میرے شہر والے…….35
راحت سعید .. غزالہ یاسمین
ہماری بنیادی احتیاجات تو بظاہر چند ایک ہی ہیں. یعنی پیٹ کی آگ بجھانا، سردی گرمی سے بچاؤ کیلئے لباس اور سر چھپانے کیلئے چھت یا سادہ الفاظ میں روٹی کپڑا اور مکان.
میرے نزدیک ان سے ہٹ کر انسان کی ایک اور بنیادی ضرورت ہے اور وہ ہے، انسان.
انسان، دوسرے انسان کے بغیر نہیں رہ سکتا. یہ ضرورت اور یہ تعلق مختلف شکلوں میں ہے، یعنی خاندان، آس پڑوس،محلہ،شہر،ملک،دنیا
. ان تمام تعلقات کی بنیاد ہے ابلاغ.
انسان ایک سماجی جانور ہے اور ایک دوسرے سے لا تعلق رہ ہی نہیں سکتا.
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری ضروریات کم لیکن ایکدوسرے کیلئے وقت زیادہ ہوتا تھا.لوگ باگ دن بھر کے کاموں سے فارغ ہو کر کہیں کسی گاؤں کی چوپال میں، کسی قصبے کے چائے خانے یا کسی شہر کسی ریسٹورنٹ یا قہوہ خانے،یا کسی باغیچے یااپنے گھروں کے سامنے کرسیاں، مونڈھے یا کھاٹ ڈالے داستان گوئی یا باھمی گپ شپ میں مصروف رہتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے.
پھر سائنس کی ترقی کے ساتھ سماجی تعلقات کی شکلیں بدلتی گئیں. اب ریڈیو اور بائسکوپ یعنی سنیما ھال لوگوں کے فارغ وقت کا مصرف بننے لگے.
فلم تو ایک عجیب سحر انگیز دنیا تھی اور اہل خاندان یا دوستوں کے ساتھ سنیما جانے کا اپنا ہی ایک لطف یوتا تھا.
لیکن یہ تفریح کبھی کبھار ہوتی تھی. اسکے مقابلے میں ریڈیو سارا دن ہمراہ رہتا تھا. زندگی کا ایسا کون سا موضوع تھا جو ریڈیو سے پیش نہیں ہوتا تھا.
صبح سویرے تلاوت اور درس قرآن، حمد و نعت،خبریں، بازار کے بھاؤ،کسانوں، مزدورں، طلباء، فوجی بھائی ،خواتین،بچے،غرض معاشرے کا وہ کونسا طبقہ تھا جس کیلئے ریڈیو پر کچھ نہ کچھ ہوتا تھا. کھیلوں کا برا راست آنکھوں دیکھا حال، فلمی گیت، موسیقی، ڈرامے،ادبی پروگرام، مشہور لوگوں کے انٹرويو اور نجانے کیا کیا تھا جس نے سننے والوں کو اپنے جال میں جکڑ رکھا تھا.
ریڈیو ایک زمانے تک ہماری زندگیوں کا اٹوٹ انگ رہا پھر ساٹھ کی دہائی میں ٹیلیوژن ہماری زندگی میں داخل ہوا اور جیسا کہ ہوتا چلا آیاہے کہ نئی آنے والی چیز پرانی کو ماند کردیتی ہے.
ٹیلیوژن میں دہرا نشہ تھا یعنی آواز کے ساتھ ساتھ چلتی پھرتی تصویریں، بھلا اب ریڈیو کا چراغ مزید کب تک روشن رہ سکتا تھا.
ہمارے وہ دوست جو اس دور.میں پیدا نہیں ہوئے تصور نہیں کرسکتے کہ اپنے ابتدائی دنوں میں ٹی وی نے کیا جادو جگایا تھا.
ٹیلیوژن ایک مہنگا زریعہ تھا اور عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور تھا. اور یہ محلے کے چند ایک متمول اور صاحب حیثيت گھروں میں ہوتا تھا یا پھر کسی ھوٹل یا چائے خانے میں کم ازکم ایک چائے کی پیالی کے عوض آپ وہاں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ سکتے تھے.
وہ اچھے دن تھے. لوگ ایکدوسرے کی خوشی میں خوش رہتے تھے اور دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرتےتھے . جن گھروں میں یہ نعمت ہوتی تھی وہ ہمسایوں کو دعوت دیتےتھے اور بچے بالے بن بلائے بھی آجاتے تھے جنھیں کوئی منع نہیں کرتاتھا. مجھے یاد ہے الف نون اور اتوار کی فلم ایسے پروگرام تھے جس کیلئے ہم کسی بھی ٹی وی والے دوست یا پڑوسی کے ہاں جانے میں عار نہیں سمجھتے تھے.
بہت سے گھروں میں اس پر کپڑے کا غلاف ہوتا تھا اور اس پر گلدان یا کوئی فریم شدہ تصویر وغیرہ دھری ہوتی تھی. ہر کسی کو ٹی وی "چلانے "کی اجازت نہیں ہوتی تھی.اسے بچوں کی پہنچ سے دور رکھاجاتا تھا. عام طور پر یہ ڈرائنگ روم یا بیٹھک وغیره میں رکھا جاتا تھا. آج کل کے دیوار پر ٹنگنے والے پلازمہ اور LCD اسکرین کی طرح بیڈرومز میں نہیں ہوتےتھے. وجہ شاید یہ ہو کہ اب ٹی وی آپ اہل خاندان کے ساتھ بیٹھ کرنہیں دیکھ سکتے.
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ اسکتا نہیں.
مجھے یاد ہے ضیاء کے دور میں مہتاب چنا (مہتاب اکبر راشدی) کا تنازعہ دوپٹے کی وجہ سے بڑا مشہور ہوا تھا. اب دوپٹہ تو دور کی بات ہے لباس نظر آجائے تو غنیمت ہے.
خیر یہ ایک جملہء معترضہ تھا. بات ہورہی تھی ٹیلیویژن کے ابتدائی دنوں کی.
بچے بالے شام چھ بجے سے ہی ٹی وی کھول کر بیٹھ جاتے تھے اور PTVV کے لوگو پر نظریں جماکر بیٹھ جاتے اور signature tune کی سست رو موسیقی سنتے رہتے. پھر تلاوت،مقامی خبریں، بچوں کے پروگرام، انگریزی پروگرام، ڈرامے،خبرنامه، ادبی اور سیاسی گفتگو اور آخر میں قومی ترانہ اور پرچم تک ٹی وی کے سامنے سے نہیں ہٹتے.
ٹیلیویژن پر کیا پروگرام آتے تھے،انکی کیا دھوم تھی،شادی بیاہ یہاں تک کہ سوئم اور چالیسویں وغیرہ بھی مشہور ڈراموں کے اوقات سے ہٹ کر رکھے جاتے. محلے کس طرح سنسان ہوجاتے اور پھر ان مقبول پروگراموں کے ختم ہونےکے بعد گلی میں جمع ہوکر تبصرے کرنا، یہ سب تو ہمارے احباب اپنے تبصروں میں بتائنگے ہی.
میں آج دوستوں کے ساتھ ان دو دلفریب ہستیوں کی یاد بانٹنا چاہتا ہوں جو ٹی وی کے لوگو اور سگنیچر ٹیون کے فوراﹰ بعد ٹی وی کی اسکرین پر نظر آتیں.
انہیں دیکھتے ہی گویا دل کی کھلی جاتی. پسم اللە اور اسلام علیکم کے بعد یہ پروگراموں کی تفصیلات بتاتیں اور پھر پروگراموں کے درمیان دوسرے پروگرام کی اناؤسمنٹ کیلئے پھر نظر آتیں.
کراچی ٹی وی پر بےشمار اناؤنسر خواتين اور حضرات آئے ہونگے لیکن جن لوگوں نے راحت سعید اور غزالہ یاسمین کو دیکھاہے ان کے سامنے ایلزبتھ ٹیلر ہو یا ایشوریا راے کوئی بھی نگاہوں میں نہیں جچے گا.
راحت سعید کے چیرے پر ایک دائمی مسکراہٹ رہتی تھی. ان کے خوبصورت دانت اور مسکراتی آنکھیں ایک جادو رکھتی تھیں جو دیکھنے والے کو مبہوت کیے رکھتی تھیں.
غزالہ یاسمین نسبتاً سنجیدہ لیکن پروقار شخصیت کی مالک تھیں. انکے چیرے پر ایک زیرلب مسکراہٹ رہتی تھی.
راحت سعید اور غزالہ یاسمین دونوں انتہائی شائستہ، نفیس، پر وقار،خوش لباس، خوش جمال اور خوش گفتار ایسی کہ ایسا کہان سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے.
میرے پاس ان کے بارے میں مزید کوئی تفصیلات نہیں ہیں نہ یہ پتہ ہے کہ آجکل وہ کہاں اور کیسی ہیں. اس پر یقینًا حسب معمول احباب اپنے تبصروں میں روشنی ڈالینگے.
لیکن مجھے یقین ہے کہ میری عمر کے دوستوں کے سامنے یادوں کے دریچے کھل جائنگے اور وہ کچھ دیر کیلئے بیتے ہوئے ان سہانے دنوں میں کھو جائنگے.
راحت اور غزالہ جہاں بھی ہیں اللہ انہیں خوش رکھے کہ انہوں نے کبھی ہماری زندگیوں میں خوشیاں بکھیریں تھیں.
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔