میرے شہر والے۔۔۔۔۔۔۔۔60
سو ہے وہ بھی آدمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس قدر حسین ہے یہ دنیا جسمیں میں اور آپ رہتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اس دنیا میں جینے کی کئی زیادہ وجوہ ہیں بہ نسبت اس دنیا کو تیاگ دینے کے۔ میں شاعر کی بات نہیں مانتا جو کہتا ہے۔۔۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کفران نعمت ہوگا اگر رب کی دی ہوئی اس زندگی اور دنیا کی ان نعمتوں کا انکار کریں۔ یہ ارض و سماوات کی تخلیق، یہ دن کا جانا اور رات کا ٓانا اور رات کا جانا اورپھر دن کا آنا ، یہ رنگ بدلتے موسم، یہ میدان، جنگل ، صحرا، یہ ندیاں، جھیلیں،، یہ دریا اور سمندر، یہ چشمے اور جھرنے یہ برف اور سبزے سے ڈھکے پہاڑ، یہ کھیت کھلیان، یہ پھول پھلواری، یہ باغ بغیچے یہ نبادات و جمادات، یہ رنگ برنگے چہچہاتے پرندے، یہ خوبصورت چرندے اور مویشی، جن میں سے بعض سے ہم غذا حاصل کرتے ہیں اور کچھ پرہم سواری کرتے ہیں۔ یہ سمندروں میں پھیلی طرح طرح کی مخلوق اور سیپیاں اور موتیاں، یہ بادل یہ بجلی، یہ سورج اور یہ چاند تارے، صرف اور صرف ہمارے لئیے ہیں۔ ہمیں خوش باش، ہنستا کھیلتا اور تندرست و توانا اور چونچال رکھنے کیلئے ہیں۔
ہم دن رات بلکہ ہر لحظہ ہر آن، ان سے لطف لیتے ہیں، فیض اٹھاتے ہیں، لیکن کتنے ہیں جنہیں یہ فکر رہتی ہے کہ یہ سب یونہی رہے، یہ زندگی یونہی رنگ بکھیرتی رہے، یہ پھول یونہی کھلتے رہیں، یہ کھیت یونہی لہلہلاتے رہیں اور یہ پرندے یونہی چہچہاتے رہیں اور ہم دنیا والے بے فکر ہو کر اپنے مشاغل میں مصروف رہیں۔
بڑے عظیم ہوتے ہیں وہ جو اس زندگی کے حسن کو قائم رکھنے کی فکر کرتے ہیں اور ان سے بڑھکر وہ جو اپنے عمل سے اور اپنے پیشوں سے اس دنیا کو ہمارے رہنے کے قابل بناتے ہیں۔
بہت سے ان میں ایسے ہیں جنہیں ہم جانتے بھی نہیں اور کئی ایسے ہیں جنہیں ہم دیکھتے تو ہیں لیکن یوں جیسے وہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں اور ہمارا ان سے کوئی سماجی رابطہ نہیں۔ ہم انہیں اپنے سے الگ سمجھتے ہیں۔ یہ جو ہماری زندگی کو حسین بناتے ہیں اور جو مالک کی اس دنیا کا حسن قائم رکھتے ہیں، خود بڑے بے نام، بے وقعت اور بے مرتبہ ہوتے ہیں، جنکی اپنی زندگی میں کوئی رنگینی نہیں ہوتے۔ جنہیں مقام حیات میسر نہیں۔
ہماری زندگی اتنی خوبصورت، پر سکون اور آرام دہ نہ ہوتی اگر یہ نہ ہوتے۔ یہ افتادگان خاک جنکی وجہ سے یہ دنیا ہمارے رہنے کے قابل ہے، جو میرے، آپکے شہر میں رہتے ہیں لیکن ہم نہ ان سے ملتے ہیں نہ کوئی تعلق رکھتے ہیں ، کجا کہ ہم ان کے شکرگذارہوں اور کبھی ان سے اس کا اظہار بھی کیا ہو۔ اور کچھ نہیں تو جو کچھ یہ کرتے ہیں اس کا ویسا صلہ ہی دیا ہو۔۔ ہم جو اپنے آپ کو اس دین کا پیرو کار بتاتے نہیں تھکتے جس میں گورے کو کالے پر، امیر کو غریب پر اور عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں۔ لیکن ان خاک نشینوں کو اپنے سے کمتر اور اچھوت جانتے ہیں۔
ایسے کئی ایک کردار ہیں۔ میں صرف چند ایک کا ذکر کروں گا جو میرے اور آپ کے درمیان ہی رہتے ہیں لیکن انکی دنیا اور ہے اور ہماری اور۔
حلال خور(مہتر،جمعدار، خاکروب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اگر اچھی اور مثبت چیزوں کو پسند نہ کریں تو ہمارے سلیم الفطرت ہونے میں کلام ہے۔ انسان کی پسندیدہ چیزوں میں سے ایک صفائی بھی ہے، جسے میرے دین نے نصف ایمان قرار دیا ہے۔ ہم اپنے جسم، لباس، گھر اور ماحول کی صفائی کا اہتمام کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ ہمارے شہر بھی ایسے ہی صاف ستھرے ہوں۔ جس قدر ہم صفائی اور پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اتنا ہی ہم گندگی اورناپاکی سے نفرت کرتے ہیں اور اسکے قریب نہیں جاتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ناگوار، ناخوشگوار کام کوئی اور کرے۔ تہذیب یافتہ ملکوں میں ایسے کام کام کرنے والوں کا شکر گذار ہوا جاتا ہے۔ ایسے کاموں کا معاوضہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور معاشرے میں ان کا بھی وہی مقام و مرتبہ ہوتا ہے جو دوسروں کا۔ انکے پیشے کی وجہ سے کوئی انہین حقیر نہیں جانتا۔
ہم انسانی مساوات کے سب سے بڑے دعویدار اور مبلغ، نہ صرف انکو، انکے کام سے کہیں کم اجرت دیتے، ان کو انسان سمجھنا تو درکنار، ان سے سماجی تعلقات رکھنا یا ان میں رشتے کرنا تو بہت دور کی بات ہے، ان سے بلا ضرورت بات بھی نہیں کرتے، نہ ان سے ہاتھ ملاتے ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ پانی پلانے کیلئے بھی اپنے برتن استعمال نہیں کرنے دیتے بلکہ ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے ہاتھوں کا کوزہ بنائیں اور ہم دور سے انکے پھیلے ہوئے ہاتھوں پر پانی انڈیلتے ہیں۔
یہ جو ہمارے گھروں، گلیوں، سڑکوں، دفتروں، بازاروں، تفریح گاہوں اور شہروں کو ہمارے رہنے کے قابل بناتے ہین، ہماری نفاست طبع، ہماری صحت و تندرستی کا سامان کرتے ہیں ہم انہیں اچھوت جانتے ہیں اور ،بھنگی، اور چوہڑے کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ہم بھی کیا لوگ ہیں۔۔۔۔۔۔۔آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
محافظ ہمارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امن، آشتی، سکون اور حفاظت۔ کون ہے جو ان کا متلاشی اور متمنی نہیں۔ جب ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں تو کون ہیں جو ہمارے گھروں اور گلیوں کی حفاظت کر رہے ہوتےہیں، سڑکوں کا بے ہنگم ٹریفک، شاہراہوں پر بدمست اور غیر ذمہ دار ڈرائیونگ کو قابو رکھتا ہے۔ جلسے جلوسوں، تفریح گاہوں اور عوامی مقامات پر ہماری حفاظت کس کے ذمے ہے۔ اور کون ہیں جو انتہائی معمولی تنخواہ کے عوض خودکش حملہ آوروں سے بھڑ جاتے ہیں اور جو ٓائے دن ہماری زندگیوں کو قائم رکھنے کیلئے خونخوار دہشت گردوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
پولیس کا محکمہ ایک مقدس ادارہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک مین عوام پولیس کو اپنا مربی اور محسن سمجھتے ہیں۔ گھر کی چابی بھی کھو جائے یا کہیں راستہ بھول جائیں تو بھی پولیس سے مدد کے طالب ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں بد قسمتی سے جاگیردارانہ سوچ رکھنے والی اشرافیہ، مخالفیں پر غلبہ کی خواہش رکھنے والے سیاستدانوں اور عوام کو غلام رکھنے والی نوکر شاہی نے پولیس کے مقدس پیشے کو گالی بنا دیا ہے۔
وہ کشتگان خاک جو ہماری حفاظت کیلئے اپنی جانوں کی بازی لگادیتے ہیں، ذرا انہیں ملنے والی تنخواہوں اور سہولیات پر غور کریں اور ان کا مجموعی کردار دیکھیں۔ فضائی سفر کے اختتام پر جب ہوائی میزبان اپنی تاجرانہ مسکراہٹ سے ہمیں خدا حافظ کہتی ہے تو ہم اسکا شکریہ ادا کرنے کیلئے بچھے بچھے جاتے ہیں۔ کیا کبھی یوں بھی ہوا کہ کسی عظیم الشان جلسے کے کامیاب اختتام کے بعد، یا کسی میوزک کانسرٹ سے لطف اندوز ہو کر باہر آتے ہوئے ہمارئ حفاظت پر متعین پولیس اہلکاروں سے ہم نے ہاتھ ملایا ہو اور ان کا شکریہ ادا کیا ہو۔ کیا کبھی عید بقر عید یا یوم ٓازادی پر ہم نے کسی پولیس اسٹیشن جاکر انہیں مبارکباد دی ہو اور انکے شکر گذار ہوئے ہوں۔
ان کا احسانمند اور متشکر ہونا تو دور کی بات، ہم انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ حکومتیں جب اپنے مقاصد کیلئے انہیں استعمال کرتی ہیں تو ہماری نفرت کا نشانہ سرکار نہیں بلکہ حکم کے غلام پولیس اہلکار ہوتے ہیں۔ ہم ان پر پتھراوٗ کرنا، ان سے گالی گلوچ کرنا پنا جمہوری حق سمجھتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان انہیں اپنا کمی کمین سمجھتے ہیں اور جس انداز سے اپنے کارکنوں کو رہا کروانے کیلئے ان سے توہین آمیز سلوک کرتے ہیں وہ سب پر آشکارا ہے۔
یہ پولیس بھی ہم میں سے ہی ہے۔ یہ سپاہی بھی ہمارے ہی بچے ہیں اور یہ ہماری ہی حفاظت اور آسانی کیلئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انہیں اپنا سمجھیں، ان کے قریب جائیں، ان سے ہاتھ ملائیں اور ان کا شکریہ ادا کریں۔
آئیں، فاصلے مٹائیں۔
کچرا چننے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوڑے اور غلاظت کے ڈھیروں پر، کچرا کنڈیوں پر جھکے، کچرے کو کریدتے، اس میں سے ہڈیاں، پلاسٹک کے ٹکڑے، کانچ کی بوتلیں اور کپڑوں کی چندیاں الگ کرتے اور میلے کچیلے تھیلوں میں جمع کرتے، بچے بچیاں اور عورتیں ہم اکثر دیکھتے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر پر، میلے کچیلے، پھٹے پرانے چیتھڑوں میں لپٹے، ملگجے اور گردآلود بال، پپڑیاں جمے ہوئے ہونٹوں اور وحشت زدہ چہروں والے یہ ذی روح بھی اسی کوڑے کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم شاید نظر بھر کر انہیں دیکھتے بھی نہیں جو ہمارے اتنے بڑے محسن ہیں۔
دنیا اس وقت ماحولیاتئ آلودگی کے عفریت سے لڑ رہی ہے، جسکا خوفناک ترین حملہ چند دن قبل ہم نے اپنے شہر میں دیکھا جب گرمی کی شدت سے ڈیڑھ ہزارسے زیادہ جانیں لقمہٗ اجل بن گئیں۔
یہ خاک نشین اس کچرے سے ہڈیاں، پلاسٹک، کانچ، کاغذ اور کپڑا چن کر ہماری اور انسانیت کی دوہری خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف آلودگی کو کم کرتے ہیں بلکہ ضائع شدہ اور استعمال شدہ اشیاٗ کو دوبارہ قابل استعمال (ری سائیکل) کرکے دنیا کے وسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔
ہم نے شاید کبھی ان سے ٹھہر کر بات کی ہو، چہ جائیکہ ان سے کسی ضرورت کا پوچھا ہو، کبھی کچرا چننے والے بچے کو پانی، جوس، چاکلیٹ یا بسکٹ دیے ہوں۔
انہیں ہماری ہمدردی کی ضرورت بھی نہیں، یہ ہم سے زیادہ غیرتمند اور خوددار لوگ ہیں جو میرے آپکے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ اپنا رزق خود پیدا کرتے ہیں
امام مسجد۔۔۔موذن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری زندگی کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک ہماری جسمانی احتیاجات یعنی سادہ لفظوں میں ، روٹی، کپڑا اور مکان اور دوسری پماری روحانی ضرورتیں۔
ہم لاکھ نہ مانیں، تاویلیں پیش کرتے رہیں لیکن ہم اپنی روحانی احتیاجات کی تکمیل سے مبرا نہیں ہوسکتے۔ ہر انسان کا ، یا یوں کہہ لیں ، زیادہ تر کا، ایک عقیدہ ہوتا ہے جسکے مطابق وہ اپنی زندگی کے بعض اہم مراحل طے کرتا ہے۔ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اسکے عقیدے کا واضح اعلان، اسکے کان میں اذان دے کر کیا جاتا ہے، جوان ہوتا ہے، شادی بیاہ کا موقع آتا ہے تو بتایا جاتا ہے کہ یہ ہے ہمارا طریقہ اور ہم یوں شادی کرتے ہیں(یعنی نکاح کرتے ہیں) اور جب ہمار بلاوا آتا ہے تو ہمارے عقیدے کے مطابق مالک حقیقی کے حوالے کیا جاتا ہے۔
ان بنیادی ضرورتوں کیلئے ہمیں جس کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے مولوی یا وہ شخص جسے دین کی کچھ شدھ بدھ ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ان معاملات سے الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ ان مواقع پر ہم مولوی کی بڑی عزت کرتے ہیں، اسے ہار پہناتے ہین اور کچھ نذرانہ وغیرہ بھی دیتے ہیں۔
اسی ملا کو جب ہم اپنی مسجدوں میں ملازمت دیتے ہیں تو پھر یہ ہمارا ملازم ہوتا ہے، مولوی صاحب نے کیسے اور کتنی بڑی یا چھوٹی نماز پڑھانی ہے یہ ہم طے کرتے ہیں۔یہ ملا جس کی عزت نفس تو مدرسہ کی تعلیم (جہاں یہ محلے سے روٹیاں جمع کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے) میں ہی ختم کردی جاتی ہے۔ ہم اپنی بیٹی کی شادی کسی ملا کے بیٹے سے نہیں کرسکتے کہ وہ کمائے گا کیا اور کھلائے گا کیا۔
سردیوں کی یخ صبحوں کو جب ہم اپنے گرم لحاف سے منہ باہر نکالنے کے روادار نہیں ہوتے، یہ مولوی اپنا آرام اور نیند تج کرآذان دے رہا ہوتا ہے۔ آندھی آئے، طوفان آئے، یہ آذان اپنے وقت پر ہوتی ہے۔ ہم مسجد پہنچتے ہیں مسجد کے کمرے اور صحن میں صفائی ہو چکی ہوتی ہے اور صفیں ترتیب سے بچھی ہوتی ہیں۔ غسل خانوں میں وضو کا پانی موجود ہوتا ہے اور جو یہ سب کچھ کرتا ہے ہم اس سے اپنے کمی کمین کا سا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان موٹے موٹے شکموں والے مولویوں کی بات نہیں کر رہا جو دین کو جنس بازار بنا کر بیچتے ہیں۔ یہ ذکر ہے ان چھوٹی چھوٹی مسجدوں کے اماموں اور موذنوں کا جو بے چارے ہماری روٹیوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ایسی کئی مسجدوں میں امام اور موذن ایک ہی ہوتا ہے۔ اذان دینے، نماز پڑھانے کے علاوہ مسجد کی صفائی ستھرائی بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ محلے میں کسی کے ہاں بچے کی ولادت ہو تو نو مولود کے کان میں اذان اور تکبیر دینا، جانوروں کو سنت طریقے سے ذبح کرنا، نکاح پڑھانا، نماز جنازہ پڑھانا اور بوقت تدفین رہنمائی کرنا، اسکے علاوہ بچوں کو قرآن پڑھانا۔ اور جو شخص یہ سارے کام کرتا ہے، چونکہ ہمارے ٹکڑوں پر پل رہا ہوتا ہے چنانچہ اسکی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اسے صرف مولوی صاحب یا ملا جی پکار کر ہم اپنی طرف سے احترام کے تقاضے پورے کردیتے ہیں لیکن اس مولوی سے رشتہ داری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ دور جدید کا انسان نہیں ہے۔ ہماری دنیا اور ہے ، اس کی اور
سماج کا ٹھکرایا ہوا ایک اور پیشہ بھی ہے اور یہ قدیم ترین پیشہ ہے لیکن اس پر بہت پہلے، مرزا ھادی رسوا اور کچھ عرصہ پہلے منٹو ، شورش کاشمیری اور دوسرے بہت سے، بہت کچھ لکھ گئے ہیں۔
اپنے آس پاس نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کتنے ہیں
جو زندہ رہ کے بھی مقام حیات پا نہ سکے۔
یہ وہ اہل صفہ ہیں جنہیں ہم نے تو مردود حرم قرار دے دیا لیکن یہ وہ ہیں جن کیلئے مسندیں بچھائی جائینگی۔ اس دن ، جس دن کا وعدہ ہے۔ جن کیلئے جنتیں ہیں اور باغات ہیں کہ یہ خستہ تن وہ ہیں جن کے پاس کاہے کا مال و منال ہے جس کا حساب دیں۔ رب جن سے یوم حساب کہے گا کہ آوٗ اور میری جنت میں داخل ہوجاوٗ۔ انکے چہرے دمک رہے ہونگے اور یہ خوشی سے مسکرا رہے ہونگے۔
دوسری جانب وہ ہونگے جو اپنی جائیدادوں، زمینوں، لمبے چوڑے بنک بیلنس، گاڑیوں کے کانوائے، اس پروٹوکول کا جن سے مخلوق خدا کے راستے بند کرتے تھے اور وہ لوٹ مار اور ظلم و ستم جسے انہوں نے اپنے آپ کو قابل عزت بناے کا ذریعہ جانا ہواتھا، اس کا حساب دے رہے ہونگے، جنکے چہرے سیاہ ہورہے ہونگے اور ان پر کدورت چھائی ہوگی۔
وہ دن جب سب جمع ہونگے اور یہی دن ہوگا سودوزیاں کے حساب کا۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔