میرے شہر والے….36
صادقین
ــــــــــــــــــــــــــــ
شاہکار تخلیق اور فطرت سلیمہ
اور اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں (التغابن)
یقینًا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا(التین)
انسان، خالق کائنات کی سب سے عظیم تخلیق، مسجود ملائک،اشرف المخلوقات
جس کی تخلیق بہترين اور خوبصورت طریقے پر کی گئ،فطرت جسکی حسن سے مزین کردی گئی ہو تو اسکے صحیح الفطرت ہونے کا تقاضہ ہے کہ وہ برائی،جھوٹ، بدصورتی اور بد کلامی کے مقابلے میں ہمیشہ اچھائی، سچ،خوبصورتی اور خوش کلامی کی طرف مائل رہتاہے.
یہی خوبصورتی جس میں اوروں سے زیادہ ہوتی ہیں وہ،انہیں اہنے سے کم خوش نصیبوں تک پہنچاتا ہے.
جسے رب نے اچھی آواز سے نوازا،وہ اپنی آوازسے،جیسے اچھی زبان دی وہ اپنے کلام سے اور جسے جو خوبی وافر دی وہ اسکا اظہار خلق خدا کو اس نعمت سے مستفیض کرکے کرتاہے.
فن مصوری بھی ایسا ہی ہنر ہے جو ہر کسی کو میسر نہیں آتا. لیکن جنہیں رب نے اس کمال سے نوازا ہے وہ اوروں تک اپنے فن پارے پہنچا کر نہ صرف اپنی تسکین کا سامان کرتےہیں بلکہ اوروں کو بھی اس میں شامل کرتےہیں.
میرے وطن میں جہاں ہر طرح کے صاحبان فن کا جھمگٹا ہے وہیں اس نے مصوری میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک اور با کمال فنکار پیدا کئے ہیں. اس مختصر تحریر میں تو اتنے ناموں کا احاطہ ممکن نہیں لیکن چند ایک ایسے نام ہیں جنکی دنیا بھر میں دھوم ہے.
مصور مشرق عبدالرحمن چغتائی، شاکر علی،گل جی،آزر ذوبی،کولن ڈیوڈ، بشیر مرزا،جمیل نقش،احمد سعید ناگی اور نجانے کتنے یگانہ روزگار فنکار اس دھرتی کے حصے میں ائے.
مجھے آرٹ کی نزاکتوں و باریکیوں تو کیا اس کی الف بے کا بھی علم نہیں لیکن جیسے اچھے گانے کی تعریف کیلئے موسیقی کا جاننا ضروری نہیں اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی فن پارے کی تعریف کیلئے آرٹ کی مختلف جہتوں، یعنی مصوری، خطاطی، سنگتراشی اور ان سے وابستہ دیگر جزئیات یعنی کینوس، برش،قلم پنسل،رنگ اور پھر یہ کہ آبی اور روغنی (water/oil colour) کا فرق، ان سب کا جاننا ضروری تو نہیں.
مجھ عامی کے لئے تصویر یا مجسمہ صرف تصویر یا مجسمہ ہی ہوتا ہے. اسے نہیں علم کہ یہ تجریدی (abstract) آرٹ ہے یا کلاسیکی، اسے لینڈ سکیپ کہتےہیں یا پورٹریٹ. یہ اسکیچ ہے یا caricatures یا miniature یا کارٹون یا sculpture یا figurines. وہ تو صرف چترکار کا کمال دیکھتا ہے اور واہ واہ کرتا ہے.
میرے شہر کو بھی کچھ ایسے عظیم فنکارملے کہ وہ ملک تو کیا دنیا میں مشہور ہوئے.
باتیں تو بہت کرنا چاہتا تھا لیکن
میرے شوق کی بلندی، میری ہمتوں کی پستی
کہ رہی ہے کہ گل جی اور آذر ذوبی کی باتیں پھر کبھی، آج اس
یکتائے زمانہ مصوّر کی بات کریں جسکا نام صادقین ہے.
ایک نیا دبستان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سید صادقین احمد نقوی،ترقی پسند سوچ والے اور ترقی پسند تحریک کے کارکن، لیکن مصوری میں ایسے دبستان کی بناء ڈالی کہ اچھے اچھے رجعت پسندوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں.
صادقین کا نام آج اسلامی خطاطی کے ساتھ لازم و ملزوم ہے.آیات قرآنی کی اسقدر موثر، دلنشیں اور قابل فہم خطاطی کے اس باب میں تصور میں صرف صادقین ہی کا نام آتا ہے. سورہ رحمٰن کی خطاطی جس خوبصورت طریقے سے کی وہ انہی کا کمال ہے.
پھر تجریدی مصوری کے علاوہ غالب،فیض اور اقبال کے کلام کی تشریحی مصوری اور نہ جانے کیا کیا. ان کا سب سے بڑا کمال Murals ہے. پاکستان میں ایسی کونسی قابل ذکر جگہ ہے جہاں ان کے نقش آویزاں اور ایستادہ نہیں.
1962میں ساٹھ فٹ طویل Treasures of Timess،اسٹیٹ بنک آف پاکستان، جناح ہسپتال، کراچی ایرپورٹ، کسٹمز کلب،سروسز کلب کراچی،لاہور میوزیم، فیصل مسجد اسلام آباد اور منگلا ڈیم کے علاوہ علیگڑھ یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی اور ابوظہبی کا پاور ہاؤس. ہر جگہ انکے میورلز اپنی آن وشان کے ساتھ انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں.
امروہے سے تعلق ہو تو بھلا شعر وسخن سے کیسے دور رہتے. شاعری بھی کی اور کمال کی رباعیات کہیں.
صادقین نے میرے شہر کو سکونت کا شرف بخشا، یہیں آخری سانس لی اور یہیں آسودہ خاک ہوئے.
کہیے. ہے نا میرے شہر کیلئے فخر کی بات
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔