میری ماں میرے لئے ہمیشہ ڈھال بنی رہیں
میں جب بھی کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا انہوں فون کرکے مطمئن ہوجاتا وہ پٹنہ آتیں تو میرے بیلی روڈ کے آفیسرز فلیٹ میں رکتیں لیکن دوکمروں کے اس فلیٹ میں ان کا دم گھٹتا وہ اکثر بالکنی میں بٹھی بیلی روڈ کی مصروفیت میں کھوئی رہتیں اور کہتیں کہ تمہارا فلیٹ تاش کے ڈبے کی مانند ہے ۔انہیں گاؤں کا گھر وہاں کا بڑا آنگن اور دالان یاد آتا لوگوں سے ملنا ملانا یاد آتا اسلئے دن بھر وہ بور ہوتیں
ہر روز میں دفتر بیگم کالج اور بچے اپنے اسکول چلے جاتے گھر میں اکیلی ننھی زین بچتی جس میں وہ لگی رہتیں
ایک دن وہ حسب معلوم بالکنی میں بیٹھی تھیں میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ امی یہ فلیٹ بہت اچھی جگہ ہے لیکن چھوٹا ہے آپ دعاء کردیں کہ مجھے بیلی روڈ کے بڑے فلیٹ کا الاؤٹمنٹ ہوجائے تاکہ آپ کو بھی گھٹن کا احساس نہ ہو
انہوں نے تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں بند کیں پھر مسکراتی ہوئ میری طرف دیکھ کر بولیں
" جا تجھے بڑا فلیٹ مل گیا "
اور الله کی شان کہ مجھے ہڑتالی چوک کے گراؤنڈ فلور کا تین بڈ روم کا فلیٹ مل گیا جہاں ان دنوں صرف آئ۔اے۔ایس آفیسروں کی اجارہ داری تھی
مجھے پٹنہ ڈویزن میں ڈپٹی ڈائرکٹر کے عہدے پر ترقی دیکر پوسٹ کردیا گیا پھر تو بھونچال آگیا میرے دوچار جونئیر آفیسر نے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا اور جب مجھے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے ایک بہت بڑا پلندہ ملا جس پر 135 روپئے کا ٹکٹ لگا تھا تو میرے ہوش اڑگئے ۔میں نے ڈر سے پلندہ کھول کر نہیں دیکھا اور جب ہر پندرہ دن پر دوبار پھر پلندہ آیا تو میں گھبرا گیا دوستوں نے کہا وکیل رکھو جواب دو ورنہ ہائے کورٹ تمہارے خلاف یکطرفہ نوٹس لے لیگا میں مقدموں سے بہت ڈرتا ہوں اچانک ماں یاد آئی میں نے جھٹ انہیں فون کیا کہ مجھے لوگ پٹنہ میں نہیں رہنے دینگے اور یہاں سے دور کردینگے میری آواز بھرا گئی ماں تھوڑی دیر چپ رہیں پھر بولین
"بیٹا تم وہیں بنے رہوگے اور وہ لوگ کیرم کی گوٹی کی طرح چھٹک کر پٹنہ سے دور چلے جائیگے"
میرے دوست شمیم نے پوچھا کہ ہائی کورٹ کو جواب دیا تو میں نے کہا کہ میرے حق میں سیریم کورٹ سے فیصلہ ہوگیا وہ حیرت زدہ رہ گیا میں نے ماں کی بات بتائی تو وہ چپ ہوگیا
الله کی شان دیکھئے کہ صرف دومہینے کے اندر مقدمہ کرنے والے افسر میں سے ایک گیا دوسرا دربھنگہ اور تیسرا رانچی بھیج دیا گیا اور میں وہاں پانچ برسوں تک بنا رہا
اب ایک آخری بات
میں پورنیہ میں پوسٹیڈ تھا میرا گھر بھی میرے سرکاری علاقے میں 70 کیلو میٹر کی دوری پر تھا اسلئے اکثر و بیشتر تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی گھر جاکر ماں سے مل لیتا
وہ اکثر کہتیں آنکھوں میں دھندلکا چھا گیا ہے اسلئے ڈاکٹر سے دیکھا دو میں ہربار ٹال مٹول کردیتا ایک بار رمضان میں معلوم ہوا کہ ماں ٹھوکر کھاکر زمین پر منھ کے بل گری اور ایک آنکھ کی روشنی جاتی رہی میں دوڑا گیا اور جیپ پر بیٹھا پورنیہ لے آیا اور اسی دن سہہ پہر انہیں ایک اچھے ڈاکٹر سے دکھلوایا اور انہوں نے دور اور نزدیک دیکھنے کا چشمہ بنوانے کہا
دوسرے دن دوپہر میں چشمہ لیکر پہونچا تو ان کی خوشی کا ٹھکانا نہیں تھا ۔ دس سال سے ٹھیک سے دیکھ نہیں پارہی تھیں چشمہ پہن کر باؤلی سی ہوگئیں کھڑکی سے دور ناریل کے پیڑ کو دیکھ کر کہا بولو میں ایک ایک ناریل گن دوں میں نے کہا نہیں اصل ٹسٹ تو اب ہوگا
میں نے بیگم کو سب سے باریک سوئی لانے کہا اور ماں سے کہا آپ اس میں دھاگہ ڈال دیں تو پاس ہوجائینگی
انہوں نے ایک ہی گوشش میں دھاگہ ڈال دیا میری آنکھیں ان کی خوشی دیکھ کر نم ناک ہوگئیں تب انہوں نے مجھے گلے لگایا اور میرا چہرا اپنے سامنے کرتے ہوئے دعاء دی
"بیٹا جس طرح تم نے میری آنکھیں روشنی سے بھردی ہیں الله تمہاری پوری زندگی روشن کردےگا "
آج میں جوکچھ بھی ہوں ماں کی اسی دعاء کو جی رہا ہوں
الله ہمارے والدین کی دعاؤں کے حصار میں ہمیں محفوظ رکھے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“