میرے شہر والے……34
میرا شہر….A Potpourri of Love, Harmony, Amity and Tolerance
سنتوش رسل..ایس بی جان..ایمی مینوالاـ..آزوری..تارہ،نیلما اور گھنشیام،.. والس متھائس،..انٹاؤ ڈی سوزا ..بیرام ڈی آواری
وہ دن جب یاد آتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میراتعلق ایک قدامت پسند اور راسخ العقیدہ گھرانے سے ہے. میں بذات خود کمزور ایمان رکھنے والا اور دنیا پرست انسان ہوں. کوشش یہ رہتی ہے کہ حتیٰ الوسع دینی فرائض ادا کرسکوں اور جہاں تک ممکن ہو سکے حرام اور حلال کی جو حدود شریعت نے متعین کی ہیں ان کی پابندی کروں. لیکن اس کے ساتھ جو بھی ہنسنے بولنے اور خوش رھنے کے مشاغل اور مواقعے ملتے ہیں ان سے بھی حظ اٹھاتا ہوں اور رب کا شکر ادا کرتا ہوں. مجھے زندگی میں بہت زیادہ پیچیدگیاں اور گھمبیرتا پسند نہیں. میں چاہتا ہوں جیسی آسان اور سادہ زندگی میں اپنے لئے چاہتا ہوں ایسی ہی پرسکون زندگی میرے آس پاس کے لوگ بھی جئیں.
وجہ اسکی یہ ہے کہ ایسی زندگی میں دیکھ چکا ہوں اور ایسا وقت میں گذار چکا ہوں.
گردش روزگار مجھے 1975کے آخر میں دور دیس لے گئی. جو شہر میں اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا بالکل ایسا ہی تھاجیسا میں چاھتا تھا اور اب اس کے خواب دیکھتا ہوں.
میرے شہر کی صبح ریڈیو پر مولانا احتشام الحق تھانوی کے درس ، قران حکیم اور ہماری زندگی، سے شروع ہوتی تھی. اسکے بعد مہدی حسن،ناصر جہاں اور نسیمہ شاہین وغیرہ کی پرسوز آوازوں میں حمد و نعت سنائی دیتیں. اس درس کو اور ان نعتوں کو شیعہ، سنی،وہابی،اھل حدیث سب ایک ہی سے شوق سے سنتے تھے.
شب عاشور کو مجلس شام غریباں میں جب علامه رشید ترابی نواسہ رسول اور اہل بیت کی ابتلا کا حال بیان کرتے تو نم ہونی والی آنکھوں میں سنی اور وہابی آنکھیں بھی شامل ہوتی تھیں.
ریڈیو پر جمعرات کی رات مولانا سلیم الدین شمسی اپنی پاٹ دار اور پر اثر آواز میں مثنوی مولانائے روم کی تشریح کرتے تو کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ وہ کس مسلک سے تعلق رکھتےہیں.
چاہے عیدمیلاد نبی ہو یا یوم عاشور ،میرا پورا شہر اسے حقیقی عقیدت اور احترام سے مناتا. میں نے اپنے بچپن میں دوستوں سے ملکر اور محلے والوں سے چنده لیکر محرم میں سبیلیں لگائی ہیں.
دوسری طرف دنیا کے ہر مشغلے کیلئے میرے شہر.میں کوئی نہ کوئی زریعہ موجود تھا. سیروتفریح کیلئے کراچی کے خوبصورت ساحل کلفٹن ـ منوڑاـ ہاکس بےـ سینڈس پٹـ پیراڈائز پوائنٹ ـ نیلم پوائنٹ کے علاوہ گاندھی گارڈن ـ ہل پارک تو تھے ہی، ذہنی تفریح کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت سنیماہال تھے. زیادہ شوقین حضرات کیلئے Roma Shabana, Taj, GoGo,Lido, Excelsior, Metropol,Palace,Grand اور Beach Luxury جیسے نائٹ کلبس وغیره تھے جہاں لوگ اپنے آپ کو پرسکون رکھنے جاتے تھے اور شہر بھی پرسکون رہتاتھا.
میرے اپنے ملک کے لوگ اسے پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کہتےہیں. اسے economic capital of Pakistan کہتےہیں. یہ اس لئے کہ یہ شہر سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہےکہ یہ کماﺅ پوت ہے. لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ شہر محبتوں کا گہوارہ تھا ہم نے اپنی اپنی ضرورتوں کیلئے اسے خون خون کردیا.
کھیل کے میدانوں پر اپنے اپنے پرچم لگا کر کسی نے لکڑی کی ٹال کھڑی کردی. کسی نے اینٹوں کا بھٹہ بنالیا. کسی نے بھینس کا باڑہ بنالیا کسی نے مکان کھڑا کرلیا کسی نے دکان کھول لی.
سنیما ہال ختم کرکے شاپنگ مال اور پلازے تعمیر کیے. پارکوں کو منشیات اور عصمت فروشی کے اڈوں میں بدل دیا.
نوجوانوں کو جب صحتمند اور بے ضرر تفریحات سے روکا گیا اور انکی شلواروں کو ٹخنوں سے اونچا کرکے نیک بنادیا گیا تو انھوں نے بھی کھیل کود اور تفریح جیسے لہو ولعب اور لغویات ترک کرکے معاشرے بلکہ دنیاکی اصلاح کا بیڑہ اٹھا لیا. نتیجہ یہ ہوا کہ
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا.
سب ایکدوسرے کی اصلاح میں مصروف ہیں اور جو انکے راستے یا مسلک یا نظریے سے الگ ہو انکے شناختی کارڈ دیکھ کر انکی شناخت ہی ختم کردیتے ہیں.
قیام پاکستان سے قبل یہاں ھندو مسلم،عیسائی، پارسی یہاں تک کہ یہودی بھی شیر وشکر ہو کر رہتےتھے. تقسیم کے بعد جب مسلمان یہاں آئے تو کسی نے ان کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے. جس نے جیسی محنت اور کوشش کی اس کو وہ حاصل کرنے دیا. یہ ہمارے محسن تھے. ہم نے انکے احسان کا صلہ یہ دیا کہ انہیں پاکستانی کے بجائے ان کے مذہب سے جاننے لگے. جس قدر ہوسکا انہیں دیوار سے لگایا. کسی کا گلا کاٹا،کسی کو زندە جلایا. کسی کا مکان جلایا اور کسی کی بستی ہی اجاڑ دی.
خوش قسمتی سے یہ واقعات میرے شہر میں نہیں ہوتےتھے. یہاں باہمی رواداری اور بھائی چارے کا ماحول تھا.
آج میری بات کچھ طویل ہوجاۓ گی. لیکن میں کچھ واقعات آپ کے گوش گذار کرنا چاہوں گا کہ میرے شہر کے باسی کیسے تھے.
میی نے جب ہوش سنبھالا تو ہم اس وقت کراچی کی قدیم ترین بستی لیاری کے علاقے بہار کالونی میں رہتےتھے. یہ ایک عسرت زدہ اور غلیظ سی جگہ تھی لیکن یہاں بہت سے پڑھے لکھے اور خاندانی لوگ رہتےتھے جنہیں
ہجرت اور امتداد زمانہ نے یہاں پہنچا دیا تھا. خیر بہار کالونی کا ذکر پھر کبھی.
ہمارے داہنے ہاتھ کے پڑوسی عیسائی تھے. ان کا بیٹا ،وکٹر میرے چچا کا دوست تھا. ہر کرسمس پر انکے ہاں سے کرسمس کیک بھیجا جاتا جو ہم شکریے کے ساتھ قبول کرتے لیکن وہ پلیٹ یا برتن فوراﹰ واپس نہیں کرتےتھے بلکہ کوئی اچھی سی چیز بناکر اس پلیٹ میں انکو بھیجی جاتی. ہم وہ کیک نہیں کھاتے تھے. میں نے عرض کیا نا کہ ہم قدامت پسند اور راسخ العقیدہ وغیره وغیرہ تھے. ہمیں شبہ ہوتا تھا کہ اس کیک میں الکوحل وغیرہ ملی ہوتی ہے لیکن وکٹر کے خیال سے ہم یہ ظاہر نہیں کرتےتھے. بعد میں یہ کیک خاموشی سے کسی خاکروب یا مہتر کو دے دیتے.
یہیں ایک اور بھی مسیحی گھرانہ بھی تھا. ان کے دو لڑکے نام تو جنے کیا تھا،ہم انہیں، نکّی اور کوڈی کے نام سے جانتےتھے. بڑا دن (کرسمس) آتا تو وہ ہمیں سارا دن ساتھ لیے پھرتے اور چاٹ چھولے،قلفی کھلاتے. ایک بار وہ ہمیں اپنے گرجے بھی لے گئے جو ایک چھوٹی سی صاف ستھری عمارت میں تھا. مجھے یاد ہے وہاں بہت سارے پھول اور گلدستے تھے جو بہار کالونی کے ماحول میں ایک اجنبی شے تھے.
ہم بھی عید بقر عید پر نکی اور کوڈی کی اسی طرح کھلاتے پلاتے.
کچھ عرصہ بعد ہم کورنگی آگئے. یہاں ہمارے دوستوں اور پڑوسیوں میں شیعہ سنی سب شامل تھے. میرا ایک شیعہ دوست عسکری جو مجھ سے کچھ بڑا تھا اور بہت اچھی فٹبال کھیلتا تھا. ہم دونوں ابن صفی کے دیوانے تھے اور اکثروبیشتر ان کے ناولوں کی باتیں کرتے. عسکری ہی نے مجھے نسیم حجازی اور محمد سعید کے ناولوں سے متعارف کرایا. عسکری ڈی جے کالج میں پڑھتا تھا اور اسی نے مجھے مولانا مودودی کا معتقد بنایا.
اسی کورنگی میں ایک اور شیعہ دوست منظور مہدی تھا (جو آگے چلکر کے ڈی اے میں ٹاؤن پلاننگ میں بڑے عہدے پر فائز ہوا).مہدی ہمارے ساتھ ھاکی کھیلتا تھا.
ایک بار ہم رمضان میں دوسرے محلے سے میچ کھیل کر (جی ہاں ہم ایسے ہی سخت جان تھے) واپس آرہے تھے کہ اذان کا وقت ہوگیا. ہمای افطار کا واحد زریعہ گلیوں کے نکڑ پر لگے نلکے تھے. لڑکے نل کی طرف بڑھے لیکن مہدی کچھ ہٹ کے کھڑا تھا. کسی نے اسے روزہ کھولنے کیلئے کہا تو اس نے بتایا کہ اثناعشری کے مطابق چند منٹ باقی ہیں. ہمارے کپتان نے سب لڑکوں سے کہا کہ رک جاو،ہم مہدی کے ساتھ روزہ کھولیں گے. مہدی نے منع کیا کہ نہیں تم اپنا روزہ مکروہ نہ کرو. تقربیاً سب نے پانی پیا سوائے مہدی اور کپتان کے.
گردش روزگار مجھے بحرین لے آئی. یہاں کچھ عرصہ یو بی ایل میں کام کرنے کے بعد بحرین ھلٹن میں اکاؤنٹس میں نوکری کرنے لگا. یہاں زیاده تر انڈین کرسچیئن اور ہندو کام کرتےتھے.
ایکدن کینٹن میں کھانا کھاتے ہوئے میرے سامنے ایک لڑکا، برونو، نام کا بیٹھا تھا. یہان وہاں کی باتیں کرتےہوئے پتہ چلا کہ وہ کراچی کا ہے.پھر والدین کی بات چلی تو کہنےلگا "ارے تو تم راجہ چاچا(میرے والد) کے بیٹے ہو. " وہ میرے والد کے دفتر کے ساتھی مائیکل کا بیٹا تھا. مائیکل انکل سے میں صرف ایک دو بار ہی ملا تھا. لیکن میرے ابّا کو مائیکل کے گھر والے اچھی طرح جانتےتھے.
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اچانک پردیس میں کوئی قریبی رشتہ دار مل گیا.
اب یہ قصہ ذرا غور سے سنئے.
بحرین کے بعد میں سعودی عرب آگیا. یہاں ایکدن ہمارے کراچی کے ایک پڑوسی سید ارشاد حسین زیدی جو دور کہیں آرامکو کے کسی کیمپ میں کام کرتےتھے، مجھ سے اور میرے روم میٹ خرم جو کراچی میں بھی ہم محلہ تھے،ملنے آئے.
میں اس وقت کام پر تھا. خرم بھائی کی نائیٹ شفٹ تھی اور وہ کمرےمیں موجود تھے. ارشاد بھائى کمرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ انہیں دل کا دورہ پڑا. خرم نے انھیں پانی وغیرہ پلایا اور سینے کی مالش کی لیکن ارشاد بھائی کا بلاوا آگیا تھا اور انہوں نے میرے بستر پر جان دیدی.
مجھے خبر ملی اور میں دوڑا ہوا کمرےمیں پہنچا. میں اور خرم شدید صدمے میں تھے. بہرحال پولیس اور ایمبولینس وغیره آئی اور ارشاد بھائی کے جسد خاکی کو لے گئے.
ارشاد بھائی سے ہمارا رابطہ فون پر رہتاتھا اور ہمیں انکی رہائش اور دوستوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی. اس دن ہم دونوں سارا دن یہاں وہان سے پتہ کرکے شام کو انکے کیمپ پہنچے جہاں انکی بیگم کراچی سے آئی ہوئی تھیں.
آگے کی کہانی بہت طویل ہے کہ کس طرح انکی اہلیہ کو اور بعد میں انکی نعش کو کراچی بھجوایا.
اسکے تقریباﹰ تیس سال بعد یعنی آج سے دوسال قبل میں کراچی گیا جہاں میری بھانجی کی شادی میں ارشاد بھائی کی بیگم (جنھیں ہم باجی کہتے تھے )سے ملاقات ہوئی. ھڈیوں کا ڈھانچہ اور کینسر کی مریضہ باجی کو دیکھ کر جی دھک سے رہ گیا. مجھے دیکھ کر باجی کی آنکھوں میں عجیب سی روشنی جگمگانے لگی. میرا سر اپنی طرف کھینچا اور میری پیشانی پہ بوسہ دیا.
میں شادی اور مہما نوں میں مشغول تھا.اس وقت کچھ زیاده اثر نہیں لیا. لیکن اب جب بھی یاد آتا ہے تو یقین جانئے حلق میں کچھ پھنستا ہوا سا محسوس ہوتاہے.
ایک اور بھی قصہ ایک ھندو دوست کا ہے لیکن بات بہت طویل ہو گئی ہے چنانچہ پھر کبھی.
آپ سوچ رہے ہونگے کہ ان تمام واقعات میں کیا ربط ہے. جی ہاں کوئی ربط نہیں.
میں صرف یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ ایسے تھے میرے شہر کے لوگ اور ایسا تھا میرا شہر.
آج میں آپ کو ان دنوں کی یادوں میں شامل کرنا چاہتا ہوں جب ہم ایک دوسرے کو اسکے شناختی کارڈ سے نہیں بلکہ اسکی ذات اور اسکے کمال کی وجہ سے جانتے تھے اور ایکدوسرے کی عزت کرتےتھے اور محبت کرتےتھے.
آئیے آج ان سے ملتے ہیں جنھیں ہم نے بھلادیا تھا.ان میں سے کچھ ملک سے باہر چلےگئے اور کچھ نے دنیا ہی چھوڑ دی.
سنتوش رسل
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنتوش، درپن اور سدھیر جیسے نام ہمارے لئے اجنبی نہیں تھے نہ ہمیں یہ پتا تھا کہ یہ ہندوانہ نام ہیں.
لیکن جب
پہلے پہل جب سنتوش رسل کا نام سنا تو عجیب سا لگا کہ یہ مردانہ نام عورت کا کیسے ہوگیا. پھر رسل سے مزید کنفیوژن ہوا کہ یہ کرسچن نام ہے یا ہندو.
لیکن اس سے زیادہ چونکا دینے والی چیز ان کی کردار نگاری تھی.اس سے پہلے خواتين کیریکٹر ایکٹرز میں سلمیٰ ممتاز اور زینت بیگم کا طوطی بولتا تھا لیکن ان کا انداز بیت فلمی اور تھیٹریکل تھا. جبکہ سنتوش رسل کی اداکاری حقیقت سے قریب ہوتی تھی. ان کا اردو کا تلفظ بالکل صاف اور اہل زبان کا سا تھا.
وہ ایک پروقار، سلجھی ہوئی اور شائستہ خاتون تھیں . انہوں نے ٹیلیوژن پر بھی کام کیا اور کم لوگ جانتے ہونگے کہ معین اختر کو انھوں نے ہی ٹی وی پر متعارف کرایا تھا.
سنتوش یہودی النسل تھیں اور شاید انہوں نے بروقت فیصلہ کیا اور امریکہ یا کینیڈا چلی گئیں.
ایس بی جان
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ لوگ تمام عمر تگ و دو میں لگے رہتے ہیں اور کچھ اتھ نہیں آتا اور کچھ لوگ بہت کم کچھ کرتےہیں لیکن اتنا اچھا کرتےہیں کہ وہی انہیں لازوال شہرت دے دیتاہے.
سنی بینجمن جان جو کراچی کے اصل باشندے ہیں ایک نغمے سے ایسے مشہور ہوئے کہ اچھے اچھوں کو ایسی شہرت نہیں ملی. کم از کم مجھے تو
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
کے علاوہ ایس بی جون کا کوئی گیت یاد نہیں. البتہ Christmas eveپر ٹی وی پر انکے دعائیہ نغمے سننے ملتے تھے. چند بار انھیں غزلیں گاتے ہوئے بھی دیکھا.
پرائڈ آف پرفارمنس یافتہ ایس بی جان کراچی میں ریٹائرڈ زندگی گذار رہے ہیں.
ایمی مینوالا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں فلموں میں رقص کے لیے لازم سمجھی جانے والی خوبصورت پارسی رقاصہ اور ادا کارہ اپنے دور کی مقبول ترین ڈانسر تھیں. اسکے علاوه اکثر ھوٹل میٹروپول میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں.
مادام آزوری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آزوری کی شہرت تقسیم سے بھی پہلے پھیل چکی تھی. جرمن داکٹراور ہندوستانی ماں کی اس بیٹی کا صحیح مذہب کوئی نہیں جانتا لیکن کہنے والے کہتےہیں کہ وہ یہودی النسل تھیں.
آزوری بیلے اور کلاسیکل کی ماہر تھیں اور پاکستان میں کلاسیکی رقص کی اولین فنکارہ تھیں
تارا،نیلما اور گھنشیام
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گھنشیام اور انکی بیٹیاں تارہ اور نیلما ایک زمانے میں کراچی کی ہر بڑی ثقافتی تقریب کیلئے لازم و ملزوم تھے.
مجھے رقص کے بارےمیں کوئی علم نہیں ہے نہ شوق،لیکن اکثر آرٹس کونسل وغیره کی تقریبات میں ان کا نام سنائی دیتا یا پھر پی ٹی وی پر ناہید صدیقی، پروین قاسم کے ساتھ ساتھ کبھی تاراگھنشیام کا بھی رقص دکھایا جاتا.
ایک تو رقص جیسی معیوب حرکت دوسرے ہندو یہ نہ یک نہ شد دو شد.چنانچہ اسی کی دہائی می
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
نتیجتاً کلاسیکی رقص جیسے واہیات پروگراموں کی جگہ کپاس کو سنڈیوں سے بچانےکی تراکیب،گھر بیٹھے ریڈیو بنانااور صابن سازی سیکھئے جیسے مفید اور کارآمد پروگرام نشر ہونے لگے.
بیرام ڈی اواری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آواری گروپ آف کمپنیز کے اس پارسی مالک نے پاکستان کیلئے ۱۹۷۸۸ کے بنکاک ایشیئن گیمز میں منیر صادق کے ساتھ اور دوسری مرتبہ اپنی بیگم گوشپی کے ساتھ ۱۹۸۲ میں دہلی میں sailing میں طلائی تمغہ جیتا. اس کے علاوہ کینیڈا میں عالمی چیمپیئن شپ میں سلور میڈل جیتا.
بیرام ڈی آواری کراچی پارسی انجمن کے چیرمین بھی ہیں.
والس میتھائس
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پاکستان کیلئے کھیلنے والے پہلے غیر مسلم کرکٹر والس میتھائس نے پاکستان کیلئے ۲۱۱ ٹسٹ کھیلے. استائلش رائٹ ہینڈ بیٹسمین نے سلپ میں فیلڈنگ کو نئے معنی دیے.
میں نے انھیں نیشنل بنک کی ٹیم سے کھیلتے ہوئے دیکھاہے. انتہائی شریف النفس اور شستہ انسان تھے.
انٹاؤ ڈی سوزا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پاکستان کیلئے چھ ٹسٹ کھیلنے والے اس گوانیز کرسچن کو میں نے 19633کامن ویلتھ الیون کے خلاف، محمد مناف اور فاروق حمید کے ساتھ بالنگ کراتے دیکھاہے.
سترہ ٹسٹ وکٹ لینے والے انٹاؤ کے کارنامے تو بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن مجھے جسطرح عمر قریشی ان کا نام لیا کرتےتھے، اس وجہ سے ہمیشہ یاد رہتےہیں.
پی آئی اے سے ریٹائرمنٹ کے بعد انٹاؤ ۱۹۹۹ میں کینیڈا چلےگئے.
اب نجانے پیار محبت، برداشت اور رواداری کا وہ دور لوٹ کے آئے کہ نہ آئے.
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔