ایک ذرے سے لے کر بلیک ہول تک یہ پوری کائنات ایک معجزہ ہے ۔ایک زندہ و جاوید معجزہ ۔ان سب معجزات میں ایک ایسے معجزے کا مجھے ذکر کرنا ہے جس کو عموماً اس تناظر میں نہیں دیکھا جاتا ۔
ہاں صاحب میرا اشاروں ان آڑھی ترچھی لکیروں کی جانب ہے جسے انسان کی ذہنی اپچ نے لفظ کا نام دے مفہوم و معانی کا ایک جہان آباد کر ڈالا ہے ۔
دنیا کی ان گنت حقائق گویا لفظوں کے کوزوں میں بند کر کے ماضی کو حال اور حال کو مستقبل سے یوں جوڑ دیا کہ تا دم قیامت لفظوں سے ان کی یہ تاثیر کوئی چھین نہیں سکتا ۔
سچ ہے اس کی نعمتوں کے شمار سے اس بے نیاز کی تمام مخلوق عاجز و ناتواں ہے ۔
مقام افسوس ہے یہ خاک کا پتلا جس کی حیثیت اس جہان رنگ و بو میں ایک ذرے اور پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں اپنے خالق کی نعمتوں کا انکار کرتا پھرتا ہے ۔
مجھے اپنے کریم رب کا ان گنت شکر ادا کرنا ہے جس نے مجھے لفظوں سے محبت کرنا اور برتنا سکھایا ۔ شب قدر کو مانگی گئی میری دعا اس نے قبول فرمائی اور میری پہلی کہانی کو انعام ملا ۔جس پر مجھے یہ تمانیت بھرا احساس ملا کہ رب رحیم و کریم نے میری دعا کو شرف قبولیت بخشا ۔اب اپنا روئے سخن اپنے پیارے قارئین کی جانب کرتا ہوں کہ آج مجھے اپنے بارے میں انہیں کچھ کہنا ہے ۔
میں فرض کیے لیتا ہوں کہ جو قاری میری اس کتاب کو خریدے گا ' میرے بارے میں کچھ نہ کچھ جاننا چاہتا ہو گا۔ سو میں اپنی کجھ باتیں آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔
ہر لکھاری سے یہ روایتی سا سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ اس نے لکھنا کب اور کیسے شروع کیا ؟ ۔
اور اکثر ادیب اسے بچپن کا شوق قرار دیتے ہیں ۔ اتفاق سے میرا جواب بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے
سوائے اس کے کہ میں کم آمیز اور تنہائی پسند بچہ رہا ہوں اور انتہا کا شرمیلا۔ سو تحریر سے زیادہ سوچوں ہی سوچوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کر دیا کرتا تھا ۔ خیالوں ہی خیالوں میں کبھی دوسروں کبھی خود سے بات کر لیا کرتا ۔
یاد پڑتا ہے کہ چوتھی جماعت کا طالب علم تھا تو میں نے ایک سرخ رنگ کی ڈائری اس مقصد کے لیے خرید لی کہ میں اس میں اپنے اشعار لکھا کروں گا اور ڈائری کے پہلے صفحے پر میں نے ڈائری کی خریداری کا مقصد بھی یہی درج کیا تھا ۔ یہ سفر کم و بیش پچیس اشعار تک محدود رہا۔ یاد پڑتا ہے میرے بچپن کے دوست سید کیفی بخاری نے مجھ سے پوچھا شاعری کیسے کی جاتی ہے ۔میں نے اپنے فہم کے مطابق اسے بتایا کہ شعر یوں لکھا جاتا ہے کہ دو لائنوں کو ملانا ہوتا ہے ۔ جیسے اوپر کی لائبریری میں آپ ہو تو نیچے باپ ۔
پھر یوں ہوا کہ میں شاعری سے دور ہوتا چلا گیا اور کیفی بخاری قریب ۔ وہ ایک اچھا شاعر بنا اور میں شاعری بھول بھال گیا۔ بہت عرصہ بعد مجھے کچھ کاغزات پھرولتے ہوئے وہ ڈائری ملی۔ ان اشعار میں سے ایک شعر مجھے کچھ خاص لگا ۔
اس دل کی حسرت رہ جائے گی دل میں
جب پہنچ جائے گا بندہ تیرے سامنے
خیر ۔۔ میں نے شاعری تو چھوڑ دی ہاں البتہ پڑھنا نہیں چھوڑا ۔ ٹارزن عمر و عیار چھن چھنگلو چلوسک ملوسک انگلو بانگلو داور سے یہ سفر چلتا ہوا کامران اور جمشید سیریز تک پہنچا اور پھر عمران سیریز میں داخل ہو گیا ۔ وہاں سے ڈائجسٹ اور پھر ناول ۔۔۔ پڑھ پڑھ کر یہ خوش گمانی سی ہونے لگی کہ لکھنا کون سا مشکل کام ہے۔ بس پھر کیا تھا ہم مصنف بن گئے۔ اب ہم تھے اور خبریں کا چلڈرن ورلڈ
نوائے وقت کا بھول اور کلیاں
روزنامہ پاکستان کا بچوں کا ایڈیشن اور بچوں کے دیگر ماہنامے ہمارے نشانے پر رہنے لگے ۔وقت کچھ اور گزرا تو احساس ہوا کہ ہم اب بڑے ہو گئے اب ہمیں ڈائجسٹ کی دنیا میں گھسنا چاہیے ۔ سو وہاں کود لیے ۔ سچی کہانیاں ریشم دکھی کہانیاں ساغر ڈائجسٹ ۔۔۔۔۔تھا اور ہم تھے ۔۔۔
اسی دوران صحافت کا جی چرایا تو اخبارات کی رزم گاہ ہماری نئی منزل ٹھہری ۔ اوصاف اور نیا دور کی نامہ نگاری کے ساتھ کالم نگاری کی بھی شروعات ہوئی ۔ اور پھر یہ راستہ اتنا من کے بھایا کہ کالم نگاری ہی ہمارا واحد جنون بن کر رہ گئی ۔ اب تو بات بات پر کالم لکھا جانے لگا ۔ اور اب
نوبت با ایں جاں رسید
کہ اپنی پہلی کتاب بھی کالمز کے مجموعے کی صورت میں آپ کے سامنے ہے ۔ اپنے سینکڑوں کالمز میں سے یہ پچاس کالم میں نے منتخب کیے ہیں
یہ کالم کسی نہ کسی پہلو سے مجھے خود بھی بہت پسند ہیں ۔
ایک لحاظ سے سدا بہار ہیں ' وقت کی قید سے آزاد ۔
کچھ واقعاتی کالم بھی تھے جو اس کتاب کا حصہ بن سکتے تھے لیکن جانے کیوں ' مجھے لگا کہ انہیں کتاب کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ سو میں نے کسی ایسے کالم کو کتاب کے قریب نہیں آنے دیا ۔ اس کتاب کے بعد جلد ہی افسانوں کا مجموعہ بھی آپ کے ہاتھ میں ہو گا ۔
میری قلمی سفر کا تذکرہ بس یہیں تک ۔
دل چاہتا ہے کہ اب ان شخصیات کا ذکر خیر ہو جائے جن کی وجہ سے میں لکھنے کے قابل ہوا ۔
پہلی شخصیت مظہر کلیم ایم اے ہیں کہ جن کی تحریریں پڑھ کر میرے اندر کا لکھاری جاگ اٹھا۔ ایک میں ہی کیا انہوں نے سینکڑوں لوگوں کو مصنف بنا دیا ۔ یاد پڑتا ہے کہ میرے کئی خطوط ان کی عمران سیریز کے پیش لفظ کس حصہ بنے ۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنے افسانوی مجموعے کا انتساب انہی کے نام پر ہو ۔ ان شاءاللہ
کالم نگاری کے میدان میں میرے محسن شفقت حسین صاحب ہیں کہ جب تک خبریں کے ادارتی صفحہ کے انچارج رہے مجھے چھاپتے رہے۔ ان کا یہ احسان بھلا نہیں سکتا ۔
منظر اوچوی صاحب کا بھی ممنون ہوں کہ اپنا ہر کالم انہیں سنا کر اخبار میں بھیجا کرتا تھا ۔
ناصر ملک ' افتخار شاہد ' حسیب اعجاز عاشر' مجید احمد جائی' مبشر حسن ' عاشق حسین ساجد ' استاد محترم ریاض حسین شاہد ' سجاد جہانیہ ' ڈاکٹر اظہر وحید ' فوزیہ احسان رانا ' ڈاکٹر غضنفر اسدی ' محمد حسین رضا ' کائنات اقبال ' سید فہیم کاظمی ' سید اعجاز کاظمی ' سر سیف اللہ' محمد قاسم ہمدانی ' داؤد خان شکرانی ' سجاد علی حیدری ' عرفان علی حیدری' محمد شعیب شکرانی ' سید کیفی بخاری ' راشد لطیف ' عتیق نائچ۔۔۔۔۔۔.یہ اور ان جیسے کئی احباب ہیں جو قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی فرماتے رہے ہیں ۔
میرے بابا جان سردار کاظم علی حیدری اور میری دادی اماں نے بھی مجھے ہر موقع پر میری حوصلہ افزائی کی ۔
میں ان سب کا بھی شکر گزار ہوں جو میرے کالموں کے خاموش قاری ہیں ۔ جو اپنے جذبات کا اظہار تو نہیں کرتے ہاں میری تحریریں پڑھتے ضرور ہیں ۔
اس کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں استاد مکرم افتخار شاہد ' ڈاکٹر شگفتہ نقوی اور محترم ناصر ملک کا شکر گزار ہوں۔
برادرم سجاد جہانیہ ' عامر شہزاد صدیقی ' ڈاکٹر اظہر وحید ' قیصر معراج ' ریاض حسین شاہد ' کائنات اقبال اور ڈاکٹر شگفتہ نقوی کا انتہائی ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنا وقت نکال کر اس کتاب کے حوالے سے اپنے تاثرات قلم بند کیے ۔
کتاب کی اشاعت کے حوالے سے ایک دلچسپ بات آپ سے ضرور شئیر کرنا چاہوں گا ۔ اس کتاب کو آج سے چھ سات سال قبل شائع ہو جانا چاہیے تھا ۔ آپ اسے میری کوتاہی سمجھیں کہ میں خوامخواہ اس ضد پر اڑا رہا کہ اپنے پیسے سے کتاب ہرگز شائع نہیں کروں گا ۔ کوئی تو پبلشر ایسا ہاتھ آئے گا جو میری کتاب مفت میں چھاپ دے گا ۔ سات سال بعد احساس ہوا کہ میری سوچ غلط تھی ۔ اس جنس کا خریدار یہاں ایک بھی نہیں ۔ یہ اس معاشرے کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ کتابیں مر رہی ہیں ۔ بقول ساغر صدیقی
شاعر کا تصور بھوکا ہے
سلطان یہاں کے اندھے ہیں ۔۔۔۔
ان شاءاللہ اپنی آئندہ کتاب کے پیش لفظ میں آپ سب سے ملاقات ہو گی
ان شاءاللہ
شہر خواب کے لیے لکھا گیا پیش لفظ