”میں اپنی آخری سانس تک موسیقی سے جڑا رہنا چاہتا ہوں۔ میری سانسیں موسیقی سے بھری ہوئی ہیں۔ میری رگ رگ میں موسیقی کا سمندر بہتا ہے“۔
یہ الفاظ آغا خان ہسپتال میں بسترِ مرگ پر پڑے 83 سالہ نثار بزمی نے ڈاکٹروں کے زیادہ بولنے سے منع کرنے کے باوجود کہے تھے ۔ 22مارچ 2007 ء کی رات ان کی رگوں میں بہتا موسیقی کا یہ سمندر رک گیا اور ان کی موسیقی سے بھری سانسیں ہمیشہ کے لئے رُک گئیں ۔
نثار بزمی 1924ء میں ممبئی کے نزدیک جلگاوٗں میں پیدا ہوئے ،والد مولوی سید قدرت علی نے اصل نام سید نثار احمد رکھا تھا ۔ بزمی صاحب میں موسیقی کے لئے دلچسپی بچپن سے ہی موجود تھی۔ استاد صاحب امان خاں نے تیرہ برس کی عمر میں بزمی صاحب کی موسیقی میں دلچسپی کو پرکھا اور ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اس سے قبل وہ گیارہ برس کی عمر میں باسین خاں قوال کے ساتھ بطور’ ہمنوا‘ قوالیاں بھی گاتے رہے تھے ۔ استاد امان خاں کی شاگردی میں انہوں نے سُروں پر قدرت حاصل کی اور 1939ء میں آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت میں آ گئے ۔ اس نوکری نے انہیں اس وقت شہرت دی جب انہوں نے موسیقار ' وِنکر راﺅ ' کے کہنے پر " نادرشاہ درانی " نامی ریڈیائی ڈرامے کے لئے موسیقی ترتیب دی ۔ اس ڈرامے کے گانے رفیق غزنوی اور امیر بائی کرناٹکی نے گائے تھے جو بہت مشہور ہوئے تھے ۔ 1946ء میں انہیں ”جمنا پار“ نامی فلم کی موسیقی کا کام ملا ۔ 1962ء تک بھارت میں گزارے عرصے میں انہوں نے لگ بھگ 40فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں سے لگ بھگ تیس ان کے وہاں ہوتے ہوئے اور بقیہ دس ان کے پاکستان آنے کے بعد نمائش کے لئے پیش ہوئیں ۔
بھارت میں اپنے فلمی کیر ئیر کے دوران انہوں نے محمد رفیع، لتا، آشا اور مناڈے سے گیت گوائے ۔ ہندوستان میں فلمی کیرئیر کے بارے میں وہ زیادہ مطمئن نہیں تھے ۔ ان کے اپنے خیال میں ان کا وہاں کیا کام قدرے کمزور تھا جبکہ پاکستان میں انہوں نے بہتر کام کیا ۔
1962ء میں پاکستان میں آبسنے کے بعد ان کی پہلی فلم فضل کریم فضلی کی ”ایسا بھی ہوتا ہے۔“ تھی جس کے گانے تو 1963ء میں ہی ریکارڈ ہو کر ریڈیو پر چلنا شروع ہو گئے تھے مگر فلم 1965ء میں ریلیز ہوئی ۔ پاکستان میں اس پہلی ہی فلم نے انہیں شہرت دلا دی اور اس فلم کے تمام گانے ہٹ ہوئے ۔ جن میں ان کا اپنا پسندیدہ نور جہاں کا گا یا ”ہو تمنا اور کیا جان تمنا آپ ہیں“ شامل تھا ۔ اس گانے کے بارے میں بزمی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ گانا نور جہاں نے اٹھا رویں باری (Take) میں جا کر ٹھیک گایا تھا جبکہ پہلے سترہ ٹیک ضائع کرنے پڑے تھے ۔ انہوں نے ایور ریڈی پکچرز کے ساتھ کام کرتے ہوئے فلم” حاتم طائی“ کے لئے جب موسیقی ترتیب دی تو پروڈیوسر کے کہنے کے باوجود فلم میں بھارتی ”حاتم طائی“ کی حمد کی نقل کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی دھن پر ”مشکل میں سب نے تجھ کو پکارا “ ترتیب دی ۔ مسعود رانا کی آواز میں یہ حمد اپنی جگہ مقبول ہوئی ۔ ان کا نقالی کے بارے میں بہت سخت رویہ تھا جس کے باعث کئی فلم ساز انہیں کام دینے سے گریزاں بھی رہتے تھے ۔ رونا لیلٰی کو متعارف کرانے پر بزمی صاحب کو نور جہاں کی ناراضگی بھی مول لینا پڑی تھی ۔
رضا میر کی فلم ”لاکھوں میں ایک“ (1967) وہ تاریخ ساز فلم ہے جس کی موسیقی نے نثار بزمی کی شہرت کو عرش پر پہنچا دیا ۔ ”حالات بدل نہیں سکتے“، ”چلو اچھا ہوا تم بھول گئے“ اور ” بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا“ اس فلم کے وہ گانے ہیں جو آج بھی لوگوں کے دلوں پر نقش ہیں ۔ فرید احمد کی فلم ”عندلیب“ (1968) بھی ان کے لئے کامیابی لائی ۔ اس فلم کا نور جہاں کا گایا ”کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے“ توہ م سب کو اب بھی یاد ہے ۔ رضا میر کی فلم ”ناگ منی“ (1972) ایک اور فلم تھی جسے نثار بزمی اپنی بہترین فلموں میں شمار کرتے تھے ۔ ”تن تو پے واروں، من تو پے واروں“ ، ” آج بھی سورج ڈوب گیا ہے آج بھی تم نہیں آئے “ اور ”ساجنا رے تجھ کو بلائے میرا پیار“ اس فلم کے ہٹ گانے رہے ۔ احمد رشدی عام طور پر چُلبلے رومانوی گانے گاتے تھے ۔ نثار بزمی کے ہاتھ لگے تو ایک طرف انہوں نے فلم آگ (1967) کے لئے مالا کے ساتھ دو گانا ”موسم حسین ہے لیکن تم سا حسین نہیں ہے“ گایا تو دوسری طرف فلم ”جیسے جانتے نہیں “ (1969) کے لئے گانا ”ایسے بھی میں مہربان“ جیسا سنجیدہ گانا گا کر نثار بزمی کی دھُن کو زبان زدِعام کر دیا ۔
پرویز ملک کے ساتھ نثار بزمی نے کافی فلمیں کیں ۔لیکن ”انمول“، ”پہچان“ اور " تلاش“ زیادہ اہم تھیں۔ ناہید اختر کا گایا ”اللہ ہی اللہ کیا کرو“ (پہچان 1976ء) وہ گانا ہے جسے بزمی صاحب نے ایک کشمیری فوک دھن پر مرتب کیا تھا اور یہ ناہید اختر کی پہچان بن گیا تھا ۔ حسن طارق کی ”شمع اور پروانہ“ (1972ء) میں مجیب عالم کے گائے گانوں میں ”میں تیرا شہر چھوڑ جاﺅں گا“ اور ”میں تیرے اجنبی شہر میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے“ بھی نثار بزمی کے مشہور گانوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ فلم تہذیب (1974ء) بھی طارق حسن کی فلم تھی جس کے گانے بزمی صاحب نے ترتیب دیئے اور سارے ہی ہٹ ہوئے ۔ ”لگا ہے مصر کا بازار دیکھو“ مہدی حسن نے خوب گایا ۔ ”امراﺅ جانِ ادا‘ اور ”انجمن“ میں ایک بار پھر بزمی اپنے فن کی بلندیوں پر تھے ”جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں“ اور ”دل دھڑکے “بھی ان کے مشہور گانے ہیں ۔ مہدی حسن کی گائی ”رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ “، ” کاٹے نہ کٹے رے رتیا “ (رونا لیلا)” بول ری گڑیا بول“ (نیرہ نور) ،”ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ زمانے چلیں“ (عالمگیر)، ”یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے “(مہدی حسن) اور بہت سے ایسے گانے ہیں جن کی دھنیں ، ان کی استھایاں اور انترے انہوں نے کمپوز کئے۔ پاکستان میں انہوں نے لگ بھگ ساٹھ فلموں کے گانے ترتیب دئیے جبکہ پی ٹی وی کے لئے بھی قومی نغموں کے لئے دھنیں ترتیب دیں۔ انہوں نے کئی نئے گلوکاروں کو متعارف بھی کرایا ۔
ان کی آخری فلم” ویری گڈ دنیا ، ویری بیڈ لوگ“ (1998ء) تھی ۔ اس کے بعد بزمی صاحب نے فلمی دنیا سے کنارا کشی اختیار کر لی اور اپنے فوٹو گرافی کے شوق کے علاوہ شاعری کی طرف دھیان دیا ۔ نظموں کی کتاب ” پھر ساز صدا خاموش ہوا “ بھی ان کی عمر کے آخری حصے میں شائع ہوئی ۔
پاکستان میں فلمی کیرئیر کے دوران انہیں سات مرتبہ نگار ایوارڈ دئیے گئے جبکہ حکومت پاکستان نے انہیں پرائیڈ آ ف پر فارمنس سے بھی نوازا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...