والدہ صاحبہ نے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کی۔یااللہ تونے ہی دیا تھا اور تونے ہی لے لیا۔ میں تیری رضا پر شاکر ہوں۔ اب تو ہی مجھے صبر عطا کیجیو۔اس کے بعد خالی گود ڈسکہ واپس آگئیں۔پھر کچھ عرصہ بعد رفیق پیدا ہوا ۔ظفر سے بھی زیادہ پیارا اور خوش شکل۔میرے دادا صاحب نے والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ جب تک بچہ چلنے پھرنے نہ لگے اور آپ سے الگ رہنے کے قابل نہ ہو جائے آپ کو داتا زیدکا جانے نہ دیں گے۔
رفیق دو سال کا ہو گیا اور والدہ صاحبہ اس عرصہ میں ڈسکہ میں ہی مقیم رہیں۔پھر ان کے خاندان میں کوئی وفات ہو گئی اور مجبوراََ انہیں داتا زیدکا جانا پڑا۔میرے دادا صاحب نے صرف ایک ہفتہ یا دس دن وہاں ٹھہرنے کی اجازت دی۔بلکہ پہلے تو فرمایا کہ رفیق کو ڈسکہ ہی چھوڑ دیں،لیکن یہ والدہ صاحبہ کو منظور نہ ہوا۔
داتا زید کا پہنچنے کے ایک آدھ دن بعد پھر جے دیوی آئی اور اپنا پرانا مطالبہ پیش کیا اور والدہ صاحبہ نے پھر وہی جواب دیا۔اس موقعہ پر میرے نانا صاحب نے بھی اصرار کیا کہ آخر اتنی کونسی بڑی بات ہے۔چند روپوں کا معاملہ ہے۔جو یہ مانگتی ہے ۔اسے دے دو اور اگر تمہیں کوئی عذر ہے ۔تو ہم دے دیتے ہیں۔والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ یہ چند روپوں کا معاملہ نہیں۔ یہ میرے ایمان کا امتحان ہے۔کیا میں یہ تسلیم کر لوں کہ میرے بچے کی زندگی اس عورت کے اختیار میں ہے؟یہ تو کھلا شرک ہے۔اگر میرے بچے کو اللہ تعالیٰ زندگی دے گا تو یہ زندہ رہے گا اور اگر وہ اسے زندگی عطا نہیں کرے گا ۔تو کوئی اور ہستی اسے زندہ نہیں رکھ سکتی۔میں تو اپنے ایمان کو شک میں ہرگز نہ ڈالوں گی۔بچہ زندہ رہے یا نہ رہے۔
دو چار روز بعد والدہ صاحبہ نے خواب میں دیکھا کہ اُن کے گاؤں کی ایک عورت شکایت کر رہی ہے کہ اس کے بچے کا کلیجہ جے دیوی نے نکال لیا ہے اور کسی نے اُس سے باز پُرس نہیں کی ۔اگر کسی صاحبِ اقتدار کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ جے دیوی کو ذلیل کر کے گاؤں سے نکال دیتے ۔والدہ صاحبہ نے خواب میں ہی جواب دیا کہ موت اور حیات تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ،جے دیوی کا اس میں کچھ واسطہ نہیں۔میرے بچہ کے ساتھ بھی بظاہرایسا ہی واقعہ ہوا تھا ۔لیکن ہم نے تو جے دیوی کو کچھ نہیں کہا۔
والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ میرا یہ کہنا ہی تھا کہ خواب میں میں نے دیکھا کہ گویا ایک طرف کوئی کھڑکی کھولی گئی ہے اور اُس میں جے دیوی کا چہرہ نظر آیا اور مجھے مخاطب کر کے جے دیوی نے کہا ۔’’ اچھا اب کی بار اگر بچے کو زندہ واپس لے گئیں ۔تو مجھے کھتری کی بیٹی نہ کہنا۔چوہڑے کی بیٹی کہنا۔‘‘
والدہ صاحبہ کی دہشت سے آنکھ کھل گئی، دیکھا کہ چراغ گل ہو چکا ہے ۔ والدہ صاحبہ کی عادت تھی کہ وہ اپنے سونے کے کمرے میں ضرور روشنی رکھا کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ جب بھی خواب میں جے دیوی نظر آیا کرتی تھی۔تو آنکھ کھلنے پر ہمیشہ کمرہ اندھیرا ہوا کرتا تھا ۔چنانچہ والدہ صاحبہ نے میری نانی کو آواز دی۔جو اُسی کمرے میں سو رہی تھیں۔انہوں نے چراغ روشن کیا اور روشنی ہونے پر والدہ صاحبہ نے دیکھا کہ رفیق نے خون کی قے کی ہے اور ساتھ ہی اُسے خون کی اجابت بھی ہوئی ہے اور نیم مردہ سا ہو گیا ہے ۔چنانچہ یہ بہت گھبرا ئیں۔اس خیال سے کہ اس کے دادا تو آنے ہی نہیں دیتے تھے اور اب اگر ظفر کی طرح یہ بھی یہیں فوت ہوگیا ۔تو میرا ڈسکہ میں کوئی ٹھکانہ نہیں۔
چنانچہ انہوں نے اصرار کیا کہ ابھی سواری کا انتظام کیا جائے۔میں فوراََ بچہ کو لے کر ڈسکہ جاتی ہوں۔سحری کا وقت تھا،فوراََ دو سواریوں کا انتظام کیا گیا اور والدہ صاحبہ اور نانی صاحبہ دو خادموں کے ساتھ رفیق کو اُسی حالت میں لے کر داتا زیدکا سے روانہ ہو گئیں۔جب روشنی ہونی شروع ہوئی تو والدہ صاحبہ نے دیکھا کہ رفیق بالکل مردہ سا ہو رہا ہے اور بظاہر زندگی کے آثار باقی نہیں ہیں۔فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ اُس کی موت کا وقت آ چکا ہے۔لیکن ساتھ ہی مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ قضا کو ٹال دینے پر قادر ہے۔چنانچہ میں نے گھوڑے کی باگ اس کی گردن پر ڈال دی اور دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا شروع کی کہ یااللہ تو جانتا ہے کہ مجھے اس بچے کی جان کی فکر نہیں اگر تیری رضا اس کو بلانے میں ہی ہے تو میں تیری رضا کو خوشی سے قبول کرتی ہوں۔ لیکن مجھے اپنی آبرو کی فکر ہے ۔اگر یہ بچہ آج فوت ہو گیا تو میرا ڈسکہ میں کوئی ٹھکانہ نہیں ۔اے ارحم الراحمین تو ہی زندگی اور موت کا مالک ہے ۔تو میری زاری کو سن اور اس بچہ کو دس دن کی اور مہلت عطا فرما۔تا اس کے دادا اس کو ہنستا کھیلتا دیکھ لیں۔دس دن بعد پھر تو اسے بلا لیجیو،میں اس کی وفات پر اُف بھی نہ کروں گی۔ فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کتنا عرصہ میں نے یوں دعا کی۔لیکن میں ابھی دعا کر ہی رہی تھی کہ رفیق نے میرے دوپٹے کو کھینچا اور تندرستی کی آواز میں پکارا ’’ بے بے‘‘ اور میں نے دیکھا کہ وہ بالکل تندرست حالت میں میری گود میں کھیل رہا ہے ۔تب مجھے یقین ہو گیا کہ میرے مولیٰ نے میری دعا سن لی اور میرا دل اس کے شکر سے معمور ہو گیا۔
ڈسکہ پہنچے تو میرے دادا بہت خوش ہوئے کہ یہ لوگ وعدہ سے پہلے ہی واپس آ گئے۔پوتے کو گود میں لیا اور پیار کیا اور ہنسی ہنسی اس سے باتیں کرتے رہے اور اسی طرح دن گزرتے گئے۔
والدہ فرمایا کرتی تھیں کہ میں داد پوتے کو خوش خوش دیکھ کر مسکرایا کرتی تھی کہ رفیق تو نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت ہنس رہی ہے ۔رفیق تو خدا تعالیٰ کی نذر ہو چکا ہوا ہے۔ چنانچہ پورے د س دن گزرنے پر رفیق پر کھیلتے کھیلتے وہی حالت وارد ہوگئی۔ جو داتا زیدکا میں ہوئی تھی۔اُسی طرح خون آیا اور چند گھنٹوں میں وہ اپنے مولیٰ کے پاس چلا گیا ۔میری والدہ کی گود پھر خالی ہو گئی ۔لیکن انھوں نے خوشی خوشی اللہ تعالیٰ کی رضا کو قبول کیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ تونے ایک عاجز انسان کی زاری پر اس کے حال پر رحم فرمایا اور اُس کی آبرو کی حفاظت کی۔
میری پیدائش
میری پیدائش /۶ فروری ۱۸۹۳ ء کو بمقام سیالکوٹ ہوئی ۔ اس سے پہلی رات والدہ صاحبہ نے پھر جے دیوی کو خواب میں دیکھا ۔ اُس نے انہیں بتایا کہ فلاں وقت لڑکا پیدا ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی کہا کہ بعض احتیاطیں ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ پیدا ہوتے ہی لڑکے کی ناک چھید دینا اور اونٹ کا بال چھید میں ڈال دینا ۔دوسرے ایک چراغ آٹے اور گھی اور ہلدی کا بنا کر کل رات اپنے مکان کی سب سے اوپر کی منزل کی چھت کے اُس کونے پر جہاں چیل بیٹھا کرتی ہے، جلا دینا۔
یہ خواب والدہ صاحبہ نے والد صاحب کو سنا دی ۔عین اُس وقت جو خواب میں بتایا گیا تھا ۔ میری پیدائش ہوئی اور والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے دیکھا کہ تمہاری پھوپھی مبارک بی بی نے ایک چھوٹی سی پیالی میں ا یک سوئی تیار کر کے رکھی ہوئی ہے۔ جس میں دھاگے کے بجائے ایک بال ڈالا ہوا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ آپ کے خواب کے مطابق اونٹ کا بال منگوایا گیا ہے۔ تاکہ بچے کی ناک اس سے چھید دی جائے۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں تو ایسا ہرگز نہیں کرنے دوں گی۔پھوپھی صاحبہ نے کہا کہ بھائی جان( میرے والد صاحب) فرماتے تھے کہ کوئی ہرج نہیں ہے۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ یہ سب مشرکانہ باتیں ہیں ۔ میں ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہ دوں گی۔ میرے بچے کو اگر اللہ تعالیٰ زندگی دیگا ۔تو بچ رہے گا ۔ میں اپنا ایمان ہرگز ضائع نہیں کروں گی ۔ چنانچہ اونٹ کا بال اور چراغ دونوں پھینک دیئے گئے اور میری والدہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنا ایمان پھر محفوظ رکھا۔
جے دیوی نے کافی لمبی عمرپائی۔ لیکن بیچاری کی زندگی مصیبت میں ہی گزری۔ لوگوں نے چڑیل مشہور کر رکھا تھا ۔اس لیے اکثر لوگ اُسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور جب وہ ضعیف ہو گئی ۔ تو کھانے پینے کو بھی محتاج ہو گئی اور کوئی شخص حتی الوسع اُس کے نزدیک نہیں جاتا تھا ۔حتیٰ کہ اُس کی آخری بیماری میں اُسے پانی پلانے والا بھی کوئی نہیں ملتا تھا اور وہ کچھ دن بہت تکلیف اور کرب کی حالت میں پڑی رہی۔ آخر تنگ آ کر اُس نے اپنی چارپائی کو آگ لگا دی اور اُسی آگ میں جل کر مر گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“