میرے شہر والے…..40
آغا صاحب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ربّ کائنات کی شاہکار اور عظيم ترین تخلیق میرے خیال میں یہ فانی انسان ہے.
رحمان کی تخلیق میں اگر کہیں کسی کجی یا کمی کو ڈھونڈنے کی جسارت کریں تو ہماری نگاہیں تھک ہار اور عاجز ہو کر لوٹ آئیں گی.
خالق انس و جن جو ہر چیز پر قادر ہے،اگر چاہتا تو انسان کو غمِ روزگار سے آزاد اور بے فکر بنا دیتا. لیکن اس کے کھیل وہی جانے. اسکی نجانے کیا مصلحت تھی کہ اس نے اپنی اس تخلیق کے ساتھ دنیا اور اسکی احتیاجات کا پشتارہ کچھ ایسے جوڑ دیا کہ بندہ انہی میں گم ہو کر رہ گیا.
کارِجہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
شاید یہی ضرورتیں اور احتیاجات ہیں کہ ہم اپنے مالک و خالق کو یاد کرتے ہیں اور اسکی طرف دیکھتے ہیں. اب یہ بھی اسکی حکمت و مصلحت ہے کہ کسی کو بے حساب رزق دیا تو کسی کو ناپ تول کر،تاکہ دونوں حالتوں میں انسان کے اعمال اور کردار کی جانچ ہو جائے.
جہاں مال و دولت پاکر بندہ اعتدال سے ہٹ جاتا ہے وہیں تنگدست بھی اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے سوا کچھ اور نہیں سوچتا.
بھوک آداب کے سانچے میں ڈھل نہیں سکتی
اس پاپی پیٹ کے سوالات اتنے کٹھور ہوتے ہیں کہ بندہ اپنے مالک سے بھی غافل ہو جاتا ہے.
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
تمدن کے ارتقاء کے ساتھ ہی شاید انسان نے ان ضروریات اور احتیاجات کو پورا کرنے کے اجتماعی طریقے تلاش کرنے شروع کئے. معاشرے اور ریاست کی تشکیل کے ساتھ حکومتوں نے یہ ذمہ داریاں اٹھائیں. ساتھ ہی ادارے بھی وجود میں آنے لگے. سیدنا عمر رضی الله تعالٰی عنہ کے دور میں بیت المال کا ادارہ تشکیل ہوا جسے ہم موجودہ بنکنگ سسٹم کی بنیاد کہ سکتےہیں. گو کہ تہذیب جدید اور سرمایہ داریت کی حرص و ہوا کے ہاتھوں یہ نظام بری طرح مجروح ہوا. سودخواروں نے نہ صرف ضرورتمندوں کا جینا حرام کیا بلکہ مختلف بہانوں سے انکے منہ کا نوالہ چھین کر اپنی تجوریوں کے پیٹ بھرے.
یہ خرابی لیکن اس نظام یا ادارے کی نہیں بلکہ اسکے چلانے کے انداز اور نیت کی بھی ہے.
اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں اور دیگر مذاہب میں ایک نمایاں فرق اقتصادی اور معاشی فکر کا بھی ہے. مومن کا جہاں توکّل اللہ پر ہوتاہے اور نفع و نقصان سے زیادہ اسے آخرت کی فکر رہتی ہے اسکے مقابلے میں خاص کر یہود وہنود مالی منفعت کو ہر چیز پر مقدم جانتےہیں. بنیے کے لئے پیسا سب سے بڑآ بھگوان ہوتا ہے اور وہ صرف لکشمی کی پوجا میں لگا رہتاہے.
ہوسکتاہے میرا یہ تجزیہ اور تاثر یکسر غلط ہو لیکن اسے بیان کرنےکی وجہ میری ایک حیرت ہے. اور وہ یہ ہے کہ میری خلیجی ممالک اور سعودی عرب کی ملازمت کے دوران میں نے پاکستانی بینکاروں کو اپنے مد مقابل، خاصکر ھندوستانی بینکرز کے مقابلے میں نہایت نمایاں پایا. سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کا تو تقریبًا سارا بنکنگ سسٹم پاکستانی بینکاروں کا مرہون منت ہے. نہ صرف کئی پاکستانی بنکوں کی شاخیں یہاں قائم ہیں بلکہ دیگر بین الاقوامی بنکوں میں بھی پاکستانی بڑے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں.
آج میں ایسی ہی ایک ہستی کی یاد آپ کے ساتھ بانٹ رہا ہو ں جس نے پاکستان میں بینکاری کو نئے معنی دیے.
انسان یا فرشتہ یا؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1976 میں بحرین میں چند ماہ یو بی ایل (UBL) میں ملازمت کرنے کے بعد میں نے ھلٹن ہوٹل کے شعبه حسابات میں ملازمت شروع کی. میرا کام back office میں ہوتا تھا. ہماری نائٹ ڈیوٹی ہوا کرتی تھی. ایک رات میں کسی کام سے Front Office گیا جہاں میرے دو پاکستانی ساتھی Javed Zuberiاور اسمعیل چاند (جو پاکستان کے اولین فلمساز داؤد چاند کے بیٹےتھے)بڑے فدویانہ انداز میں ایک نہایت خوش پوش صاحب سے گفتگو کر رہے تھے جبکہ وہ صاحب بڑی بے تکلفی سے بات کر رہے تھے. مجھے ایک نظر میں ان پر میرے محبوب کرکٹر حنیف محمد کا گمان ہوا لیکن وہ بہت شاندار اردو بول رہے تھے جبکہ حنیف کی اردو اتنی اچھی نہیں تھی. اسمعیل اور جاوید دونوں یو بی ایل چھوڑ کر ھلٹن میں آئے تھے اور جاوید کے کہنے پر ہی میں نے بھی ھلٹن جوائن کیا تھا. میرے انے پر اسمٰعیل نے ان صاحب کو بتایا کہ یہ بھی یو بی ایل سے آئے ہیں. وہ صاحب ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ واہ میاں! آپ لوگوں نے یو بی ایل کو اچھا ٹریننگ سنٹر بنا رکھا ہے. وہاں سے کام سیکھ کر باہر نکل جاتےہیں.
میں نے سرسری طور پر ان صاحب کو دیکھا اور سلام کیا اور واپس اپنے کام کی طرف لوٹ گیا.
کچھ دیر بعد میرے دونوں ساتھی چائے پینے بیک آفس میں آئے تو دونوں کسی آغا صاحب کے بارےمیں رطب اللسان تھے. میرے استفسار پر انہوں نے مجھے بتایاکہ یہ یو بی ایل کے سابق پریزیڈنٹ آغا حسن عابدی صاحب تھے جو اب بی سی سی آئی (BCCI) کے چیرمین وغیرہ ہیں.
حقیقتًا میں آغا صاحب کے بارےمیں کچھ نہیں جانتا تھا. پاکستانی بنکاروں میں مجھے صرف ممتاز حسن مرحوم کا نام معلوم تھا جو کراچی کی اکثر ادبی تقریبات میں بھی نظر آتے تھے. بھنبھور میں جہاں محمد بن قاسم کا لشکر اترا تھا اس جگہ کی نشاندہی کے حوالے سے ممتاز حسن صاحب کا نام بھی سنا تھا. سب سے بڑھکر انکی خوش لباسی نظر کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی.
ممتاز حسن کا ذکر نیشنل بنک کے حوالے کے بغیر نا مکمل رہتاہے گو.کہ وہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے قائمقام گورنر بھی رہ چکےتھے.
میں نے آغا صاحب سے متعلق گفتگو پر زیادہ توجہ نہ دی. کشا کش روزگار مجھے بحرین سے سعودی عرب اور وہاں سے دوبئی لے آئی. دوبئی آکر کچھ ایسے دوستوں سے ملاقات ہوئی جو بی سی سی آئی میں ملازمت کرتےتھے. یہاں آکر لگا کہ پاکستانی سفارتخانے اور قونصلیٹ سے زیادہ اثر رسوخ تو بی سی سی آئی والوں کا ہے. شہر کی ہر تقریب میں بی سی سی آئی والے نمایاں نظر آتے.
کچھ عرصه بعد آغا صاحب علیل ہوگئے. میں نے بنک والوں کو انکے لئے دعائیں کرتے دیکھا.
آغا حسن عابدی صاحب نے پاکستانی بنکنگ کو نئی راہیں دکھائیں. اس سے قبل بنکوں اور ڈاکخانوں میں زیادہ فرق نہیں تھا. (اپنے نو جوان احباب کو بتاتا چلوں کہ اس زمانے میں پوسٹ آفس میں پیسے جمع بھی کئے جاتےتھے اور انکی ترسیل بھی ہوتی تھی)
حبیب بنک جہاں سے آغا صاحب نے اپنی بنکنگ کی زندگی کا آغاز کیا،وہاں نمایاں کارنامے انجام دینے کے بعد جب 1959میں سہگل گروپ نے آغا صاحب کے ہاتھوں یو بی ایل کی بنیاد رکھی تو گویا بنکنگ کے شعبے میں ایک انقلاب آگیا. آغا صاحب بنک کے پہلے جنرل مینیجر سے ہوتے ہوئے صدر اور چیرمین کے عہدے تک پہنچے اور یو بی ایل جو پاکستان کا دوسرا بڑابنک بن گیا تھا،اسے کہیں سے کہیں پہنچادیا.
پھر ملک میں جمہوریت آئی اور بھٹو صاحب نے اسلامی سوشلزم کے نعرے کے ساتھ بنکوں کو بھی قومی ملکیت میں لے لیا.
قومیانے کی اس پالیسی نے ملک کو کیا دیا اور کیا کھویا اس پر تو ماہرين ہی کچھ کہ سکتےہیں.
بہر حال آغا صاحب جیسا سیماب صفت اور جارحانہ مزاج کا شخص اس نظام سے لگّا نہیں کھاتا تھا چنانچہ انہوں نے یو بی ایل کو خیرباد کہا اور 1972 لندن میں دو کمروں کے ہیڈ کوارٹر سے ایک ایسے بنک کی بنیاد ڈالی جسکی شاخیں 72ملکوں تک پھیل گئیں اور دیکھتےہی دیکھتے وہ شعبہ جس میں خاصکر یہود کی اجارہ داری تھی اس میں دنیا کا ساتواں بڑا بنک بن کر نمودار ہوا.
آغا صاحب کے کام کا یہ خاص انداز تھا کہ وہ انجام کار (End Result) پر توجہ مرکوز رکھتے تھے اور اسکے مطابق "طریقہ کار" کا تعین کرتےتھے. گاھکوں کی مزاج شناسی اور انکے ذوق و شوق کو مد نظر رکھ کر اپنا لائحہ عمل بناتے تھے(. مجھے یقین ہے اس موضوع پر احباب بہت کچھ کہیں گے).
وہ بحثیت بینکر کیا تھے اور کیا کچھ کیا، یہ سب کچھ آپ کو گوگل اور ویکیپیڈیا سے معلوم ہوجاۓ گا. میں آج جن آغا صاحب کو یاد کر رہا ہوں انکا نام میں سنا کرتاتھا جب کوئی فنکار،شاعر ادیب،کھلاڑی یا کوئی بھی اہل ہنر بیمار اور ضرورتمند ہوتا تو آغا صاحب کا نام سنائی دیتا کہ آغا حسن عابدی نے اسکی ذمہ داری اپنے سر لے لی ےلی.
فرزند پاکستان ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بے شمار لوگوں نے اس ملک کی خدمت کی ہے لیکن جسطرح آغا صاحب نے اس ملک کے مستقبل کی آبیاری کی وہ بہت کم کے حصے میں آئی ہے.
Third World Foundation پاکستان بلکہ بھارت،برطانيہ، بنگلہ دیش اور زمبابوے میں بے شمار رفاہی کام انجام دئے.
کے تحت نہ صرف
انفاق فاونڈیشن کے تحت سندھ انسٹیٹوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ، اسکے علاوہ امراض قلب کا قومی ادارہ،لیڈی ڈفرن ہاسپٹل آغا صاحب کے ہمیشہ احسانمند رہیں گے.
سرسید یونیورسٹی اور اس سے بڑھ کر غلام اسحاق خان انسٹیٹوٹ آف انجینئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی جیسے اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے.
BCCI FASTکے تحت تعلیم اور کمپیوٹر سائنس کی تحقیق اور ترقی کیلئے National University of Computer and Emerging Sciences جیسے ادارے کاقیام.
پھر اورنگی پائلٹ پروجیکٹ جیسے انسانی ہمدردی کے منصونے کیلئے اختر حمید خان جیسے نابغہ کو پاکستان بلانا اور ادارہ انکے حوالے کرنا.
آغا صاحب کے نام سے کئی علمی اور تحقیقی ایوارڈز جاری ہیں.
لکھنؤ سے تعلق ہو اور شعر و ادب سے بے بہرہ ہو،یہ کیسے ہو سکتاہے. یہ آغا صاحب ہی ی شخصیت کا اعجاز تھا کہ مشتاق احمد یوسفی،ابن حسن برنی اور افتخار عارف جیسے کتنے ہی لوگ بی سی سی ائی سے وابستہ رہے.
تنقید انہی پر کی جاتی ہے جو کچھ کرتےہیں. بقول داغ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں.
مجھے تو وہ آغا حسن عابدی یاد ہیں جنھیں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی فکر رہتی تھی اور جو قوم کے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتےتھے.
یارو مرنا میں نے بھی ہے اور تم نے بھی. آغا حسن عابدی بھی دنیا سے چلا گیا. وہ فرشتہ تھا نہ شیطان..وہ میری تمھاری طرح کا انسان تھا. لیکن اگر رب نے تم سے اسکے بارےمیں گواہی لی تو تم کیا یاد.کروگے.
ایک جارح مزاج بینکر یا پاکستان کا ایک قابل فرزند.؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔