میرے شہروالے………..46
جوﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ
نجانے یہ دنیا جب بنی تھی تو کیسی ہوگی. شاید یہی زمین و آسمان ہونگے. ایسے ہی دریا سمندر صحرا اور پہاڑ ہونگے. پھول پتے،درخت، کھیت، جنگل یونہی لہلہاتے ہونگے. درندے چرندے بھی ہونگے اور شاید پرندے بھی چہچہاتے ہونگے اور مچھلیاں بھی پانیوں میں اٹھکیلیاں کرتی ہونگی.
لیکن مجھے یقین ہے یہ ایسی حسین اس وقت تک نہ ھوئی ہوگی جب تک اپنی ایک خطا کی پاداش میں آدم کو جنت سے دیس نکالا ملا اور اس نے اس زمین کو اپنا گھر بنایا.
آپ مانیں یا نہ مانیں مگر میں یہی کہوں گا اس زمین کا اصل حسن یہ انسان ہیں جو اس پر بستے ہیں..
پھر ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بڑے حسین و جمیل، وجیہ و ذہین،متمول،با اثر،طاقتور اور مشہور ہوتےہیں. انکی صورتیں ہم ٹی وی یا سنیما کے پردے پر دیکھتےہیں یا اخبارات اور رسائل میں انکی تصویریں نظر آتی ہیں. جنھیں ہم وی آئی پی اور celebrity اور نجانے کیا کیا نام دیتےہیں. زرق برق لباسوں والی یہ خواتین یا تھری پیس سوٹ اور قیمتی ٹائیوں یا کھڑکھڑاتی،کلف لگی شلوار قمیصوں،کلف لگی طرہ اور اکڑی ہوئی گردنوں والے. جنکی ایک جھلک کو خلق خدا اپنے لئے باعث افتخار جانتی ہے. انکی بات غور سے سنی جاتی ہے اور انکے بارے میں ہر بات کی خبر رکھی جاتی ہے.
لیکن یہ وہ ہیں جو ہمارے درمیان کہیں نظر نہیں آتے.انکی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے. عالم بالا کی اس مخلوق تک پہچنے والوں کے پر جل جاتےہیں. یہ ہم میں سے نہیں ہوتے یا کم از کم وہ یہی سمجھتے ہیں.
اس دھرتی کا اصل روپ اور سندرتا وہ ہیں جو میرے اور آپ کے ساتھ،ہمارے درمیان اور ہم میں رہتےہیں
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
یہ عام لوگ، یہ خاک نشین جنھیں عالم بالا کے لوگ حشرات الارض جانتے ہیں. جن سے ہاتھ چھو جائے تو گھر آکر خوشبودار صابنوں سےرگڑ رگڑکر ہاتھ دھوتے ہیں.
یہ آپ کے گھر کے باہر، گلیوں، بازاروں، سڑکوں اور باغوں میں ہر جگہ ملیں گے. میری اور آپ کی زندگی اور ہماری دنیا ان کے بغیر نامکمل ہے.
گلی کے نکّڑ پر جو بنگالی پان کا کھوکھا لگائے ہوئے ہے.اس سے زرا آگے تھوڑی سی زمین گھیرے پٹھان موچی،برابر میں خلیفہ حجام کی دکان،پڑوس میں میمن کرانے والا. دکان کے سامنے ریڑھیوں پر سبزی اور پھل بیچنے والے. دوسرے نکڑ پر بنیان اور شلوار میں ملبوس اور پسینے میں شرابور تندور میں جھکا ہوا پٹھان اور اسکے ساتھ لگے ہوئے چھپر میں تام چینی کی کیتلیوں اور چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں دودھ پتی کی چائے والا کوئٹے کا بلوچ، سامنے یوپی کا لانڈری والا جسکے برابر میں پنجاب کا درزی. ساتھ کسی میمن یا گجراتی بولنے والے کی اسٹیشنری دکان.یہیں کہیں کسی ڈھابے کے سامنے میلی کچیلی میز کرسیوں پر بیٹھے پیٹ کی آگ بجھاتے مزدور،رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیور. سامنے سڑک پر رکتی بس سے کنڈیکٹر کا واویلا " نمائش،بندر روڈ، صدر، ٹاور،کیماڑی کیماڑی!!!!.انہی ڈھابوں اور ہوٹلوں کے سامنے فٹ پاتھوں پر فقیر اور فقیرنیاں دزدیده اور آس بھری نظروں سے اپنے سے زیادہ غریب لیکن محنت کش مزدورں کی طرف دیکھتے ہوئے.
بسوں، ٹرینوں میں طرح طرح کے چورن،منجن اور کھٹ میٹھی گولیاں بیچنے والے. نت نئے طریقوں اور بہانوں سے مانگنے والے.
ریل کے ساتھ دوڑتے ہوئے کھیتوں میں ہل چلاتے کسان، اسٹیشنوں اور بس اڈوں پر مال ڈھوتے ہوئے قلی اور مزدور.
شہر میں بکھرے ہوئے کتنے کاریگر اور ہنر مندـ لوہار، بڑھئی، جولاہے، قالین باف، حکیم،ڈاکٹر،استاد،وکیل،کلرک، سرکاری دفتروں اور کچہریوں کے سامنے ٹوٹی پھوٹی میز کرسیوں پر مختلف فارم رکھے ہوئے،ملگجی سفید قمیص اور پتلون، سیاہ کوٹ اور پرانی سی ٹائی میں ملبوس، منحنی اور مدقوق سے اوتھ کمشنر اور نوٹری پبلک. مختلف کام کروانے والے اور دگنے پیسے اینٹھنے والے ایجنٹ اور فکرمندی اور امید کے درمیان جھولتے سائل.
یقین جانئے یہی ہیں جو اس دنیا کو چلا رہے ہیں. جو اصل زندگی ہیں. جو اس زمین کے رخسار کا غازہ ہیں.
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو.
ایک دلچسپ اور سہولت آمیز بات یہ ہے کہ بہت سے کاریگر اپنی خدمات ہمیں ہمارے گھروں تک بہم پہنچاتے ہیں.
منجی پیڑھی ٹھیک کرانے والے. مچھلی آپ کے گھر تک لاکر اور
وہیں صفائی کرکے بیچنے والے، ردی پیپر والے،ٹین اور بوتلیں خریدنے والے، پرانے برتنوں کے عوض ریشمی کپڑے بیچنے والے اور ایسی بے شمار خدمات کہ آپ ترقی یافته ممالک میں ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے.
آج چند ایک ایسے ہی ہنرمندوں سے ملتے ہیں جن کا کام اور فن اب ختم ہوتا جارہاہے.
دھنّیا (نداف….روئی دھنکنے والا.)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سردیوں کی آمد سے کچھ دن پہلے، سیفٹی پن سے مشابہ،دو ڈھائی گز کا ایک آلہ کندھوں پر رکھے ایک شخص ہمارے محلوں میں نمودار ہوتا. اس آلے کی تصویر کشی میرے لیے ممکن نہیں آپ تصویر دیکھ لیجئے.
ضرورتمند عورتیں اسے آواز دیتیں. رضائیوں،لحاف اور تکیوں کی تعداد کے مطابق بھاؤ طے ہوتا.
وہ شخص ایک صاف ستھری اور مسطح جگہ پر بیٹھ کر اپنا کام شروع کرتا. دیگر باتیں خاصی تفصیل طلب ہیں. میں صرف وہ کچھ بیان کرنا چاہتا ہون جسکی وجہ سے یہ نداف یا دھنّیا اج تک مجھے یاد ہے.
لحافوں سے پرانی روئی نکال کر اس کے ڈھیر کے درمیان اپنا وہ سیفٹی پن جیسا آلہ کندھے پر رکھ کر دوسرے ہاتھ سے لکڑی کا ایک گول سا چکنا سا ٹکڑا، گٹار بجانے کے سے انداز سے اس آلے پر چلاتا جس سے ایک خاص ردھم میں ٹینگگ ٹینگگ کی سی آواز اتی جس کی تھرتھراہٹ vibration واضح محسوس ہوتی. بچے بالے یہ منظر دیکھنے گھیرا کئے بیٹھے رہتے. دھنکی ہوئی صاف اور چمکدار روئی دوسری طرف جمع ہوتی رہتی.
جب وہ لحاف اور تکیوں میں نئی روئی بھر کر اور سلائی کے بعد غلاف چڑھاتا تو وہ لحاف اور تکیے ایک نئی اور خوش کن بو باس لئے ہوتے جسے وہی جانتےہیں جنہوں نے اس طرح رضائی بنتے دیکھی ہے.
اب مشینوں سے بنے ھوئے کمبلوں اور quilt نے لحافوں کی جگہ لے لی اور نداف بھی نجانے کہاں کھو گئے.
عصمت چغتائی زندہ ہوتیں تو نہ جانے کس پر افسانہ لکھتیں.
قلعی گر
ــــــــــــــــــــــــــــ
بھانڈے کلی کرالو!!!!کی آواز لگاتا، کندھوں پر ایک گٹھڑی سی رکھے ہوئے یہ کردار جب ہماری گلیوں میں آتا اور کچھ عورتیں انہیں روک کر تانبے کے پرانے برتن انکے حوالے کرتیں تو بچے گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے.
قلعی گر کچی زمین پر ایک چھوٹا سا گڑھا کھودتا. سارے برتنوں کو نوشادر اور نہ جانے کس چیز سے مانجھتا. پھر اس گڑھے کے ساتھ بل سا بنا کر اس بل کے منہ پر ایک مشکیزے نما دھونکنی کو فٹ کردیتا. گڑھے میں کوئلے کی آگ کو دھونکنی (blower) سے ہوا دیتا اور دھلے ہوئے برتنوں کو ان پر تپاتا. جب برتن مکمل گرم ہوجاتے تو ذرا سی قلعی (lead) اس پر مل کر روئی یا کترنوں کے گچھے سے اس قلعی کو پورے برتن پر رگڑتا چلا جاتا یہاںتک کہ ایک چاندی کی طرح کا نیا چمچماتا برتن سامنے اتا جسے وہ بالٹی میں ٹھنڈے پانی میں ڈالتا اور ایک"چھن"سی آواز پیدا ہوتی.
یہ چھن سی آواز، قلعی کا معجزہ اور دھونکنی سے شعلوں کو ہوا دینا اس کھیل کے مرکزی کردار تھے جس کے لیے ہم وہاں بیٹھے رہتےتھے.
زمانے نے ترقی کی اب تانبے کے مرادآبادی برتنوں کی جگہ اسٹینلیس اسٹیل کے برتن آگئے ہیں.
قلعی گر نجانے اب ہیں یا نہیں.
چاقو چھریاں تیز کرالو.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ کام اکثر میرے پٹھان بھائی کیا کرتےتھے. انکی مشین تو اپ کو یاد ھوگی. سائکل کے پہیے جیسا ایک چرخا جسے ایک پٹے کی مدد سے چلایا جاتاتھا. اوپری حصے میں ایک grinding wheel ایک چھوٹے بیلٹ کے زریعے بڑے چرخے سے منسلک ہوتا. گھومتی ہوئی اس ڈسک کے ساتھ چاقو چھری کی دھار کی رگڑ سے کِرکِرکِر کی سی آواز کے ساتھ چنگاریاں ہوا میں اڑتیس جیسے ویلڈنگ مشین سے چنگاریاں نکلتی ہیں. اور یہی چنگاریاں بچوں کے جمع ہونے کا سبب ہوتیں.
کوئی لوہے کا گرم ذرہ کسی بچے کی آنکھ میں نہ پڑجائے اس سبب سے خان بچوں کو دور کھنے کیلئے ڈانٹتا رہتا لیکن لونڈے کب کسی کی سنتے ہیں.
یہ خدمت آپ کے دروازے پر اب مہیا ہے یا نہیں.
تیسری دنیا کی مخلوق؟
Entertainment at your doorstep
——-————————-
ان کے پاس خدا جانے کونسا مواصلاتی نظام تھا. ادھر کسی کے گلشن میں پھول کھلا ادھر یہ آ وارد ہوئے. اور انہیں نہ بھی پتہ ہو تو انکے "اے ہئے کس کے ہوا؟" کے جواب میں لڑکے بالے اس گھر کی طرف اشارہ کرتے جہاں نیا مہمان آیا ہوتا تھا.
مطلوبہ گھر کی نشاندہی ہوتے ہی یہ اس گھر پر پہنچ کر، گھر والے چاہے روکتے رہیں، یہ اپنا ڈیرہ جما لیتے. ایک ڈھولک لیکر زمین پر پسر کر بیٹھ جاتا دوسرا /دوسری پاؤں میں گھنگرو باندھ رقص کے بھاؤ دکھلاتا اور تیسرا زمین پر بیٹھے بیٹھے نہایت بے سری آواز میں کوئی واہیات سا فلمی گانا شروع کردیتا.
ساتھ ہی مختلف رشتوں کے نام پکار کر مطالبہ کیا جاتا کہ "اے ہے اماں کے نام کی ویل، باوا کے نام کی ویل " اور کچھ نہ کچھ لے کر ہی ٹلتے.
تیسری دنیا کی یہ مخلوق اب گھروں کے بجائے ٹریفک سگنلز اور بازاروں میں رقص اور سرود اور فن کے مظاہرے کو چھوڑ، بھیک مانگتی نظر آتی ہے
شاید کبھی انہیں بھی سنجیدگی لیا جائےگا. ہیں تو یہ بھی اسی زمین کے باسی.
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔