میری سوچ کیسے بدلی تھی؟
والد صاحب ہندوستان سے ہجرت کے فورا" بعد علی پور آ گئے تھے۔ باقی گھر والے دو اڑھائی سال کے بعد یہاں پہنچے تھے۔ وہ پہلوان جی کے ساتھ کاروبار میں شریک تھے اور کاروبار کے دو حصے تھے۔ ایک تو گندم دوسرے جنگل کی لکڑی سے کپوں کے ذریعے کوئلہ بنا کر بیچنا۔ یہ کام علی پور کے گردو نواح سے خریداری اور لاہور کی منڈی میں فروخت پر مشتمل تھا۔ مسرت نذیر،جو بعد میں معروف اداکارہ اور اس کے بھی بہت بعد معروف گلوکارہ بنی تھی، کے والد چودھری نذیر لاہور میں ان کے آڑھتی تھے۔
ملاں جی نیک ادمی تھے اس لیے حساب کتاب اور رقم رکھنا ان کے ذمہ تھا اور وہ علی پور میں ہی رہتے تھے۔ ملاں جی کے گھر جانے کے لیے ایک تو راستہ خیر پور دروازے سے تھا لیکن راستے میں دیوانے شاہ جی اور ماسٹر سلیم الدین کے جن والا مقام آتا تھا اس لیے دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ بابا علیا اور اماں الو کے سامنے والے جوہڑ کے دوسری طرف سڑک کے پار ایک حویلی سے گذرنا پڑتا تھا جسے رنگڑوں کی حویلی کہتے تھے۔ اور پھر ایک چھوٹی سی گلی سے گذرنے کے بعد، ماسٹر سلیم الدین کی گلی کی چھت سے گذرتے ہی دائیں ہاتھ مڑنے والی گلی کا وہ حصہ آ جاتا تھا جہاں سے چند قدم بعد ہی ملاں جی کا گھر تھا۔ ان کے گھر سے جڑی ہوئی ایک بڑی سی حویلی تھی جس میں پہلوان جی کا کنبہ آباد تھا۔ ہم ملاں جی کے گھر پیسے لینے کو آدھ پونے گھنٹے کے لیے ہی جاتے تھے اور پھر والدہ کبھی ساتھ والی حویلی میں بھی کچھ وقت ملنے ملانے میں گذار دیتی تھیں۔
البتہ علی نواز کے گھر جانے کے لیے خاصہ دور جانا پڑتا تھا اور اس جگہ کو پہلوان جی کی منڈی کہتے تھے۔ یہ خاصی بڑی جگہ تھی جس کا بہت بڑا لوہے کا گیٹ تھا۔ چاروں طرف برآمدے اور کمرے تھے اور بیچ میں بہت بڑا احاطہ تھا۔ اس میں لکڑیوں کا ٹال، کوئلوں کا پہاڑ سا اور کوئلے کی بوریاں، بھینسیں گائیں کٹے بچھڑے بکریاں سبھی ہوتے تھے۔ منڈی سے جڑی ہوئی اسی طرح ایک کھلی کھلی جگہ تھی جو اندر سےکئی گھروں میں بٹی ہوئی تھی مگر وسیع صحن مشترکہ تھا۔ علی نواز پہلوان جی کا بھتیجا تھا اور ان کے کاروبار میں شریک بھی۔ ملاں جی جس طرح سادہ اور نیک تھے علی نواز اسی طرح دنیا دار اور تیز طرار۔ علی نواز کی دو بیویوں سے دو بیٹے تھے، ایک جیونا اور ایک ٹیڈھا مگر اس کا نام رفیق تھا۔ یہ دونوں ہائی سکول میں میرے ہم ہم جماعت بنے تھے اور میری عزت کرنے کے ساتھ ساتھ مجھ سے پیار بھی کرتے تھے۔
پہلوان جی، علی نواز اور والد صاحب جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر جنگل خرید کرتے تھے۔ لکڑی کٹواتے تھے۔ لکڑی جلا کر کوئلہ بنایا جاتا تھا اور پھر اسے بیچا جاتا تھا۔ یہ کاروبار بہت بڑا تھا اور اسی کے طفیل ہم علی پور کے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں میں شمار ہوتے تھے۔ محلے بھر کی عورتیں ہمارے گھر کے کام کاج کرتی تھیں۔ پیسے کی ریل پیل تھی۔ والد اور والدہ دونوں ہی کھلے دل کے تھے۔ گندم کی بوریاں، چینی کے کٹے، دیسی گھی کے ڈبے اور کنستر کھلے ہوتے تھے جو جتنا چاہتا تھا لے جاتا تھا بس کہہ دیتے تھے اور اماں کہا کرتی تھیں لے جاؤ اللہ اور دے گا۔ سب اپنی قسمت کا دیا کھاتے ہیں۔ اگر والد صاحب آم یا مٹھائی منگواتے تو ایک ٹوکرا یا ایک سیر نہیں بلکہ کئی ٹوکرے آم اور سیروں مٹھائی تاکہ سب کو بانٹے جا سکیں اور لوگ ٹکر ٹکر نہ دیکھیں۔ کھانے وافر مقدار میں اور بہت سے بنتے تھے اور سب جی بھر کے کھاتے تھے۔ یہ ساری خوشحالی مجھے تارے کی ٹمٹماہٹ کی شکل میں یاد ہے اور بس۔ پھر ایک دن ایسا طلوع ہوا کی چولہوں پر بڑے بڑے دیگچے چڑھے ہوئے تھے جن میں خالی پانی تھا اور کچھ عورتیں پوچھ رہی تھیں:
" بی بی جی، کیا پک رہا ہے؟"
" بس بھئی قورمہ ہے، پلاؤ ہے اور دال بھی"۔
میں والدہ کے پہلو سے لگا بیٹھا تھا اور حیرت سے ان کا چہرہ تک رہا تھا کیونکہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری عبادت گذار نیک ماں جھوٹ بھی بول سکتی تھیں۔ عورتوں کے سامنے تو کچھ نہ بولا کیونکہ ہمیں تربیت ہی ایسی تھی۔ ان کے جانے کے بعد پوچھا تھا:
"اماں آپ جھوٹ کیوں بول رہی تھیں؟"
انہوں نے مجھے اپنے ساتھ زور سے بھینچا اور کہا:
" بیٹے تمہیں دنیاداری کا پتہ نہیں ہے۔"
شاید وہی دن تھا جس دن سے مجھے دنیا داری جاننے اور اسے نبھانے کی کوئی آرزو نہیں رہی تھی۔ میں بچہ تھا۔ کچھ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کیا ہو گیا ہے۔ آہستہ آہستہ لوگ چھٹنے لگے تھے اور ہمارے گھر میں اداسی نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔
میں اور چھوٹا بھائی سکول سےلوٹتے تھے۔ ہمارے پاووں میں اسفنج کی قینچی چپلیاں ہوتی تھیں۔ ہمارے گھر میں داخل ہوتے ہی بہن خالدہ ہم دونوں کا ایک ایک بازو پکڑ کر کمرے میں لے جاتی تھی اور ہمارے سامنے سالن روٹی رکھتی تھی۔اویس چھوٹا تھا، کھانے پر پل پڑتا تھا مگر میں ننھی کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھتا تھا، تم نے کھانا کھایا ہے؟ وہ کہتے تھی کہ ہاں کھایا ہے مگر اس کی آنکھوں کی نمی چغلی کھاتی تھی کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ میں کہتا:
" تم کھاؤ تو میں کھاؤں گا۔"
وہ ایک لقمہ لے لیتی تو میں کھانا شروع کر دیتا تھا۔ میں بھوکا ہوتا تھا اس لیے کھا لیتا تھا مگر مجھے پتہ ہوتا تھا کہ اس نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ لوگوں کا آنا جانا بہت ہی کم ہو گیا تھا۔ لوگ آتے ہی بھلا کیوں؟ ان کی اکثریت تو اپنی اغراض سے بندھی ہوتی ہے۔ اب ابا گھر پہ ہی رہنے لگے تھے۔ گھر کے ماحول میں بھی تناؤ آ گیا تھا۔ اب کسی بھی بات پر ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دیتے۔ اماں کو گالیاں دیتے۔ ایک روز جب وہ ان پر ہاتھ اٹھانے کے لیے آگے بڑھے تو بھائی شعیب نے بڑے بائی کے کمرے کی چوکھٹ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ان کا راستہ روک لیا تھا اور کہا تھا:
" بس ابا بس۔ اب ہم بڑے ہو گئے ہیں"۔ اس ایک فقرے سے ابا ہمیشہ کے لیے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے تھے۔ کچھ حالات نے بھی انہیں بے وقعتی کا احساس دلا دیا تھا۔ یہ سب کیا ہوا تھا؟ ہوا یہ تھا کہ ابا اور ان کے کاروباری شریک سرکاری جنگل خریدا کرتے تھے۔ ٹینڈر اور نیلامی کے ذریعے یہ سلسلہ چلتا تھا۔ پہلوان صاحب سادہ لوح تھے ابا ہی ان کے لیے سب کچھ تھے۔ علی نواز وغیرہ بولتے ہی نہیں تھے کیونکہ وہ اپنے گھر سے جڑی منڈی میں بیٹھے ہوتے تھے یا بہت ہوا تو لاہور کا پھیرا لگا آئے۔ آخری جنگل خریدا گیا تھا۔ وہ اپنی ساکھ کا دھوکہ کھا بیٹھے۔ نیلامی دینے سے پہلے موقع دیکھا ہی نہیں۔ جب لاکھوں روپے حکومت کی مد میں داخل کرا دیے گئے اور قبضہ لینے موقع پر گئے تو جنگل کیا تھا بس سرکنڈوں کا ہی جنگل تھا۔ ایک ہی رات میں ساری پونجی تمام ہو گئی تھی۔ منڈی اور منڈی میں موجود ہر چیز پر علی نواز کا قبضہ ہو گیا تھا کیونکہ اس کا دعوٰی تھا کہ اس کے ساتھ جنگل خریدتے وقت مشورہ ہی نہیں کیا گیا تھا، جیسے پہلے اس سے مشورہ کرکے ٹھیکے لیے جاتے تھے۔ ایک ہی رات میں پہلوان جی اور ابا بلندی سے پستی میں آن گرے تھے۔
ایک ٹکے کی ہوتی تھیں
بچپن کی خوشیاں
خوشبووں میں لپٹی ہوئی
آنے کی دو دو
لیکن پھر ایسا ہوتا تھا
ہاتھ تھے خالی، آنکھیں پر
دن لگتے تھے بوجھل بوجھل
اور پھر بڑے ہوئے
ملتی ہے بے مول جوانی
مول لگانا پڑتا ہے
ہم کو بھاؤ تاؤ کے
انداز نہیں بھاتے تھے
اور جوانی یوں ہی جل کر راکھ ہوئی
اب ہے ایسا سمے
کہ پودینے کی ٹکیاں
ہاتھ میں جلتی ہیں
سانس میں چلتی ہیں
رات گئی بس بات گئی
لیکن رات جانے سے بھلا بات کہاں جاتی ہے ۔ ۔ ۔ بچپن کی بے بسی اور کم مائیگی ذہن سے چپک کے رہ گئی ہے۔ جس روز خالی دیگچوں کو چولہے پر چڑھے، والدہ کی زبان سے میں نے جھوٹ سنا تھا اس روز ہی ایک سوال نے میرے ذہن میں کلبلانا شروع کر دیا تھا کہ یہ سارا ہمارے ساتھ کیوں، تو کیسا خدا ہے میرے اللہ؟ مطلب یہ کہ تب سے ہی تقدیر کے خلاف دماغ میں ہلچل شروع ہو گئی تھی۔ جب گھر کے حالات کچھ سنبھلے تھے تو میری سوچ بھی سنبھل گئی تھی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“