میری پہلی تنخواہ آٹھ سو درہم تھی۔ جو ایک چھوٹے سے اسکول میں بطور کے جی کی اسسٹنٹ ٹیچر کے ملی تھی۔ وہاں میرا کام بچوں کو پنسل پکڑنا سکھانا، ان کے ساتھ پوئمز پڑھنا، ان کے لنچ باکسز کھولنا، ان کی لیسن ڈائری لکھنا، لائن بنوا کر گراؤنڈ میں لے جانا، ان کی کاپیوں پہ تصاویر اور اسٹیکرز چسپاں کرنا اور چھٹی کے وقت ان کے بیگز پیک کرنا تھا۔
اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ انٹر کا رزلٹ شادی کے بعد آیا۔ اس وقت اسسٹنٹ ٹیچر کی جاب بھی گریجویشن کے بغیر نہیں ملتی تھی۔ لیکن کانونٹ میں پڑھنے کی وجہ سے انگریزی میں گٹ پٹ کرلیتی تھی۔ اس بنا پہ جاب فوراً مل گئی۔ جن خاتون کو اسسٹ کرتی تھی وہ کچھ عرصے کے لیے چھٹی پہ گئیں تو وہ کلاس مجھے ہی دے دی گئی۔ وہاں کے پرنسپل نے میرے اندر کی قناعت پسند اور مست ملنگ کو کھوج لیا۔ مجھے مجبور کیا کہ میں گریجویشن کروں ورنہ میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔ میں اپنے انٹر پاس ہونے پہ انتہائی مطمئن تھی اور اپنے کے جی کے بچوں کے ساتھ انتہائی خوشگوار زندگی گزار رہی تھی۔
بہرحال کراچی یونیورسٹی سے پرائیویٹ بی اے کیا۔ اسکول والوں نے ہمیشہ مجھے چھٹی دی کہ جا کر امتحان دے آؤ۔ گریجویشن کرنے کے بعد مجھے تیسری اور چوتھی جماعت کی انگریزی سونپ دی گئی۔ ساتھ میں دو کلاسز اسلامیات کی۔ گریجویشن کرنے کے بعد مجھے لگا کہ اب پڑھائی سے جان چھوٹ گئی۔ لیکن یہ میری خام خیالی تھی۔
اس عرصے میں بیٹی کی پیدائش پہ پانچ سال گیپ لیا۔ مجھے بغیر کسی مالی ضرورت کے بچوں کو ادھر ادھر چھوڑ کر ماؤں کا جاب کرنا پسند نہیں۔ بیٹی کو میں نے ایک دن بھی بے بی سٹنگ میں نہیں ڈالا۔ جب اس نے اسکول جانا شروع کیا تو میں نے بھی پھر سے اسکول جوائن کر لیا۔
اس کے بعد چل سو چل۔ پہلے اسلامک ہسٹری میں ماسٹرز کیا۔ اس کے بعد مجھے اسلامک اسٹیڈیز میں ماسٹرز کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ منسڑی آف ایجوکیشن دبئی کے جتنے بھی امتحانات آج تک ایجاد ہوئے ہیں وہ میں نے پاس کیے ہیں۔ چاہے وہ سبجیکٹ ریلیٹڈ ہوں یا padagogy۔ میں ان خوش قسمت ترین لوگوں میں سے ہوں جن کا نام اسکول والے ہر امتحان دینے والوں کی لسٹ میں پہلے نمبر پہ شامل کرتے ہیں۔ اگر اسکول والے شامل نہ بھی کریں تو منسٹری آف ایجوکیشن کی جانب سے قرعہ ہمیشہ میرے نام پہ ہی نکلتا ہے۔ ہمارے پرنسپل خود ہر امتحان دینے سب سے پہلے جاتے ہیں اس کے بعد عموماً میرا نام ہوتا ہے۔ ایک بار ڈرتے ڈرتے عرض کی تھی کہ نوکری کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ہمیشہ میں ہی کیوں؟
تو جواب ملا لیڈر ہمیشہ پہلے خود ہر امتحان کا سامنا کرتا ہے۔ تم ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ ہو۔ اس لیے اپنی ٹیم سے پہلے خود جاؤ۔
بہرحال وہ سفر جو انیس سال کی عمر میں دبئی کے ایک انتہائی چھوٹے اور غیر معروف اسکول میں آٹھ سو درہم میں بحیثیت اسسٹنٹ ٹیچر شروع ہوا تھا اب دبئی کے سب سے پرانے انٹرنیشنل اسکول میں اسلامک اسٹیڈیز کی ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے جاری ہے۔ اس سارے سفر میں الله کا خاص کرم، بہت ہی اچھے لوگوں کا ساتھ اور بے تحاشہ محنت اور لگن شامل ہے۔ الحمدللہ کبھی بھی کسی نے آج تک میری سفارش نہیں کی۔
نوٹ: منسٹری آف ایجوکیشن کی جانب سے ایک اور ڈگری لینے کا حکم جاری ہوچکا ہے۔ جس کی فکر مجھ سے زیادہ بٹیا کو ہے۔ بقول ان کے آپ کو بٹھا کر پڑھانا کتنا مشکل ہے