میرے شہر والے…..28
دادا اور ان کے ساتھی
ہمارے یہاں پچاس سال کی عمر تک پہنچ جانے کے بعد ایک مرض عام طور پر لگ جاتا ہے جو ساٹھ سال کے بعد شدت اختیار کرلیتا ہے اور ستر کے بعد نا قابل علاج ہوجاتا ہے.
انگریزی میں اس بیماری کو ناسٹلجیا (Nostalgia) کہتےہیں. اردو میں اس کا مترادف تو کوئی لفظ نہیں لیکن مشتاق احمد یوسفی نے اس کا ترجمہ "یادش بخیریا" کیا ہے.
پچاس سال وہ عمر ہے کہ مغرب میں لوگ اپنےآپکو جوان سمجھنا شروع کرتےہیں ہیں. وجہ شاید یہ ہے کہ نوجوانی کی محنت اور ریاضت کا پھل کھانے کاوقت اب آنا شروع ہوتاہے.
ہمارے یہاں اسکے برعکس جوں جوں عمر بڑھتی ہے مستقبل تاریک تر اور ماضی روشن تر نظر آتا ہے.
یوسفی صاحب ہی فرماتےہیں کہ "انگریزوں کا وطیرہ ہے کہ وہ کسی عمارت کو اس وقت تک خاطر میں نہیں لاتے جب تک وہ کھنڈر نہ ہوجاۓ. اسی طرح ہمارے ہاں بعض محتاط حضرات کسی کے حق میں کلمۂ خیر کہنا روا نہیں سمجھتے تاوقتیکہ کہ ممدوح کا چہلم نہ ہوجاۓ. "
آگے چل کر یہ بھی فرمایا کہ "اپنا تو عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں آتا اس کی زندگی میں شاید کچھ ہوا ہی نہیں. لیکن جو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاہے وہ یقینًا لوفر رہا ہوگا".
بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ مرض مجھ میں بھی شدت سے موجود ہے. مزید خرابی یہ ہے کہ میں اور میرے ہم مرض یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے وقتوں میں تھا اس کا مثل دوباره ملنا ممکن نہیں. بچے یہ سنکر ایک دوسرے کو دیکھ کر نظریں نیچی کئے مسکراتے رہتےہیں. مشکل یہ ہے کہ ایسا کوئی آلہ نہیں کہ جس سے انھیں ماضی کا وہ ماحول اور احساسات دکھائے جا سکیں.
لیکن میں اور میرے ہم عمر یقین کامل رکھتےہیں کہ بہترین وقت اور بہترین لوگ وہ تھے جو گذر گئے.
میری یہ کاوشیں بھی اپنے اسے یقین کو منوانے کے لئے ہیں.
میں مثال کے طور پر ریڈیو اور ٹی وی کو پیش کرسکتا ہوں
پاکستان میں زرائع ابلاغ کی آبیاری میں زوالفقار علی بخاری کا کردار ناقابل فراموش ہے. انھوں نے جو معیار قائم کیا یعنی زبان و بیان،تحریر و تقریر،آواز،ادائیگی، نظم وضبط،تکنیک چاہےوہ ڈرامے ہوں یا موسیقی یا مذہبی اور ادبی پروگرم ہوں یا کھیل کے پروگرام، بعد کے آنے والوں اس میں کوئی بہتری تو کیا لاتے الٹا زوال کی طرف لیتے چلے گئے.
ریڈیو اور ٹی وی کا اہم ترین شعبه خبروں کا شعبہ ہوتاہے. ذرا آجکل کی خبروں کے انداز اور زبان و بیان پر نظر دوڑائیں. چند نمونے ملاحظہ ہوں.
"سیلابی کیمپ میں آمد پر منتظمین نے وزیراعظم کو ماموں بنا دیا"
محلے والوں نے بھتہ خور کی دھلائی کردی"
"کراچی 'کی' عوام پولیس کے ہاتھوں پریشان "
پھر سنجیدہ خبروں میں فلمی گیتوں کی آمیزش. نصف سے زیادہ انگریزی الفاظ. 'سب سے پہلے 'ھیڈلائنز نیوز '…یاـــملتے ہیں ایک 'بریک'کے بعد.
اور سب سے بٍڑا عجوبہ ….بریکنگ نیوز! !!!!
اب آپ انور بہزاد سے خبریں سنئیے
ریڈیو پاکستان کے خبریں پڑھنے والوں میں شکیل احمد کو اساطیری (Legendary )حیثيت حاصل ہے. ان کے ساتھی نیوز ریڈر انور بہزاد بھی ایک بلند پایہ نیوز ریڈر تھے. انور بہزاد بڑے صاف لہجے میں بڑی خوبصورتی سے لہریں لیتے ہوئے انداز میں خبریں سناتے. زبان وبیان پر یہ قدرت انکے والد،معروف شاّعر،استاد بہزاد لکھنوی 'کی دین تھی.
بد قسمتی سے مجھے انور بہزاد کی کوئی تصویر نہیں مل سکی. اگر احباب میں سے کوئی مدد کرسکیں تو بے حد ممنون رہوں گا. Abid Ali Baig Aqeel Abbas Jafri
اسلام علیکم فوجی بھائیو …
شمیم اعجاز خبروں کے علاوه فوجی بھائیوں کے لئے بھی پروگرام پیش کرتی تھیں. ایک نہایت ہی پاکیزہ لہجے اور ستھری آواز میں خبریں پڑھنے کا ان کا اپنا ہی ایک انداز تھا.ایک ایک لفظ الگ لیکن مربوط اور صاف. مشہور شاعرہ اور ناول نگار وحیدہ نسیم انکی بہن تھین. یہ نغمگی اور شائستگی شاید بہن ہی کا اثر ہو.
انور بہزاد اور شمیم اعجاز کے بارے میں زیادہ مواد میسر نہیں. لیکن جو ان سے خبریں سن چکے ہیں وہی جانتےہیں کہ وہ کیا انداز تھا.
ہمارے ماضی کی یہ یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہینگی.
دادا….دشمن نمبر تین
شکیل احمد جو ریڈیو میں دادا کہلاتے تھے پاکستان بننے سے پہلے ہی آل انڈیا ریڈیو دہلی سے خبریں پڑھتے تھے. بلند آہنگ،پاٹ دار آواز اور خبر کے مطابق آواز کا اتار چڑھاﺅ دراصل آغا حشر کے تھیٹر پھر بخاری صاحب کی سرپرستی کا اعجاز تھی.
دادا، آغا صاحب کے تھیٹر میں رستم و سہراب، طرابلس کا چاند اور یہودی کی بیٹی جیسے ڈراموں میں کام کرچکے تھے کہ بخاری صاحب انہیں ریڈیو میں لے آئے.
قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے پہلا نیوز بلیٹن پڑھنے کا اعزاز بھی شکیل احمد کے حصے میی آیا. پھر مرکزی ٹرانسمیشن کراچی منتقل ہو گئی تو دادا کراچی آگئے.
65 کی جنگ میں دادا اپنے عروج پر تھے. صدر ایوب کی تاریخی تقریر کی خبر جو شکیل احمد نے پڑھی وہ آج بھی یاد آتی ہے تو اسی جوش و جذبے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور مجھے اپنے رونگھٹے کھڑے ہوئے سے محسوس ہوتے ہیں.
"!! صدر ایوب نے کہا، فتح، فتح اور ہر قیمت پر فتح"
دوارن جنگ انکی خبریں ایک جوش اور ولولہ جگا دیتی تھیں. یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم اپنی آنکھوں سے تمام مناظر دیکھ رہےہیں.
"آج ہماری فضائیہ کے طیاروں نے ھلواڑہ،آدم نگر،جام نگر اور پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈوں پر نیچی پروازیں کرتےہوئے "ٹھیک"ٹھیک" نشانے لگائے "
جب وہ ٹھیک ٹھیک کہتے تو یوں لگتا جیسے ڈز، ڈز، مشین گن چل رہی ہو.
ان دنوں ہندوستاں میں پاک فوج اور ایوب خان کے بعد شکیل احمد کو تیسرا بڑا دشمن مانا جاتا تھا.
مجھے فخر ہے کہ میں نے دادا کو کراچی ریڈیو پر دیکھا. سلیٹی رنگ کی بشرٹ،سفید پتلون، پختہ رنگت. ہر کوئی انہیں سلام کرنے میں پہل کرتا ہوا.
دادا آپ نے اس مشکل وقت میں اس قوم کا حوصلہ بلند رکھا. خدا آپ سے راضی ہو.
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔