میرے شہر والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔48
سید ھاشم رضا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے ٹی نقوی
خادم یا مخدوم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ٹھیک سے یاد نہیں، یہ ساٹھ کی دہائی کا کوئی سال تھا۔ کورنگی نمبر چار پر جہاں شاید اب بلدیہ لانڈھی کورنگی کی عمارت ہے وہاں کوارٹروں سے مین روڈ تک میدان ہوا کرتا تھا۔ اس میدان کے درمیان تقریباﹰ بلدیہ کی عمارت والی جگہ پر ہی، پنڈال لگے ہوئے تھے۔ سامنے میدان میں کورنگی لانڈھی کے اسکولوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہو رہے تھے۔ میدان کے ایک جانب دونوں طرف گملے رکھ کر ایک راہداری سی بناٗیئی گئی تھی جو مین روڈ تک جاتی تھی۔ راہداری کی دونوں جانب منتظمین ہاتھوں میں ہار لئے بے چینی سے کسی کے منتظر تھے۔ کافی دیر بعد ایک لمبی سیاہ کار جس پر سبز پرچم اسکی سرکاری حیثیت کا احساس دلا رہا تھا، دھول اڑاتی اور گرد و غبار کا طوفان بپا کرتی پنڈال کے سامنے ٓکر رکی۔ منتظمین چہرے سے گرد ہتاتے تقریباـ رکوع کی حالت میں کار کے ٓاس پاس کھڑے تھے۔ یکایک مائیک کے دھاڑنے کی ٓاواز ٓائی !! مہمان خصوصی کمشنر کراچی، عالیجناب روئیداد خان صاحب تشریف لے آئے ہیں۔!!!
گاڑی سے سوٹ بوٹ اور ٹائی میں ملبوس ایک صاحب بڑے کروفر کے ساتھ برٓامد ہوئے جنکی جاہ و تمکنت دیکھ کر صدر ایوب یاد ٓاگئے جنہیں سنیما میں ۔ پاکستان کا تصویری خبرنامہ۔ میں اسی انداز میں دیکھا تھا۔
ان سوٹ بوٹ والے صاحب کا رعب کچھ ایسا دل پر قائم ہوا کہ ٓاج تک اس مرعوبیت کی کیفیت سے نہ نکل سکا۔
بہت بعد میں کہیں جا کر پتہ چلا کہ انسانوں کی اس قسم کو بیوروکریٹ کہتے ہیں۔ جسکا اردو ترجمہ کہیں نوکر شاہی تو کہیں افسر شاہی لکھا ہوا دیکھا ۔ سرکاری زبان میں یہ البتہ سول سرونٹ یا پبلک سرونٹ کہلاتے تھے۔ ابتک سمجھ نہیں ٓایا کہ سرونٹ کے معنی ۔شاہی ۔ کیونکر ہوگئے۔
یہ وہ ہیں جنکے کاندھوں پر مملکت خداداد کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری ہے۔یہ بیک وقت، عوام کیلئے حاکم مگر صاحبان اقتدار کیلئے محض کارندے، جو مرغ بادنما کی طرح ہر حکمران کے رنگ میں اپنے ٓاپ کو ڈھال لیتے ہیں۔ سرکار چاہے عوامی ہو یا فوجی، اصل حکومت ان ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔رعایا کیلئے فولاد کی طرح سخت لیکن سرکار کےلئے بریشم کی طرح نرم جو اپنے ٓاقاوں کے سامنے گردن جھکاٗئے، ہاتھ باندھے، انکی ہر بات پر ٓامنا و صدقنا کہنے والی یہ مخلوق دراصل پس پردہ بادشاہ گر کا کردار ادا کرتی ہے۔ انکی کارکاردگی کی وجہ سے حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ کبھی کبھار حکمرانوں کی حرکت پر پردہ ڈالنے کیلئے انہیں قربانی کا بکرا بھی بنایا جاتا ہے اور معزولی، تنزلی یا تبادلہ ان کا مقدر بنتا ہے۔
یہ سول سروس تاج برطانیہ کی دین ہے۔ راج کے تین نمائندے، ڈپٹی کمشنر، مجسٹریٹ اور کپتان پولیس پورے ضلع کا نظم و نسق سنبھالتے اور شاہ یا ملکہ انگلستان انکی مدد سےپورے ہندوستان کو سنبھالتے۔
مملکت خداداد میں چند ایسے افسر گذرے ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ حکمرانوں کی جان ان کے اندر بند ہے۔ اچھا، برا، نیکنام یا بدنام کا فیصلہ ٓاپ پر ہے لیکن ہمارے یہان ایسے کئی سول سرونٹ گذرے ہیں جنکی رضا کے بغیر حکمرانوں کے حلق سے پانی بھی نہیں اترتا تھا۔
روٗیداد خان کو میں نے ذکر کیا، قدرت اللہ شھاب، الطاف گوہر، عزیز احمد، مختار مسعود اور ایسے کئی افسر گذرے جو کار سرکار میں خاصہ عمل دخل رکھتے تھے۔ شہاب صاحب کی ساری شہرت اور نیکنامی کے ساتھ ان کی ایوب خان کی قربت کی قیمت بھی جڑی ہوئی ہے۔
حفیظ جالندھری نے بھپتی کسی کہ
جب کہیں انقلاب ہوتا ہے
قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے
اور تو اور انکے عزیز دوست، صاحب طرز مزاح گو، سید محمد جعفری بھی کہے بنا نہ رہ سکے
یہ سوال و جواب کیا کہنا
صدر عالی جناب کیا کہنا
کیا سکھایا ہے کیا پڑھایا ہے
قدرت اللہ شہاب کیا کہنا
الطاف گوہر کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ ایوب خان کی کتاب، جس رزق سے ٓاتی ہو پرواز میں کوتاہی کے اصل مصنف وہی ہیں۔ سن پینسٹھ کی جنگ کی ایوب خان کی مشہور تقریر بھی الطاف گوہر کی مرہون منت ہے۔ خیر یہ تو انکے فرائض منصبی کا حصہ ہے۔
کوئلوں کی یہ دلالی ایسی ہے کی ہاتھ اجلے رکھنا نا ممکنات میں سے ہے۔
دھنک رنگ مسکان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یو پی کے ضلع اناؤ کے ایک اھل علم خانوادے کے فرزند سید ہاشم رضا میرے شہر کے پہلے منتظم اعلی یعنی ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ، ایک قابل منتظم، شاعر، ادیب اور دانشور سید ہاشم رضا مجھے صرف انکے چہرے کی ایک دائمی مسکراہٹ کے سبب یاد رہتے ہیں۔
ہاشم رضا میرے قائد کے بڑے قریب رہے۔ بابائے قوم کا ذکر ہو اور سید ہاشم رضا کہیں اور سنا کرے کوئی۔ اسی قربت اور اعتماد کا نتیجہ تھا کہ قائد نے انہیں نوزائیدہ مملکت کے دارلحکومت کا منتظم بنایا۔ یہ اعزاز بھی ہاشم رضا صاحب کے حاصل ہوا کہ انکی تجویز کردہ جگہ پر بابائے قوم کی ابدی ٓارامگاہ قائم کی گئی۔
انکے والد غیر منقسم ہندوستان میں جج تھے۔ بھائی سید ٓال رضا ایک قادرالکلام شاعرتھے۔ بیٹوں نے بھی خاندانی روایات کو قائم رکھا۔ بڑے صاحبزادے سلیم رضا، اسٹیٹ بنک ٓاف پاکستان کے گورنر، دوسرے بیٹے علی رضا نیشنل بنک ٓاف پاکستان کے صدر رہے۔
سید ہاشم رضا شعروادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ خود بھئ شعر کہتے تھے۔ اکثر انہیں مشاعروں کی صدارت کرتے دیکھا۔ انکی خود نوشت۔ہماری منزل، میں نے تو نہیں پڑھی لیکن مجھے یقین ہے کی ہماری تاریخ پر ایک مستند دستاویز ہوگی۔ کہ وہ خود بھی اس تاریخ کا حصہ ریے ہیں۔
وہ کئیقومی اداروں سے منسلک رہے، ترقی اردو بورڈ، قائد اعظم اکیڈمی، قومی سیرت کمیٹی اور ایسے کئی اداروں سے وابستگی انکی انتظامی صلاحیتوں کی مظہر ہے۔ یہان تک کے ایک زمانے میں مشرقی پاکستان کے قائم مقام گورنر بھی رہے۔
اج کے مویشی نما ، مطالعے سے بے بہرہ اور کوڑھ ذوق افسروں کو دیکھ کر سید ہاشم رضا جیسے، نفیس، نستعلیق ہستیاں بے تحاشا یاد ٓاتی ہیں۔
کیا نام نہ ہوگا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ اکثر کسی شخص کے ساتھ کسی بات یا واقعے کا ایسا لاحقہ جڑتا ہے کہ پھر ساری زندگی وہ صرف اسی حوالے سے یاد رہتا ہے۔
نجانے کیوں ہمارے رشتہ داروں میں اے ٹی نقوی کا ذکر ہمہشہ ایک ولن کے طور پر کیا جاتا تھا۔ بات یوں تھی کہ ہمارے ایک عزیز جو کسی زمانے میں پریس فوٹوگرافر تھے، انہیں کبھی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ ہماری برادری میں عموما شریف اور باکردار لوگوں کی اکثریت رہی ہے چنانچہ کسی کا گرفتار ہونا ایک اچنبھے کی بات تھی۔ ویسے وہ خدا نخواستہ کسی اخلاقی جرم کی پاداش میں نہیں پکڑے گئے تھے ۔ یہ قصہ میں اپنے چچا سے یوں سنتا تھا کہ رفیق بھائی نواب گورمانی کی جلتی ہوئی کار کی تصویر بنارہے تھے کہ گرفتار کر لئے گئے اور یہ کہ اس زمانے میں، اے ٹی نقوی ،کراچی کے چیف کمشنر تھے۔
مجھے اس کہانی کی صرف تین باتیں یاد رہیں، رفیق بھائی، گورمانی کی کار اور اے ٹی نقوی۔
نواب مشتاق احمد گورمانی کے بارے میں تو بہت کچھ ، شہاب نامہ، میں پڑھ لیا لیکن اے ٹی نقوی کے بارے میں ہمیشہ تجسس رہا۔ البتہ کہیں یہ پڑھا کہ وہ ایک جری، ایماندار اور راست گو افسر تھے۔ یہ بھی سنا ہے کہ انکے نام پرمیرے شہر میں کوٗی سڑک یا چورنگی بھی ہے۔ اور شاہراہوں اور چوراہوں کے نام تو نیک نام لوگوں پر ہی رکھے جاتے ہیں،
اے ٹی یعنی ابوطالب نقوی، تقسیم سے قبل ہی سول سروس سے وابستہ اور ایک قابل افسرتھے ۔ 1952 میں کراچی کے پہلے چیف کمشنر مقرر ہوئے، 1953 مین وہ واقعہ پیش ٓایا جسکا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ 1959 میں مارشل لا کی حکومت میں (جیسا کہ دستور ہے) معتوب ہوکر جبری ریٹائر ہوٗے ( اسی طرح جیسے بعد کے مارشل لا میں الطاف گوہر سمیت 313 افسر برطرف کئے گئے)
اب وہ قصہ بھی سن لیں جسے میں نے کچھ تو لوگوں سے سنا، کچھ یہاں وہاں سے پڑھا اور تھوڑا بہت ایک ٹی وی پروگرام میں معراج محمد خان سے سنا۔
پچاس کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں کراچی کی طلبہ سیاست بے حد متحرک تھی۔ زیادہ تر طلبا لیڈر ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھتے تھے، مرکز جس کا ڈاومیڈیکل کالج تھا جو کہ ہمیشہ سے بائیں بازو کے طلبا کا گڑھ رہا ہے۔
نوزائیدہ مملکت میں تعلیمی اداروں کی کمی اور طلباٗ کیلئے ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسے مسائل کے لئے لڑکوں نے ایک جلوس نکالا جو وزیر داخلہ نواب مشتاق احمد گورمانی سے ملکر ایک یاد داشت پیش کرنا چاہتے تھے۔ سرخیل ان طلبا کےحسین نقی تھے جنکے ساتھ منہاج برنا، فتحیاب علیخان اور میرے اور ٓاپ کے بہت محبوب اور معزز سرجن ادیب رضوی اوردوسرے کئی اسٹوڈنٹ لیڈر شامل تھے۔
صدر سے جلوس وزیراعظم ہاوس (موجودہ چیف منسٹر ہاوس)کے لئے روانہ ہوا۔ لیکن پیراڈائز سینیما کے پاس سامنے کیفے فردوس کے پاس کھڑی ہوئی پولیس نے جلوس کو ٓاگے بڑھنے سے روکدیا، طلبا بضد ہوئے تو ان پر لاٹھی چارج کیا گیا، مشتعل طلبا نے وہیں کہیں کھڑی ہوئی وزیر داخلہ گورمانی کی کار کو ٓاگ لگادی(وہی جس کی تصویر ہمارے رفیق بھائی لے رہے تھے) اس ٓاگ کے لگانیوالوں میں اپنے ادیب رضوی بھی شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ کمشنر اے ٹی نقوی کے حکم پر طلبا پر فائر کھولدیا گیا جس سے سات طلبہ اور ایک بچہ جان بحق ہوگئے۔
میرے شہر میں اس واقعے کا شدید رد عمل ہوا۔ شہریوں نے اگلے دن عام ہڑتال کا اعلان کردیا۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے حکم پر شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا، عوام ہی نہین ، دانشور، صحافی، اور شعرا بھی رنج و غم کے عالم میں تھے۔ فیض، مصطفےٰزیدی، سرور بارہ بنکوی نے ان معصوموں کی شہادت پر نظمیں لکھیں۔
جب بھی میں نے یہ واقعہ سنا ، اے ٹی نقوی کا زکر اسی طرح ٓایا۔ میرے باخبر احباب مجھے بتائیں کہ اے ٹی نقوی چوک یا اے ٹی نقوی روڈ کی کیا کہانی ہے۔
اے ٹی نقوی صاحب کی تصویر صرف عقیل عباس جعفری صاحب کی "پاکستان کرونیکل" سے مل سکی.
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔