وقت کے ساتھ ساتھ فیشن,نظریات , ادب اور رسم و رواج میں تبدیلی آتی رہتی ہیں۔
آپ شادی بیاہ کی رسم کو ہی لے لیں لڑکی کو اس کی شادی سے سات دن پہلے ایک کمرے میں مایوں بٹھا دیا جاتا تھا .. اس کی بہت سی وجوہات تھیں مگر ایک وجہ برادری میں یہ بتانا ہوتا تھا کہ اگر کوئی رشتے دار ناراض ہے تو بتا دے ہمارے پاس سات دن ہیں اس کو منانے کے لیے ،،.
اور پھر سات دن ڈھولکی بجتی تھی ، بچیاں ، جوان اور بوڑھی عورتیں گانے گاتیں اور ڈانس کرتیں. ان گانوں میں زیادہ تر فوک گیت ہوتے تھے اور شگنوں کے گیت ہوتے تھے .ایک بات اکثر دیکھنے میں آئی کہ جس عورت یا لڑکی کو گانے یا ڈانس کے لیے کہا جاتا پہلے تو وہ دو تین بار انکار کرتی پھر جب شروع ہوتی تو ہٹتی ہی نہیں تھی .. خاص طور پہ بوڑھی عورتیں اپنی تھر تھراتی آواز میں رومانوی فوک گیت گاتی اور جب اس بوڑھی عورت کو چار پانچ لڑکیاں پکڑ کر اٹھا کر کھڑا کرتیں تو وہ ٹهمکا لگا کر پھر گر پڑتی تو سارا کمرہ قہقہوں سے گونج جاتا . اب تو لڑکی آخری دن تک اپنی شاپنگ کرتی پھرتی ہے اور لڑکیاں ویڈیو چلا کر اس پہ ڈانس کر لیتی ہیں ۔۔
ایسی ہی ایک تقریب میں ایک بوڑھی عورت لمبا سا گھونگٹ نکالے ماتھے پہ ہاته مارتے اک فوک گیت گاتی جس میں وہ اپنے خاوند کو کہتی ہے
" وے گُر دتے دا لالہ
مینوں پہلا چڑیا
میں مردی جاواں شاوا
میرے کلیجے پیڑ شاوا
میرے سینڈل کی میری سوکن پاسی
گیت کا مفہوم یہ یے کہ عورت حاملہ ہوچکی ہے اور وہ اپنے خاوند کو رورو کے اور ماتم کرتے کہہ رہی ہے کہ اگر بچے کی پیدائش پہ میں مر گئی تو میرے بعد کیا,میرے سینڈل میری سوکن پہنے گی .
اس طرح وہ پورے نو مہینے گنواتی ہے اور ہر مہینے میں کبھی اپنے زیور کبھی اپنے کپڑوں کبھی اپنے میک اپ اور کبھی اپنے سینڈلوں کا ذکر کرتی ہے کہ کیا,میرے مرنے کے بعد میری یہ چیزیں میری سوکن استعمال کرے گی ۔۔
مگر جناب نوشی بٹ نے تو کمال کر دیا
پچھلے ہفتے اس کا پتے کا آپریشن ہوا تھا . اس کے گھر والے دوست احباب پریشان تھے مگر مجال ہے جو پریشانی کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی نوشی کے چہرے یا اس کی آواز سے ظاہر ہوئی ہو… آپریشن جمعرات کو تھا مگر اسے منگل کو ہی ہسپتال داخل کر لیا تھا کہ آپریشن سے پہلے دوایاں دینا ضروری تھا .. نوشی اپنا بیگ تیار کر کے ہسپتال پہنچ گئی اور جب اسے بیڈ مل گیا تو میں نے اسے خیریت کے لیے فون کیا تو اس نے جلدی سے خیریت بتاکر کہا
باوا جی دس منٹ بعد فون کرنا
بس پھر کیا تھا ہر دس منٹ بعد اس کی نئے لباس میں سیلفیاں آنا شروع ہوگئیں
میں نے دوبارہ فون کیا اور پوچھا
نوشی یہ تم کیا کر رہی ہو تم آپریشن کرانے آئی ہو یا کسی فیشن شو میں آئی ہو اور یہ مختلف لباسوں میں سیلفیاں کیوں بنا رہی ہو
تو نوشی صاحبہ نے ارشاد فرمایا
باوا,جی میں بہت ڈری ہوئی ہوں کہ پتا نہیں آپریشن. میں میرے ساتھ کیا ہو . پتا نہیں میں بچ بھی پاوں گی یا نہیں
اور سوچ رہی ہوں کہ اگر آپریشن کے دوران میں مر گئی تو یہ کپڑے جو میں نے اتنے شوق سے سلوائے ہیں پتا نہیں کون پہنے ، لہذا,بہتر ہے مرنے سے پہلے میں ہی سارے کپڑے پہن کر اپنا شوق پورا کر لوں..
اور سیلفیاں اس لیے بنائی ہیں کہ میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کے پاس میرے ہر لباس میں میری تصویر ہو
اور باوا جی تم کو اس لیے سیلفیاں سینڈ کیں کے دوستوں کے پاس بھی ہو
اس,وقت تو بندہ یہی کہہ سکتا ہے
لو کرلو گل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...