کشمیر کی آہ وزاری آج کا دور علم کا نئی ٹیکنالوجی کا جس کے استعمال سے دنیا کے کسی کونے میں مطلوبہ انفارمیشن حاصل کرسکتے ہیں وہ کرسکتا لیکن میرا جموں کشمیر جدید ٹیکنالوجی سے کوسوں دور .سرکار کا ماننا ہیں کشمیریوں کو اندھیر نگری کا اصل وجہ دنیا کے کسی کونہ تک پہونچےنہیں چاہےاسلے انٹر نیٹ اور پرپیڈ فون بند. جب کہ 2008 میں حالات خراب ہوگئے تھے, 2010 میں بھی جون کشمیر کےحالات خراب ہوگئے تھے فون اور انٹرنیٹ کو بند نہیں رکھا گیا. ماننا کہ پیلٹ سی NC عمر عبداللہ کے قیادت میں متعارف کروا دیا گیا ہے افسوس اس وقت ایک خاتون وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان پیں, بچوں کو پیلٍٹ گن لگنے پر عوام مخاطب ہوکر کہتی ہیں یہ بچے بنکر میں دودھ لینے یا چاکلیٹ خریدنے نہیں گے تھے جوان فوجی بھی انسان ہیں اُن کو اپنی جان عزیز ہیں کیا انھیں اپنے بچاؤ میں کچھ نہیں کرنا چاہے. یہ بدقسمت جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ کا خطاب عوام کے نام. جب فوجی کو گولی لگتی تب محترمہ محبوبہ جی کو اس وقت اپنے کشمیری ہونے پر شرمندگی. جب مظلوم عوام اپنی روا داری, بھائی چارہ دیکھا کر اپنی پنڈت گھر کی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے شادی کرائی جاتی تب کشمیری عوام میر ی قوم اور یاتریوں کی گاڈی کھائی میں گری دیکھ کر جان بچاتے تب میری قوم. لیکن جب اسی عوام کا چراغ پیلٹ گن لگنے سے بجھ جاتا تب یہ عوام میری قوم کہنا بھول جاتی, یہ کہ کر اپنا فرض پورا کرتی ہے فوج اپنا کام کررہی تھی نہ کہ بچوں کے کھانے کے لے چاکلیٹ اور ٹافی کا سٹاک .بچہ والد کے لے گیٹ کھولیں اسی اثنا میں بچہ کو چبن کا احساس ہوکر والدسےدرد کہتاوالد الٹے پاوں بچہ کو اہسپتال لے جاتا ہیں پتہ چلیں آنکھ میں پیلٹ لگا ہے.اُس والد کا کیا حال ہوگا کچھ دن پہلے یہ بچہ جینے کا مقصد اب اس معصوم کی زندگی اندھیرئی رات. جدید ٹیکنالوجی میں سکول نہ جاننا فون پر استاتزہ سے لیکچر سننا اور خوفناک پیلٹ گن سے آنکھوں کی بینائی کب مفلوج ہوں کس کو پتا. کہانی نہیں حقیقت پر مدبنی روا دوا ہیں کیاہماری وادی ہمیشہ سے جھلتی رہے گی جدید ٹیکنالجی ہمیں فونی اصلاح کی صورت میں دیکھنا ہے نا ٹرین کی بحالی ممکن نا ہی فون کی بِحالی کا.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...