رات بارہ بجے سے بارش ہو رہی ہے اور سارا دن متوقع ہے ۔ مجھے بارش بہت پسند ہے ، ماحول کی پلیتی دھونے کے علاوہ بارش تمام درختوں اور نباتات کو غسل دیتی ہے ۔ مغرب میں بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، مغربی ساحل سیٹل میں تو سال میں دو سو دن ۔ میری سالگرہ پر غالبا اس کا برسنا بنتا ہے میں زندگی کے تیسرے فیز میں داخل ہو رہا ہوں ، میری روح اور میرے جسم کی دُھلائ کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ میں اپنی زندگی کا عکس ساری کائنات میں دیکھتا ہوں لہٰزا مجھے وہی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
آج میں بفضل تعالی ساٹھ سال کا ہو گیا ہوں ۔ تیس سال پر محیط ایک جنریشن ہوتی ہے اور دو جنریشنز دیکھ چُکا ہوں ، تیسری تو مہاتر محمد جیسے خوش قسمت ہی دیکھتے ہیں ۔ یہ بھی قدرتی سائیکل ہوتے ہیں ، ایک دائرہ جب پورا ہوتا ہے تو وہ دوسرے کو جنم دیتا ہے اور زندگی اسی طرح رواں دواں رہتی ہے ۔ وقت کے سائے چھوٹے اور لمبے ہوتے رہتے ہیں، خون کی گردش تیز اور آہستہ ، لیکن کائنات کا رقص دل کی دھڑکنوں کے سنگ جاری و ساری رہتا ہے اور رہے گا ۔
میں چوبیس تاریخ کو پیدا ہوا ، جس کا عدد بھی چھ ہے اور سال ۱۹۵۹ کا عدد بھی چھ ہی ہے ۔ میں نے اپنی زیادہ تر زندگی لاہور جس گھر میں گزاری اس کا نمبر بھی چھ ہے اور یہاں نیوجرسی میں جس اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں وہ بھی بتالیس یعنی چھ ۔ اس نمبر کو میری روح سے بہت لگاؤ ہے اور یہ عدد میرا کائنات سے لنک بنتا رہتا ہے ۔ کھیل میں لڈو ، لاٹری کا ڈائس یا منکا پھینکنا بھی چھ پر خوشیاں لاتا ہے اور کرکٹ میں اچھا بیٹسمین بھی چھکا مار کر ہی جاوید میانداد کی طرح میچ جتواتا ہے ۔ قرآن شریف اور احادیث مبارکہ میں بھی شش کلموں کی شہادت ملتی ہے ۔ یہ چھ کلمہ ہی اسلام کی روح ہیں ۔ ان میں پہلے دو کلموں (یعنی کلمہ طیب و شہادت) کو تو حصول ایمان میں بنیادی حیثیت حاصل ہے، جبکہ دیگر چاروں حصول فضیلت اور تقویت ایمان کے لیے ہیں۔ قرآن شریف کی آخری سورہ کی بھی چھ ہی آیات ہیں ۔
کل مجھے کسی نے چلہ یا چالیسواں کا پوچھا تو بتاتا چلوں کے حضور ص پر چالیس برس کی عمر میں وحی نازل ہوئ ۔ عدد چالیس کو علم قبالا میں بہت اہمیت حاصل ہے ۔ علم قبالا ایک روحانی علم ہے ۔ اس کے مطابق چالیس سال سے پہلے قبالا کا علم نہیں جانا جا سکتا کیونکہ انسانی روح کائنات میں اتنی پُختہ نہیں ہوئ ہوتی کے کائنات کی روحانیت سمجھ سکے ۔ ان کے نزدیک چالیس سال کی عمر میں روحانیت کا بیج بویا جاتا ہے اور پھر جا کر کائنات کی روحانی کوکھ سے اس کی کرنیں پُھوٹنا شروع ہوتی ہیں ۔ میں نے بھی روحانیت کا علم ، اپنے ہندسہ چھ کے مطابق ، ۴۲ سال کی عمر سے شروع کیا اور الحمد اللہ اب بہت سکون میں ہوں ۔
ان ساٹھ سالوں میں اللہ کا بہت کرم اور شکر ہے کے میں نے بہت کچھ پایا، کچھ نہیں کھویا ۔اگر روحوں کو پاک صاف رکھیں تو آپ کے لیے یہ دنیا بھی جنت ہے ۔ وہ پانی کے بہاؤ کی طرح ہر مشکل میں اپنا راستہ خود بناتی رہتی ہیں ۔ پانی کے آگے بند باندھ دیں تو صرف کچھ دیر کارآمد ہوتا ہے اس کے بعد پانی اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے ۔ اس اکیس ہزار سے زیادہ دنوں پر محیط زندگی میں مجھے بہت کچھ دیکھنے کا موقع ملا ۔ خوبصورت وادیاں ، سمندروں کے ساحل ، راتوں کی کہکشاں ، موروں کا رقص ، کوئل کا کُوکنا ، کلیوں کا مہکنا ، صبح نور کا اُجالا ، شام کی بیل گاڑیوں کے اوڑ دھنک ۔ سورج کے بہت سارے رُوپ دیکھے ، چاند کے گرہن اور پھر پورا چاند ۔ میرا زندگی کا سفر چالیس سال تک تو کچھ مشکل ضرور رہا ، ایک کشمکش مادیت اور روحانیت کی ، لیکن جیسا کے میں نے پہلے کہا بتالیس سال کے بعد بہت آسان ۔ اس کے بعد کسی چیز نے مجھے نہیں بھایا سوائے قدرت کے حُسن کے ، روحانی موسیقی کے اور آسمانوں کی سیر کے ۔ گو کے میں صرف چھٹے آسمان تک ہی جا سکا ، لیکن شاید وہی میری منزل ہے ۔ ساتواں تو خوش نصیبوں کو میسر ہوتا ہے جو آقا کے محبوب ہوتے ہیں ۔ میرا سفر اب اس دنیا میں خالصتا روحانی ہے ، ہمیں اب کیا لینا دنیا داری سے ۔ وہ جو میرے وراثتی گھر کا معمالہ بھی کبھی کبھی چِھڑ جاتا ہے وہ صرف امانت ہے بچوں کو منتقلی کے انتظار میں ، جیسے میرے والد نے مجھے سونپی ، باقی اس کے علاوہ مجھے کیا دلچسپی، ہم فقیروں کا مال و دولت اور عہدوں سے کیا لینا دینا ۔ میرا گزر بسر میرے رب جلیل و قدیر کے فضل سے بہت عمدہ گزر رہا ہے ۔ میری کہانی تو اب بہت عیاں ہے پورے زمانہ پر ، جیسے ایک امریکی لکھاری نے کہا تھا ؛
“The story dances as does light on the water .. “
اب تو کچھ نہیں پنہا ۔ میرے پہلو میں تو اب صرف وہ خواب ہیں جو آنے والی نسلوں کی تربیت کے لیے سجائے ہیں ۔ وہ زمہ داریاں ہیں جو نسل در نسل لوگ نبھاتے آئے ہیں ، میں نہیں تو کوئ اور ۔ آپ سب لوگوں کا بہت شکریہ جنہوں نے مجھے جیسے فارغ شخص کو اس موقع پر محبت بھرے سالگرہ مبارک کے پییغامات بھیجے ہیں ۔ آپ سب میرے دل میں بارے ہیں ۔ اللہ تعالی آپ سب کو بہت خوش رکھے ، مجھ فقیر کے لیے بھی دعاگو رہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...