میرے شہر والے…..26
خوشبخت عالیہ….شفیع نقی جامعی
طلباء کا شہر
یہ ان دنوں کی بات ہے جب آتش جوان تھا اور فکر معاش سے آزاد تھا اور مزے کرتا تھا یعنی طالبعلم تھا.
جب سے ہوش سنبھالا،( اور یقین کیجئے بہت پہلے ھوش سنبھالا تھا) اپنے آس پاس ہر چیز طلباء سے متعلق ہی دیکھی.
دیواروں پر لکھا دیکھا "طلبہ کا ساتھ دو" "علی مختار رضوی کو رہا کرو" شہنشاہ کو رہا کرو.
طلبا کی سرگرمیاں شہر کی بڑی خبر ہوا کرتی تھیں.
آج لڑکوں نے برنس روڈ بند کردیا، آج لڑکے کالی پٹیاں باندھے ہوئے ہین.
اور یہ برنس روڈ اور پاکستان چوک تو گویا کالجوں کا اتوار بازار تھے. ڈی جے سائنس، این ای ڈی انجینیرنگ، ایس ایم آرٹس اور ایس ایم لا کالج سب ایک دوسرےکی بغل میں ہی تھے. ہمارا کالج گورنمنٹ کامرس پہلے ڈی جے ہی کے ایک حصہ میں تھا اور بعد میں پی آئی ڈی سی اور انٹرکان کے سنگم پر منتقل ہوگیا.
طلبا سیاست، پاکستان کی سیاست کی راہیں متعین کرتی تھی. طلبہ تحریک کو ہی ہائی جیک کرکے ذوالفقار علی بھٹو نے ایوبی آمریت کو للکارا تھا.
ساٹھ کی دہائی کے نصف تک طلبا تحریکیں مشترکہ تھیں پھر سیاسی جماعتو ں نے اپنا اثر رسوخ داخل کرنا شروع کیا. طلبہ دائیں اور بائیں میں بٹ گئے. ایشیا کبھی سرخ ہوتا اور کبھی سبز . پھر علاقائی اور لسانی بنیادوں پر جماعتیں آنے لگیں. 1971 کے بعد سے آ ہستہ آہستہ ہتیار بھی طلبا سیاست کا حصہ بننے لگے. نتیجتا ً کالج یونینوں پر پابندی لگ گئی. رہی سہی کسر عوامی حکومت نے تعلیمی اداروں کو قومیا کر پوری کردی. الله الله خیر سلاّ.
طلبا سیاست کا قصہ پھر کبھی سہی.
آج میں کچھ یادیں اپنے دوستوں کے ساتھ اس دور کی بانٹنا چاہتا ہوں جب اس شہر نا پرساں میں زندگی اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود تھی. اسکولز اور کالجوں کی سرگرمیاں ہماری زندگی کا اٹوٹ انگ تھیں. دنیا کے اور شہروں کے برعکس یہاں کالجز میں نئے طلباء کو bully اور ریکنگ کرکے پریشان نہیں کیا جاتاتھا. سینیر لڑکے نئے آنے والوں کی داخلہ فارم وغیره بھروانے میں مدد کرتےتھے.
ایک تنظیم(نجانے اب وہ موجود ہے یا نہیں) Students Welfare Organization بڑی جانفشانی سے غریب اور مستحق طلبا کے لئے پرانی کتابیں جمع کرتی تھی. خالق ڈنا ھال SWO کا مرکز تھا جہاں سے کتابیں تقسیم کی جاتی تھیں.
جامعه کراچی کی سالانہ تقریب تقسیم اسناد (Convocationn) شہر کی ایک باوقار تقریب ہوا کرتی تھی. پھر عوامی حکومت کے ہاتھوں اس کا بھی خون ہوا جب میٹرک پاس شیخ الجامعہ (گورنر سندھ) کے ہاتھوں سے علم کی بے توقیری کراچی کے جذباتی طلباء برداشت نہ کرپائے اور نتیجتاً یہ تقریب بھی کراچی کے کیلنڈر سے خارج ہوگئی (مجھے علم نہیں کہ یہ دوبارہ شروع ہوئی یا نہیں).
شہر کے تعلیمی ادارے سارا سال نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں مشغول رہتےتھے. انٹر اسکول اور انٹر کالج مقابلوں سے ظہیرعباس، آفتاب بلوچ،محسن خان ا،صفدر عباس اور حنیف خان جیسے کھلاڑی قومی ٹیموں میں پہنچے.
ہر کالج میں سالانہ ہفتہ طلباشاید اب بھی میرے ہم عمر دوستوں کی یادوں میں محفوظ ہوگا. مقابلہ حسن قرات،جلسہ سیرت النبی،اردو اور انگریزی مباحثے، مشاعرے، مقابلہ معلومات عامہ ،ادبی محاکمه، سالانہ موسیقی اور ڈراموں کا فنکشن. مصوری کے مقابلے اور نہ جانے کیا کچھ.
اس خاکسار نے بھی اپنے کالج (گورنمنٹ کامرس) کی نمایندگی، جامعہ کراچی، ڈی جے کالج، داؤد انجینیرنگ کالج اور ریڈیو پاکستان کے کوئز پروگراموں میں کی.
پھر جسے انگریزی میں کہتے ہیں Icing on the cake, ریڈیو پاکستان کراچی کا سالانہ جشن طلباء ہوتا تھا. ہم سارا سال اس کا انتظار کرتے. یہ پروگرام رات گئے تک چلتے رہتے اور پورا شہر جاگتا رہتا.
جشن طلباء کے کوئز مقابلوں میں زیادہ تر میجر آفتاب حسن (جامعه کراچی ) محمد فائق (اردو کالج) اور حشمت لودھی (ایس ایم الج) کوئز ماسٹرز کے فرائض انجام دیتے جو بجائے خود ایک دلچسپ چیز ہوتی تھی. انہی کوئز مقابلوں میں ہمارے فیس بک کے بہت پیارے دوست Abid Ali Baig اور انکے ساتھی ضیا الرحمن ضیاء اورمشہور محقق، کئی کتابوں کے مصنف،ادیب اور شاعر اور سب سے بڑھ کر ہماری فیس بک منڈلی کے سر پنچ Aqeel Abbas Jafri نے بھی اپنے کمالات دکھائے.
مباحثے ہماری تعلیمی زندگی کی دلچسپ ترین سرگرمی تھے ان مباحثوں میں کشور غنی اور منور غنی بہنین، دوست محمد فیضی، ظہورالحسن بھوپالی، زاہد حسین بخاری،اعجاز شفیع گیلانی، انور علی رومی اور عذرا شیرازی جیسے اردو اور انگریزی کے مقررین کا خطاب جس نے سن لیا اسے آج کل کے سیاسی رہنماؤ ں کے خطاب ایک عذاب محسوس ہوتے ہیں.
آج میں نے جن ہستیوں کا انتخاب کیا ہے وہ فن تقریر کے ماہر تو ہیں لیکن حرف آخر نہیں.
انہیں میں نے صرف بطور استعارہ شامل کیا ہے. آج کی ساری روداد کا اصل مقصد اس گذرے ہوئے سہانے وقت کو یاد کرنا تھا جو اب بھی ہم سب کے دلوں میں کہیں نہ کہیں کروٹ لیتا رہتاہے.
خوش گفتار و خوش جمال
پی ٹی وی کے مشہور پروگرام ضیاء محی الدین شو میں نامور اور منجھے ہوئے اداکار محمد علی مہمان تھے. کچھ دیر بعد ایک خوش لباس اور تیز وطرار لڑکی پروگرام میں شامل ہوئی.گفتگو میں کچھ نازک موڑ آئے تو اس دوشیزہ نے محمد علی صاحب کے چھکے چھڑوادیے.
لیکن اس پروگرام کے بعد سے خوشبخت عالیہ (موجودہ خوشبخت شجاعت) ہمیشہ خوش گفتار ایسی رہیں کہ..بولیں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں.
ان کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر وہ ایک انتہائی نفیس، شائستہ اور باوقار خاتون ہیں.
دور طالبعلمی ہی میں انہوں نے ضیاء شو کی طرز پر نوجوانو ں کیلئے پروگرام "فروزاں " کی میزبانی کی.
اس کے بعد خوشبخت عالیہ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آج وہ ان چند ایک سیاستدانوں میں سے ہیں جن کے دم سے تہذیب،شرافت اور وضعداری کا بھرم قائم ہے.
اور یہ سب دین ہے میرے شہر کے ان دنوں کی علمی روایات کی.
مقرر سے برادکاسٹر.
انہی دنوں میں ایک نام جامعہ ملیہ،ملیر سے ابھرا.
شفیع نقی جامعی ایک بہترین مقرر تو تھے ہی چنانچہ ان کے لئے جامعہ ملیہ کی اسٹوڈنٹ یونین کا صدر بننا کیا مشکل تھا.
ان دنوں اتوار کی صبح کراچی ریڈیو سے ایک بہت شاندار پروگرام "صبح دم دروازه خاور کھلا " نشر ہوتا تھا جسے محمد فائق اور پریوں جیسی صورت اور بلبل کی سی آواز کی مالک غزالہ ر فیق پیش کرتے تھے.
شفیع نقی نے اسی نوع کا پروگرام طلباء کیلئے شروع کیا جسکا عنوان تھا "شب کو ہے گنجینۂ گوہر کھلا"
مجھے نہیں یاد کے اس کے بعد شفیع نقی نے کیا مراحل طے کئے. بہت عرصہ بعد پہلے انکی پاٹ دار آواز بی بی سی پر سنی پھر ان کی بھاری بھرکم شخصیت کی زیارت بھی ہوگئی.
مجھے یہ دونوں اسی لئے عزیز ہیں کہ یہ بیتے ہوئے ان دنوں کی یاد ہیں "تنہائی جنہیں دہراتی ہے"
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔