آج صبح ہی جب ان کے انتقال کی خبر ملی تو ایسا محسوس ہوا کے جیسے میری والدہ دوسری دفعہ فوت ہو گئیں ۔ وہ ہم میں سب سے بڑی تھیں اور پارٹیشن کے وقت ایک چھوٹی بچی کی حیثیت سے والدہ کے ساتھ پاکستان کی سرزمیں پر قدم رکھا ۔ کیونکہ ہم آٹھ بہن بھائ تھے تو وہ اکثر والدہ کی جگہ لیتی تھیں اور میری ابتدائ تعلیم میں بھی ان کا ہوم ورک سے لے کر تیاری اور تواضع والا معاملہ رہا ۔ ان کو والد گرامی نے زیادہ پڑھایا نہیں ۔ اُن وقتوں میں لڑکیوں کی جلدی شادی ہو جاتی تھی ، کزن کے ہاں گاؤں میں بیاہ دیا ۔ انہوں نے گاؤں میں دل نہ لگایا جو کے اس وقت کا اور آج کا بھی رواج ہے ۔ شہر بہت سارے معاملات میں attract بھی کرتے ہیں لیکن بہت زلیل و خوار بھی کرتے ہیں ، قیمت بڑی غیر انسانی ہے ۔ یہی کچھ میری بہنا کے ساتھ ہوا ۔ نہ بچے کچھ زیادہ پڑھ سکے اور نہ برادری میں پیار و محبت کا رشتہ استوار رہ سکا ۔ میرا بہنوئ بھی جس کو فوت ہو ئے عرصہ ہو گیا، شہر کی زندگی سے بہت اوازار رہا ۔ سارا وقت ریڈیو اور جانوروں کے ساتھ وقت گزارتا ۔
مجھے پھر ایک دفعہ رابرٹ فراسٹ یاد آ گیا کے راستے دو ہیں اور سفر صرف ایک پر کیا جا سکتا ہے ۔ میں سوچتا ہوں میری ہمشیرہ کے لیے گاؤں والا راستہ قدرتی تھا ، جو اس نے خوامخواہ چھوڑا ۔ شہر والا راستہ وہ تھا جو most treaded تھا ، جو زیادہ لوگوں کے سفر کی وجہ سے اپنی تازگی ، زندگی کی رمک اور دمک کھو بیٹھا تھا ۔ دوسرا راستہ مشکل ضرور نظر آتا ہے اور ہوتا بھی ہے ، اکیلا پن ، پاگل کے نعرے ، کٹھن بھی محسوس ہوتا ہے لیکن وہ ہمیشہ تازہ رہتا ہے ، سر سبز اور now میں ۔
ایک مشہور امریکی لکھاری اپنے گیارہ اور تیرہ سال کے دو عدد بچوں کو لے کر اس سردیوں میں گھنے جنگلوں چلا گیا ۔ وہاں نہ موبائل نہ انسان نہ سہولیات ۔ وہ سب وہاں تین دن رہے ۔ پہلے دن کا باب اس کے ۱۱ سالہ بیٹے نے لکھا ;
Heroes set on an uncertain journey
دوسرا اس نے خود لکھا ؛
Our heroes got tired but soldiered on
تیسرا اس کی تیرہ سالہ بیٹی نے لکھا ؛
In which our tales take a dark turn
ان کا ارادہ ہے کے پھر کبھی دوبارہ وہیں جا کر یہ کتاب مکمل کی جائے ۔ کونڈریل نے ۲۷ سا کی عمر میں خودکشی کر کے غلط راستے پر چلنے سے جان چُھڑوا لی اور میری بہن نے ۷۳ سال اس پر سفر اور suffer کیا ۔ اللہ تعالی تمام مرنے والوں کی مغفرت فرمائے ۔ آمین
اب سے کچھ لمحوں بعد چینیوں کا نیا سال بھی شروع ہو رہا ہے ۔ چینی چاند کے نکلنے سے سال کا آغاز کرتے ہیں اور چاند کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں کے کتنی روحیں اس سال ماؤں کی کوکھ میں آباد ہوں گیں اور کتنی اس دنیا کو چھوڑ جائیں گیں ۔ میری بہن کی روح چینیوں کے سال کے آغاز پر ہی اس دنیا کو خیر باد کہ گئ ۔
میرا اپنا زندگی کا سفر باوجود اپنے طریقے سے زندگی گزارنے کے اکثر ناخوشگوار رہا ہے ۔ جو دوسرے راستے کی زندگی کے لیے courage اور conviction دکھانی پڑتی ہے وہ اکثر بہت جان لیوا ہوتی ہے ، ایسے جیسے بال پر چلنا ۔ لیکن اس کا ایک اپنا ہی نشہ ہے ، دُھن ہے اور رقص ۔ میں ہزاروں میل دور ہوتے ہوئے اپنی بہن کی آخری رسومات میں شامل تو نہیں ہو سکوں گا لیکن ان کی روح سے رابطہ میں ضرور رہوں گا ۔ یہ زندگی دراصل ہے تو روحوں کی ۔ میری بہن کے لیے دعا کیجیے کے اللہ تعالی ان کی روح کے درجات بلند کرے ۔ آمین
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...