میرے شہر والے …..43
مادر ملّت…….دخترِ مشرق
خالق ارض و سماوات کی حسین ترین تخلیق، عورت،جسکے بغیر تصویر کائنات بے رنگ رہ جاتی.
مالک نے جب اپنی صفات اپنی تخلیقات کو ودیعت کیں تو شاید اپنی رحمت،شفقت، محبت اور موّدت کا سب سے بڑا حصہ عورت کو عطا کیا. قربانیوں کی مورت،یہ عورت جو مردوں کیلئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا چین ہے. ماں ہے تو سرتاپا دعا،بیٹی ہے تو تمام کی تمام حیا،بہین ہے تو بھائی کی درد آشنا اور بیوی ہے تو پیکر مہر و وفا.
یہ عورت ہی ہے جو دنیا کا سب سے بڑا ادارہ "خاندان " چلاتی ہے. جو کنبے کی سلطنت کی وزیر داخلہ و خارجہ اور وزیر خزانہ و معاشیات ہونے کے ساتھ ساتھ گہوارے سے لحد تک اپنے بچوں کی سب سے بڑی معلم بھی ہوتی ہے.
جو خود بے آرام رہ کر ہمارے آرام کا سامان کرتی ہے.اور اس کا سب سے حسین اور محبوب روپ،ماں. …شاعر کے پاس الفاظ ختم ہوجائيں، مصور ان رنگوں کیلئے ترس جائے جن سے اس لفظ کی تصویر کشی کا حق ادا ہوسکے. ماں،، جو ایک زندگی کی تخلیق کرتی ہے، نو ماہ اپنے پیٹ میں اٹھاۓ پھرتی ہے،پھر اسے جنم دینے کے سنگین ترین مرحلے سے گذرتی ہے. اسے اپنا خون سینچ کر دودھ پلاتی ہے. تمام دکھوں، تکلیفوں، مصیبتوں اور خطرات سے بچا کر اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے.
نجانے کس نے اسے، صنف نازک، کا نام دیا ہے. کیا ایک زندگی کو جنم دیکر اور سالہا سال دکھ پر دکھ، مشقت پر مشقت( وہنٍ علیٰ وہنن) جھیل کر اس زندگی کو پروان چڑھانے والی،کیا ایک بھرے پرے گھر میں، ماں باپ اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر ایک اجنبی گھر میں، اجنبی لوگوں کے درمیان زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھنے والی کو کوئی نازک کہہ سکتا ہے؟
برطانيہ کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کو ائرن لیڈی کہا جاتا تھا. کیا آئرن (فولاد) نرم ونازک ہوتا ہے؟.
لیڈی تھیچر کو تو ریاستی اور حکومتی وسائل میسر تھے. میں جس آئرن لیڈی کو جانتاہوں وہ چار جماعت پڑھی ہوئی تھی. شوہر جسکا ہر ماہ کی کمائی، یعنی ایک سو دس روپے اس کے ہاتھ پر رکھتاتھا، جس میں چالیس روپے مکان کا کرایہ ادا کرکے وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ اپنی ساس اور دو دیوروں کی دیکھ بھال کرتی تھی اور زندگی کے تار و پود کو قائم رکھنے کیلئے چکّی پیستی، سلائی کڑھائی کرتی اور یر طرح کے مصائب وآلام کا تن تنہا مقابلہ کرتی، لیکن زبان پر شکوہِ ایام کے بجائے شکر کے بول ہوتے.
اس آئرن لیڈی نے ہمیں خواب دیکھنا اور خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کا حوصلہ دیا.
جی ہاں، آہنی اعصاب کی مالک یہ خاتون، میری ماں تھی.
ماں کو دیکھ کر جانا کہ عورت صنف نازک نہیں بلکہ صنف سخت سے کہیں زیادہ مضبوط، تحمل مزاج اور جری ہوتی ہے.
آج میں اپنے شہر میں پیدا ہونے والی ایسی ہی دو عورتوں کی بات کروں گا جنھوں نے دنیا کو بتایا کہ "مردانہ وار"کیسے جیا جاتا ہے.
"فاطی" سے خاتون پاکستان تک
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دنیا میں ہر چیز خریدی جاسکتی ہے لیکن عزت اور محبت صرف خدا کی دین ہے.
ایں سعادت بزور بازو نیست
مس فاطمہ جناح کو ہم پاکستانی جو "مادرِ ملّت" کہ کر پکارتے ہیں یہ کسی جور یا جبر کی وجہ سے نہیں نہ ہی اس کے لئے کوئی مہم چلائی گئی. یہ وہ مقام ہے جو قوم نے اپنے محبوب قائد کی بہن کو دیا ہےاور اس کے پیچھے محترمہ فاطمہ جناح کی وہ محنت اور میرے قائد سے محبت ہے جس نے قائد کیلئے بیسویں صدی کی ایک عظیم تحریک کی رہنمائی اور ایک خواب کی تکمیل ممکن بنائی
محمد علی جناح کی بہن،ان کی فاطی، ان کی رفیق خاص تھیں. قائد کہتے تھے فاطمہ میرے لیے روشنی کی کرن ہے.
جہاں تحریک پاکستان کے دوران مادر ملت نے اپنی زندگی قائد اور تحریک پاکستان کیلئے وقف کی وہیں قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو سیاست سے الگ کرکے، سماجی فلاح و بہبود اور خواتين میں انکے حقوق کا احساس پیدا کرنے میں مشغول کردیا.
قوم ان ساری تفصیلات سے اچھی طرح واقف ہے. میں تو اس جری اور باہمت خاتون کی بات کرنا چاہتا ہوں جسے قوم نے وقت کے آمر کا مقابلہ کرنےکے لیے چنا.
یہ پہلی اور شاید آخری بار ہوا کہ حزب اختلاف کی ساری جماعتوں نے ایک متفقہ صدارتی امیدوار چنا. ساری قوم مادر ملت کے ساتھ تھی اور کاخ امراء کے درو دیوار انکی عوامی مقبولیت سے لرز رہے تھے. مادر ملت مشرقی اور مغربی پاکستان کے طوفانی دورے کر رہی تھیں. انہوں نے بذریعہ ٹرین عوامی رابطے کا آغاز کیا. "فریڈم اسپیشل "جہاں جہاں جاتی لاکھوں لوگ انکے گرد جمع ہوجاتے.کراچی سے پشاور اور ڈھاکہ سے چٹاگانگ ہر جگہ مادر ملت کے نعرے گونج رہے تھے.
میں ان دنوں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا. مادر ملت کا انتخابی نشان، لالٹین، تھا جبکہ ایوب خان نے اپنے لیے گلاب کا پھول پسند کیا تھا.
میرے شہر والے،جنھیں وہ دن یاد ہیں، گواہی دینگے کہ کراچی میں ہر جگہ لالٹین ہی نظر آتی تھی. پھول کے حامی بھول سے بھی لوگوں کے سامنے نہیں آتےتھے.
انتخابی نتائج انا شروع ہوئے تو مشرقی پاکستان میں مس فاطمہ جناح واضح اکثریت سے جیت رہی تھیں. کراچی میں انہوں نے ایوب کو شکست فاش دی. لیکن آخری نتائج آنے سے پہلے "فرشتے" حرکت میں آگئے اور ایک، معجزے، کے نتیجے میں ایک غیر مقبول آمر دوبارہ اس ملک پر مسلط ہوگیا.
جلتی پر تیل چھڑکنے کے لئے ایوب کے صاحبزادے نے اپنی جعلی فتح کا جشن کراچی میں منا کر میرے شہر والوں کے زخموں پر ایسا نمک چھڑکا جسکی چبھن آج تک نہیں گئی.
مس جناح آمر کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھیں کہ مادر ملت ہار کر بھی لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہی تھیں. آمر ان سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ جولائی 1967 میں انکے جنازے سے بھی خوفزدہ تھے اور بابائے قوم کے پہلو میں دفن کرنے پر آنا کانی کر رہے تھے.
یہ کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا جلوس جنازہ تھا جسمیں چھ لاکھ سوگوار شامل تھے.
مادر ملت کی موت پر کئی سوالیہ نشان ہیں. اسی طرح جنازے کے جلوس میں بھی ہنگامہ آرائی کی گئی. فرشتے نجانے کیا کرنا چاہتےتھے.
قوم نے آمر کو تو بھلا دیا لیکن مس جناح اس قوم کیلئے ہمیشہ مادر ملّت ہی رہینگی.
زلفی کی پنکی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ملک کے سب سے مقبول وزیرخارجہ کی یٹی پنکی،جس کی خواہش تھی کہ اپنے لائق وفائق باپ کی طرح سفارتکاری میں نام پیدا کرے.لیکن جب باپ نے حکومت میں آکر اس ملک کو ایک آزاد ملک کے طور پر قائم رہنے کیلئے عالمی چودھریوں کی مرضی کے خلاف ایٹمی صلاحیت حاصل کرنےکا اعلان کیا تو وقت کے قیصروکسریٰ کے جانشینوں نے اسے عبرت کا نشانہ بنانے کا سامان،تلوار اور ترازو کی شکل میں مہیا کیا یعنی فوج اور عدلیہ کے ملاپ سے بھٹو کو دار کی نیم خشک ٹہنی پہ وارنے کا فیصلہ ہوا.
ذولفقار علی بھٹو جو عالمی رہنماﺅں کا ذاتی دوست تھا،چاھتا تو وقت کے آمر سے رحم کی بھیک مانگ کر اپنی زندگی بچا سکتا تھا. لیکن کچھ سرپھرے عزت کی موت کو زلّت کی زندگی پر ترجیح دیتےہیں.
موت کا انتظار کرتےہوئے سلاخوں کے پیچھے سے جب وہ اپنی پنکی سے ملتا تو پنکی نے فیصلہ کرلیا کہ سفارتکاری نہیں بلکہ باپ کہ چھوڑی ہوئی انقلابی فکر اور اور آزادی کی روح لیکر سیاست کی سنگلاخ وادی میں اترنا ہوگا.
پنکی، بے نظیر بھٹو، ضیاء آمریت کے خلاف جد و جہد کی علامت بن گئی."مردانہ وار" قید وبند اور جلا وطنی کی صعوبتیں جھیلیں اور ڈکٹیٹر کیلئے ایک بھیانک خواب بن گئی.
جمہوریت کی علمبردار، وفاق پاکستان کی علامت،چاروں صو بوں ی زنجیر، مقبول ترین عوامی لیڈر، مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم،دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم، لیکن جیالوں کیلئے صرف "بی بی"
میں اور میرا گھرانہ کبھی پیپلزپارٹی اور بےنظیر کی سیاست کے حامی نہیں رہے. ہم نے کبھی پی پی پی کو ووٹ نہیں دیا اور شاید نہ آئندہ دینگے.لیکن میں آج اس نازک سی لڑکی کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتاہوں جس سے بندوقوں والے ڈرتے تھے. جسکی گردن ہمیشہ بھاری بوٹوں تلے رہی.
24سال کی عمر سے ایک مشکل ترین زندگی گذارنے والی بینظیر نے سب سے پہلے تو اپنے باپ کو تختہء دار پر جھولتے دیکھا، ماں کا زخمی سر،جواں بھائی کی پراسرار موت اور دوسرے جواں بھائی کی اسکی اپنی ہی حکومت میں ہلاکت اور گیارہ سال،سلاخوں کے پیچھے شوہر،بکھرا ہوا خاندان، یہ سب ایک.مضبوط آدمی کا حوصلہ توڑ دیں.لیکن داد دیجئے اسکے حوصلے کی، طویل جلاوطنی کے بعد یہ جانتے ہوئے کہ جان کو حقیقی خطرہ ہے اور واپسی کے بعد بھی خودکش حملہ لیکن پھر بھی اپنے لوگوں کے درمیان رہنا،دوسری طرف وہ ہیں جنکے چشم و ابرو کی ایک جنبش سے شہروں کے شہر بند ہوجاتےہیں لیکن جان کا ایسا ڈر کہ اپنے لوگوں میں واپس اتے ہوئے جان نکلتی ہے.
لیکن اس 'شیر کی بچی' نے فیصلہ کیا کہ موت کی انکھوں میں آنکھیں ڈالے گی.
بے نظیر کی کوئی نظیر نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے.
مارنے والوں نے تو اسے ماردیا، لیکن جیالے مان کر نہیں دیتے.
وہ یہی کہتے رہیںگے …زنده ہے بی بی زندہ ہے!!!!!!ء
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔