میرے شہر والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔55
مرد بحران اور زیڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔Man of Crisis and ZED
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں
بچے میرے، یقین نہیں کرتے، جب میں انہیں بتاتا ہوں کہ کیا رنگ و روپ اور کیا دن رات تھے میرے شہر کے۔ اور وہ یقین کریں بھی تو کیسے۔
نہ صرف میرے بچے بلکہ ہماری پوری ایک نسل جو آج سے پچیس تیس سال پہلے پیدا ہوئی ہے، انہیں میری آپ کی باتیں خواب ہی لگیں گی۔ میرے بچے جب بھی پاکستان آئے تو اکثر یہی ہوا کہ ـ آج ہڑتال ہےـ، کل سے تین روزہ،سوگ، ہےـ، فلاں علاقے میں مت جانا، فلاں سڑک سے مت گذرنا، اس رشتہ وار کے گھر ڈاکہ پڑگیا، ان آنٹی کے زیور دن دہاڑے لوٹ لئے گئے، فلاں انکل کی گاڑی چھین لی گئی یا فلاں کزن کا موبائیل اور بٹوا چھین لیا گیا۔ یہ ایک مستقل داستان ہے جو کئی سالوں سے چلی آرہی ہے۔ اب میں انہیں کیسے بتاوٗں کہ سمندر کنارے بسے اس شہر میں کیا جادو تھا۔ کیا کچھ نہیں ہوا اس شہر ناپرساں کے ساتھ لیکن سمندر کی موجوں کی طرح میرا شہر ہمیشہ جاوداں، پیہم رواں اور ہر دم جواں رہتا تھا۔ کیا وہ لوگ تھے جو یہاں بسے تھے اور کیا رونقیں تھیں میرے شہر کی۔
ادبی، سیاسی، ثقافتی، مذہبی تقریبات، کھیل کود، سیر وتفریح، غرض ہر روز کوئی نہ کوئی تماشہ لگا رہتا تھا۔۔ آئے دن کہیں مشاعرہ ہورہا ہے، کہیں گلی کے بیچ، ایک شامیانہ تان، چند تخت بچھا کر ایک اسٹیج بنا دیا، آغا سرور، صلاح لدین طوفانی، ملک انوکھا جیسے کسی فنکار اور افراہیم، منی بیگم یا مجیب عالم کے سے گلوکار آگئے اور لیجئے ۔۔ فنکشن۔۔ شروع ہوگیا،
کہیں شہر میں آباد، اندرون سندھ کی کسی وڈیرے، یا جنوبی پنجاب کے کسی جاگیردار کے ہاں شادی ہے اور ،مجرا، رچایا جاریا ہے۔
اسی شہر میں تبلیغی جماعت ، جماعت اسلامی، جمیعت علمائے پاکستان کا اجتماع ہورہا ہے، کہیں کسی ھال یا مسجد میں، شاہ بلیغ الدین، یا ڈاکٹر اسرا ر احمد کا خطاب ہورہا ہے یا کسی امام بارگاہ مین علامہ رشید ترابی مجلس سے خطاب کررہے ہیں تو دوسری طرف، میٹرپول اور بیچ لگژری یا پیلس ہوٹل میں پرنسس امینہ یا خصوصی دعوت پر پاکستان آئی ہوئی ۔ سمیعہ جمال۔ کا کیبرے ہورہا ہے تو کہیں تاج، روما شبانہ، لیڈو، ایکسلسئیر میں لبنانی، مصری یا ترکی کی بیلی ڈانسرز نرت بھاوٗ دکھلا رہی ہیں۔ شام کے انگریزی اخبارات میں انکے اشتہارات مع قیامت خیز تصاویر کے چھپ رہے ہیں۔
عید بقر عید پر کلفٹن پر میلہ، اوروہاں مقصود ملک کا موت کا کنواں یا موت کا گولا، چڑیا گھر کی سیر، کشتی کے زریعے منوڑا جانا، خاندان یا دوستوں کے ساتھ، ہاکس بے، سینڈزپٹ، پیراڈائز پوائنٹ یا نیلم پوائنٹ جانا۔ جمعے کے ۔مبارک۔ دن نئی فلم کا افتتاح اور دھکم پیل کے بعد ٹکٹ حاصل کرنےکی ایسی خوشی گویا دوجہاں کی بادشاہت مل گئی۔
یہی عالم کھیلوں کا تھا۔ گلی محلے کی بھی فٹبال، ہاکی یا کرکٹ ٹیم کا میچ ہو، لوگ باگ ایسی ہی دلچسپی لیتے گویا قومی ٹیم کھیل رہی ہے۔ مجھے یاد ہے بہار کالونی، کورنگی، لانڈھی میں مقامی کلبوں کے فٹبال میچ کے دوران میدان کے چاروں طرف تماشائیوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ میں خود بھی ایسے ہاکی میچز کا حصہ رہا ہوں جہاں تماشائیوں کی تعداد دیکھ کر لگتا کہ ہم اولمپک کا فائنل کھیل رہے ہیں۔
آپ کہیں گے میں یہ کیا قصے لیکر بیٹھ گیا ہوں۔ دراصل جن کی آج میں یاد آپ کے ساتھ بانٹ رہا ہوں مجھے انہی دنوں کے حوالے سے یاد آئے۔
میرے شہر میں جب ٹسٹ میچ ہوتا تو گویا ایک میلہ سا سج جاتا تھا۔ گھروں کے علاوہ، دکانوں، ہوٹلوں، دفتروں میں لوگ ریڈیو کو گھیرے، عمر قریشی اور جمشید مارکر کی کمنٹری سن رہے ہوتے۔ اور جو اسٹیڈیم جارہے ہوتے وہ تو کسی اور ہی دنیا میں مگن ہوتے۔
ہمیں اسکول سے میچ کا ٹکٹ ملا کرتا تھا جو شاید ایک یا دو روپے کا ہوتا ۔ شہر کے مختلف علاقوں سے اسٹیڈیم کیلئے خصوصی بسیں چلتیں۔ ہم سب دوست اپنے گھروں سے، قیمہ، پراٹھے، آملیٹ، سینڈوچ، چائے کے تھرماس، سنگترے، کیلے، بسکٹ، دوربین، سیاہ چشمے، کرکٹ کیپس، اور ۔۔اسپرو۔۔ کی ٹکیاں لے کر ایک ساتھ میچ دیکھنے جاتے۔ ہماری پوری بارات ایک ساتھ بیٹھنے کی کوشش کرتی اور خوب لڑائی جھگڑے بھی ہوتے لیکن کچھ دیر بعد سب کچھ ٹھیک ہوجاتا۔
اگر کھیل دلچسپ ہو رہا ہو تو ساری توجہ کھیل پر ہوتی وگرنہ، لڑکیاں بالیاں گانے گاکر، اور لونڈے ایک دوسروں کو سنگترے کے چھلکے مارکر یا مختلف خوانچے والوں کی آواز کے ساتھ ااواز ملاتے( شاید کچھ لوگوں کو یاد ہو، تازہ مال، دے بھی دو، باسی مال ، پھینک دو!!!!)۔ کہیں کسی پر آوازے کسے جارہے ہیں۔ کہیں سیٹ کے لئیے لڑائی ہورہی ہے۔
مختلف کمپنیاں گتے کے بنے ہوئے ۔ ھاف ہیٹس۔(چھجے نما ٹوپی) اسکور کارڈ وغیرہ مفت تقسیم کرتیں۔ کیونڈر سگریٹ والوں کی طرف سے دو مسخرے، کی طرح بانسوں کی لمبی سی ٹانگوں پرچلتے ہوئے اور نیوی کے سیلرز کی سی یونیفارم پہنے ہوئے ، پورے میدان کا چکر لگاتے۔
لیکن کھیل کی اصل جان تو اس کے کھیلنے والے ہوتے ہیں۔ میرے شہر والے۔ کی ابتدائی یادوں میں ہم (حنیف) محمد برادرز اور جاوید میانداد کی بات کر چکے ہیں۔ آئیے آج ایسے دو کھلاڑیوں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے کبھی ہمیں خوشیاں بخشیں اور ہمارے ملک کا نام روشن کیا اور جنہیں ہمیشہ چاہت اور عزت کی نظر سے دیکھا گیا۔
مرد بحران Man of Crisis
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں ایک فلم آئی تھی۔۔ چراغ جلتا رہا؛؛، فلم تو نجانے کیسی تھی لیکن پاکستان کی فلمی تاریخ پر ایک گہرا نقش چھوڑ گئی۔ اس فلم نے ایک ساتھ چار اداکاروں، محمد علی، زیبا، دیبا اور کمال ایرانی کو متعارف کرایا تھ۔ا۔
19644 میں یہ کوئی فلم نہیں بلکہ بوبی سمپسن کی قیادت میں صرف ایک ٹسٹ کھیلنے آنے والی مضبوط آسٹریلین ٹیم تھی جس میں پاکستان نے ایک ساتھ پانچ کھلاڑیوں، خالد عباداللہ، عبدالقادر(وکٹ کیپر بیٹسمین)ماجد جہانگیر(ماجد خان) پرویز سجاد اورآصف اقبال کو، کیپ، دی۔
حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے، سید آصف اقبال رضوی، نارتھ زون کی جانب سے پاکستان کے خلاف ایک میچ کھیل چکے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد نہ صرف پاکستان سے کھیلے بلکہ پاکستان، پی آئی اے، کینٹ ، نیشنل بنک کی قیادت بھی کی۔ پہلے اور دوسرے ورلڈ کپ میں پاکستان کی کی کپتانی کا سہرا بھی انہی کے سر بندھا۔
خوش شکل، ہنس مکھ اور ملنسار ااصف اقبال ایک زمانے مین صنف نازک کے ۔۔ڈارلنگ۔۔ ہوا کرتے تھے، جب وہ اپنے ڈھیلے ڈھالے انداز مین بلا گھسیٹتے ہوئے میدان میں آتے تو لڑکیاں بالیاں صرف انہی کو دیکھ رہی ہوتی تھیں۔۔ لیکن یہ دبلا پتلا، ڈھیلا ڈھالا سا کھلاڑی میدان میں سب سے زیادہ چست ہوا کرتا تھا۔ ااصف سے پہلے ہماری فیلڈنگ کا کوئی حال نہیں تھا۔ آصف نے گراوٗنڈ فیلڈنگ کو نئے معنی دئے۔ وہ دونوں ہاتھوں سے ، تھرو، کرسکتے تھے۔ باوٗنڈری لائن سے انکی تھرو، وسیم باری وکٹوں کے عین اوپر وصول کرتے تھے۔
افتتاحی بولر کی حیثیت سے شامل ہونے والے آصف اقبال نے یوں تو 53 ٹسٹ وکٹ بھی لے رکھے تھے لیکن انکی اصل شہرت انکی، نڈر اور ذمہ دارانہ بیٹنگ تھی۔ ٹیم جب بھی مشکلات کا شکار ہوئی یہ آصف اقبال ہی تھے جو مخالف کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ جایا کرتے تھے چنانچہ مرد بحران کہلائے۔ ٓاصف اقبال کے خوبصورت کور ڈرائیوز اور بلند و بالا چھکے آج بھی دیکھنے والوں کو یاد ہونگے لیکن انکے اصل کارنامے، 1967 میں اوول کے میدان پر انتخاب عالم کے ساتھ نویں وکٹ کی 190 رنز کی شراکت تھی جسمیں آصف کا حصہ 147 رنز تھا، جو ایک عرصہ تک نویں وکٹ کی شراکت کا عالمی ریکارڈ رہا۔ اسکے علاوہ 1976 میں ایڈیلیڈ میں اقبال قاسم کے ساتھ دسویں وکٹ کیلئے 87 رنز کی شراکت جس میں ایک یقینی ہار کو ڈرا میں بدل دیا،۔
آصف اقبال ایک پڑھے لکھے، سلجھے ذہن کے اور بے حد نفیس انسان ہیں۔ 1967 میں انگلستان کے دورے سے قبل نیشنل اسٹیڈیم میں کیمپ لگا ہواتھا۔ ہماری اسکولوں کی چھٹیاں تھیں۔ میں ان دنوں اپنی دادی کے پاس حیدر علی روڈ پر رہتا تھا۔ ہم لڑکے بالے گھومتے ٹہلتے پیدل اسٹیڈیم جا پہنچتے۔ ان دنوں سیکیورٹی وغیرہ جیسی چیزوں سے میرا شہر واقف ہی نہیں تھا کہ ہر جگہ، ہر علاقہ محفوظ تھا۔۔ ہمیں کوئی نہ روکتا، ہم آرام سے کھلاڑیوں سے گھل مل جاتے۔ کچھ سینئیر کھلاڑی ہمیں زیادہ منہ نہ لگاتے لیکن آصف اقبال واحد کھلاڑی تھے جو ہم سے اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پر بیٹھے باتیں کرتے رہتے۔ مجھے یاد ہے اکثر کھلاڑی چیونگم کھاکر اس کا کاغذ وہیں گراوٗنڈ میں پھینک دیتے، لیکن آصف کو دیکھا کہ وہ کاغذ ہمیشہ جیب میں رکھ لیتے۔۔
اپنے شاندار کھیل کے علاوہ آصف نے کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی بہت کام کیا۔ شارجہ کی کرکٹر بینیفٹ سیریز جس نے ہند و پاک کے کئی کھلاڑیوں کے امدادی میچ کرائے، یہ اسکے روح رواں تھے۔
دوبٗی ان دنوں بہت چھوٹا تھا اور آبادی بھی بہت کم تھی۔ جس کسی سے ایک بار ملاقات ہوجائے وہ بہت جلد کہیں اور مل جاتا تھا۔ آصف اقبال سے بھی کبھی نماز جمعہ، کبھی ٹیلیفون بوتھ، کبھی فلائٹ میں یا کہیں کسی تقریب میں ملاقات ہوجاتی اور جانے وہ مجھے پہچانتے بھی تھے یا نہیں لیکن ہمیشہ ایسے ملتے جیسے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آصف اقبال جیسے با صلاحیت، تجربہ کار اور بہترین منتظم کو ہماری کرکٹ انتظامیہ میں کوئی مقام نہیں دیا گیا اور اب جیسے ہاتھوں میں ہماری کرکٹ کی باگ ڈور ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
رن مشین جسے ،،زیڈ،، کہتے ہیں۔A Run Machine Called ZED
لڑکپن میں چند ہستیان میرے نزدیک اساطیری حیثیت کی حامل تھیں۔ جیسے مصر میں جمال ناصر اور ام کلثوم کو ایک قومی حیثیت حاصل تھی اسی ظرح میں ایوب خان، بھولو پہلوان، ملکہ ترنم نورجہاں اور لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پاکستان کی اہم ترین شخصیات سمجھتا تھا۔۔ حنیف محمد میرے نزدیک ناقابل تسخیر تھے اور انکے کارنامے میرے اس یقین کو پختہ کرتے تھے۔
کراچی جیمخانہ کے زیر اہتمام ہر سال ایک ،، سنگل وکٹ ،، ٹورنامنٹ منعقد ہوتا تھا جسمیں ٹیموں کے بجائے کھلاڑیوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔ سالہا سال سے حنیف محمد اسے جیتتے چلے آتے تھے۔ شاید سن 67 یا 68 کی بات ہے کہ حنیف ایک نوجوان مقامی کرکٹر سے ہار گئے۔
دبلے پتلے سے،عینک لگائے ہوئے اس کھلاڑی کا نام تھا ،سید ظہیر عباس کرمانی،
انہی دنوں نیشنل اسٹیڈیم میں پی ڈبلیو ڈی اور پی آئی اے کے درمیان قائد اعظم ترافی کا میچ چل رہا تھا۔ ہم لڑکے وہان پہنچ جاتے اور کھلاڑیوں سے آٹو گراف بھی لیتے۔ ظہیر عباس، اسٹیڈیم کی سیڑھیوں کے نیچے بنے ڈریسنگ روم سے باہر آرہے تھے۔ میں نے فوراَ۔ اپنا فاوئنٹین پین کھولا اور آتو گراف بک سمیت انکی طرف بڑھا دیا۔ پین بری طرح لیک کر رہا تھا اور ظہیر کا پورا ہاتھ روشنائی سے بھر گیا۔ ،، اماں یہ کیا کردیا،، کہہ کر وہ ہاتھ دھونے چلے گئے۔
اگلے سال یعنی 1969 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آئی۔ کراچی کا ٹسٹ ایک یادگار ٹسٹ تھا۔ اس میں پہلی بار تین بھائی، حنیف، مشتاق اور صادق، ایک ساتھ حصہ لے رہے تھے۔ حنیف محمد کا شاید یہ ااخری میچ بھی تھا۔ اس میچ میں صادق محمد کے ساتھ ایک اور نئے کھلاڑی ظہیر عباس کو بھی موقع دیا گیا تھا۔ ظہیر اور صادق بعد میں انگلش کاوٗنٹی ، گلوسٹرشائر، میں بھی ساتھ کھیلتے رہے۔
اپنے پہلے میچ میں تو ظہیر نے کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اس سے اگلے سال پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا۔ یہاں ایجبسٹن میں اپنے دوسرے اور انگلستان کے خلاف پہلے ہی میچ میں ظہیر نے دنیا کو بتادیا کہ ظہیر عباس ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں (What it means to be Zaheer Abbas)۔274 رنز کی یہ اننگز ایک خوبصورت نظم کی مانند تھی۔ ظہیر کے بلے سے لگ کر سبز گھاس پر پھسلتی گیند ایسی سرعت سے باوٗنڈری لائن پار کرتی کہ گورے کھلاری بھی داد دئے بغیر نہ رہتے۔ ۔ ایسے دلکش لیٹ کٹس اور کور درائیوز شاید ہی کبھی دیکھے ہوں۔
ظہیر نے پاکستان کی کپتانی بھی کی اور بے شمار کارنامے انجام دئے جنکی ساری تفصیل انٹرنیٹ پر موجود ہے لیکن جنہوں نے ان کا کھیل دیکھا ہے وہی جانتے ہیں کہ ،،اسٹائلش،، بیٹنگ کسے کہتے ہیں۔ ظہیر کی مشکل یہ تھی کہ انہوں نے اپنے دوسرے ہی میچ میں ڈبل سنچری بنادی، انگلستان کے اگلے دورے مین پھر ڈبل سنچری بناڈالی، اسکے علاوہ بھارت کے خلاف بھی دو ڈبل سنچریز کر ڈالیں، اسکے علاوہ کئی سنچریاں بھی کیں۔ اب اگر وہ چالیس پچاس یا ستر اور اسی پر اوٗٹ ہوجائیں تو یار لوگ کہتے ظہیر تو آج ناکام ہو گیا۔ گویا کہ ظہیر عباس جس کا نام ہے اسے صرف سنچری اور ڈبل سنچری ہی بنانی چاہئے۔
انگلستان اور بھارت انکے خاص نشانے تھے۔ بھارت کے خلاف ایک سیریز میں جب انہون نے سنچریوں کے انبار لگادئے تو ہندوستان کے مشہور مکھن ۔ امول، بنانے والون نے اپنا ایک اشتہار کچھ یون پیش کیا۔(Zaheer Ab-bas) ظہیر اب۔بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹسمین بہت سے آئے اور گئے اور بہت سے آئیں گے۔ بہت سوں نے ظہیر سےکہیں زیادہ رنز بنائے ہوں گے۔ لیکن ہر کھلاری ظہیر عباس نہیں ہوتا۔
کاریں بہت سی ہین لیکن مرسیڈیز صرف مرسیڈیز ہوتی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔