میرے شہر والے۔۔۔۔۔۔8
منی باجی۔۔۔۔عرشی خالہ۔۔۔۔اکا بوا
مدت ہوئی اس خاکسار نے ٹیلیویژن دیکھنا اور ریڈیو سننا ترک کردیا ہے۔ آپ کہیں گے کہ پھر خالی وقت کیسے گذرتا ہے۔ دنیا کے حالات سے آگاہی کیسے ہوتی ہے۔
وقت گذاری کیلئے تو عرض یہ ہے کہ گلشن میں علاج تنگئ داماں بہت ہے۔ آج کی دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو آپ کو ہر وقت مصروف رکھ سکتا ہے۔ یہی سماجی زرائع ابلاغ یعنی سوشل میڈیا دیکھ لیں۔ فیس بک ، واٹس اپ اور ابلاغ کے بے تحاشا نت نئے طریقے آپ کو دنیا بھر سے ملائے رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اپنوں سے بیگانہ بھی کر دیتے ہیں۔۔ خیر یہ ایک بحث طلب موضوع ہے ۔ اس پر بات پھر کبھی سہی۔
جہاں تک حالات حاضرہ سے آگاہی کی تعلق ہے، انسان ان سے بیگانہ ہی رہے تو بہتر ہے۔ ملکی حالات ہوں یا عالمی واقعات، یاد نہیں کوئی اچھی خبر آخری بار کب سنی تھی۔ دل و دماغ کی بہتری اسی میں ہے کہ
فکر "عالم" نہ کروں، محو غم دوش رہوں
یقین کیجئے دنیا کے ان حالات کا نہ میں تنہا ذمہ دار ہوں نہ یہ سب کچھ میری مرضی اور خواہش سے ہورہا ہے نہ ہی اس دنیا کو سدھارنا مجھ ناتواں کے بس میں ہے۔
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
دنیا کو اس کے حال پر چھوڑیں۔
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں
اب دنیا دنیا کون کرے
آئیں میں بتاؤں کہ میں نے ٹی وی اور ریڈیو کو فارخطی کیونکر دی۔
میرے ہم عمروں کو یاد ہوگا کہ ریڈیو اور ٹی وی ہماری زندگی میں کیا مقام رکھتے تھے۔ کیا کچھ معیار تھا زبان و بیان کا اور کیا کچھ ہم سیکھتے تھے۔ اور کس قدر عظیم تھے وہ فنکار جو ہمارے ذوق، ہماری تہذیب کی آبیاری کرتے تھے۔
دنیا میں طرح طرح کے فن اور قسم قسم کے فنکار ہیں، شو بز فن کا وہ شعبہ ہے جو ہمارے دل و جاں سے قریب تر ہے۔ شاید ہی کوئی ہو جو کسی فن اور کسی فنکار سے متاثر نہ ہو۔ بہت سے اداکار، گلوکار ،صداکار ایسے ہیں جنہیں "لاکھوں دلوں کی دھڑکن" کہا جاتا ہے۔ کچی عمر کے لڑکے،بالیاں جنہیں اپنے خوابوں میں دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ عام طور پر فلموں اور ڈراموں کے ہیرو ہیروئن ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا ایک وقت ہوتا ہے ۔ ادھر شباب کی ندی اتری' ادھر یہ بھی دل سے اترتے گئے۔
کچھ فنکار لیکن ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپ اپنا ہی سمجھتے ہیں۔ یہ ایسے کردار ہیں جو میرے آپ کے گھروں میں ہوتے ہیں اور جب یہ پردہ پر نظر آتے ہیں تو لگتا ہے کہ اپنا ہی کوئی ہے۔ ان سے مرعوب نہیں ہوا جاتا بلکہ محبت کی جاتی ہے۔
آج ایسی ہی کچھ ہستیوں کا ذکر ہے جنہیں ہمیشہ ہم نے اپنے دل میں پایا۔ جو ہمیشہ اپنے اپنے سے لگے۔ آج بھی جب ان کی یاد آتی ہے تو ایک زمانہ نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔
کوئل کی کوک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم بچو۔۔۔۔السلام علیکم بھائی جان !!!
اور اسکے ساتھ ہی ایک کھلکھلاتی، کھنکھناتی، کلکاریاں مارتی بچی کی آواز گھر میں ایسے گونجتی جیسے گھنٹیاں بج رہی ہیں۔
جی ہاں یہ ہم سب کی محبوب، منی باجی کی آواز ہوتی تھی اور پروگرام ہوتا تھا، بچوں کی دنیا، جس کا نام پہلے کبھی نونہال ہوا کرتا تھا۔
بچوں کا یہ پروگرام بڑوں کا بھی پسندیدہ ہوتا تھا۔ پہلے پہلے عبدالماجد اور پھر ظفر صدیقی اسکے بھائ جان بنے۔ پروین اختر، یعنی منی باجی البتہ شروع سے آخر تک منی باجی ہی رہیں جو چھوٹے بڑے ہر ایک کی محبوب تھیں۔ چھوٹے انہیں اپنوں میں جانتے تھے اور بڑے انہیں ایک پیاری سی بچی سمجھتے تھے۔
غیر منقسم ہندوستان کے پر فضا پہاڑی مقام، شملہ میں پیدا ہونیوالی منی باجی تاحیات مجرد رہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی مقصود۔ جن کا حال ہی میں انتقال ہوا، بھی کوتاہ قد اور بچوں کی سی آواز رکھتے تھے اور آخر عمر تک ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ رہے۔ مقصود کا ایک مقبول پروگرام "ٹائنی ٹاٹ" ہوا کرتا تھا جس کا ٹائٹل سانگ بھی انہی کی آواز میں تھا۔ افسوس کے بہت کوشش کے باوجود بھی منی باجی کی آواز کا کوئی ریکارڈ نہ مل سکا نہ ہی مقصود کے ٹائنی ٹاٹ کی کوئی ریکارڈنگ محفوظ ہے۔
تقسیم سے قبل، بہزاد لکھنئوی کے توسط سے منی باجی دہلی ریڈیو سے وابستہ ہوئیں۔ آزادی کے بعد کے دو سال شہر زندہ دلاں لاہور میں گذارے پھر کراچی چلی آئیں جہاں انکےگھروالوں نے ریڈیو پاکستان کراچی کے عقب میں ، رتن تلاؤ کے علاقے میں رہائش اختیار کی۔ منی باجی کے ابا ریڈیو پاکستان کی کینٹین چلاتے تھے اور جب عمر کی نقدی ختم ہونے آئی تو اپنی بیٹی پروین اختر اور بیٹے مقصود کو یہ کینٹین سونپ دی۔ بابائے نشریات ذیڈ اے بخاری کی نظر سے ایسا گوہر بھلا کیسے پوشیدہ رہ سکتا تھا، چنانچہ منی پھر ریڈیو پر واپس آئیں اور پینتالیس سال تک انکی کھلکھلاتی ہنسی اور کوئل جیسی آواز ہمارے کانوں میں مٹھاس انڈیلتی رہی۔
منی باجی ساٹھ، ستر کی عمر تک پہنچ کر بھی منی ہی رہیں اور لوگ آخر تک انہیں ایسے ہی چاہتے رہے۔ اب تو کان ترستے ہیں ایسی مٹھی ، جلترنگ کی سی آواز سننے کیلئے۔
لکھنوی بوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالہ عرش منیر البتہ ہمیشہ بزرگ ہی رہیں کہ ہم نے جب بھی سنا اور دیکھا تو ہمیشہ ایک تیز طرار بڑی بی کا ہی تصور ابھرا۔ لیکن خالہ جس روپ میں بھی آئیں ہمیشہ محبوب رہیں۔ ٹی وی اسکرین پر حسین ترین چہروں کے درمیان ، سفید چونڈےاور پان کی سرخی آلود دانتوں والی اس بوا پر سے نظر ہی نہ ہٹتی کہ جب وہ بولتیں تو لگتا کہ گھر دادی یا بوا چوکی پر بیٹھی، چھالیہ کترتے ہوئے، چھوٹوں کو ڈانٹ پھٹکار کر رہی ہیں۔
خالہ کی زبان اودھ کے دریاؤں کی دھلی ہوئی، اور انکے تیز لہجے کا باوجود دلنشین تھی اور ہوتی کیوں نا؟، لکھنوی بوا اپنے وقت کے صاحب طرز اور عظیم مزاح نگار اور ادیب، شوکت تھانوی کی بیگم جو تھیں۔
عرش منیر اور شوکت تھانوی دونوں نے آل انڈیا ریڈیو سے صداکاری کی۔ پاکستان آنے کے بھی دونوں ریڈیو سے وابستہ رہے۔ خالہ نے پھر ٹی وی بھی کیا۔ ریڈیو پر ان کا ڈرامہ جس میں ان کا مکالمہ"دھابیجی آئے تو بتا دینا " بہت سوں کو یاد ہوگا۔ کراچی ریڈیو سے طویل ترین عرصہ تک چلنے والے اور مقبول ترین پروگرام "حامد میاں کی ہاں" میں عرش منیر اکثر وبیشتر اپنی آواز کی دھنک بکھیرتیں۔
ٹیلیویژن پر بے تحاشا ڈرامے کئی، جس میں خدا کی بستی، شمع، افشاں اور نجانے کتنے ڈرامے کئے۔ بہت سوں کو اطہر شاہ خان ، عرف جیدی کے "آنٹی فلاور باڈی، " یعنی خالہ گلبدن یاد ہوں گی۔
ہر گھر میں ایک ایسی بوا ہوتی ہیں اور خالہ اسی لئے پر ایک کو اپنی ہی لگتی تھیں۔ اگر ہم میں سے کسی کو وہ کہیں نظر آجا تیں تو کیا ہم انہیں خالہ، یا، بوا سلام نہیں کہتے۔
ہماری بوا بھی تو ایسی ہی تھیں۔
ٹھسے والی عورت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھسے والی، یہ لفظ بہت پڑھا لیکن معنی سمجھ تب آئے جب اکا بوا کو اسکرین پر دیکھا۔
لکھنؤ کی مسلم تہذیب کا مرقع، شائستگی کا مجموعہ، ایک دور، ایک تہذیب اور ایک طرز زندگی کی نمائندہ، بیگم خورشید مرزا، المعروف اکا بوا کو دیکھ کر بیک وقت، احترام، ادب اور ساتھ ہی محبت کے جذبات ابھر آتے۔ کبھی وہ ایک سخت گیر سربراہ خاندان کے کردار میں نظر آتیں تو کبھی ایک شفیق بزرگ کی سی مسکراہٹ بکھیرتیں۔ جس روپ میں بھی آتیں دلوں پر چھا جاتیں اور پھر اسکرین پر انکے علاوہ کسی پر نظر ہی نہ ٹھہرتی۔
علیگڑھ مسلم گرلز کالج کے بانی، شیخ عبداللہ کی زمانہ ساز ، اپنے دور کے مروجہ رسوم و رواج سے ہٹ کر چلنی والی بیٹیاں، یعنی رشید جہاں ، انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں سے ایک، مشہور عالم رسالے انگارے کی شریک مصنفہ اور دوسری خورشید جہاں، جو اس وقت رینوکا دیوی کے نام سے فلموں میں جلوہ گر ہوئیں جب ، تعلیم یافتہ، مسلمان خواتین اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھیں۔
بیگم خورشید مرزا نے کئی ریڈیو پروگراموں کی میزبانی بھی کی لیکن شہرت انہیں ٹی وی ڈراموں سے ملی۔ افشاں، کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، پرچھائیاں ، انا، ماسی شربتے اور نجانے کتنے ڈراموں میں اداکاری کی لیکن انکے نام سے کم ہی واقف ہیں البتہ اکا بوا کو ہر کوئی جانتا ہے۔
علیگڑھ سے کراچی آکر اودھ کی تہذیب کے رنگ بکھیرے آخر کار شہر زندہ دلان لاہور میں مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گئیں اور ایک عہد، ایک زمانہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
ڈھونڈ انہیں اب چراغ رخ زیبا لے کر۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔