میرے شہر والے……..44
اے ایم قریشی۔۔۔۔۔۔نظامی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحاج مولوی ریاض الدین احمد
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ھوگی
ـ "اور اللہ تعالیٰ نےآٓدم کو تمام (چیزوں کے )نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ تم اگر سچے ہو توان چیزوں کے نام بتاٗو۔ ان سب نے کہا کہ اے اللہ تیری ذات پاک ہے ، ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے سکھایا۔اور کامل علم و حکمت والا تو تو ہی ہے۔ اللہ نے آدم سے فرمایا تم ان کے نام بتادو۔ اور جب انھوں نے بتادئے تو فرمایا کہ میں نے تمھیں نہ کہا تھا کہ زمین اور اسمان کا غیب میں ھی جانتا ہوں اور میرے علم میں تمھارا ظاھر و باطن ہے۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں مین سے ہوگیا۔ (البقرہ۔۔۔31-34)۔
علم، جس نے آدم کو ملائکہ پر فضیلت دی اور اسے مسجود ملائک بنایا۔ علم، سب سے پہلا حکم جو اللہ نے اپنے اخری نبی کو دیا ، پڑھ اپنے رب کے نام سے۔
علم جو انسانوں کو ، قوموں کو، رفعت عطا کرتا ہے۔ علم، مومن کی گمشدہ میراث، جس کیلئے حکم ہوا اسے حاصل کرو چاہے جہاں سے ملے، جہاں تک جانا ہو۔ علم، کبھی نہ ختم ہونے والی دولت، وہ دولت جو بانٹنے سے اور بڑھتی ہے۔ علم، جسے حاصل کرنا بہترین کام قرار دیا گیا۔
اور اس قوم کی بد نصیبی کا کیا کہئے جسے اللہ نے اپنے نور کو پھیلانے کیلئے چنا، نور، روشنی جو علم کا منبع ہے، جو تاریکی کا سینہ چیر کر پوشیدہ کو سامنے لاتا ہے، جس سی عرفان حاصل ہوتا ہے۔ اور اج وہی قوم علم کے میدان میں سب سے پیچھے اور اغیار کی محتاج ہے۔
ہم سب اور خصوصًا ھمارے اہل علم اور اہل قلم اس جہالت پر کڑھتے اور ہموطنوں کو جہالت کا طعنہ تو بہت دیتے ہیں لیکن کتنے ہیں جو اگے بڑھ کر پہلا قدم اٹھاتے ہیں۔ اندھیری راتوں پر تو خوب عالمانہ گفتگو کرتے ہیں لیکن کتنے ہیں جو عمل کاا یک چھوٹا سا دیا روشن کرتے ہیں۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔
لیکن اپنے آپ کو اس جو کھم میں کون ڈالے۔ مغرب کیلئے سونے کی چڑیا، ہندوستان، جہاں فرنگیوں کی آمد سے قبل مسلمانوں کی حکومتیں تھیں، جنھوں نے اپنی معشوقاؤں کی یاد میں مقبرے تعمیر کیے، طویل و عریض قلعے اور عظیم الشان محل تعمیر کیے۔ طاوس و رباب، حسن و عشق،کبوتر بازی، بٹیر بازی، پتنگ بازی، یہ بازی اور وہ بازی اور اسی قسم کے مشاغل اور فنون کو ترویج دی۔
فرنگی گومتی کے کنارے پہنچ گئے اور ہم شطرنج کی بازیوں میں جتے ریے۔ خواص کا یہ حال ہو تو عوام بھلا کس کھیت کی مولی ہیں۔ دنیا سائنس میں ایک سے بڑہ کر ایک ایجاد کر رہی تھی اور ہم دنیا کو مسلمانوں کے سائنس پر احسانات گنوا رہے تھے۔
عوام الناس کی بات تو چھوڑیں ، ہمارے اہل علم اس بات سے متفکر تھے کہ کہیں مسلمان نو جوان جدید علم حاصل کر کے الحاد اور بے دینی کا شکار نہ ہو جائیں۔
یوں قتل سے بچوں کے نہ ہوتا بدنام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھٰی، جیسی بھپتیاں عام تھیں
شاید فلک کج رفتار کو اس قوم پر رحم ایا۔ آج سے سو سوا سو سال پہلے ایک مرد دانا کو ہمت اور اگہی دی کہ اگر دنیا میں عزت سے جینا ہے تو علم حاصل کرنا ہے۔ اس اولوالعزم دیوانے کا نام سید احمد خان تھا جس نے محمڈن اینگلو اوریٹل کالج کی بناء ڈالی جو اگے چلکر مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے قیام پر منتج ہوئی۔
یہ سرسید کا ہی احسان ہے کہ اج ہم اور آپ ایک دوسرے سے فیس بک پر مخاطب ہونے کے قابل ہوئے ہیں۔
میرا شہر ہمہشہ شکرگذار رہے گا سیٹھ دیا رام جیٹھامل(DJ) نادرشاہ ایڈولجی ڈنشا( NED) اور ان جیسے دیگر ہندووں اور پارسیوں کا اور ان مشنریوں کا جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل شہر میں ایسے معیاری تعلیمی اادارے قائم کئے جنکا نعم البدل ہم اج تک نہیں پیش کر سکے۔پھر سرسید کی اتباع میں حسن علی افندی نے مسلمانوں کے پہلے تعلیمی ادارے ۔ سندھ مدرستہ الاسلام کی بنیاد رکھی۔
قیام پاکستان کے بعد نوزائدہ مملکت نے اپنے محدود زرائع سے کچھ تعلیمی ادارے قائم کئے لیکن وہ میرے شہر کی علمی ضرورتوں کیلئے کافی نہیں تھے۔
لیکن ہر دور میں کچھ سر پھرے ایسے گذرے ہیں جو اپنے مقصد اور نصب العین کیلئے
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ ۔۔ کے مصداْ ق تن من دھن ایک کر دیتے ہیں۔
اج میں اپنے شہر کے ایسے ہی کچھ محسنوں کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں جن کے دم سے میرا شہر علم کی روشنی سے منور ہوا۔
سرسید ثانی۔۔۔قائد تعلیم یا ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پی ٹی وی کے مقبول پروگرام کسوٹی میں جب ماہرین عبیداللہ بیگ اور افتخار عارف کسی مشکل میں پڑ جاتے تو کن انکھیوں سے قریش پور کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کرتے ۔ وجئہ شہرت اچھی ، یا بری ؟
یہ ایک عجیب سی تقسیم ہے جس میں ہم نے انسانوں کو بانٹا ہوا ہے۔ اچھے لوگ اور برے لوگ۔ لیکن اچھائی یا برائی کا پیمانہ ہر ایک کا مختلف ہے۔ میرا اچھا اپ کے نزدیک برا اور اپ کا اچھا میرے لئے برا ہو سکتا ہے۔ پھر ایک اور فارمولا ہم نے بنا لیا ہے کہ جسے اچھا سمجھ لیا ہے اسکی برائیاں جیسی بھی، چھوٹی یا بڑی ہوں، ان سے ہم در گذر کرتے ہیں اور جسے برا سمجھتے ہیں اسکی اچھائیاں چاہے کتنی ہی بڑی ہوں انہیں خاطر میں نہیں لاتے اور صرف برائی کے حوالے سے ہی اس کردار کو یاد رکھتے ہیں۔
یارو کوئی نہ کامل فرشتہ ہوتا ہے نا پورا شیطان۔ انسان ، انسان ہوتا ہے، مرکب خطا و نسیان، اچھائی اور برائی کا مجموعہ۔ کیوں نہ جس انسان سے ہمیں کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو اور جس نے ہمیں اور دنیا کو فائیدہ پہنچایا ہو اس کی اچھائی کو یاد رکھیں۔
عبدالرحمان محمد قریشی، ایک کامیاب ٹرانسپورٹر لیکن کم تعلیمیافتہ (یہ شاید غیر تعلیمیافتہ) اور بعض حوالوں سے متنازعہ شہرت کا حامل، لیکن جب اللہ نے کسی سے کوئی کام لینا ہوتا ہے تو اپنی تائید و نصرت اسکے ساتھ شامل کر دیتا ہے اور اسے بلند مرتبہ و مقام دیتا ہے۔
اسی ٹرانسپورٹر کے نجانے کیا جی میں ائی کہ اسے ان نوجوانوں کی فکر ہوئی جو دن کو محنت مزدوری میں مشغول ہونے کی وجہ سے علم کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔ اس نے ان کیلئے قریشی نائیٹ کالج قائم کیا اور پھر 1959 میں میرے شہر کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی۔ اج کراچی کا ہر دوسرا تیسرا تعلیمیافتہ شخص اسلامیہ کالج اور اے ایم قریشی کا احسانمند ہے۔ مجھے اعداد و شمار کا علم نہیں لیکن ایک وقت تھا جب اسلامیہ کالج کے طلبا وطالبات کی تعداد جامعہ کراچی سے زیادہ تھی۔
یہ ایک غریب پرور کالج تھا۔ جسے شہر کے کسی کالج میں داخلہ نہ ملے، اسلامیہ کالج اسے اپنی آغوش میں جگہ دیتا تھا اور نجانے کتنے ایسے ہونگے جنھیں اپنی کم قابلیت کے باوجود تعلیم مکلمل کرنے کا موقع ملا ہوگا۔ کراچی کے اکثر مشاہیر نے یہیں تعلیم حاصل کی۔ میں سب کا نام تو نہیں جانتا لیکن ایک دو سے تو اپ بھی واقف ہونگے، جیسے ایشین بریڈمین، ظہیر عباس اور فلمسٹار ندیم وغیرہ۔
قریشی کی بو قلموں شخصیت کا ایک اور عجیب پہلو اسکی علماٗ سے عقیدت تھی۔ وہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے عقیدتمند تھے۔ انکی اور مولانا سلیمان ندوی کی قبوربھی اسلامیہ کالج کے احاطہ میں ہیں.
اے ایم قریشی نے بھی انہی مشائخ کے قدموں تلے جگہ پائی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست۔
یہ رتبہ بلند جسے مل گیا، مل گیا۔
علیگڑھ ، کراچی میں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مسلم یونیورسٹی علیگڑھ اپنی خاص روایات کی حامل ہے۔ میرے کچھ دوست علیگڑھ سے فارغ التحصیل ہیں۔ فن گفتگو، حاضر جوابی اور بزلہ سنجی ، علیگیوں کی خاص پہچان ہیں، لیکن سب سے بڑی شناخت انکی علم و ادب سے محبت ہے
اسی محبت نے کراچی کے ایک نمایاں علیگ، ظل احمد ںظامی کو قائل کیا کہ اپ نے کے ڈی اے کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے 45 اسکیمیں جاری کر کے بے شک شہر کی بے حد خدمت کی لیکن اب ایسا کچھ کیا جائے کہ انے والی نسلوں کو بھی فیض پہنچے اور اس کا سب سے بڑا زریعہ یعنی ایسا کوئی علمی ادارہ قائم کیا جائے جس سے آنے والی نسلیں بھی فیضیاب ہوتی رہیں۔
زیڈ اے نظامی یا ہم سب کے نظامی صاحب نے اپنے علیگڑھ کے ساتھیوں کی مدد سے نجی شعبے میں پاکستان کی پہلی انجینئرنگ یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی،
سر سید یونیورسٹی نے جہان میرے شہر میں معیاری انجینئرنگ کالج اور یونیورسٹیوں اور نشستوں کی کمی کا مسٗلہ کم کیا وہیں اعلی ٰٰٰپائے کی تدریسی اور تحقیقی سہولتیں فراہم کرنے کا علاوہ مستحق اور قابل طلبہ کیلئے اسکالر شپ وغیرہ جاری کیں۔
کے ڈی اے کی ترقیاتی اسکیمیں اور سرسید یونیورسٹی میرے شہر والوں کو ہمیشہ نظامی صاحب کی یاد دلاتی رہیں گی۔
دانائے راز
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہم اکثر و بیشتر بات کرتے ہیں کہ ہمارے دین نے عورت کو بڑا اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ لیکن عملاً ہمارا طرز عمل اسے کہیں ثابت نہیں کرتا۔
سرسید کو بھی قوم کی تعلیم کی فکر تھی لیکن شنید یہ ہے کہ وہ بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حامی نہیں تھے۔ حکیم الامت، علامہ اشرف علی تھانوی نے بھی خواتین کی علمی ضروریات کو قرآن پرھنے اور سرتاج کو خط لکھنے اور دھوبی کا حساب رکھنے سے زیادہ نہیں سمجھا۔ اور تو اور ہمارے شاعر کو بھی لڑکیوں کا جدید تعلیم حاصل کرنا نہ بھایا اور اس نے یوں طنز کیا۔
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
حضرت شیخ سلیم الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے خانوادے کے ایک فرزند نے یہ راز جان لیا کہ دنیا میں اگے بڑھنا ہے تو عورت کو جو اپنی اولاد کی سب سے بڑی معلم ہوتی یے اسے بھی ہر طرح کا علم حصل کرنا چاہئے۔
الحاج مولوی ریاض الدین احمد ، شعرا اور دانشوروں کے شہر آگرے میں مسلم لیگ کے ہراول دستوں میں شامل اور ایک متحرک کارکن تھے۔ علیگڑھ سے فارغ التحصیل، علم سے محبت تو لازمی تھی۔ انجمن اسلامیہ ٹرسٹ کے زیر اہتمام کئی تعلیمی ادارے قائم کئے۔
ایکبار جب قائد اعظم آگرہ تشریف لائے تو مولوی صاحب نے ان سے اجازت طلب کی کہ وہ جناح کے نام سے لڑکیوں کا تعلیمی ادارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ آگرہ میں تو مولوی صاحب کا خواب پورا نہ ہوا۔ لیکن تقسیم کے بعد انہوں نے کراچی میں اپنا مشن جاری رکھا۔ یہاں آگرہ کے مہاجرین کے چندوں کی مدد سے پاکستان چوک پر پہلا گرلز اسکول قائم کیا۔ لیکن ان کا خواب اس سے کہیں بڑھ کر تھا۔
وریر اعظم لیاقت علی خان نے زمین عطیہ کی،محترمہ فاطمہ جناح جنہیں خواتین کی فلاح و ترقی بے حد عزیز تھی ، ذاتی دلچسپی لےکر ایک خطیر رقم کی منظوری دلوائیٰ۔ حالات اتنے سازگار پھر بھی نہ تھے۔ مولوی ریاض الدین صاحب نے ایک ایک اینٹ جمع کرکے جناح گرلز کالج کی داغ بیل دالی۔
ریاض گرلز کالج سے جناح گرلز کالج اور جناح گرلز کالج سے جناح پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج عزم و ہمت کی ایک داستان ہے۔
1994 میں سندھ کے علم دوست گورنر، حکیم محمد سعید، شہید نے جناح کالج کو یونیورسٹی کے درجہ پر فائز کیا۔
الحاج مولوی ریاض الدین کی انتھک محنت ٹھکانے لگی۔
لیکن یہ منزل نہیں اغاز سفر ہے۔ کون ہے جو اس شمع کو لیکر آگے چلے ؟
ایک اعتراف اور اظہار تشکر۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خاکسار عرصہ دراز سے پردیس میں مقیم ہے۔ میرے شہر والوں کے یہ قصے میری محدود سی یاد وں کا نمونہ ہیں اور جنہیں مین نے تھوڑا بہت دیکھا اور جنکے بارے میں پڑھا وہ اپ کے ساتھ بانٹتا ہوں۔ لیکن الحاج مولوی ریاض الدین کے بارے میں یہ ناچیز بالکل لاعلم تھا۔
میں ے حد مشکور و ممنون ہوں میرے نہایت ہی محترم جناب عقیل عباس جعفری صاحب کا جنہون نے بکمال بندہ نوازی میرے "ان بکس ۔"میں مولوی صاحب کے بارے میں مواد فراہم کیا اور ساتھ ہی ان پر لکھنے کی ترغیب دی۔ واقعات کی صحت عقیل بھاٗئی کی مرہون منت ہیں جبکہ زبان و بیان کی اغلاط اس ناچیز کی کم علمی کے باعث ہیں۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔