اب مصبیت یہ ہے کہ اگر آپ اکیلے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ آپ لوگوں کو کمپنی بھی دیں. یہ ایک ایسا ناگوار فریضہ ہے جو آپ کو ہر حال میں انجام دینا ہے. بےزاری سےچاہے آپ کا دل اپنا بال نوچنے کا ہی کیوں نہ کر رہا ہو مگر چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ آپ کو ہاں ہی کہنا ہے، کیونکہ آپ سے یہی توقع کی جاتی ہے. یہی واحد آپشن ہے آپ کے پاس. خاص کر میرے جیسے لوگ جن کو “نہیں” نہیں کہنا آتا ہے. ان کی تو زندگی ہی اجیرن ہے. تنہا شخص کے متعلق عمومی خیال یہی ہے کہ وہ ویلا ہے، بالکل فارغ ہے. بدقسمتی سے اگر آپ جوائنٹ فیملی سسٹم میں ہیں تو پھر تو پوچھئے ہی مت. سوائے آپ کے ہر شخص آپ کے وقت کا مختار ہے. میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے.
یہ گھر چونکہ میرے ماں باپ کا ہے تو پہلے جب تک بھائیوں کی شادیاں نہیں ہوئیں تھیں، گھر پر کلی طور پر میرا اختیار تھا پھر بھابھیاں آتیں گئ اور میرا دائرہ اختیار سکڑتا گیا. اب ماں باپ بھی نہیں اور میں زمہ داریوں میں گھرے بھائیوں کی من چاہی بہن بھی نہیں سو اب میں اپنے کمرے تک محدود ہوں. میرا اختیار صرف ہاں میں ہاں ملانے کی حد تک ہے. میں وہ صفر ہو جو کسی بھی عدد کے بعد آ جائے تو اس کی قیمت بڑھا دیتا ہے. اس کی اہمیت میں اضافہ کر دیتا ہے مگر اپنی ذات میں وہ کم حیثیت اور بے مایا ہی رہتا ہے. تو میرا بھی یہی حال ہے جب جس بھابھی کو ضرورت ہوتی مجھے گھسیٹ کر اپنے ساتھ ملا کر اپنی قیمت بڑھا لیتی ہیں. ورنہ اکیلے میں میں وہی بے مصروف اور بے مول صفر ہوں. میری کمزوری کہ مجھے نا کہنا نہیں آتا مگر شاید یہی وصف میری سو کالڈ عزت برقرار رکھنے کا باعث بھی ہے. ورنہ ایک بڑی عمر کی طلاق یافتہ نند کس کو برداشت ہے.
میکہ جب تک ماں باپ ہوتے ہیں تب ہی تک ہوتا ہے بعد میں تو پھر! بس اب رہنے ہی دیجئے . یہ تو شکر ہے پروردگار کا کہ میری دونوں بھابھیاں اچھے وضع دار گھرانوں کی ہیں. کچھ رکھ رکھاؤ اور ادب آداب ان کی تربیت کا حصہ ہے ورنہ آج کل تو جوتے میں دال بٹتی ہے. اب تو خیر عمر کا اخیر ہی آ لگا ہے. میری عمر (غیر) عزیز بھی ساٹھ کے عشرے کو تقریباً طے کرچکی ہے. پر جانے ابھی اور کتنا بھوگنا ہے. میں کسی کو الزام بھی نہیں دے سکتی کہ یہ تنہائی اور بن باس میرا اپنا فیصلہ اور انتخاب تھا. انسان بھی بعض اوقات کیسی کیسی حماقت کر جاتا ہے؟ یہ جو کمبخت بائیں پہلو میں دل ہے نا سارا فساد ہی اس ناہنجار کا ہے. کہنے کو یہ ایک چھوٹا سا مٹھی بھر گوشت کا لوتھڑا ہے مگر قیامت ہے آفت ہے.
اس طویل تمہید کا پس منظر یہ ہے کہ مجبوراً مجھے اپنی بھتیج بہو کے ساتھ بازار جانا پڑ رہا ہے اور شوپنگ اور شوپنگ سینٹرز سے مجھے شدید کوفت ہے . مگر وہ ہی ازلی مجبوری کہ “نا”کا آپشن نہیں ہے اور بقول دنیا کے
ارے! آپ تو اکیلی ہیں، آپ کو کرنا ہی کیا ہے؟
میں تین بھائیوں کی اکلوتی چھوٹی بہن، ماہ جبین ہوں. میں حسین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ کی آنکھوں کی روشنی اور دل کا سرور تھی. بھائیوں کی لاڈلی اور من مانگی مراد بھی. ان دنوں زندگی دھنک رنگ رنگی تھی اور میں دکھ کی “د” سے بھی واقف نہیں تھی. زندگی ابھی تک پر مسرت تھی گو کہ مشرقی پاکستان کا سیاسی آسمان ابر آلود تھا. فضا میں اب پہلی جیسی شانتی اور آسودگی نہیں تھی. آپس کا حسن سلوک اور بھائی چارہ مفقود تھا. اعتماد اور بھروسہ کم یاب تو تھے مگر قیامت پھر بھی بہت دور لگتی تھی. دل مانے کو تیار ہی نہیں تھا کہ محبت کا یہ امرت دھارا خشک بھی ہو سکتا ہے؟ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بنگال کی ہریالی کبھی خون کی لالی سے گدلا جائے گی؟ گھر میں عجب سی سیاسی کشمکش اور کشیدگی تھی. منجھلے بھیا شیخ مجیب کے حامی تھے اور بنگالیوں کے ساتھ مغربی پاکستان کی روا نا انصافیوں اور متعصبانہ روئیے پر گھنٹوں بول سکتے تھے. منجھلے بھیا سول انجینئرینگ کر رہے تھے. بڑے بھیا ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم. اے معاشیات کے فائنل ایر میں تھے اور چھوٹے بھیا جن کو سب کاکا کہتے تھے ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سکینڈ ائیر میں تازہ تازہ آئے تھے اور اپنی پڑھائی کو بہت سنجیدگی سے لیتے تھے. کاکا بھیا بہت سلجھے ہوئے خاموش اور مسکین طبع انسان تھے.
اکثر رات کے کھانے کے بعد گھر میں سیاسی بحث چھڑ جاتی اور بڑے اور منجھلے بھیا کی گرما گرم بحث گھر کی فضا کو قدرے مکدر کر دیتی. امی بیچاری دونوں بھائیوں کو تحمل کی تلقین کرتیں اور ماحول کے تناؤ کو متعدل. بڑے بھیا سنجیدگی سے ابا میاں کو ڈھاکہ سے کاروبار کراچی منتقل کرنے کا مشورہ دیتے اور منجھلے بھیا اسی شدت سے اس خیال کی مخالفت کرتے. ان کا موقف تھا کہ یہ میرا ملک ہے، میری جنمو بھومی ہم کیوں اپنی جگہ چھوڑیں؟ مگر ابا میاں بڑے بھیا کی بات کو وزن دیتے ہوئے کاروباری جائزے کے لئے کراچی چلے گئے تھے اور اس بات سے منجھلے بھیا ناراض ہو کر احتجاجاً اپنے بچپن کے جگری دوست امین الاسلام کے گھر چلے گئے. کاکا بھیا اور امی بڑی مشکلوں سے ان کو منا کر گھر واپس لایے.
میں قدرے لاابالی مزاج کی تھی. سیاست سے کوسوں دور اپنی کتابوں اور خیالوں کی دنیا میں مگن. ریڈیو سیلون کا بیناکا گیت مالا میرا پسندیدہ تھا اور امین سیانی کی زبردست مداح. سنیما کی شوقین اور ہر جوان جزباتی لڑکی کی طرح وحید مراد اور زیبا کی شیدا. گلشن میری نوکرانی، میں اس کے ساتھ مہینے میں ایک فلم لازمی دیکھنے جاتی تھی. کبھی کبھی اس پروگرام میں کالج کی سہیلیاں بھی شریک ہو جاتیں پر امی کی ترجیح یہی ہوتی کہ بس میں اور گلشن ہم دونوں ڈرائیور چچا کے ساتھ جائیں. امی سہیلیوں سے زرا فاصلے کی قائل تھیں سو سمجھئے کہ میری سہیلی اور نوکرانی سبھی کچھ گلشن تھی. گلشن امی کو جہیز میں ملی خادمہ شکورن جو میری کھلائی بھی تھیں کی بیٹی تھی. ہم دونوں تقریباً ہم عمر تھے اور ساتھ ہی پلے بڑھے تھے. میں ہولی کراس کالج میں سکینڈ ایر کی اسٹوڈنٹ تھی اور گلشن نے آٹھویں کے بعد رو دھو کر پڑھائی سے جان چھڑا لی تھی. پڑھائی کی میں بھی کوئی بہت شوقین نہ تھی پر بڑے بھیا کے اصرار پر پڑھائی کا سلسلہ لشٹم پشٹم چلتا رہا.
یہ سیکنڈ ائیر کی بات ہے جب میرا رشتہ شہر کے ایک بہت متمول گھرانے سے آیا. لڑکے کی بہن اسی کالج میں بے. اے فائنل کی طالبہ تھیں اور کالج کے میلاد میں انہوں نے مجھے نعت شریف پڑھتے دیکھا اور اپنے بھائی کے لیے منتخب کر لیا. اب ان کے بھائی بھی عالم میں انتخاب تھے. پورے ڈھاکہ میں اس خاندان کا شہرہ تھا. شرافت، نجابت اور دولت ان کے گھر کی باندھی تھی. بڑے طمطراق سے رشتہ آیا. صرف بڑے بھیا اس وقت شادی کے لئے راضی نہیں تھے کہ ان کی خواہش تھی کہ میں بی. اے کروں. مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے. گھر کے باقی تینوں افراد اس رشتے پر دل و جان سے فدا تھے اور اس رشتے کو میری خوش قسمتی گردانتے تھے. رہ گئی میں، تو کم عمری کی اپنی ہی معصومیت اور بےخبری ہوتی ہے اور پھر اٹھارہ سال کون سی ایسی جہاں دیدہ عمر ہے؟ گھر کا ماحول بھی وضع دارانہ تھا اور کچھ وہ زمانہ( آج سے انچاس پچاس سال پہلے) بھی پردہ دار اور شرم لحاظ والا تھا . سب نے میری خوش قسمتی کا اتنا راگ الاپا کہ میں بھی اس بات پر ایمان لے آئی. جب بر دکھوئے کے لیے ایوب آئے تو گلشن کی تدبیر سے میں نے بھی انہیں دیکھ لیا مگر نقصان یہ ہوا کہ پھر میرا دل میرا نہیں رہا بلکہ ان کا شیدا بن گیا. دل کی بےاختیاری بڑی مہلک ہوتی ہے. کیسا امتحان اور کدھر کی پڑھائی؟ سب جانے کس کونے میں اوندھائی. جیسے تیسے امتحان دیا. معجزہ ہی تھا کہ میں پاس ہوگئ . امتحان کے دو ماہ بعد عید کے چاند پر شادی ٹھہری. میں خوبصورت تو تھی مگر بقول گلشن اب تو مجھ پر نظر نہیں ٹھہرتی تھی. محبت کی آگن نے مجھے اچھوتی جوت دے دی تھی. میں خود آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر شرما جاتی تھی. محبت نے ایک عجب جلا اور موہنہ پن عطا کر دیا تھا.
بڑے اعلیٰ پیمانے پر شادی ہوئی. میری بری مثالی تھی. بڑی بوڑھیوں کا کہنا تھا ایسی بری تو جدی پشتی رئیسوں کے یہاں سے آیا کرتی تھی. ابا میاں نے بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر شادی کے انتظامات کئے . انیس سو ستر کے موسم بہار میں جب کرشنا چوڑا اپنے پھولوں سے دھک رہا ہوتا ہے، فضا رجنی گندھا اور چمپا کی خوشبوؤں سے عطر بیز ہوتی ہے ایسی مدھر مست رت میں میری شادی ہوئی. میں بیاہ کر پرانے ڈھاکے ان کی حویلی میں اتری. رخصتی کے بعد رسموں کا ایک طویل سلسلہ تھا جس نے تھکا مارا. کہیں فجر کے قریب مجھے حجلہ عروسی پہنچایا گیا اور اذانوں کے بعد ایوب کمرے میں آئے. ایوب کو میں نے گھونگھٹ کی اوٹ سے دیکھا اور نئے سرے سے اپنی خوش قسمتی پر رشک کیا. کیا حسن اور بانکپن عطا کیا تھا ان کو بنانے والے نے. پتہ نہیں ان کا نام ایوب کس نے رکھا تھا؟ ان کو تو صرف اور صرف ایک ہی نام سجتا تھا اور وہ تھا “یوسف”.
میں نے تو سوچ لیا تھا کہ میں ان کو یوسف ہی بلاؤ گی. میرے کان اپنے حسن کی مدح سرائی کے منتظر تھے کیونکہ آج آئینے اور گلشن نے مجھے یقین دلایا تھا کہ میں کسی حور و شمائل سے کم نہیں. سہیلیوں کا مشترکہ خیال تھا کہ ایوب میرے جلوے کی تابناکی سے گھائل و بسمل ہو جائے گے. مگر ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا. انہوں نے گھونگھٹ اٹھایا، رسمی سی تعریف کی، گویا جملے اگل دئیے اور جڑاؤ کنگن منہ دکھائی کے نام پر میری ہتھیلی پر دھر کر تھکن کی شکایت کرتے ہوئے کپڑے بدلنے کے لئے ڈریسنگ روم چلے گئے. میں ششدر بیٹھی کی بیٹھی رہ گئ. دل اپنی بے توقیری پر بلکتا ہی رہ گیا. میں بھی دکھ سے نڈھال سوئی جاگی کیفیت میں جانے کس پہر سوئی پتہ ہی نہیں چلا. آنکھ گلشن کے اٹھانے پر کھلی. اس نے سرزش بھی کی کہ پہلے دن سسرال میں کوئی ایسے بےخبر سوتا ہے. اب اس کو اپنی نا رسائی کی روداد کیا سناتی؟ سو چپ کر کے اس کو پی گئ. کمرے میں ایوب نہیں تھے. پھر تیار ہونے اور ناشتے میں آدھا دن گزر گیا. حویلی مہمانوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور ظاہر ہے زنان خانے میں مردوں کا گزر نہیں تھا. دوسری رات بھی پچھلی رات کی طرح بے کیف ہی گزری. اگلے دن ولیمہ تھا اور ولیمے کے بعد مجھے اپنے میکے انا تھا. دو دن بعد سسرال روانگی سے پہلے میں نے مشاطہ کو بلوا کر اپنے آپ کو پور پور سجایا. پورے سولہ سنگھار کئے اور بڑی امید اور ترنگ کے ساتھ ارمانوں کی ڈولی میں بیٹھ کر نندوں کی ہمراہی میں سسرال پہنچی!
مگر نتیجہ؟ نتیجہ وہی دھاک کے تین پات بلکہ اس رات ایوب کی بے چینی عروج پر تھی اور انہوں نے صاف لفظوں میں مجھے ہار سنگھار کرنے سے منع کر دیا تھا. مجھ ارمان بھری نئ بیاہتا کے لیے یہ عجب شاہی فرمان تھا جس پر عقل حیران اور دل پریشان.
ان کا وہی معمول تھا کہ رات گئے کمرے میں آتے، مجھے سونے کی تاکید کر کے کتابیں پڑھتے یا فائل کی ورق گردانی کرتے رہتے. وہ جو الف لیلیٰ کی کہانیاں شمع باجی اور ندرت بھابھی نے سنائی تھیں وہ سب کہیں ہوا میں تحلیل ہو گئ تھیں اور رہ گئ تھی یہ روکھی، بد مزہ اور بے رنگ دنیا. تنگ آ کر میں نے بھی ان کی التفات کا تردود چھوڑ دیا. کیا حاصل دل کو خون کرنے سے؟ آخر کوئی کس حد تک اپنی عزت نفس کو پامال کر سکتا ہے؟ چلو اب ایسا ہے تو ایسا ہی سہی. ہم دونوں کے درمیان اس قدر تکلف اور بےگانگی تھی کہ ہم عام روز مرہ کی گفتگو بھی بہت مختصر کرتے تھے. میرے کمرے کی خاموشی بھی گونگی تھی. بالکل یخ بستہ اور بےزار سی. جب کبھی بھی میں ہمت کر کے لاج شرم کو بلائے طاق رکھ کر اشاروں کنائیوں میں اس مد میں بات کرنے کی کوشش کر تی ایوب کمرے سے باہر چلے جاتے. میرے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر یہ مسئلہ شئیر کیوں نہیں کرتے؟ اس کا حل کیوں نہیں نکالتے؟ انہی دنوں میری ساس جو کہ عرصے سے علیل تھیں ان کی میڈیکل رپورٹ ولایت سے آئی اور پتہ چلا کہ ان کو پیٹ کا سرطان ہے. پھر تو گھر میں پٹس ہی پڑ گئی. میں بھی سارا دلہناپہ کنارے رکھ کر ساس کی خدمت میں جت گئی. ایوب امی جان کو علاج کے غرض سے ولایت لے جا رہے تھے. امی جان اور بابا صاحب نے کہا کہ دلہن کو بھی ساتھ لے جاؤ مگر ایوب نے انکار کر دیا. کمرے کی تنہائی میں میں نے بھی دبی زبان میں ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر انہوں نے روکھا سا جواب دیا کہ امی جان کو علاج کے لیے جا رہا ہوں کسی تفریحی دورے پر نہیں. جی تو چاہا کہ کہوں کہ لگے ہاتھوں آپنا بھی علاج کروا لیجئے گا، پر ان کے بے مہری اور سرد روئیے نے زبان پکڑ لی. میں ان سے جتنا قریب ہونے کی کوشش کرتی اتنی ہی ان کی بےزاری بڑھتی. شادی کو اٹھ مہینے ہو چلے تھے اور میں زہنی اور جسمانی طور پر تھک گئ تھی. فکر مند تھی کہ آخر یہ ڈب کھڑبہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ میری سسرال مجھ سے خوشخبری کی متوقع تھی. خیر ولایت جاتے ہوئے ایوب نے مجھے میرے میکے چھوڑ دیا. میں نے بھی مدت بعد سکون کی سانس لی کہ خوش باش سہاگن کا سوانگ بھرتے بھرتے میں بھی اوبھ چکی تھی.
ڈھاکہ میں سیاسی صورتحال ابتر تھی. بڑے بھیا اپنے فائنل امتحان کے فوراً بعد کراچی چلے گئے تھے اور وہاں بزنس جمانے کی کوشش کر رہے تھے. ان دنوں منجھلے بھیا بہت خاموش اور کنفیوز سے تھے. جیسے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کو سمجھنے سے قاصر ہوں . ڈھاکہ کے علاوہ پورا مشرقی پاکستان آگ اور خون کی لپیٹ میں تھا. ہر شہر سے بلوے اور فسادات کی خبریں آ رہیں تھیں. پورے مشرقی بنگال سے لوگ لٹ لٹا کر ڈھاکہ کے کیمپوں میں پناہ گزین تھے. مکتی باہنی نے لوگوں کے پورے کے پورے خاندان شہید کر دئیے تھے. بربریت کی ایسی ایسی کہانیاں زبان زد عام تھیں کہ چنگیز خان بھی شرما جائے. میں نفرت کی طاقت پر حیران تھی. ان دنوں سورش اپنے عروج پر تھی. ساری درس گاہیں بند تھیں.
یہ انیس سو ستر کا ٹھٹھرا ہوا نومبر تھا. ڈھاکے میں خوبصورت گلابی جاڑے کا آغاز ہو چکا تھا پر دلوں پر انہونی کا ایسا سہم طاری تھا کہ کسی اور طرف دھیان ہی نہیں جاتا تھا. پتہ نہیں کاکا بھیا کس کام سے کالج گئے تھے، پھر وہ تو نہیں مگر ان کی بریدہ لاش گھر لائی گئی. ان کے اپنے کلاس فیلوز نے میرے مسکین بھائی کو چاقو اور کلھاڑیوں کے وار سے مار دیا. کاکا بھیا تو کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتے تھے، بحث مباحثہ تو بہت دور کی بات ہے. ان سے تو اپنے پرائے سب خوش تھے. کہتے ہیں کہ برا وقت کبھی اکیلا نہیں آتا سو وہ اکیلی قیامت نہیں ٹوٹی تھی میرے خاندان پر. ابا میاں جب کاکا بھیا کی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے تو وہ ہاتھ جس نے کاکا بھیا کو جھولا جھلایا تھا، جس نے ان کو چلنا سکھایا تھا، وہ ہاتھ قبر پر مٹی ڈالنے سے انکاری ہو گیا اور ابا میاں خود مٹی کی ڈھیری پر ڈھیر ہو گئے. ان کو وہیں دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ بھی اپنے چہیتے بیٹے کی ہمراہی کو اس کے ساتھ ہی چلے گئے. پتہ نہیں ہم لوگوں نے یہ غم کیسے سہا؟ آج بھی مجھے اپنے ڈھیٹ پنے پر حیرت ہوتی ہے کہ میں یہ عظیم سانحہ کیسے سہار گئی؟ شاید امی کے خیال نے مجھے سنبھالا دے دیا. امی ہوش و خرد سے بےگانہ تھیں. ڈاکٹر ان کو مسلسل مسکن دوا پر رکھ رہے تھے. میرے سسر اور نندیں تعزیت کے لیے برابر آتے رہیے ، ایوب کا بھی لندن سے دو چار فون آیا مگر میرا دل ان کی آواز پر دھڑکا ہی نہیں. بڑے بھیا کراچی سے آ گیے تھے اور دو مہینے ہم لوگوں کے ساتھ ڈھاکہ میں رہے. واحد بڑے بھیا تھے جو اس کٹھن وقت میں چٹان کی طرح حالات کے آگے ڈٹے رہے. منجھلے بھیا تو لگتا تھا کہ بولنا ہی بھول گئے ہیں وہ صرف امی کے سرھانے ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھے رہتے. امی کی عدت کے بعد بھیا امی اور منجھلے بھیا کو کراچی لے جانے کے لیے آئے اور مجھے میری سسرال جانے کہا مگر میں اڑ گئ کہ نہیں ابھی امی کو میری ضرورت ہے میں کہیں نہیں جاؤں گی. میری ساس ولایت سے صحت یاب ہو کر لوٹ آئیں تھیں. بھیا نے ایوب سے بات کی تو ایوب نے بخوشی مجھے کراچی جانے کی اجازت دے دی. ایوب کی بےنیازی کے سبب ان کے خلاف ایک اور پھانس میرے سینے میں گڑ گئ. واقعی جو شخص میرا ہے ہی نہیں اس کے چلتے اس مشکل وقت میں میں اپنوں کو کیوں چھوڑوں. مجھے اپنا کراچی جانے کا فیصلہ صحیح لگا. ڈھاکہ سے چلتے وقت بھیا نے گلشن کا نکاح ڈرائیور چچا کے بھتیجے مشتاق سے پڑھوا دیا کہ یہ گلشن کی بھی خواہش تھی. گلشن اپنی ماں کو بھی اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھی مگر شکورن بوا راضی نہیں ہوئیں. وہ اپنی بی بی کو اس بےبسی کے عالم میں اکیلا کیسے چھوڑ سکتی تھیں . ڈھاکہ سے جدائی بڑی شاق تھی کہ وہاں اپنے دو عزیز ترین کو چھوڑ کر جا رہے تھے. مٹی کی وہ دو ڈھریاں ہی تو ہمارا سرمایہ تھیں. اس وقت تو مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ یہ وقتی نہیں بلکہ دائمی جدائی ہے.
کراچی آ کر نیا ماحول تھا اور امی کی دو فرسٹ کزن بھی یہیں تھیں. امی کی دونوں کزنز نے امی کی بہت دل جوئی کی اور امی کی طبیعت کسی حد تک سنبھل گئی. منجھلے بھیا کو بڑے بھیا نے بہت کہا کہ این. ای. ڈی میں داخلہ لے لو پر ان کی چپ نہ ٹوٹی. پھر وہ منحوس ترین ساعت بھی آئی جب سقوط مشرقی پاکستان کی خبر ملی. ایسا لگا کہ آج نئے سرے سے ابا میاں اور کاکا بھیا کی میت ہو گئ ہے. میں اپنے دو پیاروں کی جدائی تو جھیل گئ تھی پر جانے کیوں اس سانحے نے مجھے توڑ دیا اور میرا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا. میری بیماری میرے پیارے منجھلے بھیا کو چپ کی دنیا سے واپس لے آئی. بڑے بھیا بتاتے ہیں کہ میری تیمارداری میں منجھلے بھیا نے اپنا آپ مٹا دیا تھا، بلکہ میری دیکھ رکھ کی خاطر امی نے بھی اپنے آپ کو سنبھال لیا. تہتر کے اخیر تک کہیں جا کر ہمارا گھرانہ کچھ نارمل ہوا. اس تمام عرصے بڑے بھیا اکیلے بزنس سنبھالتے رہے. اب منجھلے بھیا بھی کارخانے جانے لگے تھے اور انہوں نے پڑھنے کے ارادے کو خیر باد کہہ دیا تھا.
میری سسرال بھی لٹ پٹ کر براستہ رنگون کراچی آ گئی تھی. ایک دو دفعہ وہ لوگ آئے بھی ملنے مگر نہ ایوب نے مجھے گھر چلنے کہا اور نہ ہی میں نے ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا. ایک دن ایوب کا فون آیا کہ تم نے کیا سوچا ہے؟ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی روش بدلنے کے لیے تیار ہیں؟ جواب میں خاموشی پر میں نے کہا کہ پھر میں کس کے لئے آؤں؟ دیواروں سے باتیں کرنے کے لیے؟ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور تیسرے دن مجھے رجسٹری سے طلاق نامہ مل گیا. مہر کے لئے انہوں نے کہا کہ یہ ان پر قرض ہے. جیسے ہی ان کے حالات بہتر ہونگے وہ سب سے پہلے میرا قرضہ ادا کریں گے. میری طلاق کی وجہ سے گھر کی اداسی مزید گہری ہو گئ. شاید اس ہونی کو سب پہلے ہی بھانپ چکے تھے. کچھ عرصے بعد شکورن بوا نے مجھے بتایا کہ گلشن نے ان کو اس بابت کچھ اشارہ دیا تھا مگر انہوں نے امی سے اس کا تزکرہ مناسب نہیں سمجھا کہ ان کو گلشن کی بات پر یقین ہی نہیں تھا. وہ یہ گمان بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ اتنے خوبرو اور کڑیل جوان میں یہ کمی بھی ہو سکتی ہے. گھر میں کسی نے مجھ سے طلاق کی وجہ نہیں پوچھی مگر مجھے جانے کیوں ایوب پر بڑا غصہ تھا. ایوب کو مجھ سے آنکھیں ملا کر اور وجہ بتا کر طلاق دینی چاہیے تھی. یہ چوروں کی طرح منہ چھپا کر طلاق کیوں دی؟ اب میں دنیا کو اپنی صفائی میں کیا جواز دوں؟ دشنام و الزام کا کوڑا تو ازل سے عورت کا مقدر ہے. خسارے میں تو عورت ہی رہتی ہے. مرد تو ہمیشہ پوتر اور مصفا رہتا. نہایت آسانی سے بچ نکلتا ہے. پانچ سال پر محیط یہ بےسوادی اور لاحاصل شادی اپنے منطقی انجام کو پہنچی.
جب میں نے بڑے بھیا کے لیے دلہن ڈھونڈنی شروع کی تو ان کا اصرار تھا کہ میں بھی شادی کر لوں مگر میں نے کہا کہ بھیا میں ابھی زہنی طور پر تیار نہیں. طیبہ بھابھی اچھا اضافہ تھیں ہمارے گھرانے کے لئے. پھر بڑی مشکلوں سے منجھلے بھیا کو شادی کے لیے راضی کیا مگر وہ میری شادی کروانے پر اڑ گئے. ان پر میں نے اپنے دل کا بھید کھولا کہ بھیا ایوب کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا. گو کہ اس نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی مگر میرے دل پر وہی بے مہر قابض ہے. اس دل میں کسی اور کے لئے گنجائش نہیں. میں حلفیہ کہتی ہوں کہ اگر ایوب ایک بار بھی مجھے پیار سے چلنے کہتے تو میں ان کی اس کمی کے ساتھ بھی ہنسی خوشی گزرا کر لیتی. مگر اس ظالم نے مجھے کبھی چاہا ہی نہیں. اب ایسے بےقدرے کے قدموں میں اپنے دل کو کیا رولنا. مجھے ایسے ہی رہنے دو بھیا کہ یہ دل نہ مجھے بسنے دے گا اور نہ ہی کسی اور کو اپنے آپ میں بسانے.
منجھلے بھیا کی شادی کے ایک سال بعد ایک آخری رجسٹری ایوب کی طرف سے میرے نام آئی اور اس میں میری مہر کا چیک تھا. وہ چیک آج بھی میری الماری کے لاکر میں پڑا ہے. ایک ایسے تعلق کا گواہ جو کبھی تھا ہی نہیں. پھر
کسی نے ایوب کی شادی کی خبر دی. مجھے شدید حیرت ہوئی. ان کے بچوں کی پیدائش کی خبر نے مجھے بن جل مچھلی کی طرح تڑپا دیا. جی چاہا کہ ایوب کا گریبان تار تار کر دوں اور چیخ چیخ کر پوچھوں کہ مجھ پر یہ ظلم کیوں؟ مگر جواب کون دیتا؟ کس سے منصفی چاہتی؟ دل کا خون کرنے پر تو کسی پر کوئی تعزیر نہیں لگتی. آرزوؤں کی پائمالی پر قانون میں کوئی شق نہیں. لہزا خود ہی روئی اور خود ہی اپنے آنسو پونچھ لیے.
یہ آج سے بیس سال پہلے کی بات ہے کہ بھابھی کے اصرار پر میں ان کے ساتھ ڈولمن مال گئ تھی. ایک دکان پر کسی نے بھابھی کہہ کر پکارا. میں نے سنی ان سنی کر دیا کہ یہ لفظ دل پر برچھی کی طرح لگتا ہے. اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے متوجہ کیا اور میں منجمد ہو گئ. وہ رابعہ تھی میری چھوٹی نند. کہنے لگی بھابھی پلیز میری بات سن لیجیے.
اب کہنے سننے کو کیا رہ گیا ہے رابعہ؟
میری بھابھی کہنے لگیں کہ تم دونوں فوڈکورٹ میں بیٹھو جب تک میں بھی اپنی شاپنگ مکمل کر لیتی ہوں. میں بادل ناخواستہ رابعہ کے ساتھ چلی آئی. اس نے دو کافی کا آڈر دیا اور کہنے لگی بھابھی میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لو نگی. میں اس سے یہ بھی نہ کہہ سکی کہ اس کا بھابھی کہنا مجھے کس قدر اچھا لگ رہا ہے کہ میرا دل اب بھی اس ناقدرے کے لیے ہمکتا ہے. یہ دل کی بےبسی انسان کو کس قدر خوار کرواتی ہے.
اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا دن، آ بھی گئ وصل کی رات.
کہنے لگی آپ کو بھیا بہت چاہتے تھے اور چاہتے ہیں. میری زہر خند مسکراہٹ دیکھ کر گڑبڑا سی گئی. میں جانتی ہوں بھابھی کہ آپ میرا یقین نہیں کرینگی مگر یہ سچ ہے. بھیا آپ سے بھی شادی پر راضی نہیں تھے کیونکہ وہ سرے سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر امی جان نے اپنی جان کی قسم دے کر اور نہ جانے کیا کیا جتن کر کے ان کو شادی کے لیے راضی کیا. بھیا نے کہا تھا کہ لڑکی بالکل معمولی شکل و صورت کی ہو. وہ شادی کی رات آپ کو دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے اور امی پر بہت ناراض ہوئے کہ اتنی خوبصورت لڑکی سے کیوں شادی کروائی. ہم لوگ حیران تھے! ان کی منطق سمجھ سے باہر تھی. دنیا حسن پر مرتی ہے اور وہ حسن سے بےزار. پھر آپکی شادی کے بعد پے در پے حادثوں، امی جان کی بیماری، کاکا بھیا اور ابا میاں کی موت نے آپ لوگوں کے راستے جدا کر دئیے. میں نے ان دنوں بھیا کی آزردگی اور بےچینی دیکھی تھی. وہ ساری ساری رات شادی کی تصاویر دیکھتے گزار دیتے تھے. طلاق کا سبب بھی انہوں نے کسی کو نہیں بتایا بلکہ گھر میں کسی کو ان کے ارادے کی بھنک بھی نہیں تھی. یہ طلاق ہمارے گھر کی قیامت صغریٰ تھی. ناراضگی کی وجہ سے سب نے ان سے کلام چھوڑ دیا تھا مگر ماں تو ماں ہوتی ہے. آپ سے طلاق کے چار پانچ سال بعد امی نے پھر شادی پر اصرار کیا اور بھیا اپنی پرانی شرط پر مان گئے. بہت اوسط طریقے سے شادی ہوئی اور بھابھی اوسط سے بھی کمتر تھیں. شادی کی دوسری صبح ہمارے گھر میں بھابھی کا واویلا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے. ان کا الزام سچ تھا، بھیا کی خاموشی اس بات کی گواہ تھی. تب جا کر ہم لوگوں پر اصل حقیقت کھلی اور ہم سب نے نےآپ کی اذیت اور بےکسی کو جانا. آپ پر واقعی بہت ظلم ہوا تھا اور آپ کی اعلی ظرفی کہ آپ نے منہ سے بھانپ بھی نہیں نکالی . بھیا برادری میں مزاق بن کر رہ گئے تھے. سب نے ان کو لعن طعن کیا کہ پہلے ہی علاج کیوں نہیں کروایا؟ بھابھی میکے جا کر بیٹھ گئی اور خلع کی باتیں ہونے لگیں. امی نے ہاتھ پیر جوڑ کر بھابھی کو منایا اور ان سے سال چھ ماہ کی مہلت لی. پھر امی بھیا کو ولایت بھیج کر ان کا بہترین علاج کروایا اور دس ماہ کے قلیل مدت میں بھیا بھلے چنگے ہو گئے. بھابھی بڑے ٹھسے سے واپس آئیں اور اب بھیا بھابھی کے تین بچے بھی ہیں ماشاءاللہ مگر…. مگر
اب بھیا مرد نہیں ہیں. بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اب بھیا بھیا ہی نہیں کوئی بےروح خاکی پیکر ہیں.
رابعہ میں نے ایوب سے بے انتہا محبت کی تھی. اتنی کہ ان کی اس کمی کے باوجود ان کے ساتھ ہنسی خوشی اپنی پوری زندگی گزرا سکتی تھی بشرطیکہ وہ مجھے رتی بھر محبت اور مان دے دیتے. اپنے دل میں زرا سی جگہ دیتے تو میں کونج کی طرح سوکھے تلاب میں جان دے دیتی. تم کہتی ہو کہ انہیں مجھ سے محبت تھی؟ یہ کیسی محبت تھی جس نے مجھے کھونا تو گوارا کر لیا مگر اپنا علاج نہیں کر وا سکے؟ ان کی انا نے ان کو حقیقت قبول ہی نہیں کرنے دیا. جب مجھے ان کی دوسری شادی کی خبر ملی تو میں نے بڑی تگ و دو سے ان کی محبت کو دل سے نکال پھینکا مگر میں کلی طور پر کبھی کامیاب نہ ہو سکی بلکہ اب تو میرا ان سے بڑا عجیب سا رشتہ ہے. میں بیک وقت ان سے شدید محبت اور نفرت کرتی ہوں.
نہیں بھابھی وہ آپ کو بہت چاہتے تھے. یہ ان کی چاہت ہی تو تھی جو وہ یہ چاہتے تھے کہ آپ ان جیسے ادھورے کو چھوڑ کر کسی مکمل اور خوبصورت شخص کے ساتھ نارمل اور پر مسرت زندگی گزاریں.
میرے دل کی خوشی کا فیصلہ کرنے کا حق ان کو نہیں تھا رابعہ. یہ میرا فیصلہ ہونا چاہیے تھا. انہوں نے میرا دل اور زندگی دونوں اجاڑ دی. ان کی نہ سمجھی اور انا نے مجھے تشنہ اور تہی دست رکھا. میری تو ساری عمر ہی راندی گئ. میرے حصے میں خسارے کے سوا کیا آیا بتاؤ؟
اور جو سچ کہوں تو آج وہ میرے دل سے اتر گئے. انہوں نے عورتوں کو کیا مٹی کا کھلونا سمجھا ہے؟ ان کا کیا خیال ہے کم صورت عورت کا دل دل نہیں؟ یہ کم صورتی کی شرط تو بہت ظالمانہ تھی. دل تو سبھی کا قیمتی اور نایاب ہے چاہے وہ چاندی سے ڈھلی حسینہ ہو یا اسودی خاک کی پتلی. یہ شاید دلوں کی ناقدری کی سزا ہی تھی جس نے انہیں زمانے میں مزاق بنا دیا.
جو سچ پوچھو تو اب مجھے اپنی محبت پر شرمندگی ہے. میں نے ایک بےحس شخص کے پیچھے اپنی حیاتی کے سنہرے پل کالے کر دئیے. بڑا گھاٹے کا سودا کر لیا میں نے. حیات تو سنسان تھی ہی اب دل بھی ویران ہو گیا. کاش تم مجھے یہ بات نہ بتاتیں رابعہ! میں ان کو مجبور اور بےبس جان کر ان سے محبت کرتی رہتی. میں کسی بےکس سے تو محبت کر سکتی ہوں مگر بےدرد سے نہیں.
جامہ تن، دامن دل پارہ پارہ ہو گیا.
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...