میرے شہر والے…37
….دلاور فگار
نیکی اور بدی کے درمیان کشمکش ازل سے چلی آرہی ہے. لوگوں کی اکثریت دور بیٹھی دیکھتی رہتی ہے لیکن چند ایک ایسے بھی ہوتےہیں جو برائی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرتے. وہ صرف محسوس ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف آواز بھی بلند کرتےہیں.
ادیب و شاعر بھی اس لڑائی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں. یہ اور بات ہے کہ ہر ایک کا انداز جدا گانہ ہے. کچھ اپنے احساسات سیدھے الفاظ میں بیان کردیتے ہیں لیکن ادب کی ایک صنف ایسی ہے کہ وہ نشتر بھی اس طرح لگاتی ہے گھاؤ کھانے والا اس کی کاٹ اور چبھن بھول کر مسکراتا رہتا ہے اور نشتر لگانے والے کا ہمنوا بن جاتاہے.
طنز و مزاح اور اردو ادب وغیره کو ایک طرف رکھ کر آئیے آج کچھ ایسے ناموں کو یاد کریں جنہوں نے کبھی ہماری زندگیوں میں قہقہوں کی پھلجڑیاں چھوڑی تھیں اور تلخئ ایام کو شیرینی میں رنگ دیا تھا
آئے…دیکھا اور چھا گئے.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ساٹھ کے عشرے کے آخر میں شہر میں ٹیلیوژن کی آمد ہوئی. سید محمدجعفری صاحب کا طوطی ریڈیو پر بولتا تھا. نئے مہمان کی آمد کے ساتھ ریڈیو بتدریج پس منظر میں جانے لگا. جن اہل فن کا تعارف بذریعہ ریڈیو تھا اب ان کا دور ختم ہورہا تھا. اب شہرت اور مقبولت انکی تھی جو ٹی وی اسکرین پر نظر آتےتھے.
1970کے الیکشن کی دھوم تھی. پی ٹی وی نتائج کے ساتھ ساتھ دلچسپ پروگرام بھی دکھا رہا تھا. ایک شاعر صاحب نے اپنے بڑے ہی منفرد انداز سے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا. بچے بچےکی زبان پر تھا.
"میں اپنا ووٹ کس کو دوں"
بس اب دلاور فگار کا دور شروع ہوگیا تھا. وہ لہک لہک کر تحت اللفظ اور ترنم کے بیچ یچ میں اپنے خاص انداز میں شعر سناتےـاور پھر اشعار اور معنی کی کاٹ کیا کہنے.
لے کے رشوت پھنس گیاہے دے کے رشوت چھوٹ جا
اور
کل یونیوسٹی میں جو ملے ایک صاحب
میں نے پوچھا کیا آپ ہیں کوئی سارجنٹ
بولے آپ سے مسٹیک ہو گئی
آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈپارٹمنٹ
یہ انکے منفرد انداز کا اعجاز تھا کہ مشاعروں کے منتظمین مشکل میں پڑجاتے اور اکثر اساتذہ یا بڑے سینیئر شعرا کی موجودگی میں بھی روایت کے برخلاف ان سے سب سے آخر میں پڑھواتے وگرنہ دلاور فگار کے بعد خالی پنڈال رہ جاتاتھا.
دلاور فگار بھی بڑے غضب کی تضمین اور پیروڈی کرتے.
اے غالب مرحوم یہ تو نے بھی سنا ہے
اردو پہ تری آکے عجب وقت پڑاہے
کم بخت کے سر پر ملک الموت کھڑا ہے
اے خاصہ خاصان ادب وقت دعا ہے
یا اقبال کا ،شکوہ،
کیوں گناھگار بنوں فرض فراموش رہوں
کیوں نہ تنخواہ طلب کرکے سبکدوش رہوں
طعنے غیروں کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا میں کوئی بدھو ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آمیز مری تاب سخن ہے مجھکو
شکوہ تنخواہ کا خاکم بدہن ےبدہن مجھکو
اس فورم کا دامن دلاور فگار کے فن کا احاطہ کرنیکے لیے بیت تنگ ہے.
مجھے یقین ہے میرے احباب مجھ سے زیاده دلاور فگار کو جانتےہیں اور وہ اپنے خوبصورت تبصروں میں انکی شخصیت اور فن کے مختلف گوشے وا کرینگے.
میں تو صرف یہ یاد دلانا چاہتاہوں کہ یہ بھی تھے …میرے شہر والے..ء
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔