میری صورت میں ہیں پنہاں بہت غم ۔
کل میں افریقن اسطورات یا mythology پر ایک بہت دلچسپ کتاب پڑھ رہا تھا ۔ یہ کتاب Kings College لندن کے comparative religion کے پروفیسر Geoffrey Parrinder نے لکھی ہے ۔ وہ مغربی افریقہ میں کوئ بیس سال رہا ۔ اس کتاب میں دلچسپ موضوعات کو زیر بحث بنایا گیا خاص طور پر انسان اور دنیا کا وجود میں آنا ، اس کا خدا سے تعلق ، اور زندگی موت پر بیانیہ ۔
دراصل myths ویسے تو قصہ ، کہانی یا داستان سے زیادہ کچھ نہیں ، لیکن ان میں پنہاں انسانی سوچ اور فلسفہ کا ارتقاء ضرور ہے ، جس وجہ سے Greek myths پر خاص طور پر بہت مشہور فلمیں بھی بنی ہیں ۔
اس کتاب میں انسانی بے بسی پر دو بہت دلچسپ قصہ درج ہیں جو میں آپ کی رہنمائ کے لیے بیان کرنا چاہوں گا۔
ایک لیزا نامی عورت کا ہے جس کہ بچپن میں ہی ماں باپ اور تمام رشتہ دار فوت ہو جاتے ہیں ۔ جب ایک شخص سے شادی کرتی ہے تو اس سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں اور ان کے پھر بچہ سب ، پھر خاوند سمیت فوت ہو جاتے ہیں ، اور وہ ہمیشہ کے لیے اکیلی ہو جاتی ہے ۔ وہ اس کی خدا سے وجہ پوچھنے کے لیے جتن شروع کرتی ہے ۔ لکڑیوں کے گٹھے اکٹھے کر کہ سیڑھی بناتی ہے خدا تک پہنچنے کی جو اندھیری اور بارش سے تباہ ہو جاتی ہے ۔ پھر سوچتی ہے شاید خدا دنیا کہ دوسرے سرے پر پایا جاتا ہے مل جائے گا ۔ پوری دنیا کا سفر شروع کر دیتی ہے ۔ رستے میں لوگ ملتے ہیں جو سفر کی وجہ پوچھتے ہیں اور وہ بتاتی ہے کہ خدا کو ڈھونڈ رہی ہوں کیونکہ سب عزیز و اقارب مر گئے ، آخر کیوں ؟ لوگ بتاتے ہیں کہ یہ کوئ نئ چیز نہیں ہر ایک کہ ساتھ یہی ہو رہا ہے ۔ آخر لیزا خود بھی یہ سوال پوچھتے پوچھتے لقمہ اجل بن جاتی ہے ۔
دوسرا قصہ بھی اسی طرح کا ہے جو کینیا کہ چاگا فرقے کہ لوگ سناتے ہیں ۔ایک شخص کہ سارے بیٹے مر جاتے ہیں اور وہ لوہار کہ پاس جاتا ہے کہ مجھے تیر اچھے بنا کر دو میں نے ان قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے جنہوں نے میرے بیٹے مجھ سے چھینیں۔ دنیا کہ کنارے پہنچتا ہے اور سورج نکلنے کا انتظار کرتا ہے ۔ وہاں جب سورج نکلتا ہے تو کئ راستے دیکھتا ہے کوئ جنت کو جاتا ہے کوئ زمین کو ۔ اچانک قدموں کی آواز آتی ہے اور دروازہ کھلتا ہے ۔ روشنی نما لوگ داخل ہوتے ہیں اور زیادہ روشنی والا ان کہ بلکل بیچ ہوتا ہے جو خدا۔ وہ روشنی والے لوگ خدا کو کہتے ہیں کہ بدبو آ رہی ہے ، کوئ زمین سے چاگا قبیلہ کا شخص گزرا ہے ۔ اسے بلایا گیا ۔ خدا نے پوچھا تم کیسے ادھر ہو ، اس نے جواب دیا کہ میرے بیٹے مر گئے میں ان کہ غم میں ادھر ہوں ۔ خدا نے کہا نہیں تم تو مقابلہ کے لیے آئے ہو وہ ڈر گیا ، اس نے کہا نہیں ۔ خدا نے کہا یہ میرے پیچھے تمہارے بیٹے کھڑۓ ہیں انہیں چاہو تو لے جاؤ ۔ اس کہ بیٹے اتنے روشن ہوتے ہیں وہ شخص ان کو پہچان نہیں سکتا اور خدا کو کہتا ہے آپ انہیں اپنے پاس ہی رکھیں ۔ اس پر خدا اسے واپسی کہ رستے میں انعام و کرام ملنے کا کہتا ہے جو اسے مل جاتا ہے اور وہ بخوشی واپس لوٹتا ہے ۔
اسی کتاب میں سانپ کہ بارے میں مصنف لکھتا ہے کہ اس کو دراصل ان کہانیوں میں انسان کی حفاظت کے لیے رکھا گیا ہے ۔ یہ دُم اپنے منہ میں لے کر حفاظت کا دائرہ یا حصار دنیا کہ گرد بناتا ہے اور سانپ ان کہانیوں میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ۔
“The snake is essentially motion, the symbol of flowing movement, like the reeds in water”
قدیم چینی تہزیب میں بھی dragon کو بہت مقدس اور حفاظت کا علمبردار سمجھا گیا بلک Dragon کے سال کو خوش قسمتی والا سال سمجھا جاتا ہے ہے ۔
میرا ان قدیم حکایتوں کو بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ نجانے کیوں ہم پریشانیوں کا اتنا رونا روتے ہیں کہ دنیا کی ہزار ہا نعمتوں سے نہ صرف غافل ہوتے ہیں بلکہ اللہ تعالی کہ ناشکرے ہو جاتے ہیں ۔ بہت شدید حماقت ہے ۔ کوئ ہیسے کی درد لیے بیٹھا ہے کوئ دولت نہ ہونے کی کوئ اقتدار کی حوس میں بھٹکا ہوا ہے تو کوئ شہرت کی آگ میں پروانہ کی طرح جل رہا ہے ۔ عجب حماقت میں مبتلا ہیں ۔ رب کی رضا اور منشا میں خوش رہیں ۔ اچھے کی امید رکھیں ۔ یاد رہے سپنے ہی تو صرف اپنے ہیں ۔ مکیش کی آواز میں گانا ، “کہیں دور جب دن ڈھل جائے” ضرور سنیں ۔
دل جانے میرے سارے بھید یہ گہرے
ہو گئے کیسے میرے سپنے سنہرے
یہ میرے سپنے یہی تو ہیں اپنے
مجھ سے جدا نہ ہونگے انکے یہ سائے۔۔ انکے یہ سائے
کہیں دور جب دن ڈھل جائے
سانجھ کی دلہن بدن چرائے
چپکے سے آئے
میرے خیالوں کے آنگن میں
کوئی سپنوں کے دیپ جلائے۔۔ دیپ جائے۔
بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔