“ارے بابو بھائی میرے ساتھ ایک رات کھارادر چلو” فاروق نے اپنی ہرروز کی دعوت دہرائی۔
“ تم کو آدھی رات کو گولہ گنڈا اور کاٹھیاواڑی چھولے کھلاؤں گا” فاروق نے کھارادر کی خصوصیت بتائی۔
فاروق پٹنی میرا بے تکلف دوست تھا۔ اسی نے مجھ سےدوبئی آنے سے پہلے کہا تھا کہ “ قادر ہوٹل میں کسی کو بھی بتانا کہ آپ فاروق پٹنی کے دوست ہو، پھر دیکھنا” ۔مجھے نہیں پتہ قادر ہوٹل والے میرے لیے کیا کرسکتے تھے۔
کھارادر تو میں نہیں جاسکا لیکن کچھ سالوں بعد جب میں کورنگی سے گلشن شفٹ ہوگیا تو حسن اسکوائر سے حیدر علی روڈ آتے جاتے دھوراجی سوسائٹی سے گذر ہوتا اور وہاں فاروق کے میمن بھائی واقعی آدھی رات کو گولہ گنڈا، رگڑا اور کاٹھیاواڑی چھولے بیچتے نظر آتے۔ یہاں فاروق کی طرح پان سے منہ لال کیے ہوئے میمن بھائی رات دو بجے مختلف تھڑوں پر چوپال جمائے بیٹھے نظر آتے۔کسی فلیٹ سے کوئی ڈپٹتی ہوئی زنانہ آواز آتی
“ اے حوریہ، اے جینب (زینب) اندر چل”
تو کسی تھڑے سے کوئی آواز لگاتا ۔ “ کرو آئے گپھاریا” ( کیا حال ہے غفاریا) ۔
اور یہ ستار یا، غفاریا، ذکریا کی آوازیں میں بچپن سے سنتا آرہا تھا۔ ہوش سنبھالا تو ہمارے کرائے کے گھر کے عین نیچے ایک میمن گھرانا رہتا تھا۔ رقیہ اور خدیجہ ان کی بیٹیاں میری بہن کی سہیلیاں تھیں تو ستار اور شمیم ان کے بیٹے میرے دوست تھے۔ پھر گھر کے بالکل سامنے کونے والے مکان میں “ حاجی” رہتا تھا۔ یہ میری عمر کا یعنی چھ سات سال کا تھا لیکن حاجی کہلاتا تھا۔ بہت سالوں بعد یہ حاجی مجھے دھوراجی میں بھی ملا۔ حاجی کے برابر یوسف کا گھر تھا اور یہ بھی میمن تھے۔ اور ان کے ساتھ والے گھر میں عاصمہ ماسی رہتی تھی جو گجراتی بوہری تھیں۔
میرے لیے یہ میمنی اور گجراتی بولنے والے کبھی اجنبی نہیں رہے بلکہ ایک اپنائیت سی محسوس ہوتی۔ ان کی زبان کے کئی الفاظ ہماری کوکنی سے ملتے تھے اور کیوں نہ ملتے، یہ بھی زیادہ تر ممبئی سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ میرے ابا گجراتی اور میمنی روانی سے بولتے تھے اور ایمپریس مارکیٹ کے دکاندار ان سے خصوصی رعایت برتتے۔ میں ان میمنوں کے ساتھ کھیل کود کر، پلا بڑھا ہوں۔ سوسائٹی میں یہ ہم کوکنیوں کے ساتھ ہی رہتے تھے اور ہمارے اور ان کے رہن سہن میں کوئی فرق نہیں تھا۔ مجھے ہمارا دوست “ گُلّا” یاد ہے جو ایک بڑے پیسے والے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن یار دوستوں پر جی بھر کے خرچ کرتا۔ گلّا یا غلام ویسے بھی دوسرے میمنوں سے الگ تھا۔ بہترین گاڑیوں میں گھومتا، بہترین کپڑے پہنتا اور اس زمانے میں یعنی ساٹھ ستر کی دہائی میں ہم اس کے ہاتھ میں “ تھری فائیو” “ بینسن اینڈ ہیجز” یا “ ڈنہل” کے پیکٹ دیکھتے اور وہ فراخ دلی سے پیکٹ کھول کر دوستوں کو سگریٹ پیش کرتا رہتا۔ نیشنل اسٹیڈیم میں میچ ہوتا تو پانچوں دن وی آئی پی یا پلئیرز انکلوژر میں میچ دیکھتا اور کسی نہ کسی مشہور کھلاڑی سے اس کا بیٹ ضرور خریدتا۔
میں نے پہلے بھی کہیں ذکر کیا ہے کہ میں پڑھائی میں اتنا برا نہیں تھا گو کہ میں نے میٹرک آرٹس سے کیا تھا لیکن فرسٹ ڈویژن سے کیا تھا۔ لیکن میرے چھوٹے چچا کا خیال تھا کہ آرٹس کے ساتھ مجھے صرف اسلامیہ یا نیشنل کالج میں داخلہ مل سکتا ہے۔ “ گورنمنٹ کامرس اینڈ اکنامکس “ جہاں سے خود چچا نے پڑھا تھا، وہاں تو مجھے داخلہ ملنا “مشکل ہی نہیں ناممکن تھا”۔
لیکن میں سب سے پہلے گورنمنٹ کامرس ہی جا پہنچا جہاں “ پروفیسر ذکریا میمن” داخلہ فارم دے رہے تھے اور انٹرویو کررہے تھے۔
“ اکنامکس تھی آپ کے پاس ؟ “ میمن صاحب نے پوچھا۔
“ جی”
“ کیا پرسنٹیج تھی؟”
میں نے پرسٹیج بتائی۔۔انہوں نے فارم آگے کردیا۔ تین دن بعد کالج آکر دیکھا تو نوٹس بورڈ پر داخل شدہ طلبا میں اپنا نام دیکھ کر میں خود بھی حیران ہوگیا۔ زندگی بھر چھو ٹے موٹے اسکولوں میں دھکے کھاتا رہا تھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ کراچی کے سب سے بہترین کامرس کالج میں مجھے ، آرٹس، کے لڑکے کو داخلہ مل جائے گا۔ چچا بھی اسے آٹھواں عجوبہ قراد دیتے تھے۔
“ السلام علیکم، میرا نام بشیر جمعہ میمن ہے” جس دن کالج میں باقاعدہ قدم رکھا تو گیٹ پر جمیعت کے لڑکے نئے طلبہ کی رہنمائی کے لیے موجود تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ بشیر، ذکریا میمن صاحب کا بھائی بھی ہے۔ بشیر ہم سے ایک سال سینئر تھا۔ اگلے تین سال ہر قدم پر بشیر نے ساتھ دیا۔ سنا ہے بشیر نیشنل بنک کی کسی ذیلی مالیاتی ادارے کا سربراہ ہوگیا تھا۔ لیکن مجھے تو کسی نے “ ٹائم مینیجمنٹ” پر ایک معرکتہ الآرا کتاب دی تو مجھے بشیر جمعہ میمن یاد آیا جو ایسی کئی کتابوں کا مصنف بھی ہے۔
گورنمنٹ.کامرس کالج میں تین یا چار برادریاں بہت نمایاں تھیں ۔ سب سے زیادہ تعداد تو میمن طلبا و طالبات کی تھی، پھر چنیوٹی، پارسی اور دہلی سوداگران والوں کی تھی۔ میری کلاس میں اسلم کلوڑی تھا جس کا بھائی اکرم کلوڑی بھی جمیعت کا رہنما تھا۔ یہیں سے ایک اور میمن “ محمد حسین محنتی “ جنہوں نے میٹرک، انٹر اور بی کام میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی یہ بھی گورنمنٹ کامرس میں پڑھتے تھے۔ “ محنتی” میرے چچا کے بیچ کے تھے اور آج کل شاید جماعت اسلامی سندھ کے امیر ہیں۔
اور کالج کے دنوں میں ، میں اپنی دادی کے پاس کوکن سوسائٹی میں رہتا تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک “گھانچی میمن” فیملی رہتی تھی اور ان کے ہاں ایک مزیدار قسم کا لڑکا آیا کرتا تھا۔ بعد میں تو اس نے کراچی ٹیلیویژن پر دھوم مچادی۔۔ جی ہاں یہ تھا ، ففٹی ففٹی، والا “ اسمعیٰل تارا”۔
تارے کی بڑی مزیدار حرکتیں ہوتی تھی۔ ۔ کبھی فرصت ملی تو بتاؤں گا۔ وہ آس پاس رہنے والوں کی حرکات وسکنات پر نظر رکھتا اور پھر ہم اسے ففٹی ففٹی میں یہی حرکتیں کرتے دیکھتے۔ وہ جو بنگالی نیند سے اٹھ کر رال پوچھتا ہوا کہتا ہے “ خودی آٹھ گیا” اور ففٹی ففٹی کے ٹائٹل میں “ ون وے ٹکٹ”والے گیت پر دودھ کی کڑھائی مانجھتے جو دھوتی پہنی ہے، اس کے بڑے مزیدار قصے ہیں۔
یہ جو ہمارے بھائی لوگ میمنوں کا مذاق بناتے ہیں انہیں اندازہ نہیں کہ میمن کس قدر زندہ دل لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ یہ خود پر ہنستے ہیں۔ اگر دوسروں کا مذاق بنانا فن کی معراج ہوتا تو یہ اسمعیٰل تارا، ، رزاق راجو اور رؤف لالہ مذاق اڑانے والوں کا جینا دوبھر کرسکتے تھے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ میمن قوم کی بہترین خصوصیات کا ہم تمسخر اڑاتے ہیں۔ وہ خصوصیات جو انہیں پاکستان میں بسنے والی کئی قوموں اور برادریوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ آئیے میں بتاؤں کو وہ کیا وصف ہیں جو ان میمنوں میں ہیں اور ہم میں نہیں۔
میمن ایک خدا ترس، خوف خدا رکھنے والی ، دیندار اور اسلام سے محبت کرنے والی برادری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آپ کو جماعت اسلامی میں بھی نظر آئیں گے، تبلیغی جماعت میں بھی ملیں گے تو دعوت اسلامی والوں کے ساتھ ہری پگڑی میں بھی نظر آئیں گے۔ الیاس قادری عطاری اور ان کے پیرو کار بہت سوں کے نزدیک ایک مسخرہ کردار کے حامل نظر آتے ہیں لیکن میں اسے اس طرح دیکھتا ہوں کہ دین کی تڑپ نے انہیں اپنے فہم اور شعور کے مطابق اس جانب راغب کیا ہے۔ ان کے اور تبلیغی جماعت یا جماعت اسلامی کے کارکنوں میں ایک چیز مشترکہ ہے اور وہ ہے اخلاص اور دین کی محبت۔ایسی ہی محبت رسول کی مثال قاری صدیق اسمعیٰل میمن تھے جن کی عشق حبیب میں ڈوبی پرسوز آواز سیدھی دل میں اترتی تھی۔
میمنوں کا دوسرا مذاق یہ بنایا جاتا ہے کہ یہ ایک کاروباری ذہنیت کی اور کنجوس مزاج قوم ہے۔ ان پر لطیفے بنائے جاتے ہیں جس طرح شیخوں اور یہودیوں کے لطیفے بنائے جاتے ہیں۔ شیخ برادری کے بارے میں مجھے معلومات نہیں ہیں لیکن میمنوں کے بارے میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ سب سے زیادہ سخی اور فراخ دل قوم ہے۔ ہاں فضول پیسہ لٹانا، اور محنت اور وسائل کا ضیاع ان کے ہاں نا پسندیدہ ہے۔ یہ پاکستان کی متمول ترین برادری ہے لیکن ان کے ہاں سب سے زیادہ سادگی نظر آئے گی۔ یہ ان نودولتیوں اور ناجائز طریقوں سے راتوں رات دولتمند بن جانے والوں کی طرح نہیں ہیں جو اپنی پر تعیش زندگی کی نمائش کرتے پھرتے ہیں۔
یوسفی صاحب نے ایک جگہ پروفیسر عبدالقدوس کے حوالے سے لکھا کہ ایک سادے سے لباس والے سائل کو انہوں نے بنک سے دھکے دے کر نکلوا دیا لیکن جب بورڈ کی میٹنگ میں ایسے حلیے والوں کو چئیرمین کی کرسی پر بیٹھے دیکھا تو پھر ہر اس طرح کے شخص کی توقیر کرنے لگے۔ بظاہر تو یہاں طنز ہی ہے لیکن یہ سادے اور میلے کچیلے لباس والے وہی میمن ہیں جن کا ملیشیا کی قمیض، خاکی پتلون اور میلی چیکٹ جناح کیپ پہنے والا ایک بزرگ پاکستان کی معتبر ترین ہستی رہا ہے ۔ جس کی وفات پر صدر پاکستان، چاروں صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلا، بری بحری اور فضائی افواج کے سربراہان اس کے جنازے میں شریک ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ اس فرشتہ صفت درویش یعنی عبدالستار ایدھی کی میت فوجی گاڑی میں قبرستان لے جائی گئی تھی۔ اب اس میمن کو بھی آپ کنجوسی کا طعنہ دیں جو اربوں روپے کے فنڈز کا نگران ہونے کے باوجود کھاٹ پر بیٹھ کر دال روٹی کھایا کرتا تھا۔
اور یہ کنجوس میمن ہی تھے جو اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ کر آئے لیکن اپنی کاروباری فراست سے اس نوزائیدہ مملکت میں صفر سے کاروبار شروع کرکے اس انتہا تک پہنچے کی اس ناتواں ملک کو اس وقت سہارا دیا جب اس کے خزانے میں کچھ نہیں تھا۔ یہ عبداللہ ہارون، یہ احمد داؤد، یہ آدم جی، یہ باوانی، غلام محمد فیکٹو، ہارون میکر یہ اور بے شمار دوسرے میمن تھے جنہوں نے اس ملک کی بنیادوں میں اپنے خون پسینے کی کمائی رچ دی۔ انہی میں وہ عبدالرزاق یعقوب بھی ہے جس نے ایک سو پچاسی ملین ڈالر اس وقت اس ملک کے خزانے میں داخل کئے جب یہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔
ہماری فلموں نے غیرت کا مطلب یہ سکھایا ہے کہ گنڈا سا لے کر دھاڑتے رہو کو “اؤے اسی غیرتاں دے راکھے آں” ۔ اور ان غیرتمند وں کا حال یہ ہے کہ دنیا بھر کے آگے ہاتھ پھیلائے طرح طرح سے بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ انہیں غیرت کی اصل مثال دیکھنی ہو تو ان میمنوں کو دیکھیں جن کی برادری کا ایک بھی بندہ کہیں بھی ہاتھ پھیلائے نظر نہیں آئے گا، ان کی بیوہ عورت پاپڑ بیچ لے گی لیکن کبھی دست سوال نہیں دراز کرے گی۔ اور انہیں یوں بھی کسی کے سامنے جھکنے اور ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ایک دوسرے سے جڑے، بندھے رہتے ہیں۔ ان کی کتیانہ، بانٹوا، او کھائی، کچھی، کاٹھیاواڑی اور پتہ نہیں کون کون سی جماعتیں اپنی برادری کے ایک ایک فرد کا خیال رکھتی ہیں۔ باہمی اتحاد ان کا خاصہ ہے۔ باہم مل جل کر رہنا اور ایک دوسرے کی دادرسی کرنا۔ ہمارا دین بھی تو یہی سکھاتا ہے۔
ٹھیلوں اور خوانچوں سے کھانا ہمیشہ خطرناک رہا ہے لیکن آپ کسی بھی میمن کے ریڑھے پر کھڑے ہوکر اطمینان سے کاٹھیاواڑی چھولے کھا سکتے ہیں کہ وہ صفائی کا ویسا ہے خیال رکھے گا جیسا اپنے گھر میں رکھتا ہے۔ ( یہ بہت پہلے کی بات بتا رہا ہوں، آج کل کا مجھے علم نہیں )صفائی کے علاوہ ان میمنوں کی ایک اور خاصیت ہے اور وہ ہے ، حیا۔ آپ ان کی عورتوں کو کبھی نامناسب لباس میں نہیں دیکھیں گے۔ گھر میں تو ان کا لباس سادگی اور شرم وحیا کا مرقع ہوتا ہے۔
کاروباری سوجھ بوجھ میں یہ برادری سب سے آگے نظر آئے گی۔ کوئی ایسا کاروباری گر جو ایک میمن نہیں جانتا، اس قابل نہیں ہے کہ اسے جانا جائے۔ پاکستان کی صنعت و تجارت کو توانائی بخشنے والے یہ میمن ہر میدان میں نمایاں نظر آئیں گے چاہے وہ ٹیکسٹائل کا شعبہ ہو، جہاز رانی ہو، کیمکلز کی صنعت ہو، بینکنگ اور انشورنس ہو۔ میمن سب سے آگے ملیں گے کیونکہ وہ دولت کی قدر کرنا جانتے ہیں اور رب بھی انہیں نوازتا ہے۔ فضول،خرچی سے بچتے ہیں اور جانتے ہیں کہ دکھاوے سے بچنا اور کفایت شعاری اختیار کرنے اور اپنی چادر کے برابر پاؤں پھیلانے میں ہی عزت اور کامیابی ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں یہ میمن آپ کو نظر آئیں گے لیکن بغیر کسی طمطراق اور شو شا کے۔۔
شوبز ہو یا سیاسی ٹاک شوز ، یا میدان سیاست ہی کیوں نہ ہو۔ سندھ کے گورنر محمود ہارون ہوں، یا اشرف ڈبلو تابانی ، یہ رشید گوڈیل یہ فاروق ستار، یہ ماروی میمن، یہ ماریہ میمن سب میمن ہی ہیں ۔ اب یہ سیاست چیز ہی ایسی ہے کہ اس میں نیک نام رہنا آسان نہیں لیکن نیک نامی کے کاموں بھی سب سے نمایاں میرے میمن بھائی ہی نظر آئیں گے۔ حاجی حنیف طیب، ، سیلانی اور نہ جانے کتنے رفاہی ادارے بھوکے لاچاروں کی دادرسی کرتے نظر آئیں گے۔
پہلے کبھی ہم میمنوں کے لہجے سے انہیں پہچان جاتے تھے۔ معین اختر نے میمن کی لازوال اداکاری کی۔ یہ لہجہ اب بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ دھوراجی سے گذرتے ہوئے “ اے ستار یا، اے گپھاریا، اے جکریا کی آواز اب بھی کانوں میں رس گھولتی ہے لیکن اب ہمارے میمن بھائی بہترین صاف ستھرے لہجے میں اردو بولتے نظر آئیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ اب تو شعر وادب کے میدان میں اہل زبان کے شانہ بشانہ ملیں گے۔ حال ہی میں میرے بہت پیارے دوست اقبال اے رحمان نے کراچی کی تاریخ پر ایک نہایت دلچسپ ، پرمغز اور ضخیم کتاب لکھی ہے جو ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور بھی کئی میمن دوست افسانہ نگاری اور شاعری کے میدان میں جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔
اللہ کے کلام میں لفظ “ میمن” ہمیشہ اچھے معنوں میں آتا ہے۔ مجھے نہیں علم کہ میمن برادری کا اس لفظ سے کوئی تعلق ہے یا نہیں لیکن میمنوں کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید کوئی تعلق ہو۔ جب میں پڑھتا ہوں “ فَاَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَآ اَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ (8)
پھر داہنے والے کیا خوب ہی ہیں داہنے والے۔( الواقعہ)
ہمارے میمن بھی واقعی بہت خوب ہیں۔