ہوش سنبھالا تو دیکھا، گھر میں ہر طرف ٹرافیاں اور کپ سجے تھے۔ اخباروں کے لاتعداد تراشے فریم ہوئے پڑے تھے۔ جو فریم نہ ہو سکے، وہ گتے کے ڈبوں میں حفاظت سے رکھے تھے۔ جب بات سمجھنے اور سننے کے لائق ہوئے تو پتہ لگا کہ یہ ان گنت کپ اور ٹرافیاں امی کی ہیں۔ ہر انعام کے ساتھ ایک کہانی تھی لیکن یہاں وہ ساری کہانیاں سنانے کا موقع نہیں ہے اس لیے وہ قصہ سن لیجیے جس کی بدولت ان سب کہانیوں نے جنم لیا۔ نانا ابا غریب تھے۔ افلاس اس قدر تھا کہ کبھی کبھی فاقے تک نوبت پہنچ جاتی لیکن تھے پڑھے لکھے۔ ایک متحرک سیاسی کارکن تھے اور بدلتے زمانے کی نبض پہچانتے تھے اس لیے ایک فیصلہ انہوں نے شادی کے فورا بعد کیا اور اس پر مرتے دم تک قائم رہے۔ فیصلہ یہ تھا کہ اولاد کو ہر حال میں اعلی تعلیم دلوانی ہے۔ بیٹوں کو تو سب ہی پڑھاتے تھے پر نانا ابا کو یہ دھن تھی کہ بیٹیاں بھی اسی طرح پڑھیں گی جیسا کہ بیٹے۔ آج سے اسی سال پہلے وہ اس بات کے قائل تھے کہ بیٹی اور بیٹے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بات صرف تعلیم تک ہی نہیں رہی۔ انہوں نے بیٹیوں کو اعتماد، آزادی اور خودمختاری کا فلسفہ بھی ساتھ گھول کر پلا دیا۔ امی کو بچپن سے تقریر کرنے کا شوق تھا۔ تقریر سے بات مباحثوں تک جا پہنچی۔ نانا نے ہر قدم پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ امی سکول سے کالج پہنچیں تو ایک منجھی ہوئی مقرر تھیں۔ اسلامیہ کالج کوپر روڈ سے اورئینٹل کالج ، پنجاب یونیورسٹی تک ان کے سفر میں کتنے ہی بین الکلیاتی مباحثوں میں وہ پہلا انعام لے کر لوٹیں. 60 کی دہائی کے آخری سات برس میں یہ شاذ ہی ہوا کہ کسی بین الکلیاتی یا بین الجامعاتی مباحثے میں امی کو دوسرا انعام بھی ملا ہو۔ سو میں سے نوے دفعہ وہ پہلا انعام لے کر سٹیج سے اترتیں۔ ڈھاکہ میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے تمام کالجز اور جامعات میں ہونے والے مباحثے میں بھی اول انعام ان کا مقدر رہا۔ ٹرافیاں اور کپ اتنے تھے کہ گھر میں انہیں سنبھالنے کی جگہ نہیں تھی۔
نانا ابا سخت بیمار تھے۔ امی ان کے پاس سے ہلنے کو تیار نہ تھیں پر کالج والے بضد تھے کہ کوئٹہ کے بین الکلیاتی مباحثے میں امی کے بغیر ٹیم نہیں جائے گی۔ نانا کو پتہ لگا تو انہوں نے زبردستی امی کو کوئٹہ بھیجا۔ پہلا انعام جیت کر امی واپس لوٹیں تو سٹیشن پر اترتے ہی پہلی خبر یہ ملی کہ نانا اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس کے بعد کی داستان طولانی ہے پر جو اعتماد امی کو اپنی ذات پر تھا اس نے انہیں ٹوٹنے نہیں دیا۔ گھر میں باپ کے رخصت ہونے کے بعد بہن بھائیوں نے مل کر زندگی کی گاڑی کیسے گھسیٹی، وہ ایک الگ داستان ہے پر جو راستہ نانا نے دکھایا تھا، اس پر منزل سے پہلے کسی پڑاؤ کا امکان کسی نے نہیں سوچا۔ امی کالج سے پنجاب یونیورسٹی پہنچیں تو وہاں بھی کامیابی کا سفر یونہی جاری رہا۔ یونیورسٹی کی سو سالہ تاریخ میں کبھی سٹوڈنٹس یونین کی صدر کوئی لڑکی نہیں بنی تھی۔ امی نے انتخاب لڑا اور ایک صدی بعد یونین کو ایک خاتون صدر ملی۔ اس کے بعد سے پچاس سال اور گزر گئے ہیں۔ پر جو اس سے پہلے نہیں ہوا تھا وہ اس کے بعد بھی نہیں ہوا۔ ڈیڑھ سو سال میں عزت پروین سٹوڈنٹس کونسل کی واحد خاتون صدر رہی ہیں۔
تعلیم اور اعلی تعلیم ، بغیر کسی شرط کے، عورت کا حق ہے اور یہ حق دے کر اس پر کوئی احسان نہیں کیا جاتا۔ جب عورت تعلیم حاصل کرنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اس کو ڈولی میں کہاروں کے ساتھ سکول یا کالج نہیں بھیجا جاتا۔ اسے وہی آزادی دی جاتی ہے جو مرد کو حاصل ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں شخصیت کی تعمیر کے لیے جو بھی سرگرمی ہو، اس میں وہ ایسے ہی حصہ لیتی ہے جیسے کہ کوئی مرد۔ اس میں کوئی اختصاص روا نہیں رکھا جاتا۔ میری امی اگر مباحثوں کی چیمپئن تھیں تو میری ایک خالہ اس سے کچھ سالوں بعد سوئمنگ اور روئنگ میں اسی جامعہ میں "کوئین آف دا ریور" کہلائیں۔ عورت ہر وہ عہدہ حاصل کر سکتی ہے جو روایتی طور پر مردوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ عورت گھر سے دور اکیلے سفر کرتی ہے۔ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر بات کرتی ہے، مکالمہ کرتی ہے، مقابلہ کرتی ہے۔ یہ عورت کا وہ تصور تھا جو امی کی زندگی کی پہلی کہانی سننے سے مجھے ملا۔ مجھے لگا کہ شاید سب عورتیں امی جیسی ہوتی ہیں اور سب باپ ںانا ابا جیسے۔ میری نظر میں عورت مرد سے برتر تو تھی ، کمتر نہیں۔
اسی پنجاب یونیورسٹی میں امی اور ابو ہم جماعت تھے۔ یونین کے انتخاب میں ابو امی کے مخالف امیدوار کی انتخابی مہم کے ذمہ دار تھے کہ ان کے سب سے گہرے دوست تھے۔ ادھر انتخاب ہارا ادھر دل بھی ہار گئے۔ ابو کا گھرانہ امی کے گھرانے سے بھی غریب تر تھا لیکن لیاقت میں کمی نہیں تھی۔ یونیورسٹی میں ابو وظیفے پر پڑھنے آئے تھے اور اس زمانے میں پڑھائی کے ساتھ پورے خاندان کا خرچہ اٹھاتے تھے۔ تین نوکریاں ایک ساتھ ، پڑھائی کے علاوہ تھیں۔ امی اور ابو نے ایک دوسرے کو پسند کیا اور شادی کا فیصلہ کیا۔ ںانا فوت ہو چکے تھے۔ ایک بھائی انگلستان مراجعت کر گئے تھے پر جو بھائی یہاں تھے انہیں ابو بالکل پسند نہیں آئے۔ اس کی وجوہات تو ایک سو ایک تھیں پر قصہ مختصر انہوں نے اس رشتے سے انکار کر دیا۔ روایتی بھائی نہیں تھے۔ امی سے بہت محبت کرتے تھے۔ گورنمنٹ کالج (جی سی) کے پڑھے ہوئے۔ لاہور کے ادبی حلقوں کی جان اور چار مسلسل سال آل پاکستان بین الکلیاتی انگریزی مباحثوں کے فاتح۔ امی نے ان کا انکار سنا اور اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ آخری وقت تک بھائی معترض رہے پر شادی ہو کر رہی کہ امی کی مرضی یہی تھی۔ کچھ وقت گزرا تو ابو کی شخصیت ماموں پر کھلتی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں میں ایسی گہری دوستی ہو گئی کہ اس کی مثال ملنا مشکل تھا۔
امی اور ابو کی کہانی سے مجھے لگا کہ عورت کا رشتہ عورت کی مرضی سے ہوتا ہے۔ جیسے مرد عورت کو پسند کرتا ہے ویسے ہی عورت بھی مرد کو پسند کرسکتی ہے۔ مخلوط معاشرے میں رشتے پنپتے ہیں جو عمر بھر کی رفاقت پر منتج ہوتے ہیں۔ ساتھ پڑھنے والے، ساتھ کام کرنے والے کو پسند کیا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ رشتہ بنانا ممکن ہے اور یہ حق جیسا مرد کے پاس ہے ویسا ہی عورت کے پاس ہے۔ عورت سے یہ اختیار کوئی نہیں لے سکتا کہ اس نے زندگی کیسے بسر کرنی ہے کس کے ساتھ بسر کرنی ہے۔ مجھے لگا یہ اختیار ہر عورت کے پاس ہوتا ہے۔ بھائی کے اعتراض اور انکار کے بعد بھائی کا بہن کی مرضی پر سر تسلیم خم کرنے سے مجھے لگا کہ سارے بھائی بھی ایسے ہوتے ہیں۔ بہن کی بہتری سوچتے ہیں، اپنی رائے دیتے ہیں پر بہن پر حق نہیں جتاتے، اس کے راستے کی دیوار نہیں بنتے، اس کی زندگی کے فیصلے خود نہیں کرتے۔ وہ بہن کو بھی اپنے جیسا انسان سمجھتے ہیں اور بہن کی پسند کی شادی بھائی کی غیرت کا امتحان نہیں ہوتی۔
شادی کے بعد امی نے اپنا نام نہیں بدلا اور مرتے دم تک عزت پروین ہی رہیں۔ مجھے لگا کہ عورت بیوی بننے کے بعد بھی خود مختار رہتی ہے۔ اس پر مرد کا کاپی رائٹ نہیں ہوتا۔ وہ نام بدلتی ہے یا نہیں، یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ مرد کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ شوہر عورت کا تو کیا، عورت کے نام کا بھی مالک اور مختار نہیں ہے۔
امی اور ابو دونوں اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ ابو نے بہت سارے مختلف کام کیے پر تعلیم دینا ان کی فطرت سے قریب تر تھے لہذا ایک پروفیسر بن گئے۔ بچوں کو پڑھاتے رہے اور مرتے دم تک پڑھاتے رہے۔ امی کو کاروبار میں دل چسپی تھی۔ پیسے جمع کیے، کچھ اپنا زیور بیچا اور حریم کے نام سے ایک دکان کھولی۔ یہ دکان خواتین کے لیے مخصوص تھی۔ اس زمانے میں یہ خیال نیا تھا اس لیے کام چل پڑا۔ امی "حریم" کا دکان کے بجائے شاپنگ سینٹر کہنے پر مصر رہتی تھیں۔ خیر ، یہ عام دکان تھی بھی نہیں۔ ایک مصروف مارکیٹ کی پہلی منزل پر ایک وسیع رقبے پر پھیلے اس شاپنگ سینٹر میں بیچنے والی بھی تمام خواتین تھیں اور خریدنے والی بھی تمام خواتین۔ ابو کا اس کاروبار میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ حساب کتاب سے لے کر انتظام و انصرام تک ہر کام امی خود کرتی تھیں۔ چند سال یہ کام چلا پھر کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اسے بند کرنا پڑ گیا۔ امی نے ہمت نہیں ہاری، پہلے گھر ہی میں ایک اکیڈمی کا آغاز کیا اور اس کے کچھ عرصے بعد ایک سکول کھول لیا۔ سکول امی کی زندگی میں ترقی کرتا رہا۔ دو کمروں سے پچیس کمروں کا سکول بنا۔ نرسری سکول سے ہائی سکول میں بدلا۔ ایک برانچ بھی کھول لی گئی۔ اس تمام دور میں ابو امی کے ساتھ کھڑے رہے۔ اچھے برے وقت میں دونوں نے مل کر گاڑی کھینچی پر کاروبار کی روح امی ہی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد نہ ابو یہ بار سنبھال پائے اور نہ ہم سارے بہن بھائی۔
پتہ لگا کہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے قوام ہیں۔ ذمہ داری کوئی بھی اٹھائے وہ دوسرے پر احسان نہیں کرتا ، اپنا فرض پورا کرتا ہے۔ مرد صرف پتھر توڑنے والا مزدور نہیں ہوتا اور عورت محض بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہوتی۔ چار دیواری میں مقید رہنا عورت کا مقدر نہیں ہے۔ مجھے لگا کہ یہ ہر گھر کی کہانی ہوتی ہے۔ مرد اور عورت برابر قد سے کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی پر حاکم نہیں ہوتا۔ عورت کام کرنے میں اسی طرح آزاد ہوتی ہے جیسا کہ مرد۔ عورت مرد کی محتاج نہیں ہوتی۔ عورت کی گواہی اتنی ہی معتبر ہوتی ہے جتنی کہ مرد کی۔ عورت آدھی نہیں ہے۔
امی کی چھاؤں جب تک قائم رہی، وہ میرے لیے عورت کا بہترین نمونہ تھیں۔ جو درس مجھے ان کی زندگی سے ملے، ان سے میرے ذہن میں عورت کا ایک خاکہ بنا۔ اس خاکے میں جس طرح ان کے والد، میرے والد اور ان کے بھائی نے رنگ بھرے، اس نے میرے ذہن میں مرد کے کردار کا تعین کر دیا۔ مجھے لگا کہ عورت بس ایسی ہی ہوتی ہے اور مرد بھی اسی طرح کے ہوتے ہیں پر گھر سے باہرایک نئی دنیا تھی۔ کچھ اور ہی طرح کی عورتیں تھیں۔ یہ وہ عورتیں تھیں جو صدیوں سے ڈھالے گئے جبر اور استحصال کے سانچوں کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھی تھیں۔ المیہ یہ نہیں تھا کہ پدر سری معاشرے نے ان سے ان کی شناخت تک چھین لی تھی۔ المیہ یہ تھا کہ عورت نے اپنی شخصیت کی تنسیخ قبول بھی کر لی تھی۔ بات صرف یہی نہیں رکی تھی ، وہ اب اس معدومیت کے حق میں نعرے بھی لگاتی تھی۔ کہیں سے کبھی شعور، آگہی اور احتجاج کی ہوا چلتی تو خم ٹھونک کر اس کے خلاف اترنے والی جمعیت صرف مردوں کی ہی نہ ہوتی، اس میں عورتیں بھی شامل رہتیں۔ چھوٹی عمر کی شادی ہو، جائیداد میں حصہ ہو، تعلیم کے آستانے ہوں یا ملازمت کے دروازے ۔ سب جگہ ایک سا عالم تھا۔ اپنی خواہش کا لباس پہننے والی عورت بدچلن ٹھہری، ننگے سر بازار میں نکلنے والی عورت بے حیا کہلائی، محبت کرنے والی عورت بدکردار سمجھی گئی، اپنی مرضی سے شادی کرنے والی عورت کاری بنی۔ فحش اشاروں اور تصویروں کا کاروبار کرنے والے مرد معزز رہے پر اس دھندے کی بابت پوسٹر بنا کر احتجاج کرنے والی عورت کے سر سے عزت کی ردا چھین لی گئی۔ بھنگڑا ڈالنے والے مرد معتبر رہے پر دھمال ڈالنے والی عورت گالیوں کا رزق بنا دی گئی۔ سوشل میڈیا پر اپنی جائیدادیں بیچ کر راتیں خریدنے والا بھولا ریکارڈ ایک خوشی، ایک مذاق اور دل لگی کا سامان رہا پر اپنے پورے گھر کو پالنے والی قندیل بلوچ فاحشہ قرار دے کر قتل کر دی گئی۔
ہم مشرقی اقدار، مذہبی تشریحات اور ثقافتی روایات کے نام پر صدیوں سے عورت کے لیے بیڑیاں بناتے رہے۔ مغرب کی عورت نے بڑی حد تک وہ بیڑیاں توڑ دی ہیں۔ اب ہماری باری ہے اور ہم خوفزدہ ہیں کہ عورت نے اپنے بنے ہوئے سانچے سے باہر نکل کر سوچنا شروع کر دیا تومردوں کی حاکمیت کا ڈھکوسلہ کہاں جائے گا۔ اس لیے ہم مزاحمت پر آمادہ ہیں۔ پر یہ مزاحمت بہت دن چلنے کی نہیں۔ عورت کو اپنے جیسا انسان سمجھنے کی خو ڈالیے۔
میں نے اپنی بہن ، بیوی، بیٹی اور ہر عورت میں اپنی ماں کو دیکھا۔ کوشش کی کہ میں کسی ادنی درجے میں بھی ویسا ہی رہ سکوں جیسے میری ماں کے باپ، بھائی اور شوہر تھے۔ آپ بھی شاید اپنے بڑوں کی اسی طرح تقلید کرتے ہوں گے۔ لیکن ہر کردار قابل تقلید نہیں ہوتا، ہر سانچہ خوبصورتی تخلیق نہیں کرتا۔ میرے نانا، میرے ماموں اور میرے والد اپنی اپنی جگہ بارش کا پہلا قطرہ تھے۔ وہ روایت شکن تھے۔ اور جس تبدیلی کی نیو انہوں نے رکھی ، اس نے کئی نسلوں کی تربیت کر ڈالی۔ آپ بھی رکا ہوا پانی نہ بنیں۔ ٹھہرا ہوا پانی صرف تعفن کو جنم دیتا ہے۔ بارش کا وہ پہلا قطرہ بنیں جو کچی مٹی پر گرتا ہے تو ہر سو مہک بکھرتی ہے۔ آئیے، مل کر ایک نئے سماج کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ مرد کا سماج، عورت کا سماج، ایک جتنا ، ایک جیسا۔