میرے ناخواندہ والد
مجھے یاد ہے میں بلک بلک کے رو رہا تھا، سردیوں کا زمانہ تھا، برف کا ہر طرف ڈھیرہ تھا، صبح کا وقت تھا میرے ابو کی چھٹی ختم ہو چکی تھی اور وہ اپنا سامان ایک بھاری بیک میں پیک کر رہے تھے… انہوں نے سر اٹھا کر رونے کی وجہ پوچھی امی نے بتا دیا کہ یہ آپ کی ٹوپی مانگ رہا ہے….. وردی والی ٹوپی…. شاید ابو مقامی پولنگ اسٹیشن میں پولنگ ڈیوٹی پر مع وردی آئے تھے اور مختصر چھٹی گزارنے کے بعد واپس جارہے تھے… بھاری بھر کم بیک اب پیک ہو چکا تھا…. ابو نے میری طرف دیکھا…. ان کی سانسوں میں پدرانہ شفقت کی مہک میں نے محسوس کی…. دوبارہ بھاری بیک کا سارا سامان نکالا ڈھونڈ ڈھانڈ کر پولیس کی کالی ٹوپی میرے سر پہ رکھ دی…. امی نے میرے آنسو پونچھ لیے اور میں مسکرانے لگا مجھے ایسا لگا جیسے میرے سر پر ایک پولیس کانسٹیبل کی ٹوپی نہیں بلکہ تاج سکندری رکھا گیا ہے… پھر ابو نے بھاری بیک اٹھایا، میری پیشانی کو بوسہ دیا اور برفیلی راستوں پر پیدل اپنی ڈیوٹی کے مقام کی طرف چل دیے. میں کالی ٹوپی سر پہ رکھ کر چند دن کج کلاہی کے مزے لوٹتا اور ہم عمروں کو "پلس" بن کر ڈراتا رہا.. ویسے بھی سپہ گری میرے خون میں شامل تھی دادا حضور بھی چترال سٹیٹ سکاؤٹس میں رہ چکے تھے اور 1948 کو سکردو میں ڈوگرہ فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لے کر فریڈم فائٹرز میں اپنا نام لکھوا چکے تھے…
وہ دن آج کا دن میرے ناخواندہ والد میرےہیرو ہیں … پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود انہوں نے جو باتیں ہم بہن بھائیوں کے گوش گزار کیے کاش میں ان پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو سکتا… آج میرے والد کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہے اور چترال پولیس میں بحیثیت ہیڈ کانسٹیبل فرائض سر انجام دے رہے ہیں..میں نے کئی بار ملازمت سے سبکدوشی کا مشورہ دیا مگر آپ ہیں کہ ٹالتے جا رہے ہیں… سرکاری فرائض پر بالکل کمپرومائز نہیں کرتے اس عمر میں بھی کئی مہینے پاک افغان بارڈر ارندو میں فولادی شیلینگ جیکٹ پہن کر ڈیوٹی دیتے رہے اور حال ہی میں چترال پولیس ہیڈ کوارٹر ٹرانسفر ہوئے….
اپنی سروس کے شروع شروع میں ایک دن کسی دور کے تھانے سے ایک مجرم کو ہتھ کڑیوں میں باندھ کر دوسری جگہ لے جا رہے تھے. آج کی طرح گاڑیوں کی بہتات نہیں تھی پیدل ہی جارہے تھے راستے میں ایک خستہ حال پل آیا، عین پل کے درمیان پہنچ ملزم نے بھاگنے کی کوشش کی میرے والد نے اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھا مگر دونوں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور پل سے نیچے گر گئے خدا کے فضل سے پل کم اونچا تھا، پانی پایاب تھا اور زمین رتیلی تھی… اس حالت میں بھی ملزم سے چمٹا رہا اور آخر کار اس کو مطلوبہ مقام تک پہنچا دیا… فرض منصبی کے حوالے سے ان کا نظریہ اور چلن آج بھی یہی ہے …. اس فرض شناسی اور دیانتداری کی وجہ سے چند سال پہلے آئی جی پی خیبر پختونخوا نے ان کو تعریفی سند سے بھی نوازا.
سادہ لوحی اور سیدھے پن کی وجہ سے سارے جاننے والے، دوست احباب ان سے محبت کرتے ہیں…. ٹیڑھی میڑھی، سیاست آمیز بات نہ کر سکتا ہے اور نہ پسند کرتا ہے.. اس لیے میں ان کے سامنے جھوٹ بہت کم بولتا ہوں اور ہمیشہ پرہیزگاری کا لبادہ اوڑھ کر" اچھا بچہ"بن کر بیٹھتا ہوں….. جھوٹے لوگوں سے بہت نفرت کرتے ہیں …. انہوں نے مجھے ہمیشہ خوش اخلاقی اور سچائی کا سبق دیا یہ الگ بات کہ میں ان پر عمل پیرا نہ ہو سکا…. صبر اور برداشت پر لیکچر دیتا رہتا ہے. ایک دفعہ میں نے صبر کی حد پوچھی تو کہنے لگے کہ یہاں تک صبر کرو کہ کسی کی طرف سے پھتر نہ آئیں… میں نے پوچھا پھر؟ جواب ملا پھر اس پتھر کا جواب پتھر سے دینا… میں نے نصیحت پلے باندھ لی…
احترام کے جذبے نے مجھے میرے والد سے فرینڈلی ہونے نہیں دیا اس لیے وہ بھی کھل کر شفقت کا اظہار نہیں کرتے اور نہ میں کھل کر قدم بوسی کر سکتا ہوں….. مجھے یاد ہے کوئی آٹھ سال پہلے جب مجھے دردِ سر کا مرض لاحق ہوا تو مجھے پشاور ریفر کیا گیا…. تب تک میرے والد کی داڑھی سیاہ تھی جب میں پشاور سے علاج کرا کر چند دنوں میں واپس چترال پہنچا تو ان کی داڑھی کافی حد تک سفید ہو چکی تھی……..
نا خواندہ ہونے کے باوجود تعلیم پر بے حد زور دیتے ہیں. چونتیس سال کی عمر میں اگر اس وقت بھی مجھے گھر میں تاش یا کرم بورڈ کھیلتا دیکھے تو صرف ڈنڈا لے کر پیٹتے نہیں باقی بہت سناتے ہیں … کثیر العیال اور پسماندہ علاقے سے تعلق ہونے کے باوجود کبھی غریبی کو آڑے آنے نہیں دیا… ہمیں اچھا کھلایا پلایا اور پڑھایا….. مجھے یاد ہے جب میں اپنے کچے مکان کے چھوٹے سے کمرے میں گھوڑا بیچ کر سو رہا ہوتا تھا تو رات کی تاریکی میں ایک مانوس سی آواز آتی اور دروازے پر دستک ہوتی … میں باہر نکلتا اور اپنے والد کو پسینے میں تر بتر اپنا بقچہ اٹھائے کھڑا پاتا… کبھی اس بقچے میں سالم بکرا ہوتا، کبھی ہم سب کے لیے کھانے پینے کے دیگر سامان، کپڑے وغیرہ…آج میں بڑا ہوگیا ہوں مگر اس پسینے کی خوشبو میں کیوں کر بھولوں . میری دعا ہے میرے اللہ میرے والد محترم کی عمر دراز کرے اور ان کا دست شفقت ہمیشہ ہمارے اوپر قائم رکھے.
امین
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔