ادبی فائل -٩
کوئی بادلوں کے رتھ پر سوار میری طرف بڑھ رہا تھا
(میرے مولی صاحب :کچھ یادیں)
مشرف عالم ذوقی
’اچھا ،پہلے جتنا رونا ہے ، رولو۔‘
’میں اتنی دیر تک رونا جاری رکھوں گاکہ آپ چلے جائیں گے۔‘
معصوم چہرے کی مسکراہٹ اچانک ہنسی میں تبدیل ہوگئی۔’میں کہیں نہیں جارہا ۔ آپ سبق یاد کرلیں گے تو چلاجاﺅں گا۔ ورنہ ساری رات یہیں رہوں گا۔،
’کیا۔؟،اچانک آنسوخشک ہوگئے۔ ’آپ رات بھر یہیں رہیں گے؟‘
’اور نہیں تو کیا۔آج سوچ لیا ہے ۔ یہیں آرام کروں گا۔‘
لیکن میرے مولوی صاحب نے آرام نہیں کیا۔ میرے ہاتھ سے پنسل اور کاپی لے کر ایک ’چارٹ‘تیار کرلیا۔ کاغذ میری طرف بڑھایا۔ ’اس چارٹ کو ، اباّکو دکھا دینا ۔‘اباّ کو چارٹ دکھایا تو اباّ زور زور سے ہنسنے لگے۔ امی کو آوازلگائی ۔ اباّ کا غذ پر نگاہیں جمائے زور زور سے پڑھ رہے تھے۔ ’رات کے آٹھ بجے ۔ دس منٹ رونے کا وقفہ ۔ دس منٹ ناک کا بہنا ۔ دس منٹ منہ پر پانی ڈالنا ، فریش ہونا ۔ ساڑھے آٹھ سے پڑھائی ، وہ بھی اگر مشرف میاں دل سے راضی ہوگئے۔‘
یہ تھے میرے مولوی صاحب ۔ میں انہیں مولوی صاحب ہی کہتا تھا۔ اب سوچتا ہوں ، کتنا وقت گزر گیا۔ یہ بھی سوچتا ہوں کہ دلی آئے ہوئے مجھے32برس گزر گئے ۔ لیکن مجھے دلی راس نہیں آئی ۔ میں ابھی بھی خود کو آرہ میں محسوس کرتا ہوں۔ مولوی صاحب کے بارے میں سوچتا ہوں تو شہر آرہ کے گلی کوچے نگاہوں میں روشن ہوجاتے ہیں ۔ آرہ اسٹیشن سے میرے گھر (محلہ مہادیوا )کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ مہادیوا سے ملکی محلہ چند قدموں کے فاصلے پر ہے ۔ اور ملکی محلہ کی گلیوں سے آگے نکل کر جامع مسجد سے سیدھے چلتے جائیں تو ایک محلہ آتا ہے ۔ عبورپل ۔ مولوی صاحب یہیں رہتے تھے۔ ان کے منہ سے اکثر عبو رپل کا تذکرہ سنتا رہتا تھا۔ یہ میرے بچپن کا دور تھا جب میرا اسکول جانا بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ ایک گھر تھا، جو کوٹھی کہلاتا تھا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو کوٹھی کو گہن لگ چکا تھا۔ اس گھر میں کئی خاندان آباد تھے۔ بڑے اباّ ،چھوٹے اباّ ، رجّودادی اور نانی اماّں کا خاندان ۔ میں اس گھر کے لئے منّا تھا۔ آنکھیں کھلتے ہی چاروں طرف سے منّا منّا کی آواز سنائی دیتی تھی۔ چھوٹی سی عمر میں ، میں اپنے اصل نام کو بھول گیاتھا۔ اس وقت عمر کا پانچواں برس شروع ہونے والا تھا۔ شام کاوقت تھا۔ اباّ نے کمرے میں آتے ہوئے اعلان کیا ۔ کل سے مناّ کو پڑھانے کیلئے مولوی صاحب آئیں گے۔
میں نے ہاتھ اٹھادیا ۔ میں نہیں پڑھنے والا۔
ابا مسکرائے ۔ امی نے سمجھا یا ۔ ’گھر کے تمام بچوں کو مولوی صاحب نے ہی تعلیم دی ہے ۔ بہت پیار سے پڑھائیں گے ۔‘
’میں نہیں پڑھوں گا۔‘مجھے خوف کا احساس تھا۔ دل دماغ میں ایک خوفناک تصویر بن رہی تھی۔ نانی اماں ڈاکوﺅں کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اچانک میں ڈاکوﺅں کے نرغے میں آگیا ہوں ۔ مگر اب کیا کروں؟ کل سے مولوی صاحب آجائیں گے۔ ابا نے بتایا تھا کہ مولوی صاحب رات کے آٹھ بجے آئیں گے ۔ 8سے 9یعنی ایک گھنٹہ پڑھائیں گے ۔ ساری رات خوف میں گزری۔ دوسرا دن آگیا۔ دیکھتے دیکھتے شام ڈھل گئی ۔ امی نے میرے کپڑے بدل دیئے ۔ سرپر گول سی سفید ٹوپی پہنادی ۔ میرا دل دھک دھک کررہا تھا۔8بج گیا۔ اور ٹھیک آٹھ بجے باہر کے دروازے سے ایک آواز گونجی ۔ مشرف ….
اباّ چونک گئے ۔ امّی نے چونک کر اباّ کی طرف دیکھا ۔ میرے لئے یہ نام اجنبی تھا…. مشرف …. بھلا یہ کون ہے ….؟ اباّ فخر سے مسکرائے ۔ امّی کی طرف دیکھا اور کہا۔ یہ ہوتی ہے تہذیب۔مولوی صاحب کو میں نے مناّ ہی بتایا تھا۔ انہوں نے کسی سے دریافت کیا ہوگا۔ باہر بیٹھکے کا دروازہ کھل گیا ۔ میں روتا ہوا ، ڈراسہمامولوی صاحب کے سامنے تھا۔ پہلی بار میں کیا باتیں ہوئی مجھے یاد نہیں۔ مگر وہ پہلا دن تھاجب مولوی صاحب نے میرا منّا نام میر ی زندگی سے الگ کردیاتھا۔ اب میں مشرف تھا۔
اب سوچتا ہوں ، زندگی کے ان چھوٹے چھوٹ واقعات سے میرا کتنا گہرا تعلق رہا ہے ۔ آ پ کی شخصیت ، آپ کے کردار کو تراشنے میں کئی لوگ ہوتے ہیں ، جو نمایاں طور پر آپ کی شخصیت کو سجانے سنوارنے اور نکھارنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ میری زندگی کے تین کردار ایسے ہیں جنہیں میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ برکتوں اور رحمتوں والی امّی جان ۔ داستان گو اباّحضور جنہوں نے نازک ننھی عمر سے ہی کہا نیاں سناسنا کر میرے اندر چھپے افسانہ نگار کو زندہ کردیاتھا۔ اس سلسلے کی تیسری اہم کڑی تھے، مولوی صاحب ۔مولوی صاحب مجھ قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے۔ ساتھ ہی اردو کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ الف ب پر عبورحاصل ہوگیا تو ایک دن مولوی صاحب ، اسمعیل میرٹھی کی ، اردو کی پہلی کتاب لے کر آگئے ۔ پھر پانچویں کتاب تک ان سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے پڑھانے کا اندازنرا لاتھا۔ آج بچوں کی تعلیم کے لئے ماڈرن ٹکنالوجی آچکی ہے ۔ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر بچوں کو پڑھایا جاتا ہے ۔ بچوں کوتعلیمی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ ایسے کچھ پراجیکٹ پر میں نے بھی کام کیاہے ، اب خیال آتا ہے کہ اس وقت ، اس دور میں ایسی کوئی ٹکنالوجی ہمارے پاس نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود مولوی صاحب رنگ برنگے کاغذوں سے کبھی ہوائی جہاز بنالیتے ، کبھی گھوڑا یا کوئی دوسرا جانور ۔ میں ہنستا ہوا کہتا ۔ یہ گھوڑا نہیں ہے ۔ یہ ہاتھی ہے ۔ وہ مسکراتے ۔ زور زور سے ہنستے ۔ مولی صاحب کا قد چھوٹا تھا۔ رنگ سانولہ ، چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ۔ چھوٹی سی داڑھی تھی۔ سر پر دوبلی ٹوپی ۔ وہ مجھے پڑھانے کے لئے نئے نئے طریقے آزماتے تھے۔ جب تک مولوی صاحب مجھے پڑھارہے ہوتے ، کمرے میں کوئی بھی داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ امّی کی طرف سے حکم تھا۔ اباّ گھر میں موجود ہوتے تو مولوی صاحب سے ملنے آتے ۔ اور سلام کرنے کے بعد واپس لوٹ جاتے ۔ یہ اس وقت کی تہذیب تھی۔ تربیت کا اپنا انداز تھا۔ وقت کے ساتھ آج یہ پوری دنیا تبدیل ہوچکی ہے ۔ برسات کے موسم میں ، میں دعا مانگتا تھا، کہ اللہ میاں آج مولوی صاحب کو مت بھیجنا ۔ آج مجھے بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلنا ہے ۔ باہر مسلا دھار بارش ہورہی ہے ۔ بارش نے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ گھر میں گفتگو ہورہی ہے کہ آج مولوی صاحب نہیں آئیں گے۔ وہ جہاں رہتے ہیں ، اس علاقے میں پانی بھر گیا ہوگا۔ تیز بارش ۔آنگن میں بھیگتے ہوئے، کاغذ کی ناﺅ بناکر میں چھوٹی سی نلیا، میں تیرارہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ مولوی صاحب کے نہ آنے کی دعا بھی مانگتا جارہا تھا۔ مگر مجھے یقین تھا ، کوئی بادلوں کے رتھ پر سوار میری طرف بڑھ رہا ہے ۔ مگر کون ؟ اس بارش میں اور سیاہ رات میں بھلا کون آئے گا۔؟ سڑک بھی سناٹی ہورہی ہے ۔ آٹھ بجا ….اور باہر کے دروازے سے آواز ابھری …. مشرف …. امی نے مسکراکر شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا ۔’ مناّ، مولوی صاحب آگئے۔‘
’سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیاصورتیں ہونگیںکہ پنہاں ہوگئیں
زندگی کی بچپن ،بہاریں اور بچپن خزاﺅں کا حساب لگاتاہوں تو دلی کی زندگی بے ذائقہ لگتی ہے ۔ صرف میرا شہر آرہ ہے ، جو میری نگاہوں میں گردش کرتا ہے ۔ گھر پر مشاعرہ ہواکرتا تھا۔ مشاعرے میں بڑے اباّ ، چھوٹے اباّ اور اباّ بھی شریک ہوتے ۔ کبھی کبھی ان مشاعروں میں مولوی صاحب بھی شریک ہواکرتے ۔ ان کا ایک شعر مجھے آج بھی یاد ہے ۔
وہ بھی منزل ہے ایک اے آسی
میں جہاں تھک کے بیٹھ جاتا ہوں
وہ جب تک پڑھانے آتے رہے ، کبھی ایک دن ناغہ نہیں کیا۔ بلکہ ہر بار ایک نئے مشرف ، کو مجھ میں زندہ کردیتے ۔ مجھے ہر بار اپنی شخصیت میں ایک نئی چمک کا احساس ہوتا ۔ پہلے دن مجھے مشرف کے نام سے آواز دے کر انہوں نے مستقبل کے مشرف عالم ذوقی کی پیشن گوئی کردی تھی ۔ مولوی صاحب سے تعلیم کا سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب میں نے جین اسکول میں داخلہ لیا۔ اباّ حضور اور مولوی صاحب کی تربیت نے مجھے بچپن سے ہی افسانہ نگار بنادیا۔ میں کالج میں آگیا تھا۔ ان دنوں ابا ّحضور مظفر پور میں تھے۔ میری کہانیاں اردو اور ہندی رسائل میں شائع ہونے لگی تھیں۔ مظفر پور سے آرہ آیا تو خیال آیا کہ مولوی صاحب سے ملنا چاہئے ۔ میں عبور پل پہنچااور ان کا گھر دریافت کیا۔ وہ کمزور ہوگئے تھے۔ دروازے سے باہر نکلے ۔ میری طرف دیکھا ۔ آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی ۔ ایک ایسی چمک ، جسے لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ مولوی صاحب نے میرے ہاتھوں کو تھاما۔ مسکرائے ….بڑے ہوگئے ہو۔ بہت بڑے بنوگے ….‘
یہ آخر ی ملاقات تھی ۔ میں اس کے بعد نہیں ملا۔ سننے میں آیا کہ وہ دربھنگہ چلے گئے۔ اپنے بیٹے جنید آروی کے پاس ۔ پھر یہ خبر بھی ملی کہ مولوی صاحب نہیں رہے ۔ آنکھوں کے پردے پر یادوں کا رقص جاری تھا۔ حضرت داغ کا انتقال ہواتوعلامہ اقبال نے کہا ۔
اٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیر کون
ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون
لیکن یہاں تو مولوی صاحب کے جانے کا احساس ہی نہیں تھا۔ مولوی صاحب کیسے جاسکتے ہیں ؟ نالہ مومن ہمی داریم دوست ۔ خداکی محبت سے بندہ کبھی آزاد کیسے ہوسکتا ہے ۔؟ عقیدت کی موجوں سے میرا دل خالی کیسے ہوسکتا ہے ؟ ایک روح نے پردہ کیا۔ ایک روح مجھ پر غالب ہوگئی ۔اور ایسے غالب ہوئی کہ اب تک میرے وجود کا اہم حصہ ہے ۔ عرصہ گزرگیا۔ یادیں زندہ رہتی ہیں ۔ یہ یادیں ابھی بھی میرا حصہ ہیں۔ مجھے کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا، کہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ تنہائی میں اکثر وہ آواز میرے کانوں میں آج بھی گونج جاتی ہے …. مشرف …. برسات کے موسم میں جب مسلادھار بارش ہوتی ہے ، مولوی صاحب کا خیال اچانک میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ لادیتا ہے ۔ کوئی بادلوں کے رتھ پر سوار میری طرف بڑھ رہا ہے …. کچھ آوازیں کبھی گم نہیں ہوتیں ۔ عمر کی آخری منزل تک کے لئے ہم ان’ آوازوں ‘میں پناہ ڈھونڈھ لیتے ہیں۔
تعارف
نام : محمد اسماعیل آسی اروی
پیدائش : انیس جنوری انیس سو اکیس
— انیس سو اسی میں دربھنگا منتقل ہو گئے / وہیں انتقال ہوا
بیٹے : جنید عالم اروی / دربھنگہ میں قیام .عمدہ شاعری کرتے ہیں .
شعری مجموعہ : شبنم خستہ حال ( انتقال کے بعد شایع ہوا )
نمونۂ کلام :
تقلید تھی ہمارے لئے جستجو کی موت
اچھا ہوا کہ چھوٹ گئے کارواں سے ہم
٭٭
آسی وہ چند آرزوئے زندگی کہ آہ
جن کو بیاں نہ کرسکے اب تک زباں سے ہم
٭٭
اپنا سرِ نیاز کہاں سنگِ در کہاں
لے کر چلا ہے اے دلِ وحشت اثر کہاں
٭٭
بے خودی نام ہے احساس خودی کا شاید
ورنہ کچھ اور تھا منصور خبر ہونے تک
یہ کیسا اے جنوں مجھ کو فریبِ روئے جاناں تھا
کہ ہر ذرہ بیاباں کا نگاہوں میں گلستاں تھا
تصور کی طلسم آرائیاں پوچھے کوئی مجھ سے
کبھی تھا گھر بیاباں میں کبھی گھر میں بیاباں تھا
ذرّہ ذرّہ میں بہارِ رُخِ لیلیٰ ہے نہاں
جاکے دیکھے بھی کوئی قیس کا ویرانہ سہی
٭٭
کل حقیقت مری تسلیم ہی کرنی ہوگی
آج افسانہ سمجھتے ہو تو افسانہ سہی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“