میرے شہر والے۔۔۔۔۔۔41
کچھ یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ باتیں
میرا شہر ، روشنیوں کا شھر، جہاں تمام ملک سے لوگ انکھوں میں خواب سجاٗے اپنی قسمت ازمانے اتے ہیں۔ اور میرے بحیرہ عرب سے بڑے دل والے شہر نے انھیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ امیدیں لئے یہاں اتے ہیں۔ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اپنی اپنی محنت کا پھل پاتے ہیں اور اپنے گاوں ، قصبوں اور شہروں میں ، اپنے گھر بناتے ہیں۔ خاندان کی کفالت کرتے ہیں، بہنوں کے ہاتھ پیلے کرتے ہیں۔ چھوٹے بہن بھائیوں اور بچوں کو تعلیم کے زیور سےآاراستہ کرتے ہیں۔ دوسرے شہر ترقی پاتے ہیں۔ میرا شہر میرے ملک کی کفالت کرتا ہے۔
بدلے میں میرے شہر کو کیا ملتا ہے۔ یہاں انے والے اس سے کیا سلوک کرتے ہیں۔ میرا ملک جس کاسب سے بڑا کماؤ پوت یہ شہر ہے اسے کیا دیتا ہے، یہ ایک طویل داستان ہےآائیے اچھی اچھی باتیں کریں اور تلخی کو دور رکھیں۔
میرا شہر ملک کا سب سے بڑا اور سب سے گنجانآاباد شہر ہے اور کبھی اس مملکت خداداد کا دارلخلافہ ہوا کرتا تھا اس لیے یہاں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ اس شہر سے اچھی بری بے تحاشہ داستانیں منسوب ہیں۔ میںآاج کسی تلخ اور ناخوشگوار یاد کوآاپ کے ساتھ نہیں بانٹ رہا۔آاج شہر کے پیارے پیارے لوگوں کا بھی قصہ نہیں ہے بلکہ منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے کچھ ایسی باتیںں آپ کے ساتھ ملکر یاد کروںگا جو شہر میں ایک عرصہ تک زباں زد عام و خاص رہیں۔
ان میں سے کچھ واقعات تو میرے اور ٓاپ کے سامنے ہوئے اور کچھ اپنے بزرگوں سے سنے۔ ان واقعات کی صحت اور سچائی کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیاں ہے۔ اگر احباب تصحیح یا اضافہ کرنا چاہیں تو ،چشم ما روشن و دل ما شاد۔ آاپ کا شہر ہے اور یہ صفحہ بھی ٓاپ کا ہے۔
1۔ لیاقت علی خان کا مکا۔
یہ شاید سن 65 کی جنوری یا فروری کی بات ہے۔ ہم ان دنوں کورنگی میں رہتے تھے۔ شہر میں مہاجر پٹھان فسادات کے سبب کرفیو لگا ہوا تھا۔ یہ غالباـ میری زندگی کا پہلا کرفیو تھا۔ میرے ایک ہمسائے جو جی پی او میں ملازم تھے اور ان کے والدین جی پی او کے عقب میں واقع سرکاری فلیٹس میں ریتے تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے والدین سے ملانے لے گئے۔ میری عمر اس وقت دس گیارہ سال کی تھی اور تنہا بسوں میں سفر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کورنگی میں رہتے ہوئے شہر آنا ایسا ہی تھا جیسے اپ کراچی سے لندن یا پیرس جا رہے ہیں۔ شہر کا اپنا ایک فسوں تھا۔ کرفیو سے زیادہ تر متاثرہ علاقے لالوکھیت، ناظم آباد، برنس روڈ اور کورنگی تھے۔ صدر سے براستہ میکلوڈ روڈ، پاکستان چوک جانے والے راستوں پر کرفیو کی پابندی اتنی سخت نہیں تھی البتہ سڑکیں زیادہ تر سنسان تھیں اور شہر میں ہو کا عالم تھا۔ ہم لکی اسٹار سے اتر کر پیدل چلتے ہوئے فوارہ چوک (میوزیکل فائونٹین)،پھر فلیگ اسٹاف ہائوس، ایوان صدر روڈ اور نجانے کن کن راستوں سے ہوتے ہوئے پاکستان چوک کی طرف رواں دواں تھے۔ میرے پڑوسی جو مجھ سے عمر میں بہت بڑے تھے، مجھے راستے کی عمارتوں کے بارے میں بتاتے ہوئے چل رہے تھے۔ ایک عمارت کی بڑی سی بند کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھون نے بتایا کہ اس کھڑکی سے شہید ملت لیاقت علیخان نے انڈیا کو مکا دکھایا تھا۔ یہ کہتے ہوئے انکے لہجے کا فخر اور لیاقت علیخان سے عقیدت بڑے نمایاں تھے۔
قائد ملت نے جب یہ مکا دکھایا تو اس وقت تک میں اس دنیا میں نہیں ایا تھا۔ یہ مکا غالباـ ۱۹۵۱۱ میں دکھایا گیا تھا۔ کوئی بتاتا تھا کہ ہمدوستان ان دنوں سرحدوں پر جارحیت کرتا رہتا تھا اسکے جواب میں وزیر اعظم پاکستان نے مکا لہرا کر کہا تھا کہ طاقت کا جواب طاقت سے دیا جائے گا۔
کہیں اور یہ سنا کہ عوام کا ہجوم کسی قومی دن پر اس کھڑکی کے سامنے جمع تھا اور قائد ملت نے عوام کو تلقین کی کہ پانچ انگلیاں مل کر جب ایک مکا بنتی ہیں تو انکی ایک قوت ہوتی ہے۔ گویا اتحاد کا درس دیا تھا۔ لیکن مجھے عوام الناس کی طرح پہلے والی کہانی زیادہ پسند ہے اور میں اپنے بچوں کو بھی یہی بتاتا ہوں۔ کر لو جو کرنا ہے۔
2۔ غلاف کعبہ کی پاکستان میں تیاری اور زیارت
اپ اسے عقیدت کہیں، محبت کہیں، چاہے اسے بنیاد پرستی کا نام سے پکاریں یا پھر انتہا پسندی کہ لیں۔ لیکن یہ اٹوٹ حقیقت ہے کہ دین اور دینی شعائر سے دیوانگی کی حد تک محبت اور عقیدت ہمارے عوام گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑھنا چاہتا کہ کس طرح اس جذبے کو استعمال اور اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔ لیکن اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔
19633 کی بات ہے کہ ایک عظیم سعادت پاکستان کے حصے میں اٗئی۔ حرم پاک کا غلاف جو ھزار سال سے مصر میں تیار کیا جاتا تھا، سعودی حکومت کی جمال ناصر سے ان بن کے سبب شاہ سعود نے پاکستان سے درخواست کی کہ اسے پاکستان میں تیار کیا جائے۔ پاکستانیوں کیلئے تو گویا دونوں جہانوں کی نعمت سمٹ کر اگئی۔ اس مبارک کام کیلئے بنارس سلک ہائوس کا انتخاب کیا گیا جسے انہوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے سر انجام دیا اور کیسے نہ دیتے ۔ ایسی سعادت اور خدمت ہر کسی کو کہاں نصیب۔
غلاف کعبہ کی تیاری اور دیگر تفصیلات کافی طویل ہیں۔ مجھے تو عوام کا وہ جوش عقیدت یاد ہے جو غلاف کی زیارت کے دوران نظر اتا تھا۔ میں خود تو ایسے کسی جلوس میں شامل نہیں ہوا لیکن اخبارات اسکی خبروں سے پر ہوتے تھے۔ غلاف کی زیارت کراچی اور لاہور میں کی گئی اور وہ گویا عوام کیلئے عید کا دن تھا۔۔
اسی طرح کا جذبہ امام کعبہ کی پاکستان امد پر دیکھنے میں ایا۔
مجھے اس کی تفصیلات کا زیادہ علم نہیں کہ میں پردیس میں تھا۔ لیکن اخبارات سے پتہ چلتا تھا کہ کس طرح پورا شہر امڈ ایا تھا انکی امامت میں نماز کی سعادت حاصل کرنے۔
حرم کعبہ جہاں نماز پڑھنے کا ثواب کئی گنا زیادہ ہے اس سے باہر امام کعبہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے اور محلے کی جامع مسجد کے امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے میں کیا فرق ہے یہ تو علما ٗکرام ہی بتاسکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک غریب امام کعبہ کی اقتدا میں نماز پڑھکر اگر اسے حج کے برابر سمجھتا ہے تو ایسے ہی چلنے دیں۔ اپ کا کیا جاتا ہے۔
3۔ بشیر ساربان۔۔۔۔حقیقت یا افسانہ
میرے شہر والے کی گیارہویں قسط میں یہ قصہ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہ بھی میرے شہر کا ایک عجیب واقعہ تھا۔ قسمت کی دیوی کسی پر کیسے مہربان ہوتی ہے یہ بشیر اونٹ والے کی داستان میں دیکھ لیں۔
وہ احباب ، خاص کر نوجوان دوست جو یہ کہانی نہ پڑھ پائے ہوں ان کیلئے مختصراـ یہ کہانی کچھ یوں ہے کہ 1961میں امریکی نائب صدر لنڈن بی جانسن پاکستان کے دورے پر تشریف لائے اور جیسا کہ ہمارے ہاں دستور چلا ٓارہا ہے کہ ناٗئب صدر ہوں یا معمولی سا امریکی اہلکار، ہم انہیں سر انکھوں پر بٹھاتے ہیں اور سربراہ مملکت جیسا پروٹوکول دیتے ہیں۔جانسن صاحب کا استقبالی جلوس ایک شاہراہ سے گذر رہا تھا وہیں کہیں بشیر اونٹ والا اپنی گاڑی روکے تماشا دیکھ رہا تھا۔ جانسن کے نجانے کیا جی میں ٓائی کہ اس نے اپنی گاڑی رکواٗئی اور بشیر کے پاس جا پہنچا۔ اسکی خیریت دریافت کی، اسے اپنا قلم بطور تحفہ دیا اور ساتھ ہی امریکہ ٓانے کی دعوت بھی دے ڈالی۔
بات یہیں نہیں ختم ہوئی ۔ جانسن کی روانگی کے کچھ دن بعد بشیر کو امریکی سفارتخانے سے پیغام ملا کہ جانسن نے بشیر کو امریکہ بلوایا ہے اور سفارتخانہ تمام انتظامات اور اخراجات کا اہتمام کرے گا۔
بشیر غریب جس کے نزدیک پاکستان سے باہر کا ہر ملک ولایت یا، باہر ملک، تھا اور ہر سربراہ مملکت بادشاہ بلکہ باشا تھا، نے اپنی گھر والی کو بتایا کہ انگلینڈ کے بادشاہ نے اسے اپنے ملک بلایا ہے۔
قصہ مختصر، بشیر امریکہ پہنچ گیا۔ جانسن نے واقعی حق دوستی نبھایا۔ بشیر کو بڑے اعزاز اور پیار کے ساتھ اپنے رانچ پر باربی کیو کی دعوت دی۔ خوب امریکہ کی سیر کروائی اور واپسی میں امریکی سفارتخانے کے ذریعے ایک چھوٹا ٹرک بھی تحفے میں دیا۔
وہ دن ہے اور ٓاج کا دن پاکستانی حکمران امریکہ کی محبت میں ایسے گھلے کہ بس۔ من تو پہ واروں تن تو پہ واروں والی کیفیت سے ٓاج تک باہر نہ ٓاسکے۔۔ رہے نام اللہ کا۔
4۔ ثروت اور شہزادہ طلال کا قصہ
یہ داستان بھی بشیر کےقصے کے ساتھ ہی بیان ہوٗئی تھی لیکن جن بچوں نے نہیں پڑھی یا جنہیں یاد نہیں انکے لئے کہانی پھر حاضر ہے۔
یہ کہانی ہے ملک پاکستان کی ایک کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے گھرانے کی حسین و سلیقہ مند دووشیزہ اور ملک اردن کے بادشاہ کے بھاٗیی اور اس وقت تک کے ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال کی شادی کی۔
شادی کا قصہ کئی دن شہر میں گشت کرتا رہا۔ تفصیل جاننی ہو تو انٹرنیٹ نامی مشین پر دیکھو وہاں سارا احوال درج ہے۔
اس داستان گو کو صرف اتنا یاد ہے کہ یہ بات 19688 کی تھی۔ بادشاہ وقت یعنی صدر ایوب اس نکاح کے گواہ تھے اور ایک نامور عالم، مولانا جمال میاں فرنگی محلی نے نکاح پڑھایا تھا۔
ظلال تو بادشاہ نہ بن سکے لیکن ثروت نے اپنی محبت اور خدمت خلق سے اردنی رعایا کا دل ایسا جیتا کہ وہ اسے ملکہ سے زیادہ مانتے ہیں۔
5۔ تی وی اسٹیشن کے بغیر ٹی وی
یہ 1962 کی بات ہے، اتنایاد ہے کہ سردیاں تھیں۔ یہ یاد نہیں کہ جنوری تھا یا دسمبر۔ بہرحال بتانا یہ تھا کہ شہر میں ایک عظیم الشان بین الاقوامی صنعتی نماٗئش لگی۔ یہ نمائش واقعتاـ عظیم الشان تھی۔ ایسی نمائش میں نے کراچی تو کیا دوبئی میں بھی نہین دیکھی۔ یا شاید اس نماٗش کے سحر سے ٓازاد نہ ہوسکا۔ اس نمائش نے میرے شہر کو بندو خان اور گھسیٹے کان کے کباب اور حلیم سے روشناس کرایا وہیں ایک یادگار چیز تیلیویژن سے عوام کو روشناس کرایا تھا۔
فلپس کمپنی نے شہر کے پارکوں اور خاص خاص مقامات پر تیلیویژن سیٹ ایستادہ کیے ہوئے تھے یعنی کھمبوں پر رکھے ہوٗے تھے اور شام کو اس پر مختلف طرح کے پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ یہ کراچی والوں کا ٹی وی سے پہلا تعارف تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کورنگی پانث نمبر پر تھانے کی دیوار سے ملحقہ میدان میں رات کو ٹی وی دکھایا جاتا اور لوگ باگ کمبل، چادریں اوڑھے، ٹھٹرتے کانپتے اخر وقت تک بیٹھے رہتے۔
اسی نمائش میں اور اس؎ی ٹی وی پر صدر ایوب نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ملک میں جلد ہی ٹیلیویژن اسٹیشن قائم کیا جائے گا اور جوان کے بچے نے اپنی بات پوری کی اور دو ڈھائی سال ہی میں لاہور میں پاکستان کا پہلا ٹی وی اسٹیشن ٓاگیا۔
ابھی اور بہت سی باتیں ہیں اور بہت سے قصے ہیں۔ لیکن طوالت سے ٓاپ بھی اکتا جائینگے اور ویسے بھی اگر ٓاپ نے یہاں تک اسے پڑھ لیا تو واقعی یہ ٓاپ کی ہمت ہے۔
باقی کہانیاں پھر کبھی سہی۔۔۔۔۔یار زندہ صحبت باقی۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔