میرے شہر والے۔۔۔۔۔۔۔۔59
عظمت کے مینار
علامہ محمد اسد۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر محمد حمیداللہ
گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجانے کیا وقت آلگا ہے۔ میرا شہر، شہروں کی دلہن، روشنیوں کا شہر اب عجیب و غریب حوالوں سے پہچانا جاتا ہے۔ میرے شہر کا نام لو تو ذہن میں ٹارگٹ کلنگ، بوری بند، بھتہ خوری، ریکی، گینگ وار، جےا ٓئی ٹی اور پولیس مقابلے جیسے منحوس الفاظ کے علاوہ اور کچھ ذہن میں نہیں آتا۔
میرا شہر جو کبھی مزار قائد، کلفٹن، عبداللہ شاہ غازی، پاکستان چوک، گاندھی گارڈن اور ایمپریس مارکیٹ کے ناموں سے جانا جاتا تھا اب میرے شہر کے نام کے ساتھ، سہراب گوٹھ، عزیز آباد، گلستان جوہر اور لیاری جیسے علاقے ہی یاد آتے ہیں۔
ہم تو بھول ہی گئے اور ہماری نئی نسل کو تو کبھی یقین ہی نہ آئے کہ میرے شہر میں زندگی کیسی پیہم رواں ہر دم جواں رہتی تھی۔ اس شہر کی صبح، قاری زاہر قاسمی کی تلاوت، مولانا احتشام الحق تھانوی کے درس قرآن، حسن مثنیٰ ندوی اور حمید نسیم کے ، قرآن حکیم اور ہماری زندگی، ناصر جہاں اور مہدی حسن کی پرسوز آوازوں میں حمد ونعت سے ہوتی تھی اور شام وراثت مرزا جیسی پروقار شخصیت کی آواز میں خبروں اور رنگارنگ ٹیلیویژن پروگراموں پر ختم ہوتی تھی۔
یہ شہر تھا جہاں حکیم سعید، شام ہمدرد، سجاتے تھے، جہاں بابائے اردواور انکی انجمن ترقی اردو تھی، جہاں آرٹس کونسل، فلیٹ کلب اور تھیوسوفیکل ہال میں علی احمد، خواجہ معین الدین کے ڈرامے، ناہید صدیقی اور تارا گھنشیام کے رقص اور امراوٗ بندو خان کی سارنگی کے پروگرام ہوا کرتے تھے۔
جہاں جب میرے ملک کی ہاکی اور کرکٹ ٹیموں کے میچ ہوتے تھے تو شہر میں عید کا سا سماں ہوتا تھا۔ جہاں میں نے کے جی اے گراوٗنڈ میں اس مشاعرے میں شرکت کی تھی جسمیں پاکستان کے تمام بڑے شعراٗ شامل تھے اور اس میدان میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
جہاں رمضان کی ستائیسویں شب کو جیکب لائنز کی جامع مسجد میں ہزاروں دل، آہوں اور سسکیوں میں اپنے مالک کے سامنے گڑگڑا ریے ہوتے تھے اور جہاں بڑا امام باڑہ ، کھارا در سے شام غریباں نشر ہوتی اور پورا ملک علامہ رشید ترابی کی خطابت کے سحر میں جکڑا ہوتا۔
اس شہر سے واپس جانے والے چٹخارے لے لیکر بندوخان کے پراٹھے کباب، گھسیٹے خان کی حلیم اور فرزند علی کی قلفیوں کو یاد کرتے۔
اور کیسے کیسے لوگ اس شہر میں رہے۔ قرات العین حیدر اپنئ والدہ نذر زہرا زوجہ سید سجاد حیدر یلدرم کے ساتھ آئیں تو یہیں رہیں اور یہیں سے واپس بھی چلی گئیں ۔ حضرت جوش کی سکونت بھی یہیں رہی اور علامہ شبیر احمد عثمانی اور سید سلیمان ندوی جیسے نابغہ بھی یہیں مٹی کی چادر اوڑھے پڑے ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر میرے اور آپ کے قائد کی جنم بھومی بھی اور آخری آرام گاہ بھی اسی شہر میں اور نوآزاد مملکت کا اولین دارلحکومت بھی یہی شہر تھا جہاں منتخب روزگار ہستیاں بستی تھیں۔
آج ایسی ہی دوہستیوں کی بات ہے جنھوں نے میرے شہر کو سکونت کا شرف بخشا۔ یہ دونوں نہ تو یہاں جنمے نہ یہاں انتقال کیا، لیکن میرے ملک کی دستوری اور آئینی تاریخ میں انکا اہم ترین کردار رہا ہے۔
چھوٹا منہ اور بڑی بات، میرا نہ مقام و مرتبہ ہے نہ اہلیت کہ میں ان عظیم ہستیوں کے علم و فضل کے بارے میں کوئی رائے دوں کہ مجھ جیسے کم علم اور کم مطالعہ کو انکی شخصیت اور عظمت کا تو پورا ادراک بھی نہیں۔۔ یہ البتہ صرف ذکر ہے ان دو ہستیوں کا جنہیں میں اپنے نوجوان دوستوں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔
الحمدللہ آجکل ایسے زرائع میسر ہیں جہاں آپ انکے بارے میں تفصیلات جان سکتے ہیں اور میرے وہ احباب جو انکے بارے میں جانتے ہیں شاید انکی رائے کچھ مختلف ہو، لیکن تمام اھل علم کبھی بھی اختلاف اور تنقید سے مبراٗ نہیں رہے کہ کامل علم تو صرف اس ذات بے ہمتاٗ کے پاس ہے جو علیم اور خبیر ہے۔
اور اختلاف بھی تو اسی سے کیا جاتا ہے جس نے کچھ کیا ہو۔ مجھ جیسے، جو کچھ نہیں کرتے اورصرف کمال کرتے ہیں ان سے بھلا کون اختلاف کرے گا۔
پاکستان کا پہلا شہری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شارجہ، جہاں میں رہتا ہوں، بجا طور پر متحدہ عرب امارات کا ثقافتی دارالحکومت ((Cultural Capitol) کہلاتا ہے۔ یہاں اکثرو بیشتر ثقافتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جن میں سب سے نمایاں ،کتابوں کی بین القوامی نمائش، ہوتی ہے۔ آج سے چند سال قبل ایسی ہی ایک نمائش میں جانے کیلئے میں نے اپنے ایک کثیرالمطالعہ اور علم دوست رفیق، محمد اشفاقMuhammed Muhammad Ashfaq، کو فون کیا تو انہوں نے بتا یا کہ وہ ایکدن پہلے ہی وہاں جا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں سے کون کون سی کتابیں خریدیں۔ اس میں ایک کتاب کا خاص طور پر ذکر کیا (مجھے نام یاد نہیں) جو علامہ محمد اسد کی تحریر کردہ تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ کتاب کی قیمت بہت زیادہ تھی۔
اگلے دن میں بھی وہاں گیا اور اس کتاب کو دیکھا۔ واقعی وہ بہت ضخیم اور بہت زیادہ مہنگی تھی (یہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کی خصوصیت ہے کہ ایہسے مواقع سے فائدہ اٹھا کر اپنا منافع دگنا ، چو گنا کردیتے ہیں)۔ میں نے یونہی اسکی ورق گردانی کی اور اندازہ لگایا کہ میں اسے خرید بھی لوں تو شاید پڑھنے کیلئے وقت نہ نکال سکوں۔
علامہ محمد اسد کا ذکر میں نے پاکستان کے آئین اور قرارداد مقاصد کے حوالے سے سرسری طور پر سنا ہوا تو تھا لیکن انکی شخصیت اور علمیت سے قطعی طور پر لاعلم تھا۔ یہ کتاب دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر شرم آئی کہ اتنی اہم شخصیت سے اب تک کیوں کر بے بہرا رہا۔ اور جب علامہ محمد اسد کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو حیرتوں میں ڈوبتا چلا گیا۔
یہ یوروپین بدو، جس نے ایک عمر عرب، مشرق وسطیٰ اور برصغیر پاک و ہند میں گزاری، پاکستان کا پہلا باضابطہ شہری یوں قرار پایا کہ پاکستان کا پہلا پاسپورٹ اسکے نام جاری ہوا جس پر اسے ،، سٹیزن آف پاکستان،، قرار دیا گیا۔ لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے۔
1900 میں یوکرین جو اس وقت ہنگوؤآسٹریائی مملکت کا حصہ تھا، کے شہر لیمبرگ میں ایک یہودی ربی (مذہبی پیشوا) کے گھرانے میں پیدا ہونے والے لیوپولڈ ویس (۔۔۔۔۔۔۔Leopold Weiss۔) 20 سال کی عمر تک جرمنی میں چھوٹی موٹی ملازمتوں کے علاوہ صحافت بھی کرتے رہے۔
233 سال کی عمر میں اپنے چچا سے ملنے بیت المقدس کیا روانہ ہوئے کہ گویا انکی زندگی ہی بدل گئی۔ کسی عرب ملک میں ٹرین کے سفر کے دوران ایک عرب ہمسفر نے انہیں کھانے میں شرکت کی دعوت دی۔ مغربی دنیا میں پلے بڑھے ، جہاں ہر کوئی اپنی ذات میں مگن رہتا ہے، لیوپولڈ کو، ، کسی اجنبی کو یوں کھانے کی دعوت دینا بڑا عجیب سا لگا۔ یہ ان کا پہلا سابقہ پڑا تھا عرب اور اسلامی روایات سے۔ یہ پہلا تیر تھا جو قلب کو ہلکا سا گھائل کر گیا۔
لیوپولڈ جب تک مشرق وسطیٰ میں رہے انہوں نے عربوں کے باہمی تعلقات، بھائی چارے، مہمان نوازی اور دوسری صحرائی روایات کو قریب سے دیکھا۔ واپسی پر جرمنی میں قیام کے دوران کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ وہ قرآن کے مطالعے کی طرف مائل ہوئے، سورۃالتکاثر کی تفسیر نے نجانے کیا اثر کیا کہ دل نے کہا کہ جا اینجا است۔ انکے بہت سے ہندوستانی دوست تھے (بعض کے مطابق خیری برادران اور کچھ کے مطابق قصوری برادران) وہ اپنے دوست عبدالجبار خیری کے ساتھ برلن کی سب سے بڑی مسجد پہنچے اور لیوپولڈ ویس (لیو۔۔۔۔۔۔شیر) سے محمد اسد بن گئے۔ انکی بیگم نے بھی انکے ساتھ ہی اسلام قبول کرلیا۔
محمد اسد نے اخبار کی نوکری چھوڑ حج بیت اللہ کا قصد کیا۔۔ شاہ عبدالعزیز حجاز میں اپنی سعودی حکومت قائم کرچکے تھے، شاہ کے بیٹے فیصل (بعد میں شاہ فیصل) سے محمد اسد کی دوستی تھی جن کے زریعے شاہ تک رسائی ہوئی جو انہیں اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے۔
حجاز مقدس میں 6 سال گذارے جہاں عربی، قرآن ، حدیث اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا۔ 1932 میں وہ ہندوستان آگئے جہاں شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال سے انکی ملاقاتیں رہیں۔ کچھ عرصے پٹھانکوٹ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ بھی رہے۔ مولانا نے انہیں دور جدید میں اسلام کیلئے یورپ کا سب سے قیمتی تحفہ قرار دیا۔
جنگ عظیم دوم شروع ہوئی تو انگریز حکومت نے انہیں جرمنوں کا کارندہ قرار دیتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ چھ سال بعد جب اس قید سے رہائی ہوئی تو تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی۔ محمد اسد اس تحریک سے بہت متاثر اور پرجوش تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ ڈلہوزی سے دیگر مہاجرین کے ساتھ پاکستان آگئے اور لاہور میں والٹن کیمپ میں رہے جہاں مشرقی پنجاب سے لٹے پٹے مہاجرین کا قیام تھا۔
حکومت پنجاب نے اسلامی تعمیر نو کا ادارہ قائم کیا اور اسکی سربراہی علامہ محمد اسد کو سونپی۔ نو آزاد مملکت کے دستور کی تشکیل کا مرحلہ درپیش تھا چنانچہ مرکزی حکومت نے انہیں کراچی بلالیا اور علامہ نئے اسلامی ملک کے آئین کے خد وخال بننے میں جت گئے۔ بعد ازآں انہیں وزارت خارجہ میں مشرق وسطیٰ کے شعبے کا جوائنٹ سکریٹری مقرر کیا گیا۔
آزادی کے کئی سال بعد تک سعودی عرب میں پاکستان کا سفارتخانہ قائم نہیں ہوا تھا۔ مصری سفارتخانہ پاکستان کے مفادات کی نگہداشت کیا کرتا تھا جبکہ پندت نہرو کے دورے کے نتیجے میں ہندوستان وہاں اپنا سفارتخانہ اور اثر و رسوخ قائم کر چکا تھا۔
وزیر اعظم لیاقت علیخان نے مولوی تمیزالدین کی سربراہی میں ایک وفد سعودی عرب بھیجنے کا فیصلہ کیا اور شاہ عبدالعزیز سے علامہ کے روابط کے پیش نظر انہیں بھی اس وفد میں شامل کیا گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ وفد کے دیگر ارکان کے پاس تو حکومت برطانیہ کے جاری کئے ہوئے پاسپورٹ تھے جنہیں اس وقت تک پاکستانی پاسپورٹ تسلیم کیا جاتا تھا۔ علامہ کے پاس آسٹرین پاسپورٹ تھا چنانچہ وہ کس حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کرتے چنانچہ خصوصی طور پر انکے لئے پہلا پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا جس پر انہیں،، سٹیزن آف پاکستان،، قرار دیا گیا۔ گویا وہ پہلے شخص ہیں جنہیں باضابطہ طور پر پاکستان کا شہری تسلیم کیا گیا۔
علامہ ہی کی کوششوں کے نتیجے میں نہ صرف سعودی عرب میں پاکستان کا سفارتخانہ قائم ہوا بلکہ ایسے برادرانہ تعلقات کی بناٗ پڑی جو آج تک قائم ہیں۔
19522 میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے اقوام متحدہ بھیجے گئے۔ نیویارک میں قیام کے دوران انہوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف روڈ ٹو مکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔Road to Meccaمکمل کی۔ اس کا دوسرا حصہ ہوم کمنگ آف دی ہارٹ(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔Home-coming of the Heart) کا آخری حصہ انکی اہلیہ نے انکے انتقال کے بعد لکھا۔ علامہ کی ایک اور نادر تحریر اسلام ایٹ دی کراس روڈ(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔Islam at the Crossroad۔) ہے لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ، ریاست اور حکومت کے اسلامی تصور پر مبنی دی پرنسپلز آف اسٹیٹ اینڈ گورنمنٹ ان اسلام(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔Principles of Stae and Government in Islam)ہے۔ انہیں تحریک پاکستان اور اسکے مقاصد کا واضح ادراک تھا اور انکی تکمیل کیلئے بے حد پرجوش تھے۔
کہنے کی بات نہیں لیکن سنا ہے کہ
نیویارک میں قیام کے دوران علامہ کی شہرت اور مقبولیت ہمارے اس وقت کے مستقل مندوب اور ایک عظیم ادبی شخصیت کی انانیت کے آڑے ٓاتی تھی۔ ادھر پاکستان میں بھی وزارت خارجہ کی اہم ترین شخصیت، مسلکی تعصب کے بناٗ پر علامہ سے عناد رکھتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب
آخر ایک وقت آیا کہ علامہ محمد اسد نے پاکستان کو خیرباد کہا اور ہسپانیہ کا رخ کیا۔ اسی کی دہائی میں جنرل ضیاٗالحق نے اپنے اسلامی نظام کے پروگرام کیلئے علامہ کو پاکستان بلایا لیکن یہاں انکا جی نہ لگا اور وہ واپس لوٹ گئے جہاں ہسپانیہ میں اسلامی عظمت کے نشان، غرناطہ، میں 1992 میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
حیدرآباد (دکن) کا ٓاخری شہری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوابوں کا شہر حیدرآباد جہاں نظام حیدرآباد کی دولت اور سخاوت کے حوالے سے سننے میں آتا ہے وہیں جو چیز اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے اسکی مردم خیزی ہے۔ نوابین کی سرپرستی کے سبب کتنے ہی اہل علم و ادب نے اس شہر کو رونق بخشی۔ علم کے حوالے سے کیسے کیسے عبقریوں کی جائے پیدائش اور جائے سکونت رہا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ مولانا حمید الدین فراہی یہاں دارلعلوم میں تدریس سے منسلک رہے۔ بابائے اردو نے یہاں پہلی اردو یونیورسٹئ جامعہ عثمانیہ قائم کی اور یہیں انجمن ترقئ اردو کی بنیاد رکھی۔
قائد ملت بہادر یار جنگ کے اس شہر میں ایک اور نابغہ نے جنم لیا جس نے ااگے چل کر تحقیق و جستجو میں بے مثال کارنامے انجام دینے تھے۔
جی ہاں، محقق عصر، ڈاکٹر محمد حمیداللہ ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے والد ایک عالم شخصیت تھے اور دادا ایک بہت برے ادیب اور عالم تھے جنہوں نے عربی، فارسی اور اردو مین تقریبا ستر کے قریب کتابیں لکھیں۔
ڈاکٹر صاحب کا گھرانا ایک صوفی اور روحانی گھرانہ تھا جہان دینی تعلیم تو عام تھی لیکن مغربی تعلیم کا دخل نہیں تھا۔ علم کے جویا، ڈاکٹر صاحب نے انگریزی سیکھنے کی خاطر گھر والوں سے چھپ کر میٹرک کا امتحان دیا اور امتیازی نمبروں سے پاس بھی کیا۔ اسکے بعد چل سو چل۔ ڈاکٹر صاحب کے تعلیمی مدارج کے حوالے کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں، بس یوں جان لیجئے کہ اخری عمر تک علم حاصل کرتے رہے اور اسکی روشنی پھیلاتے ریے۔ ڈاکٹر صاحب کو دنیا کی 22 زبانوں پر دسترس تھی اور سات زبانوں میں تحقیق اور تحریر کا کام کرتے رہے۔ 84 سال کی عمر میں تھائی زبان سیکھی۔
19488 میں حیدرآباد پر بھارت کے قبضے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے دکن کو خیرباد کہا اور فرانس چلےگئے، جہاں علم کے حصول میں ایسے جٹے کے ساری عمر شادی کی نہ ہی کسی ملک کی شہریت لی۔ حکومت فرانس نے مملکت آصفیہ کے تارک وطن کی حیثیت سے اپنے یہاں رہنے کی اجازت تھی اور یہ آخری فرد تھے حیدرآباد دکن کے جنکی بے وطنی کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے جہاں بہت سارا علم حاصل کیا وہیں بے بہا علمی کارنامے بھی انجام دئیے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر ہے جسکی بدولت لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔۔ اسکے علاوہ ،،تعارف اسلام،، (،،،،،،،،،،Introduction to Islam) جیسی معرکتہ الآراٗ تحریر بھی ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ 1980 میں جامعہ بھاولپور میں انکے خطبات کو جمع کیا گیا اور خطبات بھاولپور کے نام سے اسلام کے انفرادی، اجتماعی، تاریخی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی غرضیکہ ہر پہلو کا جامع احاطہ کیا گیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہمام بن منبہ کے صحیفہ کی تدوین ڈاکٹر صاحب کا ایک قابل قدر علمی کارنامہ ہے۔
1950 میں حکومت پاکستان نے انہیں دنیا بھر سے اہم علماٗ، قانوں دان اور ماہرین کے ساتھ دستور پاکستان اور قرارداد مقاصد کی تیاری کے لئے مدعو کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے شہر کو شرف سکونت بخشا اور دستور کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔
1952 مٰیں ڈاکٹر صاحب ترکی چلے گئے جہاں مختلف جامعات میں تعلیم و تدریس میں مشغول رہی۔ 1985 میں حکومت پاکستان نے انہیں ہلال پاکستان سے نوازا جس کے انعام کی رقم درویش صفت ڈاکٹر صاحب نے اسلامک ریسرچ اکیدمی اسلام آباد کو عطیہ کردی۔۔
ہمارے دور کے یہ عبقری اپنے آخری دنوں میں تن تنہا رہتے، اپنے گھریلو کام خود کرتے اور علمی و تحقیقی کاموں میں مصروف رہتے۔ بیماری کے سبب امریکہ چلے گئے جہاں 17 دسمبر 2002 کو انکا بلاوا آگیا اور علم و ہنر کا ایک عہد اختتام کو پہنچا۔
میں نہیں جانتا کہ کتنے پاکستانی علامہ محمد اسد اور ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کے ناموں سے واقف ہیں اور کتنوں کو علم ہے کہ آئین پاکستان کے بنیادی خدوخال طے کرنے میں انکا کیا کردار رہا ہے۔
اگر آپ کبھی نئی دہلی گئے ہوں اور آپ کا گذر سنسڈ بھون (پارلیمنٹ ہاوٗس) کے سامنے سے ہوا ہو تو وہاں ایک لحیم شحیم مجسمہ دیکھا ہوگا جو انگلی اٹھائے ہوے ہے۔ یہ بابا صاحب امبیدکر کا مجسمہ ہے۔
امبیدکر نے ہندوستانی آئین تحریر کیا تھا۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔