افسانچہ ( میری دھرتی میرا ایمان)
ارے بھائی غلطی ہمارے ملک کی نہیں یہ تو ہم نے بڑی قربانیوں سے حاصل کیا ہے۔ غلطی اس سسٹم کی ہےجو ہم پر مسلط کیا گیا ہے جس میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے ۔ جس میں صرف بااثر شخصیات کو سارے حقوق حاصل ہے ملکی خزانوں اور بیت المال پر انہی بااثر لوگوں کا حق ہے۔مردان میں بچے کو زیادتی کے بعد پھانسی دی جاتی ہے،بنوں میں دن کے وقت گھومنا پھیرنا گناہ سمجھا جاتا ہے،میرا بلوچستان زخمی ہو رہا ہے ، میرا پھولوں کا شہر خون میں لت پت ہے ، کراچی میں پائیدار امن نہیں ہے۔ میرا روپیہ تنزلی کی طرف رواں دواں ہے ، میرے دین اسلام اور میرے حبیب کی شان میں گستاخیاں ہورہی ہے، میرے کسان بھوک سے مر رہے ہیں،میرے نوجوان بے روزگاری سے خودکشیاں کر رہے ہیں،میرے جوان نا ختم ہونے والی پرائےجنگ میں شہید ہورہےہیں،قرضے پہ قرضے لیے جارہے ہیں ، ملک کو کنگال کیا جارہا ہے اور جس بے دردی سے پاک وطن کو لوٹا جارہا ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ، وزیرستان میں لوگ شہید ہورے ہیں، ڈرون حملوں میں بے گناہ بچوں کو یتیم کیاجاتاہے،ارے بھائی کبھی ان غریبوں سے بھی پوچھا ہے کہ زندگی کیسی گزر رہی ہے ؟ نہیں یہاں تو سب اپنے مفاد کی جنگ لڑھ رہے ہیں سب کواپنی پڑی ہے۔ارے بھائی کوئی توجائے ان ماوں سے پوچھے جن کے بچے اس سرزمین کی خاطر اس زمیں کے نیچھے دفن ہیں ، کوئی جا کے وزیرستان کی ماوں سے پوچھے ، کوئی جا کے سپینہ تنگی ، بابڑہ ، جلیاانوالہ باغ،درہ آدم خیل کے فلک پوش پہاڑیوں اور گوریک کی بلند چوٹیوں سے آزادی کی قیمت پوچھ لیں۔کوئی پوچھے کہ ممتاز قادری کو کیوں ہھانسی دی گئی اس کا جرم کیا تھا ؟کوئی پوچھے کہ آئی ایم ایف سے جو قرضے لیے ہیں وہ کس کی تجوری میں گئے ؟ کوئی پوچھے کہ کیا غداروں سے ملکی خزانوں کے پیسے بھی وصول کر لیئے گئے یا یہ گیم صرف انتحابات تک محدودتھا ؟ میں ساری باتیں سن رہا تھا اور خاموشی سے سن رہا تھا کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں تھی مجھ میں ایک پل کےلیے خاموش رہا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ سب کچھ اس پر خود بیت رہی ہوں۔ایک ٹھنڈ آہ لےکے پھر گویا ہوا ! ارے بھائی یہ سب لوگ جو لگے ہیں نا اپنی مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں کوئی نہیں جو اس ملک اور اس کے غریب عوام کے لیے سوچھے۔ اور اگر آپ کوایسا لگتا ہے تو احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دراصل ہم آزاد ہو کے بھی آزاد نہیں ہے ہم ابھی بھی غلام ابن غلام ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اب اس دیس میں گورے نہیں ہیں وہ چلے گئے ہیں ارڈر تو اب بھی ہم انہی کا مانتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں غیرت اورایمان کی قحط سالی جو آئی ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان جو لا الہ اللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے ۔ نہ تو اب جمہوریہ ہے اورنہ ہی اسلامی ۔۔۔ میں اس بات پر بہت حیران ہوا تو وہ جان گیا اور کہا کہ ارے بھائی تم حیران نہ ہونا۔۔۔ دیکھو اگر جمہوریہ ہوتا توسب کو برابر کے حقوق ملتے ۔۔۔۔۔ ہیں نا ؟ میں نے سر ہلایا تواس نے کہا کہ کیاآپ مطمئین ہے کہ حضرت عمرکی خلافت کی طرح سب کو اس ملک میں حقوق مل رہے ہیں ؟ میں شرمندگی سے نیچھے دیکھ رہا تھا۔ ہھر کہا اچھا اگر اسلامی ہوتا تو کیا ممتاز قادری کوپھانسی ملتی؟؟؟؟ اور آسیہ ملعون کو حفاظت ؟؟؟؟ یا پھر ہالینڈ اور ڈنمارک سے سفارتی تعلقات ختم نہیں کرتے ؟؟؟ یا ان کے خلاف اعلان جہاد نہیں کرتے ؟؟؟؟ یہ سرا قصور میرے پیارے وطن کا نہیں ۔۔۔۔ اس سسٹم کا ہے یہاں کے حکمرانوں کا ہے اور کچھ ہمارا بھی ہے کیونکہ ہم بھی اس سسٹم سے جڑے ہوئے اسے مہرے ہیں جن سے سیاسی لوگ فائدہ اٹھا کر مسند کرسی ہو کر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور ان سارے گناہوں میں ہم ان کے ساتھ پھر برابر کے شریک ہو کر بھی خود کو معصوم ثابت کرتے ہیں۔ارےبھائی میں خود بھی ان لوگوں سے تنگ آچکا ہوں یہاں تو کو ئی بھی ٹھیک نہیں البتہ مری دھرتی میرا ایمان ہے یہ کہہ کر اپنی جھونپڑی کی طرف چل پڑا اور میں شرم سے پانی پانی ہوا ۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“