پطرس کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ ایک طنز نگار یا مزاح نگار ہیں ۔ یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے جس میں ایک مدت سے اہل علم مبتلا ہیں۔ مجھ سے پوچھیے تو وہ نرے مصوّرِ غم ہیں۔ ان کے کئی مضامین لوگ مزے لے لے کر پڑھتے ہیں اور ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ ان ہی میں ایک مضمون “ ہاسٹل میں پڑھنا” بھی ہے۔ بہت سوں کے نزدیک یہ مزاح نگاری کا شاہکار ہے لیکن میرا دل کرچی کرچی ہوجاتا ہے جب میں یہ دکھ بیتی پڑھتا ہوں۔ یہ دکھ وہی سمجھ سکتا ہے جس پر بیتی ہو۔ جس تن لاگے،سو تن جانے۔
میری داستانِ حسرت اس سے کچھ الگ تو ہے لیکن اس میں بھی وہی مراحل آتے ہیں جن سے کبھی پطرس مرحوم گذرے۔ قدرت کی ستم ظریفی، آرزؤں اور تمنّاؤں کا، خوابوں کا بننا اور ٹوٹنا، کچھ اپںی عقلمندی، کچھ اپنی نالائقی، کچھ زمانے کا ظلم وجور کیا نہیں ہے جو اس درد بھری کہانی میں نہیں۔
میری کہانی میں بھی کیا کچھ ہے کہ نہیں ہے۔ خوشی اور غم، کامیابی اور ناکامی، امید اور نا امیدی یہ سب یوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ اب سوچتا ہوں کہ کیوں کر یہ سب کچھ جھیل گیا۔ زمانے کے طعنے، لوگوں کے دل چیرتے فقرے، اپنوں کی سوالیہ نظریں، غیروں کی ذومعنی باتیں۔ کیا کچھ نہیں ہے جو قلبِ شاعر پہ نہیں گذری۔
پطرس مرحوم ہوسٹل میں داخلے کے لیے ہاتھ پیر مارتے رہے اور یہ خاکسار دوبئی کے ڈرائیونگ لائسنس کے لئے خستہ و خوار ہوتا رہا۔ پطرس کو تو صرف تین مضامین انگریزی، تاریخ اور فارسی ، ایک ساتھ پاس کرنے تھے۔ یہاں پانچ امتحانات ، سائیڈ پارکنگ،، گیراج پارکنگ، ہل، اشارہ اور روڈ ، یکے بعد دیگرے پاس کرنے تھے۔ کراچی میں گھر بیٹھے لائسنس حاصل کرنے والے، یا آج کے جدید دوبئی میں کئی ہزار درہم خرچ کرکےپہلی دوسری یا تیسری کوشش میں لائسنس حاصل کرنے والے اس جدوجہد کو نہیں سمجھ سکتے جس سے اسّی اور نوّے کی دہائی میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے والے گذرے۔
اب بھی اکثر یہی کہیں گے کہ ہم نے تو چار ماہ، یا ایک سال میں لائسنس لے لیا تھا۔ سنا ہے ایک مشین آتی ہے جو جھوٹ پکڑتی ہے۔ ان سب کو اس مشین کے سامنے بٹھا کر پوچھا جائے کہ انہیں کس طرح اور کتنی کوششوں میں یہ عظیم اعزاز ملا۔ ویسے عام طور پر ایک یا دوسال میں مل ہی جاتا تھا اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا اور لائسنس حاصل کرنے کی حسرت میں ہی زندگی گزار دی یا دنیا سے ہی چلے گئے۔ لیکن میری کہانی سب سے جدا، سب سے الگ ہے۔
اس سے پہلے کہ میں دکھوں ، آ ہوں، آنسوؤں ، مسکراہٹوں کی یہ داستان شروع کروں اسکا تھوڑا سا پس منظر جان لیں۔
دوبئی آنے سے پہلے میں داہران سعودی عرب میں ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ملازم تھا جو صحرا کے بیچوں بیچ واقع ہوا تھا۔ اس زمانے میں یہاں لائسنس حاصل کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ پاکستان سے لائسنس منگوائیں، اپنی کمپنی کا خط بنام محکمہ ٹریفک پولیس لیں کہ مسمی فلاں ولد فلاں کمپنی ہٰذا کا ملازم ہے اور اسے اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے لیے ڈرائیونگ لائسنس درکار ہے۔ یہ دو چیزیں لے کر لوگ باگ پولیس اسٹیشن جاتے اور دوسرے ہاتھ میں لائسنس لیے واپس آتے۔ یہ ستّر اور اسّی کی دہائی کی بات ہے۔
اس خاکسار نے یہ تکلف بھی نہیں کیا کہ اسے لائسنس کی ضرورت نہیں تھی البتہ موٹر چلانے کا شوق بچپن سے تھا اور یہ شوق کسے نہیں ہوتا۔ ہوٹل کی بہت سی کاریں، بسیں، وین وغیرہ تھیں۔ زیادہ ترڈرائیور اپنے پاکستانی اور ہندوستانی بھائی تھے۔ جب کبھی موقع ملتا ان سے گاڑی لے کر ہوٹل کے پچھواڑے ڈرائیونگ کا شوق پورا کرتا۔ ہم سب وہیں ہوٹل کے عقب میں اسٹاف کوارٹرز میں رہتے تھے۔ ایک دن ہمارے ایک ساتھی کہیں سے دو ڈھائی ہزار ریال میں ایک پرانی سی کار لے آئے۔ ان سے بے تکلفی تھی چنانچہ ان سے بلاجھجک کار لے کر چلانا شروع کردی ۔ ہمارا ہوٹل داہران سے ابقیق جانے والی شاہراۂ کے بالکل شروع میں واقع ہوا تھا اور یہاں ٹریفک برائے نام ہوتا تھا۔ یہ ہائی وے تھی اور پولیس کبھی کبھار ہی نظر آتی تھی۔ بس اب یہ سڑک تھی اور ہم تھے۔ میلوں دور نکل جاتے۔ ایک دو خطرناک واقعات بھی ہوئے لیکن ان کی تفصیل ذرا طویل ہے۔ بہرحال قصہ مختصر یہ کہ اس طرح ڈرائیونگ سیکھ لی۔
لیکن ڈرائیونگ الگ چیز ہے اور اس کے آداب یعنی قاعدے قانون اور چیز ہیں۔ اس کے لیے بہرحال تربیت یعنی ٹریننگ ضروری ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں انہی باتوں پر زور دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں ٹریفک میں وہ افراتفری نظر نہیں آتی جو ہمارے ہاں کا خاصہ ہے ، جہاں بغیر لائسنس ڈرائیونگ کوئی معیوب بات نہیں اور ڈرائیور صرف گاڑی چلانا جانتے ہیں۔ قوانین کی نہ انہیں خبر ہوتی ہے نہ پرواہ۔
خیر جی جب دوبئی آئے تو اس وقت دوبئی اتنا چھوٹا تھا کہ کار کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ سارے دوست احباب ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہتے تھے، جب ذرا گردن جھکائی۔۔۔دفتر جانے کے لئے زیادہ سے زیادہ پانچ درہم خرچ ہوتے تھے۔ پھر ایک دن ایک دوست دفتر میں مٹھائی بانٹتے پھر رہے تھے۔ ان دنوں مٹھائی بانٹنے کا مطلب یا تو یہ ہوتا تھا کہ انڈیا یا پاکستان سے خبر آئی ہے کہ گھر میں ( یعنی بیگم کو) خیرسے لڑکا ہوا ہے، یا پھر اس خوش نصیب کو ڈرائیونگ لائسنس مل گیا ہے۔ ہمارے اس دوست کی ایک چھ ماہ کی بچی تھی اور ان کا گھر بھی ہمارے پڑوس میں ہی تھا چنانچہ لڑکا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے بنک کے قرضے سے کار بھی خرید لی اور ہم بھی ان کے ساتھ دفتر آنے جانے لگے۔ یہ سلسلہ ایک ڈیڑھ سال چلا تا آ نکہ ہماری بھی شادی خانہ۔۔۔آبادی ہوگئی۔ لائسنس کی ضرورت البتہ اب بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ کار کی ضرورت ہمارے ہاں تب پیدا ہوئی جب بچے پیدا ہونے شروع ہوئے۔ ہم اور بیگم تو دوبئی کی گرمی میں کہیں بھی کھڑے ہوکر ٹیکسی کا انتظار کرسکتے تھے لیکن شیرخوار بچے یہ گرمی اور مشقت برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ گھر کسی اور جگہ لے لیا اور اس دوست کا ساتھ چھوٹ گیا جو پڑوس میں رہتے تھے ۔ آہستہ آہستہ ڈرائیونگ لائسنس کی ضرورت کا احساس بڑھنے لگا۔
تو بھیا اللہ کا نام لے کر ایک دن دوبئی پولیس کے ٹریفک ڈیپارٹمنٹ جا پہنچےجسے یہاں “ مرور” کہتے ہیں اور جس کے نام سے ہی پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔ ان دنوں میری دائیں آنکھ کے ساتھ ایک مسئلہ ہوگیا تھا۔ یہ بھی ایک طویل داستان ہے، مختصرا یہ کہ مجھے دائیں آنکھ سے ٹھیک سے نظر نہیں آتا تھا اور ڈرائیونگ لائسنس کی پہلی شرط بینائی کا ٹسٹ پاس کرنے کی تھی اور بینائی بھی دونوں آنکھوں کی۔ خوش قسمتی ( یا بدقسمتی) سے بینائی جانچنے کے لیے وہ تختی یہاں نہیں تھی جس پر انگریزی، یا اردو یا عربی کے حروف تہجی ہوتے ہیں۔ اس تختی پر انگریزی کا صرف ایک حرف E تھا جس کا رخ دائیں بائیں ، اوپر نیچے کیا ہوا تھا یعنی کہیں اس کا رخ سیدھی جانب ہوتا تو کہیں الٹی تو کہیں یہ آسمان کی جانب ٹانگیں اٹھائے ہوتے تو کہیں زمین کی جانب سجدہ ریز نظر آتا۔
پولیس کا جو اہلکار یا ڈاکٹر یہ ٹسٹ لے رہا تھا وہ تختی کے برابر ایک کرسی ڈالے اور ہاتھ میں ایک چھڑی لئے بیزار سا بیٹھا تھا،۔ وہ چھڑی ایک نشان پر رکھتا اور ہم ہاتھ کے اشارے سے بتاتے کہ یا دائیں ہے یا اوپر۔ اتفاق سے پہلا ٹسٹ بائیں آنکھ کا تھا جس سے بالکل ٹھیک نظر آتا تھا ، سو بڑے اعتماد سے بالکل ٹھیک ٹھیک بتایا۔ اب اس نے کہا کہ بائیں آنکھ کو ڈھانکو اور سچ سچ بتاؤ کہ یہ کس طرف ہے، ہم نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، یعنی ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا لیکن ہاتھ کا اشارہ پراعتماد انداز سے کرتے رہے۔ وہ مرد بیزار شاید تختی کو دیکھ بھی نہیں رہا تھا، بمشکل دوتین منٹ کا ٹسٹ تھا۔ اس نے اس پرچی پر “ کامیاب” کی مہر لگادی اور ہم خوش خوش امتحان گاہ سے باہر آگئے۔
وہ جو فارسی میں کہتے ہیں ناں۔۔۔خشتِ اول چوں نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج
(پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو اگر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی ہوگی۔)
یا یوں کہئے کہ “ جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔۔
چناچہ یوں ہی ہوا۔ جو کام دو نمبر طریقے سے کیا اس کا انجام بھی پھر ایسا ہی ہوا۔
خیر جناب وہ پرچی لیکر ایک دوسری کھڑکی پر گئے جہاں سے گتے کا ایک کارڈ ملا جو تین تہوں میں تقسیم تھا۔ ہر صفحے پر بڑے بڑے خانے بنے ہوئے تھے جیسے کبھی راشن کارڈ پر ہوا کرتے تھے جن میں تاریخ کے سامنے چینی اور آٹے کی مقدار درج ہوتی تھی۔
یہ “ لرننگ لائسنس “ تھا۔
سو یہ مرحلہ تو طے ہوا۔ اب تلاش تھی کسی اچھے سے “ استاد” کی۔ جی ہاں ۔ یہاں کار چلانے کی تربیت کو بھی “ تعلیم “ کہتے ہیں۔طریقہ اس کا کچھ یوں تھا کہ ایک تو تھا ٹریفک پولیس کا اپنا یا نیم سرکاری ڈرائیونگ اسکول جس کی فیس تقریباً میری ماہانہ تنخواہ کے برابر تھی۔ یہ ذرا جدید طریقے سے تربیت دیتے اور یہاں سے عموماً لائسنس جلد ہی مل جاتا تھا کہ یہ خود ہی ٹسٹ لیتے تھے۔ خود کوزہ، خود کوزہ گر و خود گل کوزہ۔ لیکن یہ نام بس ہم شوق سے سن سکتے تھے کہ اگر اس کی فیس دے سکتے تو بچوں کے دودھ، گھر کا کرایہ ا ور نان شبینہ کا انتظام کیونکر ہوتا۔دوسرا طریقہ یہ تھا کہ دوبئی میں بہت سارے پرائیوٹ ڈرائیونگ اسکول تھے جو ماہانہ تین ساڑھے تین سو لے کر روز تقریباً ایک گھنٹہ ڈرائیونگ سکھاتے۔ گو یہ بھی ہمارے لیے اس زمانے میں کم نہیں تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ روزانہ ایک گھنٹے کاوقت کیسے نکالا جائے کہ ہماری تو چھٹی ہی شام پانچ بجے ہوتی تھی جب ڈرائیونگ اسکول بند ہوجاتے تھے۔ دفتر سے روز ایک ڈیڑھ گھنٹہ چھٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ ہماری “ فوری آقا” یعنی Immediate Boss ایک نہایت خسیس قسم کا ملباری تھا۔
میں نے بہت پہلے ملباریوں کی تعریف میں ایک مضمون لکھا تھا۔ لیکن ان کا ایک اور روپ ہے جو دفتروں میں نظر آتا ہے۔ یہ جس قدر اپنے سے نیچے والوں پر سخت ہوتے ہیں اپنے سے ایک درجہ اوپر والوں کے سامنے ان کی گھگی بندھی رہتی ہے ۔ جب میری آنکھ کا مسئلہ ہوا اور دوبئی کے سرکاری ہسپتال کے آنکھوں کے سب سے بڑے ڈاکٹر نے مجھے دس دن مکمل آرام کے لیے کہا کہ کوئی ایسا کام نہ کروں جس سے آنکھ پر زور پڑے، اور میرا کام تو ہوتا ہی کمپیوٹر کی اسکرین پر نظریں جمائے رہنے کا۔ میں نے ڈاکٹر کے سرٹیفیکٹ کے ساتھ چھٹی کی درخواست دے دی۔ لیکن ہمارے باس صاحب نے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ جب ہفتہ بھر گذر گیا تو میں نے ایڈمنسٹریشن والوں سے پوچھا کہ مجھے فوری چھٹی لینے کے لیے کہا گیا ہے لیکن میری چھٹی اب تک منظور ہی نہیں ہوئی۔پتہ چلا ہمارے باس صاحب نے درخواست آگے بڑھائی ہی نہیں۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اوپر سے اس سے یہ سوال نہ کیا جائے کہ دس دن تم کیسے کام چلاؤگے۔ ایڈمن نے جب درخواست اس سے لیکر ڈینش جنرل مینیجر کو بھیجی تو اس نے میرے باس کو بلاکرسخت جھاڑ پلائی کہ ڈاکٹر نے اسے فوری آرام کے لیے کہا ہے اور تم اس سے کام کروا رہے ہو۔ اگر اس کی آنکھ کو کچھ ہوگیا تو کیا تم ذمہ دار ہوگے۔
تو اب ایسے شخص سے روزانہ چھٹی لینا آسان نہیں تھا۔ دوسری طرف ہمیں خود پر کچھ زیادہ ہی اعتماد تھا کہ ہمیں کونسی بہت زیادہ “ تعلیم “ کی ضرورت ہے۔ یہ ڈرائیونگ اسکول تیس پینتیس درہم گھنٹہ کے حساب سے بھی تعلیم دیتے تھے۔ کسی نے ایک نام بتایا جن سے فون پر بات ہوئی اور طے پایا کہ فلاں چھٹی والے دن وہ گھر سے آکر مجھے لے جائیں گے۔
مقررہ دن اور جگہ پر وہ صاحب اپنے اسکول کی گاڑی لے کر آئے۔ میں نے نہایت ادب و احترام سے اپنے اس نئے استاد کو سلام کیا۔ جواب ملا “ غوں، غاں، غام”۔ ان کا منہ بند تھا اور لبوں کے کناروں پر پان کی لالی چمک رہی تھی۔ میں ان کی برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور ہم دوبئی سے کچھ باہر ایک سنسان جگہ پر آگئے۔ استاد نے ایک جگہ گاڑی روکی ، باہر آکر یہاں وہاں دیکھ کر ایک لمبی سی پچکاری ماری اور مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
استاد کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں نے گاڑی گئیر میں ڈال کر آگے بڑھائی۔ رفتار مزید بڑھا کر ایک اور گئیر بدلا ۔
“وا ڑے!! “ استاد کی ستائش بھری آواز آئی
“ تم کو تو ڈریونگ مالوم ہے” یہ استاد بلوچ تھے۔
کچھ شرما کر، کچھ اکڑ کر میں نے انہیں بتایا کہ گاڑی تو مجھے چلانا آتی ہے۔ انہوں نے کچھ اطمینان کی سانس لی کہ مجھے ابتدائی سبق کی ضرورت نہیں۔ گاڑی پر کنٹرول سے بھی وہ مطمئن تھے۔ تھوڑی دیر اس سنسان جگہ پر چلانے کے بعد انہوں نے مجھے شہر کی جانب چلنے کو کہا اور اب ہم ٹریفک کے بیچ میں گاڑی چلا رہے تھے۔ انہوں نے دو ایک جگہ اشارہ ( انڈیکیٹر)دینے اور شیشہ ( دائیں بائیں اور عقب کے مرر) دیکھنے کی ہدایات دیں۔ آخر میں ایک ایسی جگہ لے آئے جہاں ٹریفک کی بہت بھیڑ تھی۔ یہاں سے گذر کر ہم واپس گھر کے راستے پر ہولئے۔
“ کیا خیال ہے استاد؟” میں نے گاڑی سے اترتے ہوئے اور رخصت ہوتے ہوئے پوچھا ۔
“ کتنے دنوں میں لائسنس مل جائے گا؟”
“اڑے تم فکر نئیں کرو۔ تم کو جلدی مل جائیں گا۔ “ استاد نے اطمینان دلایا اور رخصت ہوگئے۔
اور یہی میری داستان عبرت و حسرت کا آغاز تھا۔ اگلے ہفتے یہ بلوچ استاد نہ مل سکے۔انہوں نے اس بار ایک پختون بڑے میاں کو بھیج دیا۔ انہوں نے خان صاحب کو نجانے کیا بتا یا تھا کہ خان صاحب نے شہر میں اور بھری پری سڑکوں پر گاڑی چلوائی۔ یہاں تک تو غنیمت تھا لیکن انہوں نے ایک ایسی سڑک پر جس کی زیادہ سے زیادہ رفتار کی حد ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ تھی ۔ مجھے “ پٹرول” بڑھانے کے لئے کہا۔ یہ ان استادوں کی زبان تھی۔ پٹرول سے مراد “ ایکسیلیٹر” یا رفتار تھی۔ آس پاس دوڑتی ہوئی گاڑیوں کے درمیان میں نے گاڑی کی رفتار ساٹھ کردی۔
“ اور پٹرول دو”
میں نے رفتا ستر کردی۔
“ پٹرول”
رفتار اسی ہوگئی۔
“ پٹرول” رفتار نوے۔۔۔
“ خان صاحب یہ سڑک تو ساٹھ کی ہے؟” خوش قسمتی سے ان دنوں سڑک پر کیمرے نہیں ہوتے تھے۔
“ تمہارا ڈر نکالنا ہے۔۔ بریک بریک بریک!! “ خان صاحب اچانک چلائے۔ سامنے سگنل آرہا تھا۔
اگلی باریوں میں خان صاحب نے بغلی پارکنگ اور گیراج پارکنگ وغیرہ سکھائی۔ ایک دن ایک چھوٹے سے ٹیلے پر لے جاکر Hill کی تعلیم دی۔ راستوں پر بنے مختلف اشاروں کے بارے میں بتایا۔ لیکن کچھ دنوں بعد وہ خود نہیں آئے بلکہ “ شیر علی” صاحب کو بھیج دیا۔
“ یہ آپ اتنا تیز کیوں چل رہا ہے” دوبئی ایرپورٹ والی سڑک پر شیر علی صاحب نے پوچھا۔
“ یہ اور گاڑیاں بھی تو تیز چل رہی ہیں “
“ یہ لوگ تو اپنے کام سے جارہا ہے۔ آپ تعلیم کررہا ہے۔ چھت پر دیکھو اتنا بڑا L کا بورڈ لگا ہے۔ آرام سے چلو “ شیر علی نے تنبیہ کی۔
اگلی بار یہی سڑک تھی۔ میں نے رفتار درمیانی ہی رکھی۔
“اتنا آہستہ کیوں چلا رہا ہے۔ آزادی کے ساتھ چلاؤ۔ ایسا ڈر کر چلائے گا تو کبھی نہیں سیکھے گا”
تو جناب یہ تھی “ تعلیم “ جو میں حاصل کررہا تھا۔ شیر علی صاحب بہت پیارے انسان تھے بس تھوڑے سے جماعت اسلامی کے تھے۔ اب میرے ہاتھ ایک گر آگیا تھا۔ کسی دن ابتداء ہی میں کوئی بات چھیڑ کر قاضی حسین احمد کا ذکر کردیتا یا مولانا مودودی کے بارے میں کوئی اچھی بات کہہ دیتا۔ شیر علی تمام وقت نرمی اور مہربانی سے پیش آتے بلکہ بعض اوقات اگر میرے بعد کسی اور کی باری نہ ہوتی تو مقررہ وقت سے زیادہ تعلیم کردیتے۔ کبھی کبھار میں دو گھنٹے کے لیے انہیں بک کرتا تو ہم درمیانی وقفے میں کہیں نماز کے لیے یا چائے پینے کے لیے رکتے اور تقریباً آدھا گھنٹہ تحریک اسلامی ، تفہیم القرآن اور قاضی حسین احمد کی باتیں کرتے رہتے۔ میرے لئے تفہیم القرآن کا پورا سیٹ یعنی چھ ایڈیشن عربی رومال میں باندھ کر لائے اور مجھ سے ہدیہ لینے کو تیار نہیں تھے۔
“ جس دن لائسنس ملنا ہوگا، ہوا مہربان ہوگی، انسپکٹر مہربان ہوگا، ٹریفک مہربان ہوگا، کیونکہ خدا مہربان ہوگا”۔ شیر علی صاحب اکثر کہتے۔
لیکن فی الحال انسپکٹر اور خدا کی مہربانی کے آثار کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ ہر ہفتے ایک گھنٹہ اور اس طرح دس بارہ گھنٹے “ تعلیم “ کرکے ہم نے بالآخر پہلے ٹسٹ کی تاریخ لے لی۔ سائیڈ پارکنگ، گیراج پارکنگ، ہل اور اشارے کے ٹسٹ عموماً ایک ہی دن ہوجاتے تھے بشرطیکہ کہ آپ ہر امتحان میں کامیاب ہوں۔ کئی امیدوار یہ سب ٹسٹ ایک یا دو کوششوں میں کرلیتے۔ لیکن وہ شکور پٹھان ہی کیا جو وہ کام کریں جو دوسرے کرتے ہیں۔ ابھی تو ایک تاریخ رقم کرنی تھی ۔
پہلا ٹسٹ ہوا اور ہم فیل ہوگئے لیکن کوئی بات نہیں ، پہلا ہی تو ہے۔ دو ہفتے بعد دوسرا ٹسٹ دیا اور سائیڈ پپارکنگ میں کامیاب ہوگئے۔ انسپکٹر نے گیراج پارکنگ کے ٹسٹ کے لیے بھیج دیا۔ اب ایسی بھی کیا جلدی تھی کہ ایک ہی دن میں دو دو امتحانوں میں کامیاب ہوتے چنانچہ دوسرے ٹسٹ میں ناکام ہوگئے۔
اب ذرا تشویش ہوئی کہ یہ سارے مراحل طے ہوں تو روڈ ٹسٹ کی باری آئے۔ ذرا جم کر گیراج پارکنگ کی تربیت کی اور اگلے ہفتے ٹسٹ دینے “مرور” جاپہنچے۔ گیراج پارکنگ جیسا کہ آپ جانتے ہیں تھوڑا وکھری ٹائپ کی پارکنگ ہوتی ہے۔ اس میں گیراج سے نکل کر پہلے دائیں جانب گاڑی موڑتے ہیں۔ پھر اسی راستے سے ریورس میں واپس گیراج میں، پھر باہر نکل کا بائیں جانب، پھر ریورس میں گیراج، اور کبھی کبھی ایک بار پھر باہر نکل کر ایک جانب گاڑی پارک کردیتے ہیں۔ انسپکٹر باہر سے کھڑا دیکھتا رہتا ہے اور جیسے ہی غلطی ہوتی ہے سیٹی بجا کر باہر آنے کا اشارہ کرتا ہے اور دوسرے امیدوار کا نام پکارتا ہے،۔
جب ہماری باری آئی تو پہلے گاڑی کو ریورس میں دائیں جانب سے لاکر پارک کرنا تھا جو بخیر خوبی ہوگیا۔ پھر باہر نکال کر بائیں جانب لے جانا تھا۔ وہ بھی ہوگیا۔ اب ریورس میں واپس گیراج میں جانا تھا، ریورس تھوڑا سا مشکل ہوتا ہے، لیکن ہماری گاڑی خراماں خراماں جارہی تھی۔ کان سیٹی کی آواز پر لگے تھے لیکن جب پوری طرح پارک کرنے سے چند قدم دور تھے کہ خیال آیا کہ اب تک سیٹی نہیں بجی یعنی میں پاس ہورہا ہوں۔ بس یہ خیال آنا تھا کہ دل خوشی کے مارے بے طرح دھڑکنے لگا۔ چلیں دل تو دھڑکتا ہی کہ اس کا کام ہی دھڑکنا ہے، وہ پاؤں بھی بری طرح سے کانپنے لگا جو ایکسیلیٹر پر تھا اور قابو ہی نہیں آتا تھا۔ ایک ہاتھ سے اسٹئیرنگ اور دوسرے ہاتھ سے دھڑ دھڑ ہلتے ہوئے پاؤں کو قابو کیا اور انسپکٹر کی جانب دیکھا۔ شکر ہے اس نے ہمارا دھڑکتا دل اور بے تحاشا ہلتا پاؤں نہیں دیکھا اور پاس کردیا۔
مجھے اپنی نالائقی اور نااہلی کا پوری طرح عرفان و ادراک ہے لیکن یقین جانئیے سارا قصور میرا نہیں ہوتا۔ بس قدرت کو جو منظور ہو۔ ہل Hill کا ٹسٹ دینے گیے اور جب اس ٹیلے کی چوٹی پر پہنچے جہاں پہنچ کر انسپکٹر گاڑی روکنے کے لیے کہتا ہے۔ وہاں پہنچ کر ہینڈ بریک کھینچا تو وہ سیدھا اوپر چلا آیا، دوبارہ کوشش کی ،نتیجہ صفر۔ اب انسپکٹر نے کوشش کی۔۔پتہ چلا ہینڈ بریک خراب ہوگیا ہے۔ اب اس میں بھلا میرا کیا قصور۔
“ دوسرا گاڑی لے لیں “ میں نے مقامی اردو میں پوچھا۔
“ ابھی دوسرا ہفتے آؤ” کہہ کر وہ ایک جانب چل دیا۔
تو جناب ہر وہ امتحان جو عامتہ الناس پہلی ہی بار میں پاس کرتے ہیں وہ اس خاکسار نے دو دو بار دیا۔ چلیے یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن وہ جو منیر نیازی نے کہا ہے ناں کہ” کج شہر دے لوگ وی ظالم سن، کج سانوں وی مرن دا شوق وی سی “ اگلی بار جو کچھ ہوا اسے پنجابی میں کہتے ہیں “ اخیر ای ہوگئی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں آمنے سامنے کل ملا کر بائیس امیدوار بیٹھے ہوئے باری کا انتظار کررہے تھے۔ زیادہ تر اپنے پٹھان بھائی تھے، کچھ ملباری وغیرہ بھی تھے۔ اکثریت مزدور پیشہ لوگوں کی تھی۔ میں ہی ان سب میں کچھ زیادہ پڑھا لکھا نظر آرہا تھا۔ دفتر سے دو گھنٹے کی چھٹی لے کر آیا تھا اور گلے میں ٹائی وغیرہ بھی بندھی ہوئی تھی۔ آج اشاروں یعنی سگنل کا ٹسٹ تھا۔ اکثر کے ہاتھ میں وہ کارڈ تھا جس میں ٹریفک کے اشارے چھپے ہوتے ہیں۔ یہ کارڈ انگریزی اور عربی میں تھے، ایک خان صاحب میرے پاس آئے اور ایک اشارے کا مطلب پوچھا۔ ان کی دیکھا دیکھی اور صاحب آئے اور کچھ دیر میں سات آٹھ لوگ مجھ سے “تعلیم” پا چکے تھے۔
کچھ دیر بعد سب یکے بعد دیگرے اٹھ کر ساتھ کے کیبن میں جارہے تھے جہاں ایک میز کی دوسری طرف انسپکٹر بیٹھا میز پر بنے ہوئے اشاروں پر ہاتھ رکھ کر ان کے معنی پوچھتا ۔ یہ سب سے آسان امتحان تھا۔ سارے امیدوار خوش خوش باہر نکلتے اور اگلے سب سے اہم ٹسٹ یعنی روڈ کے ٹسٹ کی تاریخ کی لائن میں لگ جاتے۔
ان بائیس میں سے اکیس امیدوار پاس ہوگئے۔ صرف ایک امیدوار فیل ہوا۔ اور وہ کوئی اور نہیں، آپ کا یہ ہونہار خادم تھا، جس کی تعلیم سے بہرہ مند ہونے والے آٹھ پٹھان بھائی بھی کامیاب ہوگئے تھے۔
اب کیا بتاؤں کہ میں کیوں ناکام ہوا ۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ انسان کو ضرورت سے زیادہ عقلمند نہیں بننا چاہئیے۔ ایک سیدھے سادے اشارہ کا درست جواب دیکر اس میں مزید اضافہ کرنے کی غلط کوشش کی اور انسپکٹر نے میرے لرننگ لائسنس پر “ فیل” کی مہر لگادی۔
خیر جی اگلی بار اسی طرح جواب دئے جیسے آنکھوں کے ٹسٹ کے وقت دئیے تھے اور کامیاب ہوگیا۔ اب مرحلہ تھا اصلی تے وڈے یعنی روڈ ٹسٹ کا جس کے بعد ڈرائیونگ لائسنس کی خلعت عطا کی جانے والی تھی۔
خدا خدا کرکے وہ دن آیا کہ ہم بھی سڑک پر آگئے۔ سڑک پر آجانا شاید کہیں اور اچھے معنوں میں نہ لیا جاتا ہو لیکن دوبئی کے ڈرائیونگ ٹسٹ میں سڑک ( Road) پر آجانے کا مطلب ہے کہ خیر سے آپ کی تعلیم مکمل ہوئی اور اب آخری ، گویا گریجویشن کا امتحان باقی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ گریجویشن تو عموماً پہلی ہی کوشش میں ہوجاتا ہے۔ کچھ نہیں تو بندہ نقل ہی مار لیتا ہے۔ لیکن اس زمانے کے ڈرائیونگ ٹسٹ میں نقل، عقل کچھ کام نہیں کرتی تھی۔ کام کرتی تھی صرف یہ بات کہ ٹسٹ لینے والے انسپکٹر کی اپنی بیوی سے تعلقات کیسے چل رہے ہیں اور اس دن صبح وہ گھر سے کس کیفیت سے نکلا ہے۔
طریقہ کار اس کا یوں تھا کہ عدالت کے مقدمے کی تاریخ کی طرح ٹسٹ کی تاریخ لینا پڑتی تھی جو کہ بذات خود ایک امتحان سے کم نہ تھی۔ یہ تاریخ ایک سے تین ماہ میں کسی وقت بھی مل سکتی تھی یعنی اگر امیدوار کم ہوئے تو ایک ماہ بعد وگرنہ دو یا کبھی تین ماہ بعد کی بھی تاریخ ملتی تھی۔ ایک سال یوں ہوا ( جی ہاں یہ قصہ چند ماہ یا سال دوسال کا نہیں ہے ) کہ فروری کے آخر کی تاریخ ملی۔ اس دن اتفاق سے بیگم کو کسی وجہ سے ہسپتال لے جانا پڑگیا۔ وہاں سے فارغ ہوتے ہی “ المرور” کی دوڑ لگائی لیکن پتہ چلا کہ نام پکارا جا چکا تھا اور اب غیر حاضری لگ گئی ہے۔ کہا گیا کہ دوسری تاریخ لینا پڑے گی۔ سوچا شاید اگلے دن کی تاریخ مل جائے۔ نہیں جناب، حسب معمول دوماہ بعد کی تاریخ ملی۔ دو ماہ بعد وہاں پہنچے تو آدمی نہ آدم زاد۔ مرور کے گیٹ پر بڑا سا تالا پڑا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ راس الخیمہ یا ام القوین کے کسی شیخ کا انتقال ہوگیا ہے اس کے سوگ میں آج سرکاری دفتر بند ہیں۔ اگلے دن پہنچے تو صرف ان کا ٹسٹ ہوا جن کی اسی دن کی تاریخ تھی۔ گذرے دن والوں سے کہا گیا کہ نئی تاریخ لیں ۔ اور حسب معمول دو ماہ بعد کی تاریخ ملی، جو ماہ جون کے آخر کی تھی۔ یعنی آدھا سال گذر گیا اور ٹسٹ کی نوبت نہیں آئی۔
میں نے اب بھی کسی ڈرائیونگ اسکول میں داخلہ نہیں لیا تھا۔ جس ہفتے ٹسٹ ہوتا اس سے ایک ہفتہ قبل ایک یا دوگھنٹہ کی “ تعلٰیم “ کرلیتا۔ میں اپنے طور پر پیسہ اور وقت بچا رہا تھا لیکن یہ طریقہ بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس طرح تعلیم میں وہ تسلسل نہیں تھا جو باقاعدہ تعلیم میں ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ۔۔۔خیر اب کیا بتائیں کہ نتیجہ کیا ہوتا۔
آج کے جدید اور ترقی یافتہ دوبئی کے باسیوں کو آج سے تیس پینتیس سال قبل کے دوبئی کا اندازہ بہت ہی مشکل سے ہوگا۔ آج دوبئی میں کہیں راؤنڈ اباؤٹ نہیں ہیں ۔ یوٹرن بھی برائے نام ہیں اور وہاں بھی زیادہ تر سگنل ہیں۔ آج شاید ہی کوئی مینوئل گیر والی کار کا ٹسٹ دیتا ہو۔ اس زمانے میں آٹومیٹک کار کا لائسنس صرف خواتین کو ملتا تھا۔ میرے تینوں بچوں نے اپنی پہلی یا دوسری کوشش میں لائسنس لیا۔ تین دہائی قبل کی یہ داستان شاید ہی کسی کو متاثر کرے اور کسی کی سمجھ آئے۔
پہلی بار ٹسٹ ہوا تو شاید میری ہی کوئی غلطی تھی۔ دوسری بار ہوا تو یقیناً میری ہی غلطی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں ہونے والے ٹسٹوں میں میری کوئی غلطی نہیں تھی۔ دراصل اب یہ ڈرائیونگ کی صلاحیت کا نہیں قسمت کا امتحان بن گیا تھا۔ ہر بار جب امتحان دے کر واپس آتا تو دفتری ساتھیوں کی سوالیہ نظریں پوچھتیں کہ کیا ہوا اور میں تفصیل شروع کرتا کہ میں نے تو سب کچھ ٹھیک کیا تھا لیکن ، وغیرہ وغیرہ۔۔یہ سوال و جواب صرف پہلے سال ہوئے، اس کے بعد وہ میری شکل دیکھ کر صرف یہ پوچھتے کہ اگلی تاریخ کب کی ملی ہے۔ یہاں سب جان جاتے تھے کے ٹسٹ کے لیے جاتے میں قدم اور ہوتے ہیں اور آتے میں اور۔ لائسنس لے کر آنے والے کی چال، چہرے کی رنگت اور آواز دور سے بتا دیتی تھی اور نہ بتاتی تو بھی دوسرے ہاتھ میں مٹھائی یا چاکلیٹ کا ڈبہ ساری کہانی کہہ دیتا تھا۔
لیکن یہ خوشی ہمارے نصیب میں فی الحال نہیں لکھی تھی۔ امتحان کے لیے چار امیدواروں کے نام پکارے جاتے اور وہ یکے بعد دیگرے گاڑی چلاتے۔ ڈرائیور کی برابر والی سیٹ پر ممتحن صاحب بیٹھے ہوتے جن کے ہاتھ میں فل اسکیپ صفحے کا اعمال نامہ ہوتا جس میں پندر بیس شقیں تحریر ہوتیں کہ امیدوار ہٰذا نے کہاں کون سی غلطی کی ہے۔ کبھی یہ ایک دو ہوتیں تو وہ کبھی پورے صفحے کو نشان زدہ کردیتا۔ یہ اس پر منحصر ہوتا کہ صبح ناشتے میں اسے کیا ملا تھا اور گھر سے نکلتے ہوئے بیوی کا سلوک کیسا تھا۔
خیر کچھ کچھ قصور امیدوار کی قسمت کا بھی ہوتا ہوگا۔۔ اب اس واقعے سے آپ اندازہ کیجئے کہ میری بات کس قدر صحیح یا غلط ہے۔
اکثر ٹسٹ میں فیل کرنے کے بعد ایک آدھ وجہ لکھی ہوتی کہ لین بدلتے ہوئے اشارہ نہیں دیا یا شیشہ نہیں دیکھا یہ توجہ کا فقدان تھا وغیرہ وغیرہ۔ ایک بار ٹھیک ٹھاک ٹسٹ دیا اور جب ممتحن صاحب نے فیل کرکے اعمال نامہ ہاتھ میں دیا تو اس پر کوئی وجہ درج نہیں تھی سوائے “ غیر ناجح “ یعنی “ ناکامیاب” کی مہر کے۔ بڑے ادب سے پوچھا کہ حضور آج کیا خطا ہوئی؟ تو جھپٹ کر کاغذ ہاتھ سے لے کر عربی میں ایک دو لفظی جملہ گھسیٹ دیا۔ ایک عربی دان سے پڑھوایا کہ یہ کیا لکھا ہے۔وہاں لکھا تھا “ زاید کلام” یعنی یہ بولتا بہت ہے۔
ہماری نالائقی تو مسلم تھی لیکن مزاجِ ممتحن بھی بہرحال ہماری بربادی میں شامل حال رہتا۔ اب اس سے اندازہ کیجئے کہ تین سال بعد جب ڈرائیونگ ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگئی یعنی ہم بڑی بے نیازی سے صرف ایک ہاتھ اسٹئیرنگ پر رکھ کر گاڑی چلانے لگے تو ایک دن ایسے انسپکٹر صاحب ملے جو مرچیں چبائے ہوئے لگتے تھے۔ چاروں امیدواروں سے بہ عجلت صرف چند منٹ گاڑی چلوائی اور واپس مرور کی جانب چلنے کو کہا۔ مرور پہنچ کر امتحانات کے نتائج متعلقہ افسر کے حوالے کئے اور دوسری گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔۔ اتفاق سے ہم چاروں کو “ ناکامی “ والا پرچہ ملا۔ چاروں کی ناکامی کی وجہ صرف ایک لکھی تھی۔۔” غیر جاہز للفحص” یعنی Not ready for test” یعنی تین سال بعد وہ بتا رہے تھے کہ ہم امتحان دینے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ ان کی ذاتی کیفیت سے یہ لگتا تھا کہ وہ ہمارا ٹسٹ لینے کو تیار نہیں تھے۔
جیسا کہ عرض کیا سارا قصور ممتحین کا بھی نہیں ہوتا تھا۔ ایک بار یہ ہوا کہ ہمیں سڑک کے درمیان گاڑی ملی۔ہمارا آخری نمبر تھا۔ اس سے پہلے تین کے ٹسٹ ہوچکے تھے اور تینوں خاصے نالائق تھے اس سے ہمیں کچھ حوصلہ ملا۔ انہوں نے سیدھا چلنے کو کہا، ہم سیدھا چل دئیے، لین بدلنے کو کہا، ہم نے بالکل صحیح یعنی عقب اور دائیں بائیں کا شیشہ دیکھ کر اور اشارہ دیکر بہت مناسب انداز میں لین بدل لی۔ واپس پہلی لین میں آنے کو کہا، اسی اعتماد سے واپس آئے، ایک سڑک پر جو مرور کی جانب واپس جاتی تھی۔ یہاں ایک سڑک ایک ایسے “ٹی جنکشن “ پر نکلتی تھی جہاں چڑھائی تھی یعنی بیک وقت “ ہل “ اور دوسری سڑک پر جانے کا امتحان ہوتا اور یہاں اچھے اچھے ناکام ہوجاتے کہ چڑھائی پر گاڑی کو کنٹرول کرنا، دائیں بائیں دیکھنا، اشارہ کا خیال رکھنا اور مناسب وقت پر دوسری سڑک پر داخل ہونا۔ کہیں نہ کہیں غلطی ہوجاتی اور ممتحن نامہ اعمال پر لکیر کھینچ دیتا۔
اس دن ہمارے اعتماد کی بلندی کا یہ حال تھا کہ یہ مشکل ترین مرحلہ بھی بخوبی اور باآسانی طے کرلیا۔ واپس مرور میں آئے۔ گاڑی پارک کی ، پچھلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے امیدواروں نے تحسین آمیز نظروں سے دیکھا ایک نے انگوٹھے کے اشارہ سے مبارکباد بھی دے دی۔ ابھی ہم گاڑی سے اترنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ انسپکٹر صاحب بولے “ تم کو سیت بیلت نئیں مانگتا؟” ( تمہیں سیٹ بیلٹ کی ضرورت نہیں؟)۔ اب دیکھا تو اوسان خطا ہوگئے کہ پورے ٹسٹ کے دوران سیٹ بیلٹ تو باندھی ہی نہیں تھی۔ حسب معمول ناکامی والا پرچہ ملا جس پر Attentiveness پر نشان لگا ہوا تھا۔
اسی طرح کے واقعات ہوتے۔ دفتری ساتھیوں کے طنزیہ جملے اور بیگم کی حوصلہ افزائی بھی جاری رہتی۔ وہ کہتیں کہ جب تک خدا کو منظور نہیں ہوگا آپ کو لائسنس نہیں ملے گا اور ان دنوں خدا کی مشیت پر ہمیں بھی کچھ زیادہ ہی یقین ہوچکا تھا کہ ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے رہ جاتے۔ کبھی ہمارا قصور ہوتا تو کبھی انسپکٹر صاحب کی اندرونی کیفیت آڑے آتی۔ بعض اوقات قسمت بھی عجیب تماشے دکھاتی کہ سب کچھ ٹھیک ہورہا ہوتا تو سڑک پر غیر معمولی ٹریفک وجہ بن جاتا۔
اب یہ دیکھئے کہ ایک دن ہمیں سب سے پہلے گاڑی ملی۔ پولیس اسٹیشن سے باہر نکلے۔ یہاں ایک عجیب وغریب راؤنڈ اباؤٹ تھا ( اب بھی ہے) ۔ عام طور پر راؤنڈ اباؤٹ کا مطلب ہوتا ہے کہ چاروں جانب سڑک ہوتی ہے یعںی چوراہا۔ یہ راؤنڈ اباؤٹ ایک سیدھی سڑک پر ہے اور اس میں صرف دائیں یا بائیں جاسکتے ہیں۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ مرور میں داخل ہونے والی گاڑیوں کے لیے دوسری گاڑیاں راستہ دے سکیں۔ مرور کے گیٹ سے باہر نکلتے ہی یہ راؤنڈ اباؤٹ ہے۔۔ لیکن اس سے پہلے یعنی گیٹ کی بغل میں ہی ایک اور گلی، یا سڑک ہے۔ اگر وہاں جانا ہو تو سڑک پر آتے ہی فورا دائیں جانب مڑ جاتے ہیں (Sharp right turn).
ہم انگریزی سمجھ لیتے ہیں لیکن دوبئی پولیس کے افسران ہم تمام پاکستانیوں ، ہندوستانیوں سے ازراہ مہربانی اردو( یا ہندی) میں ہی بات کرتے ہیں ۔ لیکن بعض اوقات یہ احسان گلے پڑ جاتا ہے۔ ہوا یہ کہ گیٹ سے باہر آتے ہی حکم ہوا “ راؤند اباؤٹ سے پہلا رائٹ” ۔ ہم نے فورا گاڑی دائیں جانب موڑ لی کہ گاڑی جھٹکے سےرک گئی۔ یہ دوسرا بریک تھا جو انسپکٹر صاحب کے قدموں کے نیچے تھا۔ ساتھ ہی درشتی سے فرمایا “ تم کو بولا راؤنداباؤت سے پہلا رائٹ”۔ عرض کیا کہ یہی تو کررہا ہوں یہ سامنے راؤنڈ اباؤٹ ہے اور میں اس سے پہلے والے رائٹ پر مڑ رہا ہوں ۔ تس پر انہوں نے جو فرمایا میں آج تک اس کے معنی پر غور کرتا ہوں لیکن اب تک یہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
کہنے لگے کہ راؤنڈ اباؤٹ پر جاکر پہلے رائٹ پر جانے کے لیے کہا تھا۔۔ ( انہیں کہنا چاہیے تھا کہ راؤنڈ اباؤٹ سے رائٹ۔۔ کیونکہ وہاں صرف ایک ہی رائٹ تھا اور دوسرا لیفٹ بلکہ یوٹرن تھا)۔ خیر جی بس ساری بات قسمت کی تھی۔ شیر علی صاحب جو کہتے تھے کہ جس دن لائسنس ملنے والا ہوگا، ہوا مہربان ہوگی، انسپکٹر مہربان ہوگا، ٹریفک مہربان ہوگا، کیونکہ خدا مہربان ہوگا۔ وہ دن نجانے کب آنے والا تھا جب انسپکٹر کو اس کی بیوی نے گھر سے خوش خوش رخصت کیا ہو۔
اس طرح کے بے شمار قصے ہیں۔ طرح طرح کے لطیفے ہوتے۔ ہر بار فیل ہوکر جب اگلی تاریخ لینے جاتے تو وہاں مزے مزے کے قصے ہوتے کہ اگر بتانے بیٹھوں تو ایک کتاب لکھ سکتا ہوں کہ دوچار برس کی بات نہیں۔ ہم نے بھی کوئی اتنی سنجیدگی سے ٹسٹ نہیں دئیے کہ کبھی باقاعدہ اور جم کر ڈرائیونگ کلاسز نہیں لیں۔ لیکن دفتری ساتھیوں کے فقرے بعض اوقات دل کو چیر کر رکھ دیتے۔ حالانکہ ان میں سے اکثریت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوچکا تھا۔ ایک بھاٹیا صاحب تھے، جو کہ سردار تھے۔ لیکن یہ عام سردار نہیں تھے۔ ان جیسا حرفوں کا بنا اور چلتا پرزہ سردار کوئی دیکھ لے تو سرداروں سے متعلق سارے لطیفے پھاڑ پھینکے۔ اب سورگ باش ہوگیے ہیں ( اللہ جانے سورگ باش ہی ہوئے ہیں یا کہیں اور کی رہائش ہے)۔ تو بھاٹیا جی ہمیں تسلی دیتے ہوئے فرماتے تھے کہ فکر نہ کرو دسمبر میں مل جائے گا کہ دسمبر میں ٹریفک والوں کو ساری فائلیں بند کرنا ہوتی ہیں۔ گویا ہم اپنی قابلیت سے لائسنس لینے کے اہل نہیں تھے۔
ہم اب ایک مثالی امیدوار بن گئے تھے۔ وہ یوں کہ ایک دن جب ہم ٹسٹ کے لیے پچھلی سیٹ پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے اور ڈرائیونگ سیٹ پر ایک فلسطینی نوجوان تھا جو عربی میں درخواست کررہا تھا کہ اس کے ساتھ مہربانی کی جائے اور اسے لائسنس دے دیا جائے۔ یہ اس کا پہلا ٹسٹ تھا۔ اچانک انسپکٹر صاحب نے پیچھے گردن موڑ کر کہا “ عبدالشکور اپنا کتاب دکھاؤ”۔ یہ وہ لرننگ لائسنس والی کتاب تھی جس کے تقریباً تمام صفحات اب تقریباً بھر گئے تھے اور ناکامیوں کی مہروں کا کوئی شمار نہیں تھا۔ وہ کاپی نوجوان کو دکھا کر انسپکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہ اتنے سال سے جھک ماررہے ہیں انہیں اب تک نہیں ملا تو بھلا تمہیں پہلے ہی ٹسٹ میں کیسے مل جائے گا ؟
پےدرپے ناکامیوں نے اب ہمیں واقعی مضمحل کردیا تھا ۔ وقت اور پیسا الگ برباد ہورہا تھا، ہر بار ٹسٹ کی فیس ہوتی، ساتھ ہی ڈرائیونگ کلاس کی بھی فیس دینا ہوتی۔ ناکامی کے بعد لوگوں کے چبھتے جملے الگ سننے پڑتے۔ ایک دن ایسے ہی ناکام ہوکر پولیس اسٹیشن سے باہر آکر ٹیکسی کو ہاتھ دیا۔ اس دن فیصلہ کرلیا کہ اب بہت ہوگیا ۔ آئندہ یہاں نہیں آئیں گے۔ ٹیکسی میں بیٹھے۔ ریڈیو پر فلمی گیت بج رہا تھا۔
“ رک جانا نہیں تو کہیں ہار کے
کانٹوں پہ چل کے ملیں گے سائے بہار کے
راہی او راہی۔۔راہی او راہی
بس جناب۔۔ یوں لگا جیسے یہ فلم کے ہیرو کے لئے نہیں ہمارے لئے گایا جارہا ہے۔ اسی وقت فیصلہ کیا کہ چاہے ایک صدی لگ جائے، لائسنس لے کر ہی رہیں گے لیکن اب اسے سر پر سوار نہیں کرینگے۔
اور پھر یہی ہوا۔ اگلی بار ٹسٹ دینے آئے تو بڑی شان بے نیازی سے ایک ہاتھ اسٹئیرنگ اور دوسری کہنی کھڑکی سے ٹکائے گاڑی چلاتے رہے۔ انسپکٹر دائیں بائیں مڑنے کو کہتا رہا اور ایک جگہ گاڑی روکنے کو کہا۔ ہم نے ایک لمحے کے لیے بھی تردد نہیں کیا کہ آج کیا نتیجہ ہوگا۔ دوسروں کے ٹسٹ ختم ہوئے۔ بے فکری سے ہال میں آکر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر میں نام پکارا گیا عبدل شاکور باتان” ۔ اطمینان سے چلتے ہوئے کھڑکی تک پہنچے۔ متعلقہ شخص نے ایک چھوٹی سی پرچی ہاتھ میں تھما ئی۔ یہ اس اعمال نامے سے مختلف تھی جو ہمیشہ ملتا تھا اور جس پر وجہ نالائقی درج ہوتی تھی۔ ساتھ ہی ایک آواز کان میں آئی” بعد بکرہ دو صورہ لے کر آؤ” ( پرسوں دو تصویریں لے کر آؤ)۔
“ صورہ؟ ۔فوٹو؟۔وہ کس لئے؟”
“ تمارا شادی کے واسطے “ افسر نے کچھ ترشی سے کہا۔ “ بعد بکرہ ( پرسوں) لیسنس لے کر جاؤ”۔
کانوں کو یقین نہیں آیا کہ وہ کیا سن گئے ہیں۔ دفتر جانے کے بجائے پہلے گھر کا رخ کیا۔ بیگم کو بتایا تو انہوں نے خوشی کے مارے رونا شروع کردیا۔ دفتر گیا تو بھاٹیا جی نے فرمایا “ میں نے کہا تھا ناں کہ دسمبر میں دے دیتے ہیں” ۔
ابھی اس جملے کی کاٹ کے صدمے سے نہیں سنبھلے تھے کہ ایک اور ساتھی نے انکشاف کیا کہ دراصل آج جس نے لائسنس دیا وہ اس پولیس والے کا پوتا ہے جس نے پہلا ٹسٹ لیا تھا، کہ یہ بزرگ میرے دادا جی کے زمانے کے ہیں ، ان کا خیال رکھنا چاہئیے۔
اور آج جب کبھی تین تین چار چار گھنٹے مسلسل ڈرائیونگ
کرنا پڑتی ہے تو سوچتا ہوں کہ ایسا بھی کیا مسئلہ تھا؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...