میرے شہر والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔49
قادو مکرانی۔۔۔۔۔۔۔۔ایک گمنام باغی
نیلی تختی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن کی سڑکوں پر مٹرگشتی کرتے ہوئے میری نظر ایک عمارت پر لگی ایک چھوٹی سی گول نیلی تختی پر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا۔Charles Darwin lived here۔
اور ساتھ ہی کوئی سن وغیرہ لکھا ہواتھا۔ میرے داماد نے بتایا کہ شہر میں جہان کہیں کوئی مشہور ہستی رہی ہے وہاں اسکے نام کی ایک ایسی تختی ٓآویزاں کردی جاتی ہے۔
اسکے بعد میرا یہی مشغلہ رہ گیا تھا کہ میری نظریں راہ چلتے ہوئے ایسی تختیاں تلاش کرتی رہتی تھیں۔ کہیں ٓاسکر وائلد کا نام نظر ٓاتا، کہیں کارل مارکس، تو کہیں چارلی چپلن اور کہیں شرلاک ہومز۔
میں یہ تختیاں دیکھتا اور ٓاگے گذر جاتا کہ رسل روڈ کی ایک سہ منزلہ عمارت پر لگی نیلی گول تختی نے گویا میرے قدم ہی جکڑلئے۔ اس پر لکھا تھا، ،، قائد اعظم محمد علی جناح۔۔بانئی پاکستان ۱۸۹۵ میں یہان رہے ہیں۔ میرا جی چاہا کہ میں اس تختی کو چھو کر دیکھوں لیکن وہ خاصی اونچائی پر تھی۔
میں انگریز کی تاریخ سے محبت کا قائل ہوگیا کہ انہون نے نہ صرف اپنی بلکہ غیروں کی تاریخ بھی محفوظ کی ہوئی ہے۔
میں بتاوںگا کہ مجھے یہ گول نیلی تختی ٓاج کیوں یاد ٓائی۔
میں بہت چھوٹا تھا جب میوا شاہ میں -کسی عزیز کو دفنانے کے بعد ٓاتے ہوئے میرے مرحوم چچا، انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب ہو، (جو کہ کراچی کا انسائیکلوپیڈیا تھے) نے ایک مختصر سے کچے احاطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ،، قادو مکرانی،، کی قبر ہے۔
مکرانی میرے لئے کوئی عجیب یا اجنبی قوم نہ تھی۔ گورنمنٹ اسکول بہار کالونی میں کئی مکرانی میرے کلاس فیلو تھے۔ انکی دوستی ان موقعوں پر بڑی کام ٓاتی جب کسی دوسری ٹولی سے جھگڑا ہو جائے۔ ہم تختیوں اور ہاتھوں سے لڑتے مگر ہمارے مکرانی دوست سر کی ٹکر سے مقابل کی نکسیر پھوڑنے میں کمال رکھتے تھے۔ ٓاج کی نسل کا شاید کوئی مکرانی ہیرو یا ٓائیڈیل نہ ہو لیکن ہمارے بچپن میں تراب علی، عمر، غفور، علی بخش فٹبالرز کی تصویریں جنگ اخبار کے نیلے صفحے پر چھپتی تھیں۔یا لیاری سے کمبرانی اور حسین بخش جیسے باکسر ایشین گیمز میں سونے چاندی کے تمغے جیتتے، جس کے صلے میں انھیں کے پی ٹی یا کے ایم سی میں چپراسی یا چوکیدار کی ملازمت عطا کیجاتی اور کسی کو خبر نہ ہوتی کہ کب تراب، عمر یا کمبرانی اس دنیا سے چلے گئے۔
لیاری کے دوسرے ہیرو ذرا اور قسم کے تھے۔ میرے شہر کے دوسرے حصوں میں یہ دہشت کی علامت ہوتے، لیکن بغدادی، کلاںکوٹ، کلری، چاکیواڑہ اور رانگی واڑہ میں ،، شیرو، دادل اور کالاناگ کو دیو مالائی حیثیت حاصل تھی۔ جن کی ذریت نے ٓاج بھی لیاری والوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔
قادو کو میں تقریبا بھول چکا تھا کہ کچھ عرصے بعد شہر میں فلم ،، جاگ اٹھا انسان،، لگی۔ میں نے یہ فلم تو نہیں دیکھی مگر اس فلم کا گیت، ،، دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں،،، میرے پسندیدہ ترین گانوں میں سے ہے. چچا ہی نے بتایا کہ یہ فلم قادو مکرانی کی زندگی پر بنائی گئی ہے۔
ایکبار شاید کسی نے پی ٹی وی کے مقبول پروگرام کسوٹی میں قادو مکرانی کو بوجھا تھا اور عبیداللہ بیگ مرحوم نے کچھ بتایا بھی تھا لیکن مجھے کچھ یاد نہ رہا۔
مجھے قادو کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں پتہ تھا لیکن میرے اس سلسلے، میرے شہر والے، کیلئے میں کسی خالص کراچی کی ہستی کے بارے میں لکھنا چاہ رہا تھا۔ عموما میں انکا ذکر کرتا ہوں جنہیں احباب جانتے ہیں اور ان کے ساتھ گذرے وقت کی کچھ یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ لیکن کیا حرج ہے ٓاج کسی سیلیبرٹی کے بجائے کسی حقیقی ہیرو کو یاد کرلیا جائے۔
ایک گم گشتہ کردار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کے وسط میں جب مکران کے محنت کشوں پر انگریزراج نے زندگی تنگ کردی تو قادر بخش رند بلوچ، عرف قادو مکرانی کے کنبے اور قبیلے نے کاٹھیا وار کا رخ کیا۔ ڈاکوں اور رہزنوں کے ہاتھوں پریشان، نواب کاٹھیا وار نے بہادر اور جنگجو قادو اور اسکے ساتھیوں کی مدد حاصل کی۔ اس مہم کے بخوبی سرانجام دینے کے صلے میں نواب نے قادو اور اسکے قبیلے کے لوگوں کو زمینین اور جائیدادیں عطا کیں۔
انگریز جو اپنے راج میں کسی ہندوستانی کو سر اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے، قادو جیسے جنگجووں کا عروج گوروں کیلئے خطرے کی گھنٹی تھا۔ وہ موقع کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح ان بلوچوں کا زور توڑا جائے۔
شاطر انگریز نے ٓاخر ایک بہانہ تراش ہی لیا اور مردم شماری کی ٓاڑ میں بلوچ ٓابادیوں میں گھسنا چاہا۔ بلوچوں کی غیرت بھلا یہ کیسے گوارا کرتی، انہوں نے مقابلے کی ٹھانی۔
گورا شاہی نے قادو کر پیشکش کی کہ یا تو وہ ہتھیار ڈالدے یا پھر لڑنے کیلئے تیا ہوجائے۔ اور ٓاپ جانتے ہونگے کہ بلوچ ایسے موقع پر کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ نتیجتا انگریز تمام سازوسامان کے ساتھ قادو کے ساتھیوں پر چڑھ دواڑا۔ بلوچ اپنی روایتی بے جگری سے لڑے۔ دونوں طرف کے بہت سے لوگ مارےگئے۔ بعد ازاں انگریزوں کے خلاف چھاپہ مار حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔۔ پریشان گوروں نے اس کا حل یوں نکالا کہ قادو کے سر کی قیمت ایکہزار روپیہ اور بیس ایکڑ زمین مقرر کی۔ یاد رہے یہ انیسویں صدی کی بات ہے۔
چھاپہ مار جنگ کی حکمت عملی کے تحت قادو کے ساتھیوں نے مشورۃ دیا کہ وہ کچھ عرصہ کیلئے روپوش ہو کر مکران چلاجائے تاکہ کاٹھیا وار میں گوروں کا دباو کچھ کم ہوسکے۔
قادو احمدٓاباد پہنچا اور وہان سے بزریعہ ریل کراچی کی راہ پکڑی۔لیاری کے علاقے میں اس نے ایک ساربان سے مکران تک پہنچادینے کا سودا کیا۔ قادو کی شہرت اس سے پہلے کراچی پہنچ چکی تھی اور جیسا کہ ہماری تاریخ میں ہوتا ٓایا ہے کہ جسے دشمن نہ زیر کرسکا وہ اپنوں کے ہاتھوں ڈھیر ہوا۔
ساربان نے قادو کو پہچان لیا اور لالچ نے اسکے دل کو گھیرا۔ اسے قادو کے سر کی قیمت معلوم تھی۔ اس نے قادو سے کہا تم مجھے بغدادی تھانے کے پیچھے ملو وہاں سے ہم اپنے سفر کا ٓاغاز کرینگے۔ قادو مقررہ جگہ پہنچا تو ساربان، پولیس کے ایک سپاہی کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ قادو نے اس حریص ساربان اور سپاہی دونوں کو ٹھکانے لگا دیا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔ ایک مزدور جو ایک اونچی جگہ پر کام کرہا تھا اس نے ایک دوڑتے ہوئے شخص پر کسی مجرم کا گمان کیا اور ایک بھاری پتھر قادو کے سر پر گرادیا۔
بے ہوش قادو کو پولیس گرفتار کر کے لے گئی اور ایک مختصر سے مقدمے کے بعد اسے سزائے موت سنادی گئی۔ کراچی سنٹرل جیل میں اسے تختہ دار پر ٹتکادیا گیا۔ واجہ درا خان نے اسکا جسد خاکی وصول کیا، ملا غلام علی نے درا لایئنز کلاں کوٹ مین شہید کو غسل دیا اور بلوچوں کا یہ جری فرزند میوہشاہ کے قبرستان میں زمین کے حوالے کردیا گیا۔
ہوسکتا ہے میری سنائی ہوٗیی قادو کی اس داستان میں بہت سی باتیں اس طرح نہ ہوں۔ اور یہ بھی ہوسکتا کہ اس سے بھی کہیں زیادہ کہنے کے لئے ہو۔ لیکن مجھے قادو کے بارے میں کیونکر معلوم ہو۔ ہمارے یہاں تو کسی نیلی گول تختی کا رواج نہیں ہے جو کسی میوہ شاہ کے باہر ٓاویزاں ہو اور ہمیں بتائے کہ قادر بخش رند بلوچ عرف قادو مکرانی اس قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔