(Last Updated On: )
از بس کہ میری ادبی زندگی کا آغاز ہی بچوں کے لئے لکھنے سے ہوا ہے، بڑوں کے لئے تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی کام تو میں نے بعد میں انجام دیئے اور اس کڑوی سچائی کا سامنا ہوا کہ عصر حاضر میں ہر چند کہ تخلیق کار عموماً تنقید کی ناانصافیوں، جانبداریوں اور بالا دستیوں کا شکار ہے!
بلا شبہ نقادوں کی بے اعتنائی نے سب سے زیادہ ضرر بچوں کے ادیبوں اور شاعروں کو پہنچایا ہے!
فی زمانہ اردو جس کساد بازاری سے نبرد آزما ہے۔ اس کے نتیجے میں کتابیں اور رسالے خریدنے کی روایت اردو والوں میں بے حد ضعیف ہو گئی ہے۔ درسی کتب ہی اردو پڑھنے والے بچوں کو بہ مشکل دستیاب ہوتی ہیں تو بے چارے ادبی کتابیں کہاں سے خریدیںگے !
ایسے میں ادب اطفال سے متعلق فنکاروں کو مالی فوائد کی توقع ہی نہیں ہوتی۔ لے دے کر ان کے کام کا معاوضہ، شہرت اور تنقیدی اعتراف کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن ان کا احوال سطور بالا میں عرض کر چکا ہوں۔ نقادوں کو میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ سے فرصت ملے تو دوسری جہتوں پر نظر کریں۔
اس تناظر میں، مجھے رئیس صدیقی کی کتاب ’’جان پہچان‘‘ واقعی اچھی لگی۔ یہ ایک اہم کام ہے جو اکیس ایسے ادیبوں اور شاعروں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جنہوںنے اپنی عمر عزیز بچوں کے لئے کہانیاں، نظمیں، ڈرامے وغیرہ تخلیق کرنے میں کھپا دی ہے اور ان میں چند کو چھوڑکر بقیہ سبھی وہ قلم کار ہیں جن کا میدان عمل تا عمر اردوادب اطفال ہی رہا ہے۔
رئیس صدیقی چونکہ خود بھی بچوں کے لئے لکھتے رہتے ہیں، اس لئے ان کی گفتگو بڑی مسبوط، مربوط اور بچوں کے ادب کے مختلف البعاد پر مرتکز نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ وہ متعلقہ ادیب اور شاعر کے سوانحی کوائف نیز تخلیقی و انفرادی تجربات کو بھی کرید کرید کر روشنی میں لائے ہیں۔
جان پہچان میں شامل انٹرویوز کے سلسلہ میں چند اہم ناموں کا ذکر ضرور کرونگا ۔ شفیع الدین نیر ، اظہر افسر، احمد جمال پاشا ، مظہرالحق علوی ، عدیل عباسی جامی چڑیاکوٹی، مفتوں کوٹوی اور قیسر سرمست وغیرہ
مجھے یقین ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں دلی اردو اکادمی کی مدد سے شایع، ۲۱ ادیبوں اور شاعروں کے انٹرویوز پر مبنی ۱۲۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ، جان پہچان اور رئیس صدیقی کے اس کام کی قدر کی جائے گی کیونکہ یہ کتاب دستاویزی حیثیت کی حامل ہے۔