یوم اساتذہ کے حوالے سے اپنے خیالات تحریر کرنے میں ذرا لیٹ ہوں، بس اسی سے آپ اندازہ کر لیں مجھے کس قسم کے اساتذہ ملے۔ یا شائد جو اچھے استاد نصیب ہوئے ہم ان سے فیض حاصل کرنے میں ناکام رہے کیونکہ ہمیں صرف اپنا اقبال بلند کرنے کی فکر رہی۔
خیر، تو اس یوم اساتذہ پر میں اپنے جن اساتذہ کو زبردست خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں وہ ہیں میرے قاری صاحبان، جن کی شاگردی میں میں نے قرآن حفظ کیا (شائد بہت سے فیس بک دوستوں کے لئے یہ ایک انکشاف ہو)۔
ہمارے قاری صاحبان کی چند ایسی خوبیاں تھیں جنہوں نے آگے چل کر زندگی کی راہ متعین کرنے میں میری بہت مدد کی۔ یہاں دو قاری صاحبان کی ذکر کروں گا
پہلے والے قاری صاحب ذرا ماڈرن تصور کیے جاتے تھے۔ خود آفیسرز (بیوروکریسی) کالونی کی مسجد کے امام تھے۔ بعد میں ڈسٹرکٹ جیل کی مسجد میں جمعہ بھی پڑھایا کرتے تھے۔ ایک بھائی شہر کے بڑے ٹیکنیکل کالج کی مسجد کے امام تھے۔ تیسرے بھائی اپنی دو بیویوں اور چودہ بچوں سمیت ناروے میں مقیم تھے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ معاشی طور پر متمول تصور کئے جاتے تھے اور شہر کی اشرافیہ کے ساتھ میل جول اور اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ شائد اسی وجہ سے والدین نے انہیں ایک نسبتاً غیر روایتی ملا سمجھتے ہوئے ہمیں ان کی شاگردی میں دیا۔ ان کو غالباً لگتا تھا کہ ہمارا بچہ مدرسوں کی برائیوں سے پاک رہ کر حفظ کی سعادت حاصل کر لے گا۔
یہاں تک تو بات کسی حد تک ٹھیک تھی۔ لیکن ان کی جن خوبیوں نے مجھ پر بہت اثر ڈالا ان میں پہلی یہ تھی کہ باقی تمام مدرسوں کے اساتذہ کی طرح وہ بھی طلبا پر شدید تشدد کے حامی تھے۔ مدرسے کے لئے قرآن والی رحلیں جب بڑھئی سے بنواتے تھے تو ساتھ سپیشل آرڈر پر ایک ڈنڈا جو کم از کم ایک سے دو انچ قطر موٹا ہوتا تھا، وہ ساتھ ضرور آتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک ایسا ہی ڈنڈا جس پر باقاعدہ فرنیچر والی پالش بھی ہوئی ہوئی تھی وہ موصوف نے مجھ پر توڑا تھا۔ اور ایسا مدرسے میں نہیں، بلکہ ہمسایوں کی بیٹھک میں ہو رہا تھا جہاں وہ محلے کے کچھ بچوں کو، بشمول میرے پڑھانے آتے تھے۔ (ایسا ہی ایک اور ڈنڈا بھی مجھ پر ٹوٹا جب درس و تدریس کا سلسلہ محلے کی بیٹھک سے نکل کر آفیسرز کالونی کی مسجد میں شفٹ ہو گیا۔ ڈنڈا بنوایا انہی مولوی صاحب نے تھا لیکن توڑنے والے ایک تیسرے استاد تھے جو مشرف کے زمانے میں سنا ہے افغانستان میں کہیں جہاد کرتے مارے گئے).
ان مولوی صاحب کی دوسری خوبی یہ تھی کہ مالی طور پر بدعنوان تھے۔ شہر کے ایک مشہور سنار کی فنڈنگ سے مدرسہ بنایا مگر دو چار برسوں میں ہی ان سنار صاحب نے بدعنوانی کا الزام لگا کر ہاتھ کھینچ لیا۔ میرے پاس ان کی بدعنوانی کا ثبوت تو نہیں لیکن اس ضمن میں ایک اور واقعہ بھی میرا شک پختہ کرتا ہے کہ ان کے معاملات کچھ زیادہ شفاف نہ تھے۔ ہمارے ایک رشتہ دار سود پر قرض دینے کا کام کرتے تھے۔ ایسے لوگ اگر ساتھ میں غنڈہ گردی نہ کریں تو ان کا کاروبار چل نہ سکے۔ ہوا یوں کہ ایک روز قاری صاحب کے بڑے بھائی گھبرائے ہوئے ہمارے گھر آئے کہ ہمارے ان رشتہ دار نے میرے استاد محترم کو اپنی نجی جیل میں قید کر رکھا ہے اور معاملہ ظاہر ہے کچھ لین دین کا ہی تھا۔ خیر ابا نے شخصی ضمانت پر قاری صاحب کو رہائی دلوائی۔
سب سے آخری خوبی، موصوف نے تین شادیاں کیں اور تینوں پسند کی۔ اب مجھے پسند کی شادی پر اعتراض نہیں لیکن ۔ ۔ ۔ آگے آپ لوگ خود سمجھدار ہیں۔
دوسرے قاری صاحب روایتی ملا تھے۔ انہیں ہمارے پہلے والے قاری صاحب نے جب اپنے سنار دوست کی فنڈنگ سے مدرسہ بنایا تو ملازم رکھا تھا۔
سپاہ صحابہ کے سرگرم رکن تھے۔ ان کے اپنے استاد اور ایک بہت قریبی دوست ان ملاوں میں شامل تھے جن پر ہر محرم میں تقریر کی پابندی ہوتی تھی۔ تشدد پسند ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں "وہ" والی خوبی بھی تھی۔ میں البتہ ان کی اس خوبی سے محفوظ رہا۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں ڈے سکالر تھا۔ نہ صرف یہ کہ خود محتاط بھی تھا بلکہ بڑے بھائیوں اور ابا کی بھی اس معاملے میں خاص نظر رہتی تھی (شائد اس لئے بھی کہ جب میں نے حفظ کرنا شروع کیا میں نسبتاً بڑی عمر کا تھا۔ تیرہ برس کا تھا جب درس وتدریس محلے کی بیٹھک سے مسجد اور مدرسے منتقل ہوئی)۔ ایسا نہیں کہ مجھے ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ قاری صاحب خود تو نہیں (شائد انہیں پتہ تھا کہ یہ لڑکا سیانا ہے، الٹا بدنام کرے گا اور میری نوکری ختم کروائے گا) البتہ ایک دو اور ہم عمر یا تھوڑے بڑی عمر کے لڑکے بہت دفعہ مجھے گھیرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن میں شائد خود کو بچانا جانتا تھا اور ساتھ میں میری طرح کے دو اور ڈے سکالر بھائی جو دونوں میرے بہت اچھے دوست تھے ہر وقت میرے ساتھ ہوتے تھے۔ سو بچت رہی۔ یہ والے قاری صاحب ایک لڑکے کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے بھی گئے تھے۔
سو میں نے تشدد پسندی اور منافقت کا جو امتزاج اپنے ان اساتذہ میں پایا اس نے یہ طے کر دیا کہ میں اس راستے سے بغاوت کروں۔ اپنے ان عظیم اساتذہ کے اس احسان کے لئے میں ان کا بہت شکر گزار ہوں۔ سوچتا ہوں اگر یہ لوگ نرم خو، صلح جو اور ایماندار اور اچھے کردار کے ہوتے تو میں شائد آج کچھ اور ہوتا۔